بلوچستان بغاوت کی لپیٹ میں
سندھ میں دہشت گردی کی لہر
ڈرونز خیبرپختونخواہ کا مقدر
پنجاب بھی تقیسم کے در پر
برصغیر انگریزوں کے قبضے سے قبل بلوچستان ریاست قلات کے نام سے ایک آزاد
اور خود مختار ریاست تھی جسکی سرحدیدیں ملتان و ڈیرہ اسماعیل خان تک پھیلی
ہوئی تھیں۔ یہ ریاست کبھی بھی ہندوستان کا حصہ نہیں رہی برصغیر کی تقسیم کے
وقت اس ریاست کو ہندوستان یا پاکستان میں کسی ایک کا حصہ بننا تھا۔
قائداعظم کی سیاسی کاوشوں کی بناء پر ریاست قلات نے مکمل داخلی و خودمختاری
کی شرط پر پاکستان کے ساتھ الحاق کرلیا۔ رقبہ کے لحاظ سے بلوچستان نا صرف
پاکستان کا سب بڑا صوبہ ہے بلکہ قدرتی ذخائر ، معدنیات اور گیس کی دولت سے
مالامال بھی ہے ۔
بلوچ قوم کے ساتھ کی جانے والی ناانصافیاں، ظلم و ستم سے ناصرف پاکستان کا
بچہ بچہ بلکہ اقوام عالم بھی بخوبی آگاہ ہیں ۔ فوجی آپریشن ، ماورائے عدالت
قتل سمیت لاپتہ افراد کے ایشوء نے بلوچ قوم میں بڑی حد تک احساس محرومی
پیدا کردیا ہے جس بناء پر و ہ ناراض ہوکر باغی بن بیٹھے ہیں اور علحیدگی کا
مطالبہ کررہے ہیں ۔ بلوچستان میں سرکاری عمارتوں سے قومی پرچم کا اتارا
جانا ، قومی نغمہ کی ممانعت ، بلوچستان لبریشن آرمی کا قائم ہونا، سرکاری
افسران کے اغواء سمیت پنجاب آباد کاروں ، ہزارہ کمیونٹی اور زائرین کی بس
کو متواتر نشانہ بنانا ، گیس پائپ لائن و ریلوے پٹری کو دھماکے سے اڑانا
ناراض بلوچ رہنماؤں کی بغاوت کے اعلان کے مترادف ہیں
سندھ کے باسی بلوچ اقوام کے ساتھ رواں رکھی جانے والی ذیاتیوں سے بخوبی آ
گاہ ہیں اور ہر پلیٹ فارم پر سندھ کے سیاسی و مذہبی رہنما ؤں خاص کر متحدہ
قومی مومنت کے قائد الطاف حسین نے بلوچ قوم پر ہونے والے ظلم کے خلاف آواز
اٹھائی ہے ۔لیکن آج کل سندھ کو جن حالات کا سامنا ہے خاص کر پاکستان کے
معاشی حب کراچی کو ایسے وقت میں آج سندھ کے باسیوں کو بلوچ قوم کی ہمدردیوں
کی ضرورت ہے اور بلوچ رہنماؤ ں کو بھی چاہییے کہ وہ کراچی میں جاری بد امنی
کے خلاف آواز اٹھاتے ہوئے کراچی میں ٹارگٹ کلنگ کی شدید الفاظ میں مذمت
کریں ۔ کیونکہ شہر قائد میں اس وقت مذہبی انتہاء پسندی ، طالبانائزیشن ،
مہنگائی و بے روزگاری سے ٹرپتی سسکتی عوام کو ٹارگٹ کلنگ ، بھتہ خوری سمیت
اغواء برائے تاوان جیسے عفریت کا سامنا ہے جو ہر روز دس بارہ انسانی جانوں
کو نگل رہا ہے ۔ ہنستے بستے گھرانوں میں پل بھر میں صف ماتم بچھ جاتی ہے ۔
حکومت و قانون نافد کرنے والے ادارے حتٰی کے سپریم کورٹ کے فیصلے بھی اس
خونی عفریت کو روکنے میں ناکام ہو چکے ہیں۔ یہ دہشت گرد ناجانے کہاں سے آتے
ہیں اپنے ہدف کو کامیابی سے نشانہ بنانے کے بعد واپس لوٹ جاتے ہیں نہ ان کی
گرفتاری عمل میں آتی نہ انہیں سزاملتی ہے ۔ ہزاروں افراد ان کی گولیوں کا
نشانہ بن چکے ہیں تاہم کسی کی گرفتاری عمل میں نہ آنا یا ان کا عدالتوں سے
بری ہو جانا ایسے شک وشہبات کو جنم دیتا ہے کہ شاید حکومت ہی ان شرپسند
عناصر کی پشت پناہی کررہی ہے ۔فرقہ واریت ، ذاتی دشمنی ، سیاسی رنجشوں کی
بناء پر قتل و غارت گری سے ہر فر د شہر قائد میں ایک انجانے خوف میں مبتلا
ہے ۔ روزمرہ کی ٹارگٹ کلنگ اور بھتہ خوری کی وباء سے بازار وقت سے پہلے ہی
سنسان ہوجاتے ہیں۔لوگوں میں خوف ہ ہراس بڑھ رہا ہے اور وہ تیزی سے نفسیاتی
مسائل کا شکار ہو رہے ہیں ۔ ہزاروں افراد کا روزگار ختم ہو چکا ہے ۔ اوپر
سے قوم پرستوں کی آ ئے دن کی دھمکیوں نے سندھ کی عوام کو اد موا کردیا ہے ۔
دو وقت کی روٹی کے لیے سندھ میں سیلاب سے مرتے مرد بھیک مانگنے اور عورتیں
تن بیچنے پر مجبور ہوگئی ہیں ۔ سندھ کے باسی اپنے صوبے کے ان نامساعد حالات
و دہشت گردی کی لہر پر ماتم کرے یا بلوچستان پر آنسو بہائے ۔ شاید صوبوں
میں اسطرح کے حالات ایک سوچے سمجھے منصوبے کے تحت پیدا کیے گئے ہیں تاکہ ہر
کوئی اپنا رونا روئے کسی دوسرے صوبے کی عوام پر ہونے والی ذیاتی کے خلاف
آواز نہ اٹھاسکے ۔ کالم اختیتام بھی اپنی اُسی نظم کے چند اشعار سے جس سے
ابتداء کی تھی ۔
سیاست بنی ایک دکان ہے
جہاں ہرتاجر بے ایمان ہے
اقتدار کی مسند کے لیے
یہاں ہر چیز نیلام ہے |