آزادی کشمیر کے بغیر پاکستان کی نامکمل شناخت

گزشتہ دنوں 27 اکتوبر کو کشمیر پر بھارتی فوجی جابرانہ قبضے اور ظالمانہ تسلط سے آزادی کے لئے تجدید عہد کے دن کے طور پر منایا گیا۔ کشمیری 27 اکتوبر کو کشمیر پر بھارتی فوجی قبضے کےخلاف ہی یوم سیاہ نہیں مناتے بلکہ مقبوضہ جموں و کشمیر میں جب 14 اگست یوم آزادی کے طور پر اور 15 اگست کو بھارت کا یوم آزادی یوم سیاہ اور 26 جنوری یوم جمہوریہ یوم بربادی کے طور پر منایا جاتا ہے تو بھارتی حکومت ہل کر رہ جاتی ہے اور دہلی پر لرزہ طاری ہو جاتا ہے۔ سو ان حالات میں ہمیں بھی بے عملی چھوڑ کر کشمیری قوم کی طرح عمل کی راہ پر چلنا ہوگا۔آج ہماری قوم اور ہمارے حکمرانوں کو اپنے دلوں کوٹٹولنا ہوگا اور اس بات کا جائزہ لینا ہوگا کہ کیا ہم اہل کشمیر کی ان توقعات پر پورا اتر رہے ہیں؟ اگر جواب ہاں میں ہے تو ہمیں یقین سے جان لینا چاہئے کہ پھر تکمیل پاکستان کی منزل دور نہیں اور اگر معاملہ اس کے برعکس ہے تو پھر ہمیں اپنی اصلاح کرنا ہوگی۔

جہاں تک کشمیری قوم کا تعلق ہے وہ قربانیاں دینے کا حق ادا کررہی ہے۔ مقبوضہ جموں و کشمیر میں شہداءکے 700 قبرستان اہل کشمیر کی جرات و استقامت، شجاعت و عظمت اور آزادی کے جذبے سے لگن کا مظہر ہے۔ ہر 10 کشمیریوں پر ایک بندوق بدست بھارتی فوجی مسلط ہے۔ اتنی کم آبادی والے خطے میں اتنی بڑی تعداد میں جدید ترین اور انتہائی خطرناک ہتھیاروں سے لیس فوجیوں کی تعیناتی کی دنیا میں اور کوئی مثال نہیں ملتی۔ کشمیری قوم نے اپنے خطے کی آزادی اور تکمیل پاکستان کے لئے جو قربانیاں دیں ان کی فہرست بہت طویل ہے۔ ایک لاکھ سے زائد کشمیری مسلمان جام شہادت نوش کرچکے ہیں۔23ہزار سے زائد خواتین بیوہ، ایک لاکھ 7ہزار 4 سو بچے یتیم اور ایک لاکھ سے زائد گھر خاکستر ہو چکے ہیں۔

ریاست جموں و کشمیر کے ایک حصے پر بھارت کا قبضہ اور مسئلہ کشمیر کا حل نہ ہونا بلاشبہ بہت بڑا المیہ، سانحہ اور احدثہ ہے۔ اس المیہ کا جو نقصان کشمیری قوم کو ہوا وہ اپنی جگہ لیکن مسئلہ کشمیر کے حل نہ ہونے کا جو نقصان پاکستان کو ہوا، ہو رہا ہے یا مستقبل میں ہو سکتا ہے وہ نقصان اتنا بڑا اور اتنا زیادہ ہے کہ اس کا تصور بھی محال ہے۔ کہا جاتا ہے کہ مملکت خداداد ”پاکستان“ کے نام میں ”ک“ کا لفظ جموں و کشمیر کی نمائندگی کرتا ہے۔ سوال یہ ہے کہ وہ جموں و کشمیر کہاں ہے جس کا ”ک“ پاکستان کے نام کا حصہ ہے۔ جب ہم اپنے نقشے، جغرافیے پر نظر ڈالتے ہیں تو ہمیں جموں و کشمیر کا 50513 مربع میل علاقہ بھارت کے قبضہ و تسلط میں نظر آتا ہے اور 65 سال گزرنے کے باوجود کشمیر تصفیہ طلب مسئلہ ہے۔ مسئلہ کشمیر کے حل نہ ہونے کا مطلب یہ ہے کہ ابھی تک پاکستان اپنی جغرافیائی تشکیل و تکمیل اور پہچان و شناخت میں نامکمل ہے۔ اس اعتبار سے یہ بات ہم یوں بھی سمجھ سکتے ہیں کہ مقبوضہ جموں و کشمیر کے آزاد ہونے تک پاکستان کا نام بھی ادھورا ہے۔ اس اعتبار سے یہ بات بخوبی واضح ہو جاتی ہے کہ کشمیری قوم آزادی کی جو جدوجہد کررہی ہے وہ درحقیقت پاکستان کی جغرافیائی و نظریاتی تشکیل و تکمیل کی جدوجہد ہے۔ سو ہم پر لازم ہے کہ بحیثیت پاکستانی ہم کشمیر کی آزادی کے لئے اپنی ذمہ داری پوری کریں۔ یہ ذمہ داری ہم پر فرض بھی ہے اور قرض بھی۔ یہ ہم پر ان لاکھوں کشمیری شہداءکا قرض ہے جنہوں نے قیام پاکستان کے لئے اپنی جانیں قربان کیں۔ وہ اپنا فرض پورا کرگئے اور اب ہم نے اپنا فرض پورا کرنا ہے۔ پاکستانی حکمرانوں اور پاکستانی قوم کو اس فرض کی ادائیگی میں قعطاً پہلو تہی اور اعراض و انحراف نہیں کرنا چاہئے۔ اس لئے کہ یہ فرض دنیا نے سلامتی کونسل کے ذریعے پاکستان کو سونپا ہے اور سلامتی کونسل نے پاکستان کو مسئلہ کشمیر کا فریق تسلیم کررکھا ہے۔
Hashir Abdullah
About the Author: Hashir Abdullah Read More Articles by Hashir Abdullah: 9 Articles with 6775 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.