قظرہ قطرہ آنسو میری آنکھوں سے
بہہ رہے تھے ہر آنے والا دن میری زندگی میں ناکامیوں کی داستان لے کر آتا
تھا ہر پل میں خود اپنے آپ پر ماتم کناں رہتا تھا آخر کبھی تو مُجھے میری
منزل ملے گی آخر کبھی تومیری زندگی کے سیاہ باب ماضی کے کسی گمنام قبرستان
میں اپنی تاریکیوں کے ساتھ دفن ہو جائیں گے مگر ایسا ہوتا مجھے دور دور تک
دکھائی نہیں دے رہا تھا ۔آج پھر میں نوکری کے لیے در در کی ٹھوکریں کھاتا
حسب معمول ناکام و نامراد لوٹا تھا گھر کے واحد کمانے والے ابو زندگی کی
تیز دھوپ میں ہم سب کے پیٹ کے دوزخ کو بجھانے میں تھک چکے تھے اب صرف میں
ہی بدقسمت سہارا کی امید بنا ہوا تھا گھر میں میری تین بہنیں اور دوچھوٹے
بھائی اور ایک میری پیاری امی جس نے غموں کے چولہے پر دکھ کی روٹیاں پکا
پکا کر ہمیں کھلائیں تھیں اور اپنی زندگی کے دن رات ہماری پرورش میں بیتا
دئے۔
آج پھر میں جب نڈھال قدموں سے گھر میں داخل ہوا تو آج گھر میں کافی رونق
لگی ہوئی تھی پھپواور چاچو آئے ہوئے تھے اور ساتھ میں بچے بھی جنہوں نے شور
مچا مچا کر دھوم مچا رکھی تھی ۔لو جی آگیا کامران بیٹاامی نے مجھے دیکھتے
ہوئے پھپو سے کہا۔میں سیدھا پھپو اور چاچو کے پاس گیا اور اُن کی خیریت
دریافت کی اور پھپو نے میرے سر پر پیار کرتے ہوئے کہابیٹا خدا تمہیں سلامت
رکھے کافی تھکے ہوئے لگ رہے ہو جاﺅ پہلے جا کر فریش ہو جاﺅ-
امی نے میری طرف سوالیہ نظروں سے دیکھا تو میں نے جواب دیا امی جان وہ
نوکری نہیں ملی جس کا آج انٹرویو تھا وہاں پہلے ہی کوئی رکھ لیا گیا تھا ہم
سب کو تو خانہ پوری کے لیے بلایا گیا تھا ۔بیٹا کوئی بات نہیں حوصلہ نہیں
ہارتے ایک دن تجھے نوکری ضرور ملے گی آخر تو اتنا پڑھا لکھا جو ہے اتنی
ساری جماعتیں پڑھی ہیں پوری سولہ جماعتیں پڑھی ہیں تو اُن کم بختو ں کو
بتاتا کیوں نہیں کہ تو اتنا پڑھا ہوا ہے امی نے روایتی سادگی سے مجھے
کہا۔امی جان اب کی دفعہ میں ضرور اُن کو بتاﺅں گا میں نے امی کو مطمئن کرتے
ہوئے کہا اور سیدھا اپنے کمرے کی طرف جانے لگا تو بھائی کامران بھائی
کامران کہتے ہوئے بچوں نے مجھے گھیر لیا آج ہم آپ کو نہیں چھوڑیں گے آج تو
آپ ہم سب کو آئس کریم کھلائیں گے چودہ سالہ زنیر نے معصومیت سے کہا ۔ارے
بیٹا آئس کریم کھانے سے صحت خراب ہو جاتی ہے میں آپ سب کو پارک میں لے جا
کر جھولے دلواﺅں گا اور آپ سب کو اچھے اچھے کھلونے لے دوں گا مگر آج نہیں
کل کیونکہ ابھی میں کافی تھکا ہوا ہوں نا تو مجھے آرام کرنا ہے مگر بچے
میرے بہانے خوب جانتے تھے اور سب نے شور مچا لیا نہیں بھائی آپ بہت جھوٹ
بولتے ہو اتنا عرصہ سے یہ سب کہتے ہوئے آرہے ہو مگر ناآئس کریم کھلاتے ہو
اور نا ہی ہمیں کھلونے لے کر دیتے ہوبیٹا بھائی کو تنگ نہیں کرتے پھپو نے
زنیر کو ڈانٹا تو وہ مُنہ پھلا کر اپنی فوج کے ساتھ واپس چلا گیا میرے دل
میں ایک گھونسہ سا لگا کہ میرے جیسے مُفلس کی اتنی بھی اوقات نہیں کہ بچو ں
کو آئس کریم ہی لے کر دے دوں اب میں بچوں کو کیا بتاتا کہ میں تو نوکری کے
لیے انٹرویو دینے جانے کے لیے اپنے دوستوں کے ڈریس پہن کر جاتا ہوں شام تک
