غربت ، ڈپریشن اور سیاستدان

وہ بھاگا بھاگاڈاکٹر اسحاق کے پاس گیا تھا ”ڈاکٹر صاحب میرے ابّا کو آ کر دیکھیں، ان کی طبیعت ٹھیک نہ ہے، میں آپکا کاخدمت گار رہوں گا بس آپ میرے ساتھ چلیں“۔ ڈاکٹر اس کے ساتھ چلنے کو ہرگز تیار نہ تھا، ڈاکٹر کے الفاظ وہی تھے جو وارث شاہ کی” ہیر“ میں اس بیڑی والے کے تھے جس سے رانجھے نے کہا تھا ”ابّا میاں! آپ مجھے دریا سے اس پار اتار دیں“ اس لڈن(ابّا میاں) نے جواب میں کہا ،
پیسہ کھول کے ہتھ جے دھریں میرے گودی چائیکے پار اتارنے ہاں
اتے ڈھیکیا مفت جے کن کھائیں چا بیڑیوں زمین تے مارنے ہاں
(یعنی اگر پیسہ دو تو گود میں اٹھا کر تمہیں اس پار اتار یں گے اور اگر مفت کے لیے میرے کان کھا رہے ہو تو اٹھا کر زمین پر دے ماریں گے۔)

”تم میری فیس ادا نہ کر سکو گے اس لیے میں تمہارے ساتھ نہیں جاﺅں گا“ ڈاکٹر کے یہ الفاظ سن کر اقبال ہکّا بکّا رہ گیا تھا۔

اقبال کے باپ کو فالج ہو گیا، اقبال کے کانوں میں ہر وقت ڈاکٹر کے یہی الفاظ گونجتے ”تم میری فیس ادا نہ کر سکو گے“ ۔ اسے غربت کا احساس ہونا شروع ہو گیا تھا، اب وہ دن رات پیسے کے حصول میں مگن ہو گیا تھا، وہ بھول گیا تھا کہ یہ پیسہ کون سے ذرائع وہ حاصل کر رہا تھا، آیا یہ ذرائع legal ہیں یا unlegal ۔ وہ صرف پیسہ حاصل کرنے میں مگن تھا۔ اس نے اس ناجائز مال کے ساتھ سائیکل سے موٹر سائیکل اور موٹر سائیکل سے کا رتک کا سفر طے کیا، پرانا گھر بیچا دیا، وہ کہتا تھا ”یہ بھی کوئی گھر ہے؟ یہ توقبر ہے ۔۔۔۔۔۔قبر!!!“۔ اس نے اسی نا جائز مال سے ایک بڑا محل تیار کروایا، جس کے فرنٹ (front) پر لکھوایا۔۔۔”ھذا من فضل ربی“۔

ہمارے ارد گرد اس قسم کے بہت سے واقعات رونما ہو چکے ہیں اور ہو رہے ہیں، کوئی غریبی دور کرنے کے لیے غلط ذرائع کا سہارا لے کر امیر ہو تا ہے تو کوئی غریبی دور کرنے کے لیے اپنی اولاد کی بولی لگا تا ہے، اگر اپنے سے کم تر کا خیال رکھنا شروع کر دیا جائے تو معاشرہ خوشحالی کی طرف گامزن ہو سکتا ہے،اقبال روکھی سوکھی کھاتا تھا مگر حلال ذرائع سے کماتا اور کھاتا تھا، ڈاکٹر کی اس نیچ حرکت نے اسے unlegal ذرائع سے مال حاصل کرنے کی طرف مائل کیا۔

ایسے واقعات روزانہ اخبار کی سرخیوں کی زینت بڑھاتے رہتے ہیں کہ فلاں آدمی نے غربت سے تنگ آکر خودکشی کر لی، جب انسان کی احساسات دب جائیں، اس کے حصّے وہ آئے جو اس کا نا پسند ہے،اس کی feelings دب جائیں ، depressed ہو جائیں، تو وہ ڈپریشن (depression)کا شکار ہو جاتا ہے اور ڈپریشن بزدلی کی طرف مائل کرتی ہے، انسان خودکشی کی طرف قدم بڑھاتا ہے۔

کسی کم تر کے منہ پر اسے کم تر کہہ دیا جائے تو وہ کم تر ڈپریشن کا شکار ہونے لگتا ہے۔ غریب تو ڈپریشن کا شکار ہو جاتا ہے مگر امیر غریبوں سے قدرے زیادہ اس بیماری کے دام میں آتے ہیں۔

اللہ کسی کو دے کر آزماتا ہے تو کسی سے چھین کر۔۔۔۔۔۔وہ غربت جو اللہ کا قرب عطا کر ے وہ اللہ کی رحمت ہے اور جو اللہ سے دور کر دے وہ عذاب ہے۔۔۔۔۔ہر پیغمبر ؑ پر غربت آئی۔

دنیا داری کے کام کبھی ختم نہیں ہوتے، پیسہ ہر درد کی دوا نہیں، پیسہ سے کپڑے، جوتی، جیولری، کار اور مکان وغیرہ تو خریدے جا سکتے ہیں مگر اس مکان کا سکون کہاں سے خریدا جائے؟ ساری زندگی انسان اپنی نالائق اولاد کے لیے پائی پائی جوڑتا ہے، پھر اسکی وہی اولاد ۔۔۔۔۔۔نالائق اولاد جب وہ بوڑھا ہو جاتا ہے تو اسے old house بھیج دیتی ہے۔

دعا ہے خالق سب کو سکون عطاءکرے، ڈپریشن جیسی بری بیماری سے بچائے۔تمام سیاستدان خوش و خرم ہیں اور ساری قوم ڈپریشن میں مبتلا ہے، کیا ان سیاستدان ڈپریشن میں مبتلا نہیں ہوتے؟؟؟