آسیب

خدا جانے اس بستی پر آسیب کا سایہ تھا یا کیا افتاد پڑی تھی کہ جو شخص بھی نظر آتا وہ پریشاں حالی ،درماندگی ،تشویش ،اضطراب اور موہوم اندیشوں میں گھرا دکھائی دیتا ۔میں اس بستی میں چند روز قبل پہنچا تھا ۔کرائے کے مکان کی تلاش میں حالات نے مجھے اس ماحو ل میں پہنچا دیا جہاں کے پر اسرار حالات اور اس سے وابستہ ما فوق الفطرت داستانوں نے مجھے حیرت زدہ کر دیا۔اس بستی کا ہر مکان اور یہاں کا ہر مکین ایک انوکھی داستان کا امین تھا ۔اس کی خاموشی گفتگو تھی اور بے زبانی بھی ایک پیرایہ اظہار کا روپ دھار چکی تھی ۔ہر شخص اپنے شکستہ دل کا حال بتانے کا خواہش مند تھا مگر اس دیار میں کوئی بھی اس کی لرزہ خیز ،اعصاب شکن اور جان لیوا صدمات سے لبریز داستان سننے پر آمادہ نہ تھا ۔اس کی وجہ یہ تھی کہ ہر شخص اپنے دکھوں کے بوجھ کے نیچے سسک رہا تھا۔اس شہر ناپرساں میں کسی کو اتنی فرصت کہاں تھی کہ وہ دوسروں کے غم میں شریک ہوتا اور سسکتی انسانیت کی چشم تر پر نگاہ ڈالتا۔ بستی کے گرد ایک وسیع جنگل تھا اس میں دور دور تک حنظل ،زقوم ،کریروں اور جنڈ کے جھنڈ تھے ۔ان میں بجو،جنگلی سور ،بھیڑ یے ، گیدڑ،چغد،بوم،گدھ ،چمگادڑ اور سانپ کثرت سے پائے جاتے تھے۔دن کوبھی اس آسیب زدہ علاقے میں سفاک ظلمتوں نے شب کی سیاہی کا سماں پیدا کر رکھا تھا ۔شام ہوتے ہی پوری بستی مہیب سناٹے اور ہو لناک تاریکی کی لپیٹ میںآجاتی ۔پگڈنڈیوں اور گزرگاہوں کے ارد گرد چراغ غول اور ملخ و مور کی فراونی تھی ۔ہر طرف حسرت و یاس اور خوف و ہراس نے ڈیرے ڈال رکھے تھے ۔بستی کے درو دیوار بھی اپنے مکینوں اور بچھڑنے والوں کی جدائی کی وجہ سے غم کی تصویر بن گئے تھے ۔ہر سو ذلت و تخریب ،نحوست ،بے برکتی ،بے توفیقی اور بے حسی کے کتبے نو شتہ ءتقدیر کے مانند آویزاں تھے جنھیں چشم بینا سات پردوں میں بھی دیکھ سکتی تھی ۔اس بستی میں بڑے بڑے چغد دن کو بھی لب بام دکھائی دیتے اور چمگادڑ ہر گھر کی چھت سے دن کو لٹک کر اپنی نحوست و نجاست کا ثبوت دیتے ۔میرے مکان کے سامنے جنڈ کا ایک بڑ ادرخت تھا اس کی چوٹی پر ہر وقت بے شمار گدھ ،چیلیں اور کوے پر جھاڑتے رہتے ۔اس درخت کے بوسیدہ تنے میں موٹے مو ٹے بوم دن کے وقت اپنے سوراخوں میں چھپے رہتے اور سر شام باہر نکل کر فضاﺅں میں اپنے تسلط اور قوت کا اعلان کرتے ۔ایسا محسوس ہوتا کہ یہ مردار خور پرندے کسی شکار کے منتظر ہیں ۔جیسے ہی ان کو کسی مردار کی کہیں بھنک پڑتی یہ اسی وقت وہاں جا پہنچتے اور پیٹ کا دوزخ بھرتے ۔بستی سے کچھ فاصلے پر ایک قبرستان تھا ۔یہ بھی آسیب زدہ تھا کوئی اس کا رخ نہ کرتا۔یہاں ہر وقت ہو کا عالم رہتا ۔بستی کا کوئی شخص جب مر جاتا تو ناچار لوگ اس طرف جاتے لیکن مردے کی تدفین کے بعد کوئی مڑ کر نہ دیکھتا ۔بڑے بڑے بجو اس قبرستان میں رہتے تھے ۔واقف حال لوگوں کا کہنا تھا کہ اس قبرستان سے مردوں کے کفن ،ڈھانچے اور اجسام تک غائب کر دئیے جاتے تھے ۔قبرستان کی شمالی جانب کریروں اور جنڈ کے جھنڈ تھے جس کے ارد گرد خار مغیلاں بکھرے تھے۔ان کریروں پر لگے سرخ اور پکے ہوئے ڈیہلے اور جنڈ اور جال کے درختوں پر لگی پیلوں توڑ کر کھانے والا کوئی نہ تھا ۔یہاں تک کہ پرندے بھی اس طرف نہ آتے تھے ۔پیلوں ،ڈیہلے ،مکو ،کاسنی، لسوڑیاں اور بیر پک کر زمیں پر گرتے اور رزق خاک بن جاتے ۔دور دور تک،اکڑا ،بھکڑا ، پوہلی اور دوسری خاردار خود رو جنگلی جڑی بوٹیوں کی وجہ سے راہ چلنا دشوار تھا ۔اس جھنڈ میں ایک جھونپڑی تھی جس میں دس کے قریب مشٹنڈے رہتے تھے ۔منشیات کے عادی یہ لوگ ننگ انسانیت تھے ۔اکثر لوگوں کا یہ قیاس تھا کہ منشیات کے عادی یہ بد قماش لوگ خطرناک قسم کے جرائم میں ملوث تھے ۔بعض لوگوں کا خیال تھا کہ یہ آدم خور ہیں ۔ان کی جھونپڑی کے آس پاس ہڈیاں بکھری پڑی تھیں جن کے بارے میں یہ قیاس تھا کہ یہ انسانی اجسام کی باقیات ہیں ۔

اس آسیب زدہ بستی کے ایک مکین نے مجھے بتایا کہ اسے اپنے پرکھوں کی زبانی معلوم ہوا تھا کہ جس مقام پر اب ویرانہ ہے وہاں رابن ہڈ کی پناہ گاہ تھی ۔1857کے بعد وہ اس علاقے میں پہنچا اور اس نے اپنی اولاد کے ساتھ مل کراس بد قسمت علاقے کے مجبوروں اور مظلوموں کے چام کے دام چلائے ۔رابن ہڈ ایک رسوائے زمانہ ڈاکو تھا اس کے ساتھ بے شمار ساتا روہن ،اٹھائی گیرے ،چور ،اچکے اور نقب زن مل گئے ۔غریبوں کی جان ،مال اور عزت وآبرو کچھ بھی محفوظ نہ تھا۔ان چوروں نے کچھ رذیل طوائفوں کو بھی اپنے گروہ میں شامل کر لیاجنھوں نے چمڑے کے جہاز چلادئیے اور خرچی سے بے پناہ دھن کمایا۔اس پر اسرار بستی کے بیش تر مکین رابن ہڈ اور اس کے گروہ میں شامل طوائفوں کی اولاد ہیں ۔ان بد طینت چوروں نے نواحی جنگل میں جنگل کا قانون پوری شدت سے نافذ کر رکھا تھا اورجس کی لاٹھی اس کی بھینس ہی ان کا طریقہ کار تھا ۔حالات نے کروٹ لی اوررابن ہڈ اپنے انجام کو پہنچ گیا مگر اس کی اولاد بھیس بدل کر یہاں بدستور سر گرم عمل رہی ۔مجھے یقین ہو گیا کہ خزاں کے سیکڑوں مناظر ہوتے ہیں اس لیے طلوع صبح بہاراں کو سراب ہی سمجھنا چاہیے۔یہاں کے صاحب ثروت لوگ گرگٹ کی طرح رنگ بدلنے میں اپنا ثانی نہیں رکھتے تھے ۔یہاں حبس کا ایسا ماحول تھا کہ اس کے مسموم اثرات کے باعث طیور بھی اپنے آشیانوں میں دم توڑ دیتے تھے ۔کوئی دن ایسا نہ گزرتا تھا جب کوئی نہ کوئی طائر کسی پگڈنڈی پر مرا ہو نہ ملے ۔ان طیور اور مردہ جانوروں کو زاغ و زغن مسلسل کھدیڑنے میں لگے رہتے ۔ایک دن میں ایک پگڈنڈی پر چل رہا تھا کہ ایک کونج نہ جانے کہاں سے اڑتی ہوئی آرہی تھی سامنے کے درخت سے فضا میں بگولے کی طرح گھومتی ہوئی زمیں پر آ گری اور تڑپ تڑپ کر مر گئی ۔مجھے یقین ہو گیا کہ یہاں کوئی نہ کوئی بد روح یا آسیب ضرور ہے جس کی ایذا رسانی کی وجہ سے زندگی یوں سسک سسک کر دم توڑ رہی ہے ۔

شکم کی بھوک بھی عجیب ہوتی ہے کسی طور بھی اس سے سیری نہیں ہوتی ۔سچ تو یہ ہے کہ انسان شکم کی بھوک کے ہاتھوں در بہ در اور خاک بہ سر ہونے پر مجبور ہے ۔رخش عمر مسلسل ر و میں ہے ۔ان حالات میں بے بس و لاچار انسان یہ محسوس کرتا ہے کہ نہ تو اس کا ہاتھ با گ پر ہے اور نہ ہی پا رکاب میں ۔آج میں غم جہاں کے حساب میں مصروف تھا کہ کئی بچھڑے ساتھی بے حساب یاد آئے ۔سیالوی صاحب کی یادوں نے آج بے حد آزردہ کر دیا ۔وہ تو عدم کی بے کراں وادیوں کی جانب سدھار گئے مگر احباب ان کی فرقت میں زندہ درگو ر ہوچکے ہیں۔ان کے بعد کئی حقائق خیال و خواب ہو چکے ہیں۔وہ ایام کے راکب،حالات کے نباض اور صاحب باطن ولی تھے ۔ان سے مل کر واقعی زندگی سے پیار ہو جاتا تھا۔وہ حریت فکر کے مجاہد تھے ۔آخری مرتبہ وہ مجھے گزشتہ عید الفطر کے دن ملنے آئے۔وہ مجھے یہ سمجھاتے رہے کہ یہ زندگی ایک سراب کے سوا کچھ نہیں ۔یہاں کواکب جس طