حضرت مولانا محمد یوسف کاندھلوی
ؒ اپنی تصنیف حیات الصحابہ ؒ میں تحریر کرتے ہیں کہ حضرت انس بن مالک ؓ
فرماتے ہیں کہ حضورنے لوگوں کو روزہ رکھنے کا حکم دیا اور فرمایا مجھ سے
اجازت لیے بغیر کوئی بھی روزہ نہ کھولے چنانچہ تمام لوگوں نے روزہ رکھ لیا
شام کولوگ آکر روزہ کھولنے کی اجازت مانگنے لگے ایک آدمی آکر اجازت
مانگتااور کہتا یارسول اللہ میں نے آج سارادن روزہ رکھا اب آپ مجھے اجازت
دے دیں تاکہ میں روزہ کھول لوں اتنے میں ایک آدمی نے آکر کہاکہ یارسول اللہ
آپ کے گھر کی دونوجوان عورتوں نے آج سارادن روزہ رکھا اور ان دونوں کو خود
آکر آپ سے اجازت لینے سے شرم آرہی ہے آپ انہیں بھی اجازت دیں دیں تاکہ وہ
بھی روزہ کھول لیں آپ نے اس آدمی سے منہ پھیر لیا اس نے سامنے آکر پھر بات
پیش کی حضور پھر منہ پھیر لی اُس نے تیسری مرتبہ اپنی بات پیش کی حضور نے
پھر منہ پھیر لیا اُس نے چوتھی مرتبہ بات پیش کی تو اُس سے منہ پھیر کر
حضور نے فرمایا اُن دونوں نے روزہ نہیں رکھا اور اُس آدمی کا روزہ کیسے
ہوسکتاہے جو سارا دن لوگوں کاگوشت کھاتارہاہو جاﺅاوردونوں سے کہو کہ اگر ان
دونوں کا روزہ ہے تو وہ قے کریں اس آدمی نے جاکر دونوں عورتوں کو حضور کی
بات بتائی تو ان دونوں نے قے کی تو واقعی ہر ایک قے میں خون کا جما ہوا
ٹکڑا نکلا اُس آدمی نے آکر حضور کو بتایا حضور نے فرمایا اُس ذات کی قسم جس
کے قبضہ میں میری جان ہے اگر خون کے یہ ٹکڑے اُن کے پیٹ میں رہ جاتے تو
دونوں کو آگ کھاتی ۔
قارئین آج کے کالم کے عنوان سے آپ بخوبی اندازہ لگاچکے ہوں گے کہ ڈاکٹرز کے
حوالے سے کالمز کی سیریز کا یہ اگلاقدم ہے آج ہم ڈاکٹر وقار حیدر کی بتلائی
گئی مکمل کہانی کی روشنی میں اس تنازعے کا حل تلاش کرنے کی کوشش کریں گے
سینئر ڈاکٹرز کی ترقی کے حوالے سے پورے آزادکشمیر کے ڈاکٹرز میں اس وقت
شدید ترین ہیجانی کیفیت ہے اور یہ کیفیت کتنی جان لیو ا ہوتی ہے یہ کوئی اس
عاشقِ بیتاب سے پوچھے جو مجنوں بن کر اپنی لیلٰی کا انتظار کررہاہوتاہے
آزادکشمیر کے توہ تمام سپشلسٹ ڈاکٹرز جنہوں نے گریڈنگ کررکھی ہے ،ڈپلومہ
کررکھاہے یا فیلوشپ کرنے کے بعد بڑی بڑی ڈگریاں ایف سی پی ایس ،ایف آرسی
ایس ،ایم آر سی پی ،ایم سی پی ایس ،ایم فل یا ایم ایس کررکھا ہے وہ تمام
لوگ دودہائیوں سے زائد کی سروس کرنے کے بعد اب انتظار کررہے تھے کہ محکمہ
صحت انہیں 20ویں گریڈ میں پروموٹ کرے اور وہ لوگ عزت اور وقار کے ساتھ
ریٹائرمنٹ حاصل کرکے اپنی زندگی کی باقی حصہ انا او رخودداری کے ساتھ گزار
سکیں لیکن ایسا نہ ہوسکا اور اختلافات کی ایک ایسی آندھی ترقی کے اس خواب
کو اپنی لپیٹ میں لے چکی ہے جس سے ابھی تک تو سینئر ڈاکٹرز متاثر ہورہے ہیں
اگلے مرحلے میں جونیئر ڈاکٹرز بھی بددلی کا شکار ہوں گے اور آخر کار یاتو
ایک خوفناک قسم کی ہڑتال اس تنازعے سے جنم لے گی اور یا پھر پورے آزادکشمیر
