وائٹ گولڈ

عید الاضحٰی آنے کو ہے۔ بڑی عید خوشی کا تہوار لیکن موجودہ حالات میں تو خوشی کی خبر یوں معلوم ہوتی ہے جیسے کسی کی میت پر آدمی لطیفہ سنا دے۔ کیا کیا جائے! پاکستانی قوم جن مصائب کا شکار ہے اُس میں خوشی کی کوئی خبر سماعتوں میں گونجے! تو ڈر پہلے لگنا شروع ہوجاتا ہے کہ اے خدا آگے بھی بس خیریت ہی رکھنا۔

گھر سے باہر نکلتے ہی جا بجا قربانی کے جانوروں کی بھیڑ نظر آنے لگتی ہے۔ دیکھ کہ طبیعت خوش ہوئی کہ چلو کراچی جیسے شہر میں جہاں ہر دو دن بعد دہشت گردی کا خونخوار جانور دھاڑیں مارتا ہوا داخل ہوتا ہے اور ٹارگٹ کلنگ کے نوکیلے پنجوں سے معصوم عوام پر وار کرتا ہے وہاں قربانی کے یہ معصوم جانور آنکھوں کو بہت بھائے۔

مہنگائی کے اِس دور میں جانوروں کو گھاس پوس اور چارہ کھاتے دیکھ کر ذہن میں ایک عمدہ خیال گردش کرنے لگا کہ ہم بھی تیل، گھی، مصالحوں کے بغیر یوں ہی کچی سبزیاں کھا لیا کرتے تو آج مہنگائی کا رونا نہ روتے۔ لیکن کیا کیا جائے صاحب کہ اِس ڈیڑھ انچ کی زبان کے چٹخارے نے مار ڈالا۔

یکایک ہماری زبان سے دیوداس کے ڈائیلاگ ”ٹرانسلیٹ اِن ٹو مہنگائی “ یوں نکلے......
”مشرف نے کہا ٹماٹر کھانا چھوڑ دو“
”کائرہ نے کہا چینی کھانا چھوڑ دو“
”راجہ پرویز اشرف نے کہا بتی جَلانا چھوڑ دو“
ڈر ہے کہ کہیں آگے یہ حکم نہ مل جائے کہ
”بَچے پیدا کرنا چھوڑ دو“

بات بھی درست ہے نہ پاکستانی پیدا ہوں گے نہ وسائل کی کمی کا چرچہ ہوگا۔

اور جو حیات ہیں اُنھیں تو ویسے بھی مر جاناہے۔ عوام کہتی ہے ہمارے پاس آگے بڑھنے کے optionsنہیں۔ ارے ایسا کیسے بھئی بہت optionsہیں یہ الگ بات کے سارے options”اَبدی سکون“ یعنی مرنے کے لئے کھلے ہیں۔ پھر بحث کیسی!
مہنگائی سے مرنے کا option۔
خودکش بم دھماکوں سے مرنے کا option۔
ڈُرون حملوں سے مرنے کا option۔
خراب موسم میں ہوائی جہاز سے سفر کر کے مرنے کا option۔
ٹارگٹ کلنگ میں مرنے کا option۔

ہم ابھی اپنے option پہ غور کر ہی رہے تھے کہ اچانک ٹیلی ویژن پہ ”بریکنگ نیوز “ لکھا آیا جسے دیکھتے ہی دل کی دھڑکن تیز ہو گئی ، پسینے آنا شروع ہوگئے۔ دماغ میں بتی جلی..ایک اور option اِن بریکنگ نیوز کی وجہ سے ’ہارٹ اٹیک“ کا option۔

ہارٹ اٹیک کا سوچ ہی رہے تھے کہ آواز آئی ”وائٹ گولڈ ۔ یہ وہ بیل ہے جس کی قیمت فقط پچیس لاکھ ہے۔“

ہم تو وائٹ گولڈ کا تصور نہیں کر سکتے تو وائٹ گولڈ پہ کیا کان دھرتے۔ لیکن پچیس لاکھ کے بیل کی صدا“ نے چشمہ لگا کر ٹیلی ویژن کی اسکرین پہ توجہ دینے پر مجبور کر دیا۔

جناب! بیل کیا تھا۔ بس اِس قبیل سے تعلق رکھنے والی عجب مخلوق کا تاثر دے رہا تھا چھ فٹ کا خوبصورت سفید بیل۔

پر پچیس لاکھ! یہ بات کچھ معدے کے لئے ذود ہضم نہ تھی۔ مزید خبر پہ توجہ دی گئی تو معلومات میں یوں اضافہ ہوا۔

”یہ وہ بیل ہے جس کا نام اِس کے مالک نے وائٹ گولڈ رکھا ہے۔ یہ بیل یومیہ تین کلو دودھ پیتا ہے۔ روٹی پسند نہیں البتہ ڈبل روٹی اور چارہ کھا لیتا ہے۔ خالص مکھن تو بہت ہی پسند ہے۔ جبکہ سب سے زیادہ ڈرائی فروٹ کا شوقین ہے۔“

مالک نے یومیہ خوراک کا تخمینہ ”ہزار روپے“ بتایا ساتھ ہی یہ بھی کہ ”چھ آدمی اِس کے انڈر کام کرتے ہیں یعنی نوکر ہیں اِس بیل کے“ جو اس کی دیکھ بھال کے لئے معمور کےے گئے ہیں۔ دل سے ایک آہ نکلی واہ رے بیل تیرے قسمت۔
دل سے جو آہ نکلتی ہے وہ اثر رکتی ہے
پَر نہیں لیکن طاقتِ پرواز مگر رکھتی ہے

ہماری آہ کا کیا اثر ہونا ہے نہ ہمارے پَر ہیں نہ پرواز کی طاقت کہ پیٹرول بہت مہنگا ہے۔ لیکن کہیں اندر ہی اندر جلن ضرور محسوس ہوئی۔ سنا تھا آدمی آدمی سے جلتا ہے۔ ”یہاں تو آدمی بیل سے جلتا ہے“ حد ہو گئی ہم بیل سے جلیں یہ ہمیں زیب نہیں دیتا۔ پر ذرا غور کیجےے۔ ہمیں جلن کیوں کر نہ ہو اِس مہنگائی کے دور میں جہاں ہم فروٹ کی شکلیں بھول گئے ہی وہاں ”ڈرائی“ کا سوال کیا۔ لیکن ”واہ رے وائٹ گولڈ تیری قسمت“۔

ہمارے سامنے تو کوئی چلغوزے کا نام لے لے تو یوں محسوس ہوتا ہے گویا کسی نے چُلو بھر پانی میں ڈوب مرنے کا طعنہ دے دیا ہو۔ لیکن ”واہ رے وائٹ گولڈ تیری قسمت“۔

گھی کے پراٹھے پرانی بات ہوئی۔ برائے نام تیل والی روٹی جسے پراٹھا کہو تو پراٹھا بُرا مان جائے۔ دوسری طرف ڈبل روٹی اور دیسی مکھن ”واہ رے وائٹ گولڈ تیری قسمت“۔

ہم تو خود کسی کے انڈر کام کرتے ہیں اور وہاں چھ آدمی نوکر ”واہ رے وائٹ گولڈ تیری قسمت“۔

خدا سے شکوہ کیا کہ ” کاش ہم وائٹ گولڈ ہوتے “ اندر سے جواب آیا ”پھر قربان بھی ہونا پڑتا“ ہم نے پھر شکوہ کیا ”بار بار مہنگائی کے ہاتھوں قربان ہونے سے بہتر ہے ایک بار ہی قربان ہو جائیں“۔ اندر سے پھر جواب آیا ”یہ حالات بھی تمھاری بد اعمالیوں کا نتیجہ ہیں۔ دیکھ لینا یہ بیل پچیس نہیں اپنے مالک کو تیس لاکھ دے کر جائیگا“۔

اُس لمحہ ہم نے خود سے سوال جواب کا سلسلہ ترک کر دیا۔ سچ میں ہم وہی عوام ہیں جو ملکی حالات سے اعصاب شکن ہو گئے ہیں۔ ہر کمی کوتاہی کا ذمہ دار حکومت کو ٹھہراتے ہیں بحیثیت قوم اجتماعی طور پر کہاں کھڑے ہیں۔

بہت آسانی سے پچیس لاکھ کا بیل خرید لیا جاتا ہے۔ اور کہا جاتا ہے کہ بھئی خدا نے استطاعت دی ہے تو کیوں نہ قربانی کے لئے بہترین جانور خریدلیا جائے....!

تو جناب قربانی کے لئے اتنا مہنگا جانور خریدنے سے کئی درجہ بہتر عمل یہ ہے کہ کم مالیت کے جانور خرید کر قربانی کرلی جائے تاکہ بقیہ رقم کسی مسکین گھرانے کو بطور عطیہ دی جاسکے۔

جب ہم نے یہ خبر دیکھی کہ ایک ماں نے اپنے چار بچوں کو زہر دے کر خود بھی زہر کھالیا کیونکہ وہ بچے کا دودھ نہیں خرید سکتی تھی ماں تو جہانِ فانی کو خیر باد کہ گئی پیچھے چار بچوں کو موت اور زندگی کے بیچ جھولتے دکھایا گیا۔ ایک تین سالہ بچی کو آدھ کھلی آنکھوں میں نیم بے ہوشی کی کیفیت میں دیکھا تو جی پھوٹ پھوٹ کے رونے کو چاہا۔ کہ اِس معصوم کو کیا پتا کہ اِس کی ماں کتنی مجبور تھی جو اپنی ننھی گڑیا کو موت کے حوالے کر گئی۔

یہ بھی آپ کہیں گے کے حکومت کی غلطی ہے۔ ہم قربانی کے لئے مہنگے سے مہنگا جانور خرید سکتے ہیں تو کیا قربانی کا فریضہ سادگی سے ادا کرتے ہوئے کچھ رقم سے غریب و لاچار افراد کی کفالت نہیں کر سکتے؟ ہو سکتا ہے ہماری اس چھوٹی سی نیکی کی روش اختیار کرنے سے ہم لوگوں کے چہرے کی مسکراہٹیں لوٹا سکیں۔ ہم میں سے ہر ایک انفرادی طور پر ایثار، قربانی، محبت، اخوت اور دین کے اُصولوں سے کوسوں دور جا چکا ہے۔ پر اللہ رب العزت سے اُمید ہے کہ وہ ہمیں معاف فرمائے۔ اور اِس عید الاضحٰی پر ہم قربانی کی اصل روح کو سمجھتے ہوئے خدا کی راہ میں خرچ کریں۔
Sana Ghori
About the Author: Sana Ghori Read More Articles by Sana Ghori: 317 Articles with 311984 views Currently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.