بیٹھک اسکول

کسی بھی ملک وقوم کی ترقی اور تبدیلی میں تعلیم کاکرداربنیادی ہوتا ہے ۔مگر بدقسمتی سے ہمارے ملک پاکستان میں اس جانب ہر دور حکومت میں نہایت ہی معمولی توجہ دی گئی ہے ۔پاکستان میں غربت اپنی انتہا کو پہنچ رہی ہے جبکہ مہنگائی نے عوام کے منہ سے نوالہ تک چھین لیا ہے ایک ایسے حالات میں میں غریب تو کیا متوسط طبقے کے لئے بھی اپنی بچوں کو تعلیم کے زیور سے آراستہ کرنا جوئے شیر لانے کے مترادف ہوچکا ہے۔

ایک ایسے مایوس کن اور مشکل حالات میں پاکستان کی چند باہمت خواتین نے ایک عزم کیا اور1996ءمیں سوسائٹی فار ایجوکیشنل ویلفیر کی بنیاد رکھی گئی ۔اس ویلفیئر ادارے کی چھتری تلے ایک اسکول قائم کیاگیا جس کا نام ”بیٹھک اسکول“ رکھا گیا۔پاکستان کے سب سے بڑی شہر کراچی کے مضافاتی علاقے میں کھلنے والے ایک ”بیٹھک اسکول“ میں کرسیاں نہیں تھیں ۔ایک کمر ے پر مشتمل اس ”بیٹھک اسکول “ میں دریاں بچھادی گئیں۔چند باہمت خواتین نے چند روپوں کی مدد سے اسکول کی بنیاد ڈال دی۔کراچی یونیورسٹی سے چند نوجوان طلبہ اور طالبات اٹھے اور ان اسکولوں میں غریب بچوں اور بچیوں کو تعلیم دینے لگے۔بیٹھک اسکول کے لئے کام کرنے والے کسی فرد کامطمع نظر پیسہ نہ تھا بلکہ محض جذبہ حب الوطنی اور اسلام سے لگاﺅ نے انہیں اس مشن میں اپنا کردار ادا کرنے کےلئے تیار کیا۔

کراچی سے بیٹھک اسکول کے لئے کام کرنے والی ایک خاتون تسنیم شیخ نے ایک صاحب کے ذریعے مجھے اس اسکول کا تعارفی کتابچہ بھیجا ۔میں نے اس کتابچے کا مطالعہ کیا تو معلوم ہوا کہ دنیا کی آنکھوں سے اوجھل ایسے ادارے اپنی مدد آپ کے تحت ملک کی کتنی بڑی خدمت کررہے ہیں۔سوسائٹی فار ایجوکیشن ویلفئر کی صدر طیبہ عاطف نے نہایت محنت سے اس بیٹھک اسکول کو قومی معیار کے اسکول کے برابر لاکھڑا کیا۔اسکول کے لئے کام کرنے والی ان خواتین نے مغرب کی اس سوچ اور پراپیگنڈا کو غلط ثابت کردیا کہ مشرقی معاشرے اور اسلام میں خواتین کو باہر نکل کر کام نہیں کرنے دیا جاتا۔ان باپردہ خواتین نے ملک کے مختلف شہروں میں بیٹھک اسکول کی برانچیں کھول ڈالیں۔1996ءسے اب تک ملک بھر میں ایک سو چونتیس بیٹھک اسکول کھولے جاچکے ہیں۔کراچی میں بیٹھک اسکول کی تعداد 52ہے ،جبکہ لاہور 13،حیدرآباد3، اسلام آباد6،سوات 8سمیت ملک کے تقریبا ہر چھوٹے بڑے شہر میں اسکول کی برانچیں یا کسی اسکول کے ساتھ اشتراک موجود ہے۔رواں برس بیٹھک اسکول میں پڑھنے والے بچوں کی تعدادچودہ ہزار چار سو ہے۔کل 615اساتذہ اسکول میں تعلیم دینے کے فرائض انجام دیتے ہیں (بیشتر مفت پڑھاتے ہیں)۔ہر اسکول میں طلبہ کی تعداد کا تناسب 100ہے۔اسکول میں KG1میں داخلے کے لئے طالب علم کی عمر 4سال رکھی گئی ہے۔بیٹھک اسکول کے تحت تقریبا پندرہ کے قریب” صنعتی گھر“ بھی چل رہے ہیں جن میں طلبہ وطالبات کو ٹیکنیکل تعلیم سمیت سلائی کڑھائی کا ہنر بھی سیکھا یا جاتا ہے۔

بیٹھک اسکول کو چلانے والا فلاحی ادارہ سوسائٹی فار ایجوکیشن ویلفیئرSEW 2000 ءمیں غیر فائدہ مند ادارے کے طور پر منظور کیا جاچکا ہے۔بیٹھک اسکول کا مقصد ان طلبہ وطالبات کو بھی ایک اچھے اسکول کے معیار کی تعلیم دینا ہے جو غربت کے باعث ان رنگ برنگے اسکولوں کو محض باہر سے ہی دیکھ سکتے ہیں یا پھر اگر اسکول میں داخل بھی ہوتے ہیں تو ملازم کی حیثیت سے داخل ہوتے ہیں ناکے وہ تعلیم کے لئے وہاں جاسکیں۔

بیٹھک اسکول میں 80فیصد تعداد لڑکیوں کی ہے جبکہ اساتذہ بھی خواتین یا جامعات سے فارغ طالبات ہی ہیں۔بیٹھک اسکول کو مختلف لوگوں کی جانب سے امداد کے باعث چلانا کافی آسان ہوا تاہم نہایت شفاف انداز میں ان امدادی فنڈز کو استعمال کرنا یقینا ان خواتین کی صلاحیت کا ثبوت ہے۔

بیٹھک اسکول کا نام سن کر دماغ میں ایک ایسے اسکول کا تصور آتا ہے جہاں نہ کرسیاں ہوں گی اور نہ ہی بچوں کے پاس یونیفارم مگر اس اسکول میں دری سے شروع کئے جانے والا سفر اب نہایت خوبصورت اورمعیاری میزکرسیوں تک پہنچ گیا ہے اور بچوں کو باقاعدہ اسکول کی جانب سے یونیفارم بھی فراہم کیا جاتا ہے ساتھ ہی کتابیں اور کاپیاں بھی اسکول کے بچوں کے لئے بالکل مفت ہیں۔ بیٹھک اسکول اپنے بچوں سے 15روپے فیس وصول کرتاہے جس کے بارے میں اسکول انتظامیہ کا کہنا ہے کہ وہ چاہتے ہیں طلبہ محسوس کریں کہ وہ پیسے دے کر پڑھ رہے ہیں جبکہ ان کے اندر پیسے کی قدر بھی پیدا ہو۔

2009ءمیں آنے والے سیلاب کے بعد بیٹھک اسکول نے سوات سمیت مختلف علاقوں میں سیلاب متاثرین کے لئے بیٹھک اسکول اور ٹینٹ اسکول قائم کئے ۔جبکہ وزیرستان میں فوجی آپریشن کے بعد بڑی تعداد میں نقل مکانی کرکے کیمپوں میںمنتقل ہونے والے بچوں کے لئے بھی سوات کے مختلف اضلاع میں بیٹھک اور ٹینٹ اسکول قائم کئے گئے۔بیٹھک اسکول کے اس تعارفی کتابچے کے مطابق سیلاب نے 11بیٹھک اسکول اور 50علاقائی اسکول تباہ کرڈالے ۔

بیٹھک اسکول کے تحت محض نصابی تعلیم ہی نہیں دی جاتی بلکہ اسکول باقائدہ اپنے طلبہ کی غیر نصابی سرگرمیوں میں بھی حوصلہ افزائی کرتا ہے۔2009ءمیں کراچی کے عسکری پارک میں آئی این ٹی کے تحت ہونے والے ”اسٹوڈنٹ گالا 2009“ میں بیٹھک اسکول نے بھرپور شرکت کی۔اسٹوڈنٹ گالا میں لانڈھی کے بیٹھک اسکول کی طالبہ مدیحہ محمود نے تقریری مقابلے میں پہلی پوزیشن حاصل کی۔

بیٹھک اسکول کی اساتذہ کو باقائدہ ٹریننگ دی جاتی ہے اور ملک کے مایہ ناز اداروں سے ان کی تربیت کی جاتی ہے۔بیٹھک اسکول نے اساتذہ کے لئے ”کیپسٹی بلڈنگ پروگرام“ متعارف کرایا ہے ۔جس میں اساتذہ کا کردار،نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کا طریقہ تعلیم،بچوں کی ذہنیت اور کلاس روم مینجمنٹ کے پروگرام شامل ہیں ۔پورے پاکستان کے اساتذہ کے لئے ایک تربیتی کورس 27جولائی تا 29جولائی کراچی میں منعقد کیاگیا جس میں 50اساتذہ نے شرکت کی جنہیں پڑھانے کی اعلیٰ تربیت دی گئی۔اس مقصد کے لئے ادارے نے معروف اداروں ٹی آر سی،پی ای ایف(پنجاب ایجوکیشنل فاﺅنڈیشن) اور ای آر آئی کی خدمات حاصل کیں تھیں۔ پنجاب یونیورسٹی کے بھی مختلف طلبہ وطالبا ت نے بیٹھک اسکول میں اپنی خدمات دینے کا عزم ظاہر کیا ہے۔جبکہ آئی بی اے کے طلبہ نے بھی بیٹھک اسکول کے سی سی ڈی پروگرام میں بھرپور مدد کا عہد کیا ہے۔

میں نے جب بیٹھک اسکول کی کارکردگی کا جائزہ لینا شروع کیا تو معلوم ہوا کہ اتنے اعلیٰ درجے کا فلاحی ادارہ کسی بھی دنیاوی غرض کے بغیر اتنے منظم انداز میں چل رہا جس کی مثال ملنا مشکل ہے۔ بیٹھک اسکول کی کارکردگی اور کارنامے اتنے طویل اور متاثر کن ہیں کہ اگر لکھنے لگوں تو مزید کئی صفحات درکار ہوں۔اس ادارے کی سب بڑی سچائی یہ ہے کہ اس کو چلانے والی تمام خواتین ہیں۔سب اعلیٰ تعلیم یافتہ اور اسلامی طرز زندگی رکھنے والی ہیں۔جو اپنے حجاب کے ساتھ فلاحی کام میں اپنی صلاحیتوں کالوہا منوارہی ہیں۔ اس حوالے سے یقینا طیبہ عاطف صاحبہ اور دیگر میری بہنیں اور مائیں مبارک باد کی مستحق ہیں ۔ہمیں چاہیے کہ ایک محب وطن پاکستانی ہونے کے ناطے ایسے اداروں کو بھرپور مدد کریں۔قارئین اگر خود اس ادارے کے بارے میںمعلومات حاصل کرنا چاہیں تو وہ www.sewpak.comپر وزٹ کرسکتے ہیں جبکہ ادارے سے رابطے اور مدد کے لئے [email protected]پر رابطہ کیا جاسکتا ہے۔ میں نے یہ تحریر بغیر کسی لالچ اور تعلق کے محض اس لئے لکھ ڈالی کے شائد کوئی اللہ کا بندہ اس نیک کام میںمعاون ثابت ہو اور روز قیامت یہ تحریر میری نجات کا ذریعہ بن جائے۔
Mustafa Habib Siddiqui
About the Author: Mustafa Habib Siddiqui Read More Articles by Mustafa Habib Siddiqui: 2 Articles with 3048 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.