جال۔ در۔ جال قسط 16۔ (آخری قسط)۔

گُذشتہ سے پیوستہ

نعمان نے فرقان کو اپنا منتظر دیکھا تو تھکے تھکے سے قدموں سے فرقان کی جانب بڑھنے لگا۔فرقان نے آگے بڑھ کر کر نُعمان کو اپنے سینے سے لگا لیا۔ چند لمحے اِسی کیفیت میں گُزر گئے۔ پھر فرقان نُعمان کو بڑی عزت سے اپنے آفس میں لے آیا۔ آفس میں آرام دہ کرسیوں پر بےٹھن کے بعد فرقان نُعمان کا حال دریافت کرنے لگا۔ لیکن نُعمان کی زُبان پر تُو جیسے خَاموشی کا قُفل پڑا تھا۔ اُسکا چہرہ ناکامی اور شرمندگی کی تصویر پیش کررہا تھا۔ جب دوسری مرتبہ فرقان نے پُوچھا کہ میرے یار تُو آخر بُولتا کیوں نہیں۔۔۔۔ ؟ اُور یہ تُونے اپنا کیا حال بنا رکھا ہے۔۔۔۔؟ تب نعمان کی آنکھیں جو نجانے کب سے چھلکنے کو بیقرار تھیں۔ اپنے آبگینوں کے بند کو مزید سنبھال نہ پائیں۔۔۔۔ اُور نُعمان فقط اتنا ہی کہہ پایا کہ فرقان میرے بھائی میں ہار گیا ہُوں۔۔۔ اُور رُسوائی میرے تعاقب میں ہے۔ اِسکے بعد وُہ کُچھ نہ کہہ پایا۔۔۔ اُور ہچکیاں باندھ کر رُونے لگا۔۔۔۔۔

اَب مزید پَڑہیئے (تمام بقیہ اقساط کا خُلاصہ)

نعمان کو رُوتا دیکھ کر ایک لمحے کیلئے فرقان کا دِل چاہا کہ وُہ بڑھ کر نُعمان کو اپنے سینے سے لگا کر اُسکی آنکھوں سے بِہنے والے ایک ایک آنسو کو پُونچھ ڈالے۔۔۔۔ لیکن دُوسرے ہی لمحے اُس نے سُوچا کہ نجانے نُعمان کب سے اِن آنسووں کے غبار کو اپنے سینے میں سمیٹے ہُوئے ہے جسکی وجہ سے اُسے غَم کی چُبھن اُور آلودگی کی گُھٹن کا سامنا کرنا پڑ رَہا ہے۔ جبکہ حَسان میاں بھی تُو یہی کہتے ہیں۔۔۔ کہ گُناہوں کی ذیادتی اُور اُسکی مزید خُواہش دِل میں غَم اُور گُھٹن پیدا کردیتی ہے جسکا مَداواہ صِرف اُور صِرف ۔ ۔۔ نِدامت۔آنسو۔ اُور پشیمانی۔ کیساتھ سچی تُوبہ کی صُورت میں ہی ممکن ہے۔۔ اُور آج نُعمان اللہ کریم کی توفیق سے اُسی جُرم کا کُفارہ اپنی نِدامت کے اِظہار اُور آنسووٗں کے ذریعے کررَہا تھا۔

کُچھ لمحات بیت جانے کے بعد فرقان مزید انتظار نہیں کرپایا۔ اُور اُس نے آگے بڑھ کر نُعمان کے دونوں بازُوٗں کو اپنے مضبوط ہاتھوں سے تھام کر اُسےکرسی سے اُٹھایا اُور اپنے سینے سے لگا لیا۔۔۔۔ چند لمحے مزید گُزر گئے۔ نُعمان اگرچہ ابھی تک سسکیاں لے رَہا تھا۔ لیکن فرقان کے سینے سے لگ جانے کے بعد اُسکی حالت رفتہ رفتہ بِہتر ہُوتی چلی گئی۔ جیسے طُوفان کے گُزر جانے کے بعد ساحل کی ریت پُرسکون ہُوجاتی ہے۔۔۔

نُعمان کی حالت جب بظاہر پُرسکون نظر آنے لگی تب فرقان نے کافی کا آرڈر دینے کے بعد نُعمان کو اپنے ساتھ ایک ڈبل صوفہ سیٹ پر بٹھا کر اُسکے ایک ہاتھ کو اپنے دُونوں ہاتھوں میں لیکر گُفتگو کا آغاز کرتے ہُوئے کہا۔۔۔ میرے بھائی خُدا سے ہارنے میں بھی جیت چھپی ہُوتی ہے۔ جو اپنی ہار مان لیتا۔ دراصل وہی دُنیا اُور آخرت میں سُرخرو ہُوتا ہے۔ جبکہ جو خُدا سے لڑنے کی کُوشش میں اپنی شکست تسلیم نہیں کرتا۔ دراصل وہی بازی ہارنے والوں میں سے ہے۔ جبکہ تُمہاری ہَار انشاءَاللہ عزوجل تُمہیں خُدا سے مزید دُور نہیں ہُونے دیگی۔ بلکہ یہی ہار تُمہیں اب اپنے رَبّ سے نذدیک کرنے کا سبب بن جائے گی۔۔۔۔۔

فرقان کی باتوں اُور کافی کے مگ سے چند سِپ لینے کے بعد نُعمان کی حالت مزید بِہتر ہُوتی چلی گئی۔ کافی کی چُسکیاں لیتے ہُوئے نُعمان نے دھیرے دھیرے اپنی شکست کی کہانی سُنانی شروع کی جسکا لَب لباب کُچھ یُوں تھا۔۔۔ فرقان سے علیحدگی کے بعد نُعمان نے بنک سے چار کروڑ کا لُون فیکٹری کے کاغذات کے عوض اِس شرط پر حاصِل کرلیا کہ وُہ ہر سال جُون سے قبل اپنی لِمٹ مکمل طُور پر جمع کروادیا کرے گا۔۔۔۔ چُونکہ نُعمان خُود بھی جانتا تھا۔ کہ ایسا کرنا کِسی صورت ممکن ہی نہیں ہوگا۔ کیونکہ وُہ چار کروڑ روپیہ اِسٹاک کیلئے نہیں بلکہ فیکٹری میں توسیع کیلئے حاصِل کررہا تھا۔ لیکن اُسکے ذِہن میں ایک ترکیب آرہی تھی کہ کسی طرح اگر بنک لُون کیساتھ ساتھ چند انویسٹرز بھی مِل جائیں ۔ تُو وہ اِس تمام رقم سے اچھا خاصہ ٹُوپی ڈرامہ رَچا سکتا تھا۔ سال میں ایک مرتبہ اِنویسٹرز کی رقم سے لُون رِی شیڈول کروایا جاسکتا تھا۔ اُور پیپر مِل کو چلانے کیلئے رَقم کی بھی کمی نہیں ہُوگی۔

اب یہ نُعمان کی بدبختی تھی۔ کہ ایک طرف بنک سے لُون منظور ہُوگیا۔ جبکہ دُوسری طرف ایک سابقہ ایم پی اے صاحب جنہوں نے اپنے دُور میں خُوب مال سمیٹا تھا۔ اُور اب اُسی مال کو کسی کاروبار میں لگانا چاہ رہے تھے۔ کی مُلاقات نُعمان سے ہُوگئی۔ حالانکہ نُعمان اُن ایم پی اے صاحب کی بدمعاشانہ سُوچ سے خُوب اچھی طرح واقف تھا۔ لیکن مرتا کیا نہ کرتا کہ مِصداق ۔ حالات اُور مجبوری کے سبب خُود اُنکے چنگل میں آگیا۔۔ اُور اِس طرح اُن ایم پی اے صاحب نے اپنی مَن مانی شرائط پر مزید چار کروڑ روپیہ نُعمان کو مُہیا کردِیا۔

ایک برس تُو فیکٹری کی تعمیر میں صَرف ہُوگیا جِس میں بنک کے چار کروڑ روپیہ کام آگیا۔ جبکہ دُوسرے برس مارکیٹ کے اُتار چڑھاوٗ کے سبب پچھتر لاکھ روپیہ کا خَسارہ پیش آگیا۔ جبکہ تقریباً بیس لاکھ رُوپیہ اِس برس نُعمان کی ذاتی ضروریات کی نذر ہُوچُکا تھا۔ اب پُوزیشن یہ تھی کہ بنک میں جمع کرانے کیلئے نُعمان کے پاس صرف تین کروڑ پانچ لاکھ روپیہ موجود تھا۔ اگر یہ رقم جمع کرادی بھی جاتی تُو تقریبا ساٹھ لاکھ روپیہ انٹریسٹ کی مد میں چلا جاتا۔ اُور ایک کروڑ پچپن لاکھ کی شارٹیج کی وجہ سے بنک ہر گز دُوبارہ لُون سیکشن نہ کرتی۔ جسکی وجہ سے ایک طرف فیکٹری بند ہُوجانے کا اندیشہ تھا۔ تُو دوسری طرف اُس (ایم پی اے )صاحب کے کارندے اُسکی چیر پھاڑ کو پُہنچ جاتے۔ لِہذا نُعمان کو اپنے تئیں اِسی میں بھلائی نظر آئی کہ بنک منیجر کو اعتماد میں لیکر تمام صورت حال سے آگاہ کردِیا جائے۔ یہ نیا بنک منیجر بھی نہایت کایاں اُور حَریص آدمی تھا۔ جَب اُسے نُعمان کی کمزوری کا علم ہُوگیا۔ تب پہلے تو بنک منیجر نے خُوب نُعمان کو ھراساں کیا۔ اُور بعد میں نُعمان کو بلیک میل کرکر کے اپنے لئے رقم اینٹھنے میں لگ گیا۔ البتہ بنک منیجر کے اِنوال ہُوجانے کے بعد اتنا ضرور ہُوا کہ اُس بنک منیجر نے یہ رِپورٹ تیار کردی کے فیکٹری میں چھ کروڑ سے زائد کا خام مال موجود ہے۔ مگر بھاوٗ مُناسب نہ ہُونے کی وجہ سے فی الحال فیکٹری نے اپنی سیل رُوک رکھی ہے۔ بنک منیجر کے مشورے سے ہی خالی گوداموں کے مُنہ پر خام مال کا ڈھیر اِس طرح سے لگادیا گیا۔ کہ کوئی گودام کے اندر داخل ہی نہ ہُوسکے۔ جبکہ انسپکشن کیلئے آنے والی بنک ٹیم کو بھی یہ تاثر دیا جاسکے کہ گُودام خام مال سے کھچاکچ بھرے پڑے ہیں۔

لیکن اِس تمام صورتحال نے نُعمان کو ایک نفسیاتی مریض بنا ڈالا تھا۔ حالانکہ ایک مُوہوم سی اُمید اب بھی نُعمان کے سینے میں جاگتی کہ آنے والے سال میں شائد فیکٹری کو اسقدر مُنافع ہُوجائے کہ جسکی وجہ سے رُوز بروز بگڑتی ہُوئی صورتحال کو سنبھالا دیا جاسکے۔ لیکن شائد وقت کی مُہلت ختم ہُوچکی تھی۔ تقدیر کے آگے تدبیر کا زُور ٹوٹ چُکا تھا۔ کرنی کا کڑوا پھل تیار ہُوچُکا تھا۔ جسکا مزہ اب نُعمان کو بُھوگنا تھا۔ اِس لئے اس شعر کے مِصداق مُعاملہ پیش آرہا تھاکہ۔۔۔ مرض بڑھتا گیا جُوں جُوں دَوا کی۔۔۔۔ نعمان فی الحال شکست قبول کرنے کیلئے تیار نہیں تھا۔ جبکہ دُوسری طرف رَبّ عزوجل کی خُفیہ تدبیر اسکے گِرد آہستہ آہستہ گھیرا سخت کئے جارہی تھی۔ مگر حِرص و بے خبری کی پٹی نعمان کی آنکھوں پر ایسی چڑھی تھی۔ کہ وہ حالات کا صحیح اِدراک ہی نہیں کرپارہا تھا۔ یا شائد اُسے اِحساس تُو تھا۔ لیکن وہ اِس احساس کو جھٹک جھٹک کر خُود سے دُور کرنے کی ناکام سعی میں مصروف تھا۔

بہرحال قصہ مختصر مزید تین برس گُزر گئے جسکے بعد بنک پر بلاآخر یہ انکشاف ہُوہی گیا کہ نعمان کے خام مال سے بھرے گوداموں کی حیثیت ہاتھی کے دِکھائی دینے والے دانتوں سے ذیادہ نہیں ہے ۔اب بنک کی رقم بھی سود ۔در۔ سُود بڑھتے بڑھتے آٹھ کروڑ کے قریب پُہنچ چُکی تھی۔ جِسکی وجہ سے بنک کی جانب سے کِسی بھی وقت نُعمان کو ڈیفالٹر قرار دئےی جانے کا خطرہ مَنڈلا رَہا تھا۔جبکہ نعمان کے تمام فیصلے اُسکے خلاف جارہے تھے۔ جسکی وجہ سے (ایم پی اے) صاحب کی رقم بھی گھٹتے گھٹتے صرف نوے لاکھ کے قریب پُہنچ چُکی تھی۔ نعمان نے چند ماہ قبل اپنی ہار تسلیم کرلی تھی۔ اسلئے نوے لاکھ روپیہ نقد اُور ساٹھ لاکھ کے عوض اپنی کوٹھی (ایم پی اے) صاحب کے حوالے کردی تھی۔ مگر (ایم پی اے) صاحب کا اِصرار تھا۔ کہ تین ماہ میں اُنکی بقایا رقم ادا کردی جائے ۔ اب چاہے یہ رقم بنک لُوٹ کر دِی جائے۔یا فیکٹری بیچ کر دی جائے۔ ورنہ وُہ صرف نُعمان ہی کو نہیں بلکہ اُسکی بیوی اُور بچوں کو بھی عبرت کا نِشان بنا ڈالے گا۔

نُعمان خُود بھی اِس کھیل میں جسمانی اُور ذہنی تھکن کو ہر نئے دِن کیساتھ بڑھتا ہُوا محسوس کررہا تھا۔ وُہ تھک کر نِڈھال ہُوچُکا تھا۔ اُور اب وُہ خُود بھی چاہتا تھا کہ یہ کھیل جلد از جلد اپنے انجام کو پُہنچ جائے۔۔۔۔۔ لیکن اِسکی غلطیوں کا خُمیازہ اُسکی بیوی اُور بَچوں کو سہنا پڑے یہ اُسے کسی بھی قیمت پر منظور نہیں تھا۔ لیکن وُہ جانتا تھا۔کہ اب بازی اُسکے ہاتھ سے نِکل چُکی تھی۔۔۔ لے دے کر بس اب یہی آس بچی تھی۔۔۔۔ کہ فرقان اُسکی سابقہ تمام غلطیوں کو فراموش کرکے اِسےایکبار اِس دلدل سے نِکلوادے۔ اُسکے بعد اُسے چاہے ٹھیلا لگا کر ہی اپنے بچوں کا پیٹ کیوں نہ پالنا پڑے۔ وُہ پیچھے نہیں ہٹے گا۔۔۔۔۔

فرقان نے نُعمان کی تمام کہانی سُن لینے کے بعد اُسے بھرپور یقین دہانی کراتے ہُوئے کہا۔۔کہ آج رات اِس موضوع پر وُہ حسان صاحب کے سامنے شہریار مجددی سے بات کرے گا۔ اُور مجھے قوی یقین ہے کہ شہریار مجددی میری بات رَد نہیں کرے گا۔۔۔۔ بلکہ ہوسکے تُو تُمہیں آج رات حسان میاں سے مُلاقات کیلئے ضرور آنا چاہیئے۔۔۔۔۔

نُعمان حسب وعدہ عشاء کی نماز سے فارغ ہُو کر حَسان میاں کی محفل میں پُہنچ گیا۔۔۔۔ عجب اتفاق تھا کہ حَسان میاں اللہ کریم کی مہربانیوں اُور انسانوں کی ھٹ دھرمیوں پر بیان فرمارہے تھے۔ تمام بیان کے درمیان نُعمان یہ مِحسوس کرتا رہا، جیسے اُسکی اِصلاح کا سامان پیدا کیا جارہا ہو۔ تمام وقت اُسکی آنکھیں بھیگتی رہیں۔ جِنہیں وُہ بار بار رُومال کے کُونے سے صاف کرتا رَہا۔۔۔۔ محفل برخاست ہُونے کے بعد حسان میاں نے بڑے پُرتپاک انداز میں نُعمان کا اِستقبال کیا۔ نُعمان جب حَسان میاں کے سینے سے لِپٹا ہُوا تھا۔ تب اُسے ایسا مِحسوس ہُورہا تھا۔ جیسے گُویا اُسکے قلب پر سکینہ نازل ہُورہا تھا۔۔۔نُعمان دِل ہی دِل میں دُعا کرنے لگا۔۔۔۔ کاش وقت تھم جائے۔۔۔

جب فرقان نے نُعمان کا معاملہ حَسان میاں کے گُوش گُزار کیا۔ تُب حَسان میاں تمام رُوداد سُن کر پہلے تُو آبدیدہ ہُوگئے۔ پھر بڑی بے قراری سے اللہ کریم کی تسبیح و تکبیر بُلند کرنے کے بعد فرمانے لگے۔ کِس میں جُراٗت ہے ۔ کہ وُہ اُس پاک کبریا کے مُقابل کھڑا ہُوسکے۔۔۔۔؟ ۔۔۔یا اُسکی نافرمانی کے بَعد زمیں پر اپنے قدم جَما سکے۔۔۔۔؟ پھر خُود ہی جواب دیتے ہوئے کہنے لگے۔۔۔ کِسی میں نہیں۔۔۔۔ کِسی میں بھی نہیں۔۔۔ وُہ یکتا ہے۔۔۔ وُہ بادشاہ ہے۔۔۔۔ اُسی کا حُکم قائم ہے۔۔۔ وہی دائم ہے۔۔ وہی سُبحان ہے۔۔۔ وَہی قُدوس۔ وَہی بے نیاز ہے۔۔۔۔

شہریار مجددی بھی نعمان کی کہانی سُن کر غَمگین ہُوگیا تھا۔ اُور وُہ سُوچ رَہا تھا۔ کہ انسان کسقدر کمزور و ناتواں ہے۔ کہ حِرص و ہَوس کی ذرا سی آنچ اُسے پَگھلا کر آزمائش کے صحرا میں تپنے کیلئے چھوڑ دیتی ہے۔ خُدا کا شُکر ہے۔۔ کہ میرے ہاتھ میں دامنِ حِسان میاں تھا۔ جو ہر خطرے ۔۔ ہر طُوفان سے پہلے ہی آگاہ کرتے رہے۔ اُور ایسی تربیت فرمائی کہ سرکشی کا عفریت کبھی اپنی چال میں کامیاب ہی نہ ہُوسکا۔۔ اِس سے پہلے کہ شہریار مجددی پروازِ خیال کو مزید بُلند کرتا۔ حَسان میاں کا جُملہ اُسے واپس مِحفل میں لے آیا۔۔۔۔ حَسان میاں اپنی نِگاہیں فرقان و شہریار مجددی کے چہروں کی جانب باری باری جماتے ہُوئے نُعمان سے فرمارہے تھے۔۔۔۔ نُعمان بیٹا میرے اِختیار میں اگر ہُوتا تُو تُمہارے دامن سے ایک ایک غم کُو چُن کر سمیٹ لیتا۔۔۔ لیکن فرقان و شہریار میرے ایسے رُوحانی بیٹے ہیں۔۔۔ کہ مجھے قوی اُمید ہے کہ یہ مجھے اُور تُمہیں نا اُمید نہیں کریں گے۔۔۔ لیکن جو بھی فیصلہ کرنا ہے وُہ اِنہی دُونوں کو کرنا ہے۔۔۔ اُور انشاءَاللہ یہ بِہتر ہی فیصلہ کریں گے۔

حَسان میاں کے خاموش ہُونے کے بعد شہریار مجددی گُویا ہُوا۔۔۔۔ حضرت میرے پاس جُو کُچھ بھی ہے۔ وُہ سب کا سب آپکا ہے۔ اُور کُون کہتا ہے کہ آپکو میرے مال پہ اِختیار نہیں۔۔۔ لیکن اگر آپکا حُکم یہی ہے کہ میں اپنی رائے پیش کروں تُو میری رائے یہ ہے کہ آج سے فرقان کے ساتھ ساتھ نُعمان بھی میرا پارٹنر ہے۔ اگرچہ میں اکیلا بھی نُعمان کے تمام قرضوں کا بار سہہ سکتا ہُوں۔۔۔ لیکن میں جانتا ہُوں کہ فرقان کی بھی یہی خُواہش ہُوگی کہ وُہ اِس نیک مقصد میں مجھ سے پیچھے نہ رہے۔۔۔ اس لئے آج سے نُعمان خُود کو تنہا نہ سمجھے۔۔۔ ہم مِل کر نُعمان کا تمام قرض چُکائیں گے۔۔۔ اُور آج سے نعمان اُور ہماری فیکٹری کے درمیاں جو دیواریں حائل ہیں۔ آج کے بعد وُہ دیواریں باقی نہیں رہیں گی۔۔۔۔ کیونکہ دیواریں ہمیشہ اجنبیت پیدا کرتی ہیں۔۔۔۔ شہریار کی گُفتگو پُرجوش تقریر میں بدل چُکی تھی۔ حسان میاں کے چہرے پر خُوشی کے آثار نمایاں تھے۔ اُور زُباں پر خُدا کی حمد تھی۔ جبکہ فرقان، نُعمان، اُور شہریار مجددی ایک دُوسرے کا ہاتھ تھامے آپس میں بغلگیر تھے۔۔۔۔

شہریار مجددی کی انتھک کوششوں سے متعلقہ بنک کے اَعلی افسران اِس بات پر راضی ہُوگئے کہ فُوری طُور پر مِکمل رقم جمع کرانے کی صورت میں انٹریسٹ کی مَد میں پچاس فی صد رعائیت کردی جائےگی۔۔۔۔ بنک کی پچاس فیصد رقم شہریار مجددی نے فیکٹری کے مشترکہ اَکاوٗنٹ سے جمع کرائی جبکہ بقیہ تین کروڑ روپیہ شہریار مجددی نے اپنے ذاتی اکاوٗنٹ سے بنک کو جمع کروایا۔ (ایم پی اے) صاحب نے جب نُعمان کی پُشت پر مضبوط ہاتھ دیکھے تُو وُہ بھی مزید ایک برس کی مُہلت دینے کیلئے راضی ہُوگئے۔۔۔۔

وقت گُزرنے کیساتھ ساتھ نُعمان میں بُہت تبدیلی آتی چلی گئی۔۔۔۔ اب نُعمان بھی ہر رات گھر پر جانے سے قبل حَسان میاں کی علمی مِحفل میں ضرور شریک ہُوتا ہے ۔۔۔۔ حَسان، نعمان، و شہریار مجددی کی فیکٹری ایک گُروپ کی شِکل اختایر کرچُکی ہے۔ جہاں صرف مُنافع بڑھانے کیلئے مِیٹنگز نہیں ہُوتیں۔۔۔ بلکہ مُلازمین کی فلاح کیلئے بھی منصوبے بنائے جاتے ہیں۔۔۔۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ ختم شُد۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

اِس افسانے کو لکھوانے میں کہیں نہ کہیں محترم دیدار چاند حُسین کا بڑا ہاتھ رہا ہے ۔۔۔اِس لئے میں یہ افسانہ اُنہی کی نذر کرتا ہُوں
والسلام
ishrat iqbal warsi
About the Author: ishrat iqbal warsi Read More Articles by ishrat iqbal warsi: 202 Articles with 1095698 views مجھے لوگوں کی روحانی اُلجھنیں سُلجھا کر قَلبی اِطمینان , رُوحانی خُوشی کیساتھ بے حد سکون محسوس ہوتا ہے۔
http://www.ishratiqbalwarsi.blogspot.com/

.. View More