بعض نام نہاد اہلحدیث سیدنا امامِ
اعظم رضی اﷲ عنہ کے بارے میں یہ پراپیگنڈہ کرتے ہیں کہ ''آپ کو صرف سترہ
حدیثیں یاد تھیں''۔ اس اعتراض کی اصل وجہ بھی آپ سے حسد و بغض ہے۔ علامہ
ابن حجر شافعی رحمہ اللہ لکھتے ہیں، '' کسی کے ذہن میں یہ خیال نہ آئے کہ
امام ابو حنیفہ رضی اﷲ عنہ کو فقہ کے علاوہ دیگر علوم پر دسترس حاصل نہ تھی۔
حاشاﷲ، آپ علوم شرعیہ، تفسیر، حدیث اور علومِ ادب و حکمت میں بحرِ نا
پیداکنار تھے اور ان میں سے ہر فن کے امام تھے۔ بعض دشمنوں کا اسکے خلاف
کہنا محض ان سے حسد کی وجہ سے ہے''۔ (الخیرات الحسان : ٨٩)
امام اعظم رضی اﷲ عنہ کے نامور شاگرد امام مکی بن ابراہیم رحمہ اللہ (
المتوفی ٢١٥ھ) امام بخاری رحمہ اللہ کے استاد ہیں اور صحیح بخاری میں بائیس
ثلاثیات میں سے گیارہ ثلاثیات صرف امام مکی بن ابراہیم رحمہ اللہ کی سند سے
مروی ہیں اور نو ثلاثیات دیگر حنفی شیوخ سے۔ گویا امام بخاری رحمہ اللہ کو
اپنی صحیح میں عالی سند کے ساتھ بیس ثلاثیات درج کرنے کا شرف سیدنا امامِ
اعظم رضی اﷲ عنہ کے تلامذہ کا صدقہ ہے۔
امام بخاری رحمہ اللہ اور دیگر کتبِ صحاح کے اسانید میں بھی اکثر شیوخ حنفی
ہیں۔ امام مکی بن ابراہیم رحمہ اللہ نے امامِ اعظم رضی اﷲ عنہ کی خدمت میں
رہ کر آپ سے حدیث اور فقہ کا علم حاصل کیا اور آپ سے بکثرت حدیثیں روایت
کیں۔ آپ نے امامِ اعظم رحمہ اللہ کی خدمت سے دس سال استفادہ کیا۔ (مناقب
للموفق : ٢١٧)
امام ابو عبدالرحمٰن المقری رحمہ اللہ(٢١٣ھ) نے امامِ اعظم رحمہ اللہ سے نو
سو(٩٠٠) حدیثیں سماعت کیں۔ (مناقب کردری ج ٢ :٢١٦)
انکے شاگرد بشر بن موسیٰ رحمہ اللہ کہتے ہیں۔ ''جب آپ ہم سے امام ابو حنیفہ
رضی اﷲ عنہ کی سند سے کوئی حدیث بیان کرتے تو فرماتے، حدثنا شاھنشاہ۔ ہم سے
شہنشاہ نے حدیث بیان کی ہے''۔( تاریخ بغداد ج ١٣ : ٣٤٥)
غور فرمائیے کہ امام بخاری رحمہ اللہ کے شیخ امام مکی بن ابراہیم رحمہ اللہ
دس سال امامِ اعظم رضی اﷲ عنہ سے حدیث و فقہ کا علم حاصل کریں اور محدثِ
کامل امام ابو عبدالرحمٰن رحمہ اللہ نو سو (٩٠٠) حدیثیں سن کر آپکی عظمت کا
اقرار یوں کریں کہ آپکو '' حدیث کا شہنشاہ'' کہیں تو پھر امامِ اعظم رضی اﷲ
عنہ کے حافظ الحدیث ہونے میں کیا شک ہوسکتا ہے؟
علامہ ابن حجر مکی رحمہ اللہ فرماتے ہیں، '' امام ابو حنیفہ رضی اﷲ عنہ نے
ائمہ تابعین وغیرہ چار ہزار شیوخ سے علم حاصل کیا ہے اس لیے امام ذہبی رحمہ
اللہ اور دوسرے حضرات نے آپکا شمار حفاظ محدثین کے طبقے میں کیا ہے اور جس