بچوں نے کافی دھوم مچائی اور پھر پھپو ااور چاچو چلے گئے ۔
میں حسب معمول اپنے کمرے میں قید ہو کر بند ہو کر کتابوں کو کھنگالنے لگا
مگر اب کتابوں میں لکھے الفاظ مجھے میرے مستقبل کی طرح دُھندلے دُھندے نظر
آتے تھے میں پڑھ ہی رہا تھا کہ امی کمرے میں آگئی اور میرے پاس آ کر بیٹھ
گئی اور کہا کامران بیٹے گھر کا سودا سلف ختم ہو گیا ہے پچھلی دفعہ تیری
پھپو پیسے دے گئی تھی تو کچھ گزارا ہو گیا تھا اب تیرے ابو تو بیمار ہو کر
چارپائی پر پڑے ہیں اور گھر کی کوئی آمدن نہیں ہے اگر تو کہے تو میں کسی
گھر میں کام کر لوں امی کی یہ بات سن کر مجھے ایسے لگا جیسے مجھے کسی نے
جلتی ہو آگ میں ڈال دیا ہوامی خدا کے لیے آیندہ کبھی ایسا مت کہیے گا ورنہ
میں مر جاﺅں گا میں کس لیے ہوں اتنے سارے دکھ دیکھ کر اپنا پیٹ کاٹ کاٹ کر
آپ لوگوں نے مجھے پڑھایا ہے اور اب جب میں آپ کا سہارا بننے کے اہل ہوں مگر
میں کیا کروں امی میری قسمت میرا ساتھ نہیں دیتی سات سالوں سے میں نے کوئی
جگہ نہیں چھوڑی جہاں نوکری کے لیے درخواست نہ دی ہو مگر میرے خراب نصیبوں
نے میری منزل کا گلا گھونٹ دیا ہے مگر اب مجھے مزدوری بھی کرنا پڑی تو میں
کروں گا مگر دوبارہ آپ کے مُنہ سے ایسے الفاظ نہ سنوں آپ کو تو کبھی تتی
(گرم)دھوپ نہ لگے آپ پریشان مت ہوں کل گھر کا سودا میں لے آﺅ گا آ ج کچھ
ٹیوشن کے پیسے ملے تھے میری آنکھوں سے آنسو جاری ہو گئے امی نے مجھے اپنے
گلے سے لگا لیا مجھے لگا جیسے میں کسی خوفناک طوفان سے نکل کر کسی پُرسکون
جگہ پر پہنچ گیا ہوں یہ ماں کی ممتا بھی کیا چیز ہے جس کے احساس کی خوشبو
دنیا کے غم و دکھ کے سیلاب سے نکال کر سکون کے آنگن میں لے جاتی ہے ۔
ٓآج میں جب گھر سے نکلا تو یہ مصمم ارادہ بنا کر نکلا کہ آج کچھ بھی ہو
جائے کچھ نا کچھ ضرور کرنا ہے ہر ایک دفتر میں جا کر میں کہتا کہ کوئی
نوکری ہے مگر ہر طرف سے ناں میں جواب ملتا شام کو تھک ہار کر ایک میڈیکل
سٹور کے باہر بیٹھ گیا ہاتھ میں میرے تعلیمی ڈاکومنٹس تھے جسے میں اپنی
زندگی کا سرمایہ سمجھتا تھا وہ مجھے کسی زہر کی طرح لگ رہے تھے میری نظریں
آسمان کو تک رہی تھیں اور میرے دل سے درد بھری آہ نکل رہی تھی کہ اے میرے
خدا تیرے خزانے میں کیا کمی ہے تو بادشاہ کو فقیر اور فقیر کو بادشاہ بنا
دیتا ہے تیرے سوا میرا کوئی سہارا نہیں ہے تو ہی مسب الاسباب ہے مُجھے آج
احساس ہو رہا تھا کہ لوگ خودکشی کیوں کرتے ہیں میں اُن کو پاگل سمجھتا تھا
مگر وہ پاگل نہیں ہوتے تھے وہ شاید غموں کی جنگ میں برداشت میں ناکامی کے
سبب موت کو گلے لگا کر سکون تلاش کرنے نکل جاتے تھے مگر میں اسطرح نہیں
مرنا چاہتا تھا میری موت سے میرے پورے گھر کی موت تھی اور میں ایسا بدبخت
نہیں تھا جو اپنی زندگی ختم کر کے اپنے پورے خاندان کو ختم کر دے ۔
میں اسی سوچ میں غلطاں تھا کہ اچانک میڈیکل سٹور کا دروازہ کھلا اور ایک
بڑی عمر کا آدمی جس کی شخصیت کافی باوقار لگ رہی تھی میری طرف آیا اور کہا
بیٹے آپ ٹھیک تو ہو نا ؟میں کب سے آپ کو یہاں پریشان بیٹھے دیکھ رہا ہوں
،میں نے جواب دیا ،انکل جی میں ٹھیک ہوں بس زرا تھک گیا تھا تو یہاں بیٹھ
گیا ،وہ مجھے اپنے ساتھ میڈیکل سٹور لے گئے ۔وہ میڈیکل سٹور اُن کا اپنا
ذاتی میڈیکل سٹور تھا انھوں نے مجھے پانی پلایا اور کہا بیٹا میں آپکے لیے
ایک اجنبی ہوں لیکن آپ مجھے اپنی پر ا بلم بتا دیں تو شاید آپ کا غم ہلکا
ہوجائے ۔انکل جی رزق کے حصول کے لیے ٹھوکریں کھا رہا ہوں اور شاید میری
زندگی طوفان حوادث کے تھپیڑوں میں ہچکولے کھا رہی ہے کسی بھی وقت ڈو ل کر
ڈوب سکتی ہے میرا جواب سن کر انھوں نے کہا بیٹا ایسا نہیں کہتے مایوسی آدھی
موت ہوتی ہے جب اﷲ کسی کو پیدا فرماتا ہے تو اُس کا رزق بھی پہلے لکھ دیتا
ہے اور آج تم ٹھیک جگہ پہنچے ہو میرا نام ڈاکٹر صباحت ہے اور میری کوئی
اولاد نہیں اتنے بڑے میڈیکل سٹور کو میں اکیلا چلا رہا ہوں اگر تم مناسب
سمجھوں تو اس میں میرا ہاتھ بٹاﺅں اور میں تمہیں اس کے لیے اچھا معاوضہ دوں
گا یہ سن کرمیرا دل خوشی سے جھوم اُٹھا اور میں دیوانہ وار اُن کے ساتھ بغل
گیر ہو کر اُن کا بے حد شکریہ ادا کیا اور کہا انکل جی آپ کا میرے اوپر بہت
بڑا احسان ہے میں اس احسان عظیم کی قیمت شاید کبھی نہ چکاپاﺅں ۔
بیٹا یہ احسان نہیں ایک مناسب آدمی کو مناسب جگہ ملی ہے یہ میرا کمال نہیں
اُس خدا کا کمال ہے جس نے تمہیں میرے پاس بھیجا ڈاکٹر صباحت نے انتہاہی
شفقت سے کہا ۔
گھر آیا تو امی حسب معمول میرا انتظار کر رہی تھی میں جلدی سے امی کے پاس
گیا اور اُن کو گلے لگا لیا اور خوشی سے جھومتے ہوئے کہا امی مجھے نوکری مل
گئی اور پھر ساری تفصیل امی کو بتائی اور ابو کو بتائی دونوں کی خوشی کی
کوئی انتہا نا رہی اور اسطرح میرے شب و روزڈاکٹر صباحت کی شفقت کے زیر سایہ
گزرنے لگے اور میری فرض شناسی اور ایمانداری دیکھ کر ڈاکڑ صباحت نے اپنا
پورا میڈیکل سٹور میرے حوالے کر دیااور اسطرح میں نے اپنی بہنوں کی شادی
بھی کر دی اپنے دو چھوٹے بھائیوں کو پڑھایا اور اپنی امی ابو کی بھرپور
خدمت کی کبھی کبھی مجھے لگتا کہ شاید امی کے اُس کہے ہوئے فقرے نے میری
زندگی بدل ڈالی -
آ ج میں اُ سی میڈیکل سٹور میں لوگوں کے جسم کے علاج کے ساتھ ساتھ اُن کے
ذہن اور دل کا علاج بھی کرتا ہوں تاکہ کوئی ناکام کامران نہ بن سکے اور
اپنی زندگی کو غموں کی اندھی گلی میں قربان نہ کر دے ۔انسان کی مضبوط سوچ
اور مضبوط اراداے ہی منزل کی طرف لے کر جاتے ہیں-
شاید یہی تقدید کا فسانہ ہے
غم زندگی میں مُسکرانا سیکھ
بے ضرر بن کر اپنو ں کے لیے جینا سیکھ
کچھ نہیں ہوتا جو تو طوفانوں میں گھرا ہے
اپنے عزم سے اُن میں سے نکلنا سیکھ
محبت کی وادی کانٹوں سے بھری ہے
ہمت ہے تو درد بھرے کانٹوں پر چلنا سیکھ
ہجوم میں گھرے مسافروں کو منزل ہوتی نہیں نصیب
مایوسی کا لبادھا اُتار کر فطرت کی چاشنی میں جینا سیکھ
بے حس ہیں لوگ،تو پروا نہ کر
تو احساس کی روشنی دینا سیکھ
بے وفائی کا تذکرہ کیوں کرتا ہے
تو اخلاص کا پودا لگانا سیکھ
دنیا میں پیار ملے گا تبھی نایاب
تو شجر بن کر دھوپ میں کھڑا ہو سیکھ |