زندگی کو کھیل سمجھنے والوں کی
کمی نہیں۔ مگر ”اَصل حقیقت“ یہ ہے کہ زندگی ہم سے کھیلتی رہتی ہے۔ جب کبھی
زندگی پر تھکن سوار ہوتی ہے اور وہ آرام کے موڈ میں ہوتی ہے تب ہم، کچھ دیر
کے لئے، ایک دوسرے سے کھیلنے لگتے ہیں! یہ سب کچھ ہماری آخری سانس تک جاری
رہتا ہے۔ آپس میں یعنی ایک دوسرے سے کھیلنے اور محظوظ ہونے کے کئی طریقے
ہیں۔ ایک طریقہ ایسا ہے جس کی افادیت سے کوئی انکار نہیں کرسکتا۔ ذرا سوچیے
کہ وہ طریقہ کیا ہوسکتا ہے؟ جی ہاں، رُوٹھ جائیے۔ اور کوئی منائے تو مزید
رُوٹھ جائیے۔ پھر جب لوگ منانے سے باز آنے لگیں تو آسانی سے مَن جانے کا
عِندیہ دیجیے!
آج تک طے نہ ہوسکا کہ ہمارا قومی کھیل کیا ہے۔ لوگوں سے سُنا ہے کہ ہاکی
ہمارا قومی کھیل ہے۔ کبھی کبھی اِس بات پر یقین کرنے کو جی چاہتا ہے کیونکہ
جو پوری قوم کا حال ہے وہی ہاکی کا بھی ہے! یاروں نے اِس کھیل کے ساتھ
اِتنی کِھلواڑ کی ہے کہ اب بقول غالب
ہر چند کہیں کہ ہے، نہیں ہے!
بچپن میں تو گِلّی ڈنڈا قومی کھیل کا درجہ اختیار کئے رہتا ہے۔ ویسے ہاکی
اور گِلّی ڈنڈے میں خاصی مماثلت ہے۔ دونوں میں لاٹھی ہے۔ شاید اِسی لیے ہم
بچپن ہی سے سیکھ جاتے ہیں کہ جس کی لاٹھی، اُس کی بھینس!
کبھی کبھی حیرت ہوتی ہے کہ ہم بحیثیت قوم کرکٹ میں اِتنی دلچسپی کیوں لیتے
ہیں کہ یہ تو شُرفاءکا کھیل ہوا کرتا تھا! کرکٹ کا عجیب حال ہے کہ اِس ایک
کھیل میں کئی کھیل سماگئے ہیں۔ جب کرکٹرز میدان میں ہوتے ہیں تب کرکٹ کے
سِوا سبھی کچھ کُھل کر کھیلا جارہا ہوتا ہے! کِسی زمانے میں بلیئرڈ بھی
شُرفاءکا کھیل ہوا کرتا تھا کہ قائدِ اعظم بھی بلیئرڈ کھیلتے تھے۔ مگر اب
حالت یہ ہے کہ جہاں کہیں تھوڑی بہت سرکاری زمین فارغ پڑی دکھائی دیتی ہے،
یار لوگ قبضہ کرکے بڑا سا جھونپڑا بناتے ہیں اور اُس میں بلیئرڈ نُما
اسنوکر کلب کھول لیتے ہیں!
مُلک میں مختلف سطحوں پر طرح طرح کے کھیل رائج ہیں جنہیں قومی کھیل کا درجہ
حاصل ہے۔ سرکاری حلقوں میں چُھپن چُھپائی مقبول کھیل ہے۔ یعنی کوئی بندہ
اختیارات کے ناجائز استعمال کے ذریعے بہت سا مال لیکر غائب ہو جاتا ہے اور
پھر سب اُسے ڈھونڈتے پھرتے ہیں!
مگر صاحب! کرکٹ، ہاکی، گِلّی ڈنڈا، بلیئرڈ، اسنوکر سب آنے جانے کھیل ہیں۔
ایک کھیل ایسا ہے جو ازل سے ہے اور ابد تک رہے گا۔ کِسی مائی کے لعل میں دم
نہیں کہ اِس کھیل کو صفحہ ہستی سے مِٹاسکے۔ یہ کھیل ہے بات بات پر مُنہ
پُھلانے اور رُوٹھ جانے کا! جوانی، بلکہ اُٹھتی ہوئی جوانی میں تو یہ کھیل
کچھ زیادہ ہی جلوے بکھیر رہا ہوتا ہے!
منہ پُھلاکر زندگی بسر کرنے کا بھی عجیب ہی معاملہ ہے۔ فی زمانہ کرکٹ اور
دیگر کھیلوں کے مقابلوں میں سَٹّے کا چلن زیادہ ہے۔ آسانی سے اندازہ نہیں
ہو پاتا کہ کوئی ہار رہا ہے تو وہ واقعی ہار رہا ہے یا جان بوجھ کر مد
مقابل کو فتح سے ہمکنار کر رہا ہے! آپ کوشش کرکے بہر حال کچھ نہ کچھ اندازہ
لگا سکتے ہیں کہ کوئی کیوں ہار رہا ہے اور کوئی کیوں جیت رہا ہے مگر مُنہ
پُھلانے اور بات بات پر رُوٹھنے کا معاملہ ایسا ہے کہ ٹھیک سے اندازہ ہو ہی
نہیں پاتا کہ کون کب رُوٹھنے کے mood میں ہے اور کب مَن جانے کے mode میں
آچکا ہے! بعض خاندانوں کا تو یہ حال ہے کہ سب کو ڈائری میں باضابطہ حساب
رکھنا پڑتا ہے کہ کون کِس سے ناراض ہے اور کون کِس سے مل رہا ہے!
مُنہ پُھلانے، رُوٹھنے اور بات چیت بند کرنے کا کھیل ویسے ہی اور بہت سے
میدانوں میں کھیلا جاتا ہے مگر اِس سلسلے میں پسندیدہ ترین گراو ¿نڈ ہوتا
ہے شادی والا گھر! شادی کی تقریب اُن لوگوں کے لیے نعمت سے کم نہیں جنہیں
بات بات پر ٹُھنکنے، غُصّے سے بپھرے ہوئے سانپ کی طرح پُھنکارنے اور مینڈک
کی طرح مُنہ پُھلاکر بات بند کرنے کا بہانہ درکار ہوتا ہے! خواہش یہ ہوتی
ہے کہ کوئی ہاتھ پیر جوڑ کر منائے۔ جس کے گھر میں شادی ہو رہی ہو اُس بے
چارے کو شادی کے لوازم، کھانے پینے اور مہمانوں کے ٹھہرنے کا انتظام کرنے
کے ساتھ ساتھ یہ بھی دیکھنا پڑتا ہے کہ کون کون مُنہ پُھلائے بیٹھا ہے۔
کہیں کہیں تو یہ منظر بھی دِکھائی دیتا ہے کہ بے چارے میزبان چند اڑیل
خاندانی ٹَٹّوؤں کو منانے ہی میں اَدھ موئے ہو جاتے ہیں! اور دوسری طرف یہ
اڑیل ٹَٹّو ہیں کہ
زمیں جنبد، نہ جنبد گل محمد
کی عملی تصویر بنے لوگوں کی بھرپور تفریح کا سامان کر رہے ہوتے ہیں!
اب حکومت کو قومی کھیل وغیرہ کے چکر میں نہیں پڑنا چاہئے۔ قوم نے رُوٹھنے،
مُنہ پُھلانے اور بات چیت بند کرنے کو اصلی تے وڈّا قومی کھیل بنالیا ہے!
مُنہ پُھلانے والوں کی ”برکت“ ہی سے شادی کی بعض تقاریب کا بیڑا غرق ہوکر
رہ جاتا ہے! بعض خاندانوں میں شادی کے موقع پر رُوٹھنے اور ٹُھنکنے کا
معاملہ ”انٹرا فیملی“ مقابلے کی شکل بھی اختیار کرلیتا ہے اور کچھ لوگ محض
یہ تماشا دیکھنے ہی کے لئے شادی کے جھمیلے میں شریک ہوتے ہیں! کبھی کبھی تو
یہ تماشا اِس قدر دلچسپ ہو جاتا ہے کہ دولھا اور دُلھن بھی اپنی اپنی رُسوم
اور چونچلے بازی بھول کر رُوٹھنے والوں کو منانے کی کوششیں دیکھنے میں مگن
ہو جاتے ہیں! شادی بیاہ میں رُوٹھنے کے شوقین اور عادی افراد کے لئے مُنہ
پُھلانا ذہن کو وہی تسکین فراہم کرتا ہے جو ہاضمے کا چُورن معدے کو بخشتا
ہے! جب تک یہ رُوٹھ نہ لیں، اِن کا کھانا ہضم نہیں ہوتا۔ ایسے لوگوں سے
ملاقات کے دوران کُرید کُرید کر پوچھنا پڑتا ہے کہ آج کل کِس کِس سے بات
چیت بند ہے اور کِس کِس سے کُھلی ہوئی ہے تاکہ گفتگو میں کِسی کے بخیے
اُدھیڑنے اور کِسی کی تعریف میں زمین آسمان کے قُلابے ملانے میں آسانی رہے!
ماہرین نفسیات زمانے بھر کے موضوعات پر غور کرتے رہتے ہیں اور پھر تحقیق کا
بازار گرم کرتے ہیں مگر اُنہیں اندازہ ہی نہیں کہ رُوٹھنے اور مَننے میں
کیا لطف پوشیدہ ہے! جب کوئی مِنّت سماجت کرکے منانے کی کوشش کرتا ہے تب دِل
کو وہ سُکون ملتا ہے جس کی تلاش میں سادھو سنیاسی سلسلہ ہمالیہ کی چوٹیوں
کو کھنگالتے پھرتے ہیں! ہمارے معاشرے میں ایسے لوگوں کی کمی نہیں جن کی
زندگی بات بات پر ناراض ہونے اور ناز اُٹھوانے میں گزری ہے۔ اور اِس کام
میں اُنہوں نے ایسا مزا پایا ہے کہ اب کچھ اور نہ بھی ملے تو زندگی سے شاید
اُنہیں کچھ خاص شِکوہ نہ ہوگا!
مغرب کی ترقی کا شور ہم ایک زمانے سے سُنتے آئے ہیں۔ مگر یہ کیا کہ اعلیٰ
تعلیم پائی، کیریئر شروع کیا، ترقی کی، خوش حالی سے ہمکنار ہوئے، بوڑھے
ہوئے اور مرگئے۔ ایسی لگی بندھی زندگی کِس کام کی؟ زندگی کے مزے اُن سے
پوچھیے جو رُوٹھنے میں مہارت رکھتے ہیں۔ کیا بات ہے! ایسا لگتا ہے جیسے
کائنات سِمٹ کر قدموں میں آگئی ہے! ترقی کے نام پر مشینی زندگی بسر کرنے
والوں کو ہمارا مشورہ ہے کہ کبھی ذرا منہ کا ذائقہ بدلنے کے لیے ہمارے
اَصلی تے وَڈّے کھیل کو بھی اپنائیں اور زندگی کا ایک ایسا انوکھا مزا
چکھیں جو اُن کے معاشروں میں خاک نہیں پایا جاتا! |