میں رشید اور کچہیری کے بعد لگتا ہے کوٹلی کو وارث مل گیا

یہ کیا ہوا؟کون آگیا ہے؟ اچانک ٹھیکہ سسٹم کے داعی زیر زمین کیوں چلے گئے ہیں ؟،شہر بھر میں صفائیاں ستھرایا کیوں شروع ہو گئیں ہیں؟،بھوت بنگلوں میں بدلے ہوئے سرکاری تالوں سے قفل بند پبلک پارک کیسے کھل گئے ہیں؟ میرے سوالوں کو جواب تھا کہ نیا ڈی سی آگیا ہے،یار ڈی سی تو پہلے بھی تھے کوئی اور وجہ ہوئی ہو گی ،احاطہ کچہری میں اہلکاران کی آنیاں اور جانیاں کیوں تیز ہو گئی ہیں، یہ سرگوشیاں اورپھرتیاں؟ کیا اس کی وجہ بھی نئے ڈی سی کی آمد ہے کیا جواب ملا جی ہاں اور میرے منہ سے بے ساختہ ہی نکل گیا بڑی بات ہے ،اب تو ٹھیکے بند ہونا شروع ہو گئے،کوٹلی کرپشن منڈی سے شہر میں بدلتا ہوا نظر آنے لگا اور احاطہ کچہری میں لگنے والی بولیاں ماند پڑنا شروع ہو گئی، ،، میں رشید اور کچہری،، کے عنوان سے لکھا ہوا اپنا شہکار،آپ بیتی کو بھی شائع کرانے سے روک لیا۔محسوس ہونا شروع ہو گیا کہ اب کوئی قانون کا رکھوالا آگیا ہے،لاوارث کوٹلی کا وارث آگیا،اب پونڈوں کی چمک اور لفافوں کی مہک انصاف کے راستے کی دیوار نہیں بنے گی،حکومتی کرپشن کی لگاموں سے کسے ہوئے اپنی مرضی کے فیصلے کریں گے ،یہ سوچتا رہا اور دیکھتا رہا امید بھر آئی اور مایوسیاں رفوچکر ہو گئیں،اب کوئی بیرولی راجہ رشید کے ہاتھوں زیر بار نہیں ہوگا،اب کوئی گلتاج بی بی ،کوئی صغیف العمر سید محمد حجام کسی مقد مہ باز کی قہر ناکیوں کا شکار نہیں ہوگا،اپنی دنیا میں مگن عدالتی دنیا سے کوسوں دور سہانے خواب سجانے اور بننے میں مشغول کرایہ کے گھر سے اپنے مکان میں رہنے کی جستجو میں زمین خرید بیٹھا،سرمنڈاتے ہی اولے کے مصداق اپنی خرید کردہ زمین پر قدم رکھنے سے قبل ہی راجہ رشید مجھ پر مقدمہ لیکر برس پڑا، ایسے نہ ہوتا تو مجھے کےسے پتہ چلتا کہ احاطہ کچہری ایک بڑی درس گاہ ہے اور یہاں پر علم کے دریا بہتے ہیں،یہاں منی بسیں اور بڑی بسیں افسران کے روپ میں موجود ہیں جو ایک سیٹ بھی خالی ہو تو اگلے سٹیشن کے لیے روانہ ہی نہیں ہوتی اور یہ ایک ایسا میدان جنگ ہے جہاں پر نوسر باز ترین اور شریف ترین اشخاص کی پنجہ آزمائی ہوتی ہے،ماسوائے ووکلاءکی محدود تعدادکے یہاں پر صاحب عقل اور عزت لوگوں کی تعداد آٹے میں نمک کے برابر ہے اور جو ہیں وہ جلد از جلد اس گھٹن سے فرار حاصل کرنے کے لیے کوشاں ہیں اور یہ مختصر تعداد بھی کسی نوسر باز،جاہل اور کمینے مقدمہ باز کی وجہ سے یہاں پر پھنس گئی ہے،یہ ایک عجیب دنیا ہے،تیزی مندی کا شکار ایک منڈی ہے جہاں ضمیروں سمیت بہت کچھ بکتا ہے۔چند ماہ کے درد ناک اس سفر میں عیاں ہوا کہ بظاہر نورانی چہرے والے لوگ اندر سے کتنے کالے اور ازیت پسند ہوتے ہیں۔میرا قصور کیا ہے ؟ میں نے کون سا جرم کیا ؟ جس کی وجہ سے کٹہرے میں کھڑا کر دیا گیا ہوں یہ وہ سوال ہے جو ہر روز میں اپنے آپ سے کرتا ہوں مگر میں اس ظاہری باریش شخص کے شکنجے میں پھنسے ہوئے اس کے حقیقی ماموں راجہ کرامت کو دیکھتا ہوں اقلیتی برادری کی بے کس اور بے بس گلتاج بی بی کی آہیں سنتا ہوں،بڑے باآثر اور باعزت شخص راجہ عید اللہ اور چوہدری بشیر،عامر داﺅد کو اس کے ہاتھوں شکست کھاتے پاتا ہوں،چوہدری قاسم ،راجہ عمر حیات ،چوہدری راﺅف او سمیت درجنوں لوگوں کو اس سے نبرد آزماءدیکھتا ہوں تو حوصلہ مل جاتا ہے ،اس کے قہر کا شکار آخری عمر میں سید محمد حجام کو احاطہ عدالت میں ایڑیاں رگڑتے ہوئے دیکھ کر خدا یاد آجاتا ہے،ان ہی ستم ظریفیوں بے بسیوں اور لا چاریوں میں مسعود الرحمان کی بطور ڈپٹی کمشنر آمد کسی تپتے سہرا میں ٹھنڈی ہوا کا جھونکا لگی اور میں یہ لکھنے بیٹھ گیا کہ اب کچھ ہو کر رہے گا،اب قانون کسی مردہ لاش کے بجائے کوٹلی میں برق رفتار ہو کر انصاف کی عمل داری کو یقینی بنا دئے گا،خوش آمد اپنا شغل نہیں بس جو دل میں آتا ہے کہہ دیتا ہوں،اب کوئی گھاما،ماجھا اور ساجھا پی پی کا بیج لگا کر اداروں کو بے توقیر نہیں کرے گا،میرا مقد مہ صرف ایک پلاٹ یا سرکاری راستے کی بندش کا مسئلہ نہیں رہا بلکہ یہ ایک ظلم کی طویل داستان ہے جو گزشتہ تیس سالوں سے جاری ہے،میں اس ظلم کے خلاف لڑ رہا ہوں جس نے بزرگوار حاجی بیر ولی مرحوم کی جان لے لی،جس نے حاجی خالق ،ماسٹر شبیر اور چوہدری حنیف کو اپنے والد کی نشانی وہ پلاٹ فروخت کرنے پر مجبور کر دیا،مسئلہ زمین کے ٹکڑے کا نہیں مسلئہ اس ظلم کے ننگے ناچ کا ہے جو عدلیہ کی ناک کے نیچے بلاخوف و خطر جاری ہے،مجھے عدلیہ پر یقین ہے کہ وہ انصاف کرے گی مگر دس سال بعد جب مجھے انصاف ملے گا تو میرے دس سالوں کا حساب کون دے گا،میرے ایک ایک لمحے کی قیمت کون دئے گا،شاہد کوئی نہیں،بس اس امید کے ساتھ کے اس فیصلے کے بعد کوئی راجہ رشید بلاوجہ کسی کی زمین پر قابض ہو کر ،کسی کا راستہ بند کر کے خود ہی مقدمہ قائم نہیں کرے گا،مقدمہ برائے تاوان کرنے والے آغاز سے قبل سوچا کریں گے کہ مقدمہ کرنا کسی ہتک اور سزا سے کم تر بات نہیں ہوتی اور ہر کوئی اس بلاوجہ سزا پر خاموش نہیں رہتا،میرے یہ مضمون سلسلہ وار جاری رہیں گے اور اگلی قسط میں کون سے ادارے نے کیا کیا گھن کھلائے ہیں اور کون سپانسر کی آفر پر بکا ہے اور کون پونڈوں کی چمک کے آگئے خیرہ ہو گیا ہے،اور اگلی قسطوں میں میرے سنگ دل حریف کے مقدمات کی ازیت کس کس کا مقدر بنی اور کس کس نے کتنا تاوان دئے کر مقدمات سے جان چھڑائی کا تزکرہ بھی منظر عام پر ہوگا-
Dogra Zulfiqar Malik
About the Author: Dogra Zulfiqar Malik Currently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.