کے سینئر اور نوجوان ڈاکٹرز یہ ملک چھوڑ کر برطانیہ ،امریکہ ،کینڈا ،سعودی
عرب ،آسٹریلیا ،مشرق وسطیٰ اور پوری دنیا کے دیگر ممالک میں ہجرت کرجائیں
گے اللہ نہ کرے کہ ہم وہ دن دیکھیں اور خدا کرے کہ یہ مسئلہ خوش اسلوبی سے
حل ہوجائے ۔
قارئین ڈاکٹر وقار حیدر نے نشتر میڈیکل کالج ملتان سے ایم بی بی ایس کی
ڈگری حاصل کرنے کے بعد 1986ءمیں محکمہ صحت آزادکشمیر میں ملازمت اختیار کی
اور مظفرآباد میں سرکاری ہسپتال کو جوائن کیا 1989ءمیں ڈاکٹر وقار نے برٹش
کونسل کی طرف سے آفر کیے گئے اوپن سکالر شپ کو میرٹ پر حاصل کیااور لندن
یونیورسٹی سے ڈپلومہ ان کارڈیالوجی کرنے کیلئے برطانیہ چلے گئے دوسالہ
تربیت حاصل کرنے ک بعد انہوںنے 1992ءمیں وطن کی راہ لی اور 1993ءمیںجب
کارڈیالوجسٹ کی پوسٹ آئی تو اُس پر ان کی سلیکشن ہوگئی اُن کی تعیناتی
میرپور ہوئی لیکن چونکہ میرپور میں کارڈیالوجی کا سیٹ اپ موجود نہیں تھا یہ
سیٹ اپ بعدازاں نفیس گروپ برطانیہ کے سربراہ حاجی محمد سلیم نے 2002ءمیں
کشمیر انسٹیٹیوٹ آف کارڈیالوجی کے نام سے قائم کیا جو اب 150بستروں پر
مشتمل مکمل کارڈیالوجی ہسپتال کی شکل اختیار کرنے جارہاہے ڈاکٹر وقار کو
مظفرآباد میں ہی سی ایم ایچ میں اٹیچمنٹ دیکر 18ویں گریڈ میں ترقی دے دی
گئی ڈاکٹر وقار کے اندر علم کی طلب کچھ زیادہ ہی تھی اس لیے بقول ان کے
انہوںنے 2000ءمیں اپنا مکان گروی رکھ کر 16لاکھ روپے قرضہ لیا اور ذاتی خرچ
پر ایم ایس ان کارڈیالوجی کرنے کیلئے Imperial College of Medicine لندن
چلے گئے 2002ءمیں واپس آئے اور پاکستان میڈیکل ایسوسی ایشن ضلع مظفرآباد کے
صدر منتخب ہوئے اور اس کے بعد ایک طویل جدوجہد کی جس کے نتیجہ میں جنرل
بیوروکریسی اور محکمہ صحت کی بیوروکریسی نے گریڈ 19کی 29اور گریڈ 20ایک
پوسٹ تخلیق کی ڈاکٹر وقار کا یہ کہنا ہے کہ وہ تمام لوگ جو اس وقت یک زبان
ہوکر میرے خلاف مختلف باتیں کررہے ہیں درحقیقت وہ میری ہی جدوجہد کے نتیجہ
میں مارچ 2003ءمیں گریڈ 19پر ترقیاب ہوئے تھے اس وقت کئی لوگوں نے گریڈنگ
کیے ہوئے ڈاکٹرز پر مقدمہ کردیا جن میں میرپور سے تعلق رکھنے والے ہر دل
عزیز ڈاکٹر اورنگزیب عالمگیر ،ڈاکٹر انور ،ڈاکٹر خواجہ بشیر اور راولاکوٹ
کے ڈاکٹر خالق شاہین سمیت دیگر شامل تھے ان تمام ڈاکٹرز کا مقدمہ میں نے
لڑا ڈاکٹر وقار کہتے ہیں کہ میں نے مظفرآباد میں خود وکیل ہائر کیا اور
سروسز ٹریبونل نے آخر کار گریڈنگ کیے ہوئے ڈاکٹرز کے حق میں فیصلہ دیا کہ
یہ لوگ گریڈ 19میں درست ترقیاب ہوئے ہیں ڈاکٹر وقار بھی مارچ 2003ءمیں ان
تمام لوگوں کے ساتھ گریڈ 19میں ترقی پاگئے اس وقت سے لیکر اب 2011میں گریڈ
20کی 13پوسٹیں تخلیق کی گئیں اور ان کی تخلیق بھی کسی لطیفے سے کم نہیں
ڈاکٹر وقار کا یہ کہنا ہے کہ میں نے یہ موقف پیش کیاتھا کہ وہ تمام لوگ
جنہوںنے 25سال سے زیادہ سروسز کی ہے ان سب کو 20واں گریڈ دے دیاجائے لیکن
ایسا نہ کیاگیا ڈاکٹر وقار کا یہ کہناہے کہ سروس رولز 98کے مطابق گریڈ
20میں ترقی کیلئے سنیارٹی کوئی معیار نہیں بلکہ فیلوشپ اور ہائیر کوالفکیشن
ہی سب سے بڑا معیار ہے جب کہ نئے سروس رول کے مطابق 32نمبر ز سنیارٹی کے
ہیں اور 32,32نمبرز ہی اے سی آر اور کوالفکیشن کے ہیں جبکہ چار نمبر سلیکشن
بورڈ کے پاس ہیں ڈاکٹر وقار کی دی گئی معلومات کے مطابق کوالفیکشن کے نمبرز
پاکستان میڈیکل اینڈ ڈینٹل ایسوسی ایشن نے درج ذیل مقرر کیے ہیں ۔
1۔ڈپلومہ 8نمبرز
2۔ایم سی پی ایس 16نمبرز
3۔ایم ایس ،ایم فل 24نمبرز
4۔ایف سی پی ایس 26نمبرز
5۔ڈبل ایف سی پی ایس 32نمبرز
قارئین ڈاکٹروقار حیدر نے ہمیں ٹیلی فون کرکے جو اپنا موقف پیش کیا وہ ہم
نے آپ کے سامنے رکھاہے اس وقت وہ تمام ڈاکٹرز جو گریڈ 20کیلئے کوالیفائی
کرتے تھے ان کی تعداد 40ہے ان میں سے 6ڈاکٹرز ریٹائرڈ ہوچکے ہیں اور نئی
لسٹ کے مطابق 22ڈاکٹرز کیلئے پوسٹیں موجود ہیں اور ڈاکٹر وقار حیدر کانمبر
22واں ہے ڈاکٹر وقار حیدر نے اس تمام مسئلے کا ایک بہت دلچسپ اور قابل عمل
حل پیش کیا انہوںنے کہا کہ اگر صرف 14مزید پوسٹیں گریڈ 20کی تخلیق کردی
جائیں تو تمام کا تمام جھگڑا ختم ہوسکتاہے ۔
قارئین ہمیں یہ کہنے میں کوئی شک وشبہ نہیں ہے کہ عموماً ہمارے ملک میں
جنرل بیوروکریسی اور محکمہ صحت کی بیوروکریسی برٹش راج کے سنہری اصول
”Divide and Rule“پر عمل کرتی ہیں آزادکشمیر میں صورت حال بہتر ہے چیف
سیکرٹری ارباب شہزاد اور وزیر اعظم آزادکشمیر چوہدری عبدالمجید سے ہم
التماس کرتے ہیں کہ ایک ہی مرتبہ ایک بڑے جھگڑے کو ختم کرنے کیلئے صرف
14پوسٹیں مزید تخلیق کردی جائیں اور ان تمام سینئر لوگوں کو جنہوںنے گریڈنگ
کررکھی ہے ،ڈپلومہ کررکھاہے یا جو فیلوشپ ہولڈر ز ہیں انکو عزت کے سا تھ
ترقیاب کردیاجائے اور آئندہ کیلئے ایک مثال قائم کردی جائے کہ کسی کی حق
تلفی نہیں کی جائے اور نئے سروس رولز نئے بھرتی ہونے والے ڈاکٹرز سے
باقاعدہ کنٹریکٹ سائن کرتے ہوئے ڈسکس کرلیے جائیں ہمیں امید ہے کہ اس طریقے
سے یہ تمام جھگڑا ختم ہوسکتاہے ۔
آخر میں حسب روایت لطیفہ پیش خدمت ہے
ایک سردار جی نے جب نیا نیا موبائل فون آیا تو دوکان پر جاکر خوشی خوشی
موبائل خریدااور اس کے ساتھ ایک قینچی بھی خرید لی
کسی نے پوچھا ”سردار جی خیر ہووے یہ کیا سائنس ہے ؟“
سردار جی نے سینہ پھلا کر جوا ب دیا
”او یار کبھی کبھی کال کاٹنی بھی پڑ سکتی ہے “
قارئین ہم جنرل بیوروکریسی اور محکمہ صحت کی بیوروکریسی سے مودبانہ گزارش
کرتے ہیں کہ سردار جی والی سائنس ملک کے سب سے پڑھے لکھے اور لائق ترین
لوگوں پر اپلائی کرنے سے بازر ہیں اس سے خرابی پیدا ہوگی مہربانی کرکے 40کے
40ڈاکٹرز کو 20واں گریڈ دے کر نفرتوں اور غیبتوں کی اس آگ کو بجھا دیاجائے
۔ |