علم سب کیلئے

سرکاردوعالم پر اترنے والی پہلی وحی کا پہلا لفظ”اقرائ“ہے جس کے معنی”پڑھ“ہیں لیکن سب جانتے ہیں کہ حضوراکرم اُمی تھے یعنی آپ کو پڑھنا لکھنا نہیں آتا تھاپھرآخر آپ پرپہلالفظ”اقرائ“ یعنی ”پڑھ“کیوں وحی کیا گیا ۔اس پوائنٹ پر غوروفکر کریں تو پتہ چلتا ہے کہ اقراءکے معنی صرف پڑھنا ہی نہیں بلکہ سیکھنا(to learn) جاننا(to find out) کھوجنا(to dig out) تلاش کرنا(to search) اور ریسرچ بھی ہیں۔

علم کے معنی ۔۔۔۔۔۔۔۔جاننا،آگاہی،واقفیت،دانائی،دانش،فن،ہنر اور جوہرکے ہیں اور انسانی تاریخ کے مطالعہ سے پتہ چلتا ہے کہ علم کسی گروہ طبقہ یا قوم کی میراث نہیں رہا علم انسانی ذہن کے سوئے ہوئے خلیات کو بیدار کرتا ہے اور انسان کو معاشرے میں عزت وقارعطا کرتا ہے۔علم کا حصول ترقی کا راستہ ہے جبکہ جہالت تنزلی کی طرف لے جاتی ہے۔علم آزادی عطا کرتا ہے جہالت غلامی ومحکومی کی زنجیروں میں جکڑتی ہے علم جنت ہے اور جہالت جہنم ہے علم خدا ہے اور خدا علم ہے۔سرکاردوعالم کی حدیث مبارکہ ہے”علم حاصل کرو خواہ اس کیلئے تمہیں چین ہی کیوں نہ جانا پڑے“ ۔ سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ کیا اس زمانے میں چین میں قرآن وحدیث کا دینی علم دیا جا رہا تھا؟ نہیں بلکہ اصل بات یہ تھی کہ اس وقت چین علم وفن میں اہل عرب کے مقابلے میں زیادہ آگے تھا اگر اسلام صرف دینی علوم سیکھنے کا درس دیتا تو سرکاردوعالم حصول علم کیلئے چین جانے کا کیوں کہتے؟کیا قرآن حدیث فقہ اور دیگر دینی علوم حاصل کرنے والا عالم محض دینی علوم کی مدد سے ایٹم بم،میزائل،راکٹ،سٹیلائٹ،کمپیوٹر،ٹی وی موبائل فون اور دیگر جدید اشیاءبنا سکتا ہے؟کیا صرف دینی علوم حاصل کر کے کوئی قوم جدید ٹیکنالوجی حاصل کر سکتی ہے؟ہمیں یہ سوچنا چاہیے کہ سپرپاورز ممالک کے پاس جو جدید ٹیکنالوجی ایٹم بم،کروزمیزائل جدید طیارے،اپاجی ہیلی کاپٹر اور جدید ہتھیار ہیں وہ کیا اللہ نے آسمان سے فرشتوں کے ذریعے ان کے پاس بھیجے یا انہوں نے غوروفکر کر کے جدید علوم اور ٹیکنالوجی کے میدان میں اپنی مہارت کے ذریعے یہ سب کچھ بنایا ہے؟ اور اگر وہ ممالک جدید علوم کے ذریعے یہ سب کچھ بنا کر طاقتور بن سکتے ہیں تو ہم کیوں نہیں بن سکتے؟وہ بھی تو آخر ہماری ہی طرح انسان ہیں۔

قرآن مجید میں اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ ”ہم نے زمین اور آسمان کو مسخر کر دیا اور اس میں نشانیاں ہیں علم والوں کیلئے“اس آیت مبارکہ میں یہ نہیں کہا گیا کہ ”نشانیاں ہیں مسلمانوں کیلئے “۔اس آیت مبارکہ میں پوشیدہ درس پر غورکرتے ہوئے جب ہم زمین کو کھودیں گے تو ہمیں اس بات کا علم حاصل ہو گا کہ زمین کے اندرکون کونسی معدنیات،کون کونسی گیس اور پوشیدہ خرانے موجود ہیں اور ہمیں معلوم ہو گا کہ اس میں لوہا،تانبہ اور سونا ہے اور لوہے سے کیا کیا سامان اوزاریا ہتھیار بنائے جا سکتے ہیں جب غوروفکرکا یہ عمل جاری رہتا ہے تو اسی لوہے سے طاقت کے حصول کیلئے بڑے بڑے میزائل،ٹینک، توپیں اور جہاز بن سکتے ہیں۔جنہوں نے ان آیتوں کی روح کے مطابق عمل کرتے ہوئے غوروفکر کیا،جانا،سیکھا،کھوجا،علم کے چھپے خزانوں کو نکالا ریسرچ کی اور کفر کے فتوئے لگانے کے بجائے غور کیا کہ کوئی بات کیوں کی جا رہی ہے وہ آئن سٹائن اور نیوٹن بن گئے ۔امریکہ،برطانیہ،چین،روس،جاپان اور یورپ بن گئے اور جنہوں نے غوروفکر نہیں کیا وہ 57سے زائد اسلامی ممالک بن گئے۔جو آ ج یورپ اورامریکہ کے محتاج ہیں اور اس کا نتیجہ یہ ہے کہ کسی ملک کا ہاتھ اللہ کے آگے تو نہیں پھیلتا بلکہ آئی۔ایم۔ایف اور ورلڈ بینک کے سامنے پھیلتا رہتا ہے۔اسلامی ممالک یا تو ترقی پذیر(Under Develop) ہیں اور اگر بعض اسلامی ممالک خصوصاًعرب ممالک میں جو ترقی وخوشحالی نظرآتی ہے اس کی وجہ علم کا حصول نہیں بلکہ قدرتی طور پر ملنے والی تیل کی دولت ہے۔تیل کی دولت سے ان اسلامی ممالک میں خوشحالی تو آگئی لیکن یہ ترقی یافتہ ممالک کی صفوں میں برابر نہیں کھڑے اگر کسی قوم یا اقوام کے پاس دولت بے پناہ ہو مگر علم نہ ہو تو ایسی دولت علم سے محروم قوموں کو بچا نہیں سکتی علم کا حصول اور ترقی لازم وملزوم ہیں۔

سرکاردوعالم نے فرمایا کہ ”علم حاصل کرنا ہر مسلمان مردوعورت پر فرض ہے“۔بدقسمتی سے پاکستان میں مذہبی انتہاپسند عورتوں کی تعلیم کے خلاف ہیں اور اپنے اس عمل کو اسلامی بتاتے ہیں جو اسلامی تعلیمات کے سراسرخلاف ہے ۔مذہبی انتہا پسند عورتوں کے کام کرنے کے خلاف ہیں تاریخ اسلام کا مطالعہ کریں تو پتہ چلتا ہے کہ سرکاردوعالم کی پہلی اہلیہ حضرت خدیجہؓ تجارت کرتی تھیں اور مسلمان خواتین گھڑ سواری بھی کرتی تھیں اور آج خواتین کار ڈرائیو کرتی ہیں تو یہ کیسے غیر اسلامی ہے؟یہ مسلمہ حقیقت ہے کہ عِلم سے عَلم(پرچم)بلند ہوتا ہے عَلم(پرچم) کسی بھی ملک اور قوم کی شناخت اور پہچان ہوتا ہے اور پرچم کو قوم کی عزت وناموس کے اعتبار سے بڑی اہمیت حاصل ہوتی ہے۔جنگوں میں فتح یا شکست دو فریقین میں سے کسی ایک کا مقدر ہوتی ہے چنانچہ جہاں علم ہوتا وہاں عَلم بلند ہوتا ہے اور جہاں علم نہیں ہوتا وہاں کے عَلم گر جایا کرتے ہیں۔جو قومیں علم وآگاہی میں دوسروں کے آگے ہوتی ہیں ان کا عَلم(پرچم) ہمیشہ بلند رہتا ہے اور جو قومیں علم وآگاہی میں کمزور یا اس سے ناواقف رہی ہوں ان کا عَلم(پرچم) گر جاتا ہے۔

اب وقت آگیا ہے کہ ارکان پارلیمنٹ حقیقت پسندی اور عملیت پسندی کا راستہ اختیار کرتے ہوئے ملک سے دوہرنظام تعلیم ختم کرے اور ملک کے چھوٹے شہروں قصبوں اور دیہاتوں میں بھی اعلیٰ معیار کے تعلیمی ادارے قائم کریں اور تعلیم کے بجٹ میں فی الفور اضافہ کریں۔جو ملک عسکری شعبہ کیلئے بجٹ کا بڑا حصہ رکھتا ہو مگر سائنس وٹیکنالوجی کے جدید علوم سے آشنا نہ ہو ایسا ملک عسکری میدان میں کتنا ہی طاقتور ہو وہ ترقی یافتہ ممالک کا مقابلہ نہیں کر سکتا۔پاکستان بھر کی یونیورسٹیوں اور کالجوں کے طلباءوطالبات کو ملک میں رائج دوہرے نظام تعلیم اور تمام تردشواریوں کے باوجود جدید علوم میں اعلیٰ تعلیم کے حصول کیلئے بھرپورکوشش کرنی ہو گی اور اس بات پر یقین رکھنا ہو گا کہ قوموں کی تقدیر جہد مسلسل کے ذریعے ہی بدل سکتی ہے۔متحدہ قومی موومنٹ(ایم کیوایم) کے بانی وقائد جناب الطاف حسین کے نظریہ حقیقت پسندی اور عملیت پسندی پر عمل کر کے پاکستان کو انٹرنیشنل کمیونٹی میں باوقار مقام دلوایا جا سکتا ہے۔جناب الطاف حسین کا مشن پاکستان کی بقاءوسلامتی اور ترقی وخوشحالی کا مشن ہے اس لیے پاکستان بھر کے نوجوانوں بالخصوص طلباءوطالبات کو آگے بڑھ کر جناب الطاف حسین کا ساتھ دینا ہو گا کیونکہ الطاف حسین سے محبت پاکستان سے محبت ہے۔
Rao Muhammad Khalid
About the Author: Rao Muhammad Khalid Read More Articles by Rao Muhammad Khalid: 12 Articles with 15311 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.