اِنسان اشرف المخلوقات ہے۔ ہم
اور آپ اِس حقیقت سے بخوبی واقف ہیں۔ مگر کبھی آپ نے سوچا ہے کہ سال میں
ایک مرتبہ یہ اعزاز ہم آپ کھو بیٹھتے ہیں؟ بس یہ سمجھ لیجیے، سال میں ایک
بار یعنی عید الاضحیٰ کے موقع پر قربانی کے جانور کچھ دنوں کے لیے ”اسٹے
آرڈر“ لیکر ہمیں اِس اعزاز سے محروم کردیتے ہیں اور بہترین مخلوق کے درجے
پر خود فائز ہو جاتے ہیں!
مویشی منڈی میں قدم رکھیے تو ایسا لگتا ہے جیسے ہم کِسی اور سیّارے کی
مخلوق ہیں یا پھر قربانی کے جانور کِسی دوسری دنیا سے آئے ہیں! اگر کوئی یہ
دعویٰ کرتا ہے کہ اُسے کبھی، کِسی موڑ پر کم تر ہونے کے احساس نے پریشان
نہیں کیا تو ذرا مویشی منڈی کا ایک چکّر لگائے، اندازہ ہو جائے گا کہ کم تر
ہونے کا احساس نہ صرف یہ کہ ہوتا ہے بلکہ پریشان بھی کرتا ہے! ہم نے جب بھی
کِسی کے ساتھ قربانی کے جانور کی خریداری کے لیے مویشی منڈی کا چکّر لگایا
ہے، خود کو ذہنی طور پر اُلجھا ہوا ہی پایا ہے۔ یقین ہی نہیں آتا کہ طرح
طرح کے ہُنر سیکھنے کے بعد بھی ہماری وقعت میں کوئی اِضافہ نہیں ہوسکا اور
دوسری طرف گھاس چرنے والے حیوان ایسی قیمت پاتے ہیں کہ ہم شرم سے زمین میں
گڑے جاتے ہیں! جانوروں کی قدر و قیمت دیکھ کر اندازہ ہوتا ہے کہ گھاس وہ
نہیں، ہم کھاتے آئے ہیں!
ایک زمانہ تھا جب قربانی کے جانور کی خریداری کے لیے مویشی منڈی جانا دردِ
سر تھا۔ زمانہ بدل گیا ہے۔ اور جب زمانہ بدل ہی گیا ہے تو مویشی منڈی کیوں
نہ بدلے؟ جب ہم ہر نئے فیشن کو پوری پوری دُنیوی عقیدت کے ساتھ گلے لگاتے
ہیں تو بے زبان جانوروں نے کیا بگاڑا ہے کہ اُنہیں قُدرت اِس حق سے محروم
رکھے؟ اب مویشی منڈی کا رُخ کرنا بھی بجائے خود ایونٹ کا درجہ اختیار کرچکا
ہے۔ اور اِس معاملے میں بھی ایونٹ مینیجمنٹ کے شعبے کو زحمت دی جاچکی ہے!
اگر کبھی آپ سبزی یا پھل کی منڈی کا رُخ کریں تو اندازہ ہوگا کہ سبزیوں اور
پھلوں کے آگے آپ کی اوقات ہی کیا ہے! آپ کو تو کوئی پوچھتا نہیں اور آم کی
معمولی سی پیٹی ایسی مہنگی فروخت ہوتی ہے کہ آپ بیک وقت انگشت بہ دنداں اور
دل گرفتہ رہ جاتے ہیں! کبھی کبھی ٹنڈے اِتنے مہنگے فروخت ہو رہے ہوتے ہیں
کہ اُن کے دام پوچھ کر لوگ اپنا ٹنڈا سا مُنہ لیکر رہ جاتے ہیں! وہ زمانہ
لد گیا جب لوگ ایک دوسرے کو کَدّو قرار دیکر نیچا دکھانے کی کوشش کرتے تھے۔
اب زمانہ ایسا بدلا ہے کہ کبھی کبھی تو کَدّو قرار دیئے جانے پر اِنسان
اپنے آپ پر ناز کرنے لگتا ہے!
یہی حال مویشی منڈی کا ہے۔ ذرا سا بکرا دیکھتے ہی دیکھتے اِنسانوں کو نیچا
دِکھانے لگتا ہے۔ اب قربانی کے جانوروں کا اسٹیٹس ایسا بلند ہوچکا ہے کہ
اُن کی قیمت پوچھنے سے قبل اپنی جیب ہی نہیں بلکہ پورے وجود کو کھنگالنا
پڑتا ہے! کِس نے سوچا تھا کہ اِنسان پر کبھی ایسا جانورانہ وقت بھی آئے گا!
مویشی منڈی اب صرف منڈی نہیں بلکہ ایک الگ دُنیا کا نام ہے۔ اِس دُنیا کے
اپنے اُصول اور قواعد ہیں۔ اگر آپ اِن اُصولوں، قواعد اور ”مینرز“ سے واقف
نہیں تو لوگ آپ کے بارے میں اپنی رائے بدل بھی سکتے ہیں! جو لوگ مکمل تیاری
کے بغیر مویشی منڈی میں قدم رکھتے ہیں اُن کے اناڑی پن کا اندازہ لوگ ایک
ہی نظر میں لگا لیتے ہیں! اور پھر اُن کی چال ڈھال میں بھی اپنے لیے تفریح
تلاش کرلیتے ہیں!
آپ سوچیں گے کِسی کے اناڑی پن سے قربانی کے جانوروں کو کیا فرق پڑتا ہے؟
ایسا نہیں ہے۔ ماہرین کہتے ہیں کہ دو پیروں پر چلتے ہوئے مویشی منڈی میں
قدم رکھنے والے اناڑی جانور قربانی کے جانوروں پر شدید نفسیاتی اثرات مرتب
کرتے ہیں! ایسے لوگوں کو دیکھ کر جانور بدکتے ہیں اور بے زبانی کی زبان سے
شِکوہ کرتے ہیں کہ ہمیں کِن جاہلوں کے درمیان کھڑا کردیا!
اگر آپ کو کبھی ہائی جینٹری میں اُٹھنا بیٹھنا نصیب ہوا ہے تو اندازہ ہوگا
کہ وضع داری کیا ہوتی ہے، نشست و برخاست کے اطوار کیا ہوتے ہیں اور کوئی
بات کِس طرح اور کِس حد تک کی جاتی ہے۔ ہم یہ نہیں کہتے کہ آپ کو اَپر کلاس
سے رابطے کے طریقے معلوم نہیں مگر پھر بھی آپ کو یہ مشورہ دینا ہمارا فرض
ہے کہ قربانی کا جانور خریدنے سے قبل کسی ”کیٹل کنسلٹنٹ“ سے ضروری مل لیں
تاکہ مویشی منڈی میں داخل ہونے، گھومنے پھرنے، جانوروں کا جائزہ لینے، اُن
سے آنکھ ملانے، اُن کی طرف بھرپور نظر ڈالنے، اُن کے دام پوچھنے اور سودے
بازی کے آداب معلوم ہوسکیں! |