نے یہ گمان کیا کہ آپ نے حدیث کو کم اہمیت دی ، یہ اُس کی غفلت ہے یا پھر
حسد ہے، یہ بات اس شخص کے متعلق کیونکر صحیح ہو سکتی ہے جس نے حدیث سے بے
شمار مسائل اخذ کیے ہوں حالانکہ دلائل شرعیہ سے مخصوص طریقہ کے مطابق
استنباط کرنے والے آپ پہلے شخص ہیں جسکا ذکر آپکے اصحاب کی کتب میں ہے۔
چونکہ آپ (فقہ کے) اس اہم کام میں مشغول رہے اس لیے آپ کی حدیثیں لوگوں میں
پھیل نہ سکیں جسطرح حضرات ابو بکر و عمر رضی اﷲعنہما جب مسلمانوں کی
ضروریات میں مشغول ہوئے تو ان سے روایتِ حدیث ظاہر نہ ہوئی جیسا کہ ان کے
سوا دوسرے کم عمر صحابہ سے ظاہر ہوئی۔
اس طرح امام مالک اور امام شافعی سے بھی فقہ میں مشغولیت کے باعث اس قدر
احادیث ظاہر نہیں ہوئیں جیسا کہ ان حضرات سے مثلاً ابو زرعہ اور ابن معین
(رحمہم اللہ تعالیٰ)سے ظاہر ہوئیں جو کہ محض روایتِ حدیث کی طرف متوجہ
رہے۔علاوہ ازیں کثرتِ روایات بغیر درایت کے کوئی خوبی کی بات نہیں بلکہ
حافظ ابن عبدالبر رحمہ اللہ نے تو اسکی مذمت میں ایک مستقل باب لکھا ہے اور
فرمایا ہے کہ فقہاء و علماء کا مذہب یہ ہے کہ'' بغیر تفقہ و تدبر کے کثرت
سے روایت کرنا اچھا نہیں اور ابن شبرمۃ رحمہ اللہ نے کہا کہ '' کم روایت
بھی تفقہ ہے''۔ حضرت عبداﷲ بن مبارک رحمہ اللہ کا ارشاد ہے، '' قابلِ
اعتماد چیز حدیث واثر ہے اور صرف وہ رائے قبول کرو جو حدیث کی تفسیر کرے''۔
(الخیرات الحسان :٢٢٠)
حافظ الحدیث ، اسرائیل رحمہ اللہ فرماتے ہیں کہ امام ابو حنیفہ رحمہ اللہ
بہت اچھے بزرگ تھے۔ انہیں ہر ایسی حدیث جس سے کوئی فقہی مسئلہ اخذ ہو سکتا
تھا بہت اچھی طرح یاد تھی۔ وہ ایسی حدیثوں کو بہت تلاش کرتے تھے اور حدیث
میں فقہی مسائل کو بہت زیادہ جاننے والے تھے۔ ( تبییض الصحیفہ :٢٧)
صحاح ستہ کے اہم راوی حافظ الحدیث امام مسعر بن کدام رحمہ اللہ فرماتے ہیں،
'' میں نے امام ابو حنیفہ رضی اﷲ عنہ کے ساتھ حدیث کا علم حاصل کرنا شروع
کیا لیکن وہ ہم پر غالب رہے''۔ ( مناقب للذہبی : ٢٧ طبع مصر)
امام زفررحمہ اللہ فرماتے ہیں، '' میں نے دیکھا ہے کہ بڑے بڑے محدثین مثلاً
زکریا بن ابی زائدہ، عبدالملک بن ابی سلیمان، لیث بن ابی سلیم، مطرف بن
طریف اور حصین بن عبدالرحمٰن وغیرہ (رحمہ اللہ تعالیٰ) امامِ اعظم رضی اﷲ
عنہ کے پاس اکثر آتے جاتے رہتے اور مشکل مسائل دریافت کرتے تھے۔ کئی بار وہ
ان احادیث کے بارے میں سوال کرتے جسکے متعلق انہیں کوئی مشکل پیش آتی تھی۔(
مناقب للموفق : ٣٩٦)
مقامِ غور ہے کہ اگر بالفرض سیدناامامِ اعظم رضی اﷲ عنہ کو صرف سترہ حدیثیں
یاد ہوتیں تو ایسے بڑے بڑے محدثین آپکے پاس کیوں حاضری دیتے ؟
امام ذہبی رحمہ اللہ فرماتے ہیں،''آپ سے جن محدثین نے کثیر روایات حاصل کی
ہیں انکو شمار نہیں کیا جاسکتا''۔ (مناقب للذھبی:١٢)
علامہ یوسف بن صالح شامی رحمہ اللہ نے آپ سے روایات اخذ کرنے والے نو سو
چوبیس (٩٢٤) محدثین کے نام تحریر کیے ہیں۔ ( عقود الجمان باب ٤، ٥)علامہ
سیوطی رحمہ اللہ نے آ پکے٩٥ تلامذہ کے اسمائے گرامی تحریر کیے ہیں۔ ( تبییض
الصحیفہ : ١٤)
نامور محدث علی بن خشرم رحمہ اللہ فرماتے ہیں، '' ہم امام سفیان بن عیینہ
رحمہ اللہ کی خدمت میں حاضر تھے انہوں نے فرمایا، اے اصحاب ِ حدیث ! تم
حدیث میں تفقہ پیدا کرو، ایسا نہ ہو کہ اصحابُ الرائے تم پر غالب آجائیں۔
یہ خیال رہے کہ امام ابو حنیفہ رضی اﷲ عنہ نے کوئی بات ایسی نہیں کہی ہے جس
پر ہم ایک یا دو حدیثیں نہ روایت کرتے ہوں''۔ (معرفت علوم الحدیث : ٦٩ طبع
قاہرہ)
اس ارشاد سے ایک بات تو یہ معلوم ہوئی کہ اصحابُ الرائے تفقہ فی الحدیث کے
حوالے سے نمایاں مقام کے حامل رہے ہیں اسی لیے امام سفیان بن عیینہ رحمہ
اللہ نے انہیں حدیث کا فہم حاصل کرنے کی ترغیب دی اور دوسری بات یہ ثابت
ہوئی کہ جو کچھ امامِ اعظم رضی اﷲ عنہ نے فرمایا ہے اس کے بارے میں ایک یا
دو حدیثیں ضرور موجود ہیں۔ یعنی کہ امامِ اعظم رضی اﷲ عنہ کا اجتہاد و قیاس
احادیث کے عین مطابق ہے۔
امام ابو یوسف رحمہ اللہ جنہیں امام یحییٰ بن معینرحمہ اللہ،'' صاحبِ
حدیث'' اور امام ذہبی رحمہ اللہ '' حافظ الحدیث'' کہتے تھے وہ فرماتے ہیں،
میں نے امام ابو حنیفہ رضی اﷲ عنہ سے زیادہ حدیث کی تفسیر جاننے والا اور
اسکے فقہی نکات پہچاننے والا نہیں دیکھا۔ اور میں نے جب کبھی کسی بات میں
انکی مخالفت کی اور پھر اس پر غور کیا تو انہی کے مذہب کو آخرت کے لحاظ سے
زیادہ موجبِ نجات پایا اور بسا اوقات میں حدیث کی طرف مائل ہوتا تو وہ مجھ
سے زیادہ صحیح حدیث کو جاننے والے ہوتے۔
جب امامِ اعظم رضی اﷲ عنہ کسی قول پر جم جاتے تو میں آپکے قول کی تائید میں
کوئی حدیث یا اثر معلوم کرنے کے لیے کوفہ کے مشائخ کے پاس جاتا۔ بسااوقات
دودو یاتین تین حدیثیں لے کر آپ کے پاس حاضر ہوتا تو ان میں سے کسی کے بارے
میں فرمادیتے کہ یہ صحیح نہیں ہے یا غیر معروف ہے۔ میں دریافت کرتا کہ آپ
کو یہ کیسے معلوم ہوا حالانکہ یہ تو آپ کے قول کے مطابق ہے۔ آپ ارشاد
فرماتے، '' میں اہلِ کوفہ کے تمام علم کا عالم ہوں''۔ ( الخیرات الحسان :
٢٢٢، فتاویٰ رضویہ ج١:١٢١)
آپ نے صرف کوفہ ہی کے مشائخ سے علم حاصل نہ کیا بلکہ آپ مکہ، مدینہ اور
بصرہ بھی حصولِ علم کے لیے کئی بار گئے۔ آپکے بعض اساتذہ کرام کا ہم آئندہ
پیغامات میں ذکر کریں گے۔ امامِ اعظم رضی اﷲ عنہ کے سینہ اقدس میں احادیث
کا کتنا بڑا خزانہ تھا اسکا اندازہ محدث علی قاری رحمہ اللہ کے اس قول سے
کیجیے، وہ امام محمد بن سماعہ رحمہ اللہ سے روایت کرتے ہیں، '' امام اعظم
ابو حنیفہ رضی اﷲ عنہ نے اپنی تصانیف میں ستر ہزار سے زائد احادیث بیان کی
ہیں اور چالیس ہزار احادیث سے کتاب الآثار کا انتخاب کیا ہے''۔( مناقب بذیل
الجواہر ج ٢ : ٤٧٤)
صدرالائمہ امام موفق بن احمد مکی رحمہ اللہ لکھتے ہیں، '' امام اعظم ابو
حنیفہ رضی اﷲ عنہ نے کتاب الآثار کا انتخاب چالیس ہزار احادیث سے کیا ہے۔
جن کی صحت کی آپ کو پوری تحقیق تھی''۔ ( مناقب للموفق :١٠٤)
ایک بات کی وضاحت ضروری ہے وہ یہ کہ اگر ایک حدیث کا متن سو مختلف طریقوں
اور سندوں سے روایت کیا جائے تو محدثین کی اصطلاح میں یہ سو حدیثیں ہونگی۔
یہ جو کہا جاتا ہے کہ فلاں محدث کو ایک لاکھ حدیثیں یاد تھیں اور فلاں محدث
کو دو لاکھ، اسکا یہی مطلب ہے کہ وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ حدیث کی اسناد میں
راویوں کا اضافہ ہوا اور ایک ایک حدیث کو بکثرت راویوں نے روایت کرنا شروع
کردیا۔ ورنہ محدثین کرام کا اتفاق ہے کہ '' تمام مسند احادیثِ صحیحہ جو بلا
تکرار نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے روایت کی گئی ہیں انکی تعداد چار
ہزار اور چارسو ہے''۔( تو ضیح الافکار : ٦٣ طبع مصر)
امامِ اعظم رضی اﷲ عنہ کی طرف جب چالیس ہزار حدیثوں کی نسبت کی جاتی ہے تو
یہ اسانید و طرق کی کثرت سے مروی روایات کی تعداد ہوتی ہے اور امام حسن بن
زیادرحمہ اللہ فرماتے ہیں، '' امام اعظم ابو حنیفہ رضی اﷲ عنہ بلا تکرار جو
احادیث روایت کرتے ہیں انکی تعداد چار ہزار ہے، دو ہزار احادیث انہوں نے
اپنے استاد امام حماد رحمہ اللہ سے اور دو ہزار دوسرے شیوخ سے حاصل کیں''۔
(مناقب للموفق : ١٠٥)
اس سے معلوم ہوا کہ امامِ اعظم رضی اﷲ عنہ واقعی علم الحدیث کے شہنشاہ تھے۔
اور اگر نفسِ احادیث کے اعتبار سے تجزیہ کیا جائے تو امامِ اعظم رضی اﷲ عنہ
کی مرویات امام بخاری رحمہ اللہ سے کہیں زیادہ ہیں اور نسبتاً کم واسطوں سے
ہیں۔ |