دنیائے اردوا دب میں مالیگاؤں
کے ادیبوں اور شاعروں نے اپنی جاں کاہی سے جو روشن نقش مرتب کیا ہے ۔ اس نے
اس شہر کے نام کو ایک علمی و ادبی وقار بخشاہے۔ ادب کے مختلف شعبوں میں
یہاں کے ادبا و شعرا کا حصہ کسی نہ کسی درجے میں ضرور نظر آتا ہے۔
اردو میں ادبِ اطفال کی تاریخ تو مالیگاؤں کا ذکر کیے بغیر نامکمل تصور کی
جائے گی۔ ایم ۔ یوسف انصاری ، آصف بختیار سعید، سلطان سبحانی، مجید انور
اور خیال انصاری بچوں کے ادب کا وہ معتبر نام ہیں ۔ جن کی شہرت دور دور تک
پھیلی ہوئی ہے۔ بل کہ اگرمَیں یہ کہوں تو بے جا نہ ہوگاکہ ان افراد کی
کہانیوں اور بچوں کے ادب پر لکھی گئی کتابوں کو پڑھ کر بہت سارے حضرات نے
ادبِ اطفال کے میدان میں قدم رکھاہے۔
مالیگاؤں کے ادبی منظر نامے پر بچوں کے ادب میں ان حضرات کے بعد بہت سارے
نئے ناموں کا اضافہ ہوا ہے۔ ان میں یعقوب ابن مرتضیٰ بھی ادبِ اطفال کے افق
پر ابھرنے والے ایک نئے ستارے کا نام ہے۔ ادھر چند سالوں سے وہ بچوں کے ادب
میںاپنے اشہبِ قلم کو دوڑارہے ہیں ۔ ہر شخص کا کچھ نہ کچھ ذوق و شوق ہوتا
ہے اور وہ اس کی تکمیل میں ہی سکون محسوس کرتا ہے۔ یعقوب ابن مرتضیٰ ایک
ایسے قلم کار ہیں جن کا ذوق و شوق بچوں کے لیے کہانیاں لکھنا اور انگریزی
ادب سے بچوں کے لیے اچھی اور دل چسپ کہانیوں کا ترجمہ کرنا ہے۔ یعقوب صاحب
اپنے شوق میں دیوانہ وار آگے بڑھتے جارہے ہیں کیوں کہ اسی کام میں انھیں
یک گونہ مسرت حاصل ہوتی ہے۔مختصر سی مدت میں انھوںنے یکے بعد دیگرے اپنی
لکھی ہوئی اور انگریزی سے ترجمہ کردہ چند کہانیوں کا مجموعہ ’’ جنگل میں
دھوم، بغداد کا حمال، وینِس کا سوداگراور سنہرے بالوں والی علینا‘‘ ادبِ
اطفال کوتحفہ دیا ہے۔
محترم سلطان سبحانی نے اپنی کتاب ’’کہانیوں کی کہکشاں ‘‘ میں ایک جگہ لکھا
ہے کہ ’’ کہانیاں وہی اچھی ہوتی ہیں جو حقیقت سے آشنا کراتی ہیں ۔‘‘ بات
بڑے پتے کی اور سچی ہے ۔ کہانیاں اگر بچوں کے لیے لکھی جارہی ہوں یا کسی
بھی عمر کے افراد کے لیے تو اس میں اس بات کا خیال رکھنا بے حد ضروری ہے کہ
کہانی کا مقصد صرف تفریح کا سامان مہیا کرانا نہ ہو۔ بل کہ کہانیوں کے
وسیلے سے بچوں کی ہمہ جہت تربیت کی کوشش بھی کی جائے۔ کیوں کہ کہانیاں بچوں
کے لیے ماضی ، حال اور مستقبل کا ایک بہترین منظر نامہ ہوتی ہیں۔ کہانیاں
فکر ونظر اور خواب و خیال کی تربیت گا ہ اور بچوں کی کردار سازی کا بہترین
ذریعہ بھی ہوتی ہیں۔
اس تناظر میں یعقوب ابن مرتضیٰ کی لکھی ہوئی کہانیوں اور ناولوں کا جائزہ
لینے پر یہ ظاہر ہوتا ہے کہ انھوں نے دونوں باتوں کا خیال رکھنے کی حتی
المقدور کوشش کی ہے۔ ان کی بعض کہانیاں جہاں بچوں کو محض تفریح پہنچانے کا
سامان نظر آتی ہیں وہیں بعض کہانیاں بڑی اچھی اور عمدہ ہیں جن سے بچوں کی
اصلاح و تربیت ، کردار سازی اور ان میں اعلیٰ اقدار کا فروغ ممکن بنایا
جاسکتا ہے۔
مجموعی اعتبار سے یعقوب صاحب کی کہانیوں اور ناولوں کے کردار میں انسان اور
جانور دونوں دکھائی دیتے ہیں۔ کہانی کے روایتی انداز میں کہیں کہیںجن ، پری
، کوہ قاف ، بادشاہ ، شہزادہ وغیر ہ کا ہلکا ساذکر بھی نظر آتا ہے۔ ان
کہانیوں میں موصوف نے انسانی معاشرے کے مختلف سماجی اور اخلاقی مسائل کو
بڑی کامیابی سے پیش کیا ہے۔ مناظر فطرت کی لفظی تصویر کشی بھی مہارت سے کی
ہے۔ کہیں کہیں ہلکا پھلکا طنز اور قدرے مزاحیہ انداز دل چسپی کو بڑھا تاہے
۔ ان کہانیوںکی زبان عام فہم، بالکل سادہ اور آسان ہے۔ جملوں میں
الجھاونہیں ہے، پلاٹ ، کردار اور مکالمے نپے تلے ہیں۔ کہانیوں کا اسلوب
بیانیہ ہے ۔ زبان و بیان کے سلسلے میں انھیں مزید محنت کی ضرورت ہے ۔ قواعد
کی رو سے اصلاح طلب بہت سارے جملوں کی نشان دہی کی جاسکتی ہے۔ موصوف کو
چاہیے کہ وہ کہانی کے ساتھ ساتھ زبان کی درستگی کی طرف سے عدم توجہی نہ
برتیں تاکہ ان کی قلمی کاوش فنّی اعتبار سے بھی باوقار بن جائے۔
علاوہ ازیں یعقوب صاحب نے انگریزی ادب کی مختلف دل چسپ کہانیوں کا ترجمہ یا
بہ قول ان کے اس کے مرکزی خیال کو اخذ کرکے نئے سرے سے کہانی کو اپنے انداز
میں پیش کرنے کی کوشش بھی کی ہے۔ ترجمہ نگاری ہو یا کسی دوسری زبان کے فن
پارے کو اپنے انداز و اسلوب میں اپنی زبان میںڈھالنا دونوں ہی انتہائی مشکل
ترین امر ہیںاور اس میدان میںہمیں یعقوب ابن مرتضیٰ کامیاب دکھائی دیتے ہیں
۔ بس ذرا سی زبان کے سلسلے میں انھیں محنت کی ضرورت ہے۔
اسی طرح ایک بات جس کی طرف توجہ دلا نا ضروری سمجھتا ہوں وہ یہ ہے کہ کہانی
کے کرداروں کے اوصاف گنواتے وقت لفظ ’’ایمان دار‘‘ کا اطلاق صحیح سیاق میں
اہل ایمان ہی کے لیے کریں ۔ نیز کسی انسان کو تمثیلاًبھی ’’رحمت کا فرشتہ‘‘
کہنا اور لکھنا درست نہیں ہے۔
بہر کیف! یعقوب ابن مرتضیٰ کے ان چار مجموعوں کی سراہنا کرناہمارے لیے
ضروری ہے تاکہ وہ اسی طرح ادبِ اطفال کو اپنی فکر و نظر سے مالامال کرتے
رہیں ۔ اور ان کہانیوں کے توسط سے ہماری نئی نسل کے لیے دل چسپی کا سامان
بھی فراہم ہو اور ان کی اصلاح و تربیت بھی ممکن بنتی رہے۔
’’تانبے کا سکہ، شاہی حجام ، حاتم اور انجانی خوشی‘‘ موصوف کی بہترین کاوش
قرار دی جاسکتی ہے۔ ’’چھوٹا نیوٹن‘‘ بچوں میں کھوج، تجسس پسندی ، تجربہ
کرنے کی صلاحیت اور کچھ نیا کردکھانے کی پوشیدہ جبلت کو ابھارنے میں معاون
ثابت ہوسکتی ہے ۔ اسی طرح ان کے ناولوں میں’’ بغداد کا حمال‘‘ایک اچھی کوشش
ہے۔ جس کی زیریںزَو میں ایک عمدہ سبق پنہاں ہے۔ راقم موصوف کو مبارک باد
پیش کرتے ہوئے ایسی امید رکھتا ہے کہ وہ اسی طرح ادبِ اطفال کے میدان
میںاپنا نقشِ ہنر مرتب کرتے رہیں۔
یعقوب ابن مرتضیٰ کی ۳کتابوں کے اجرا 31/08/2012کے موقع پر پڑھا گیا مضمون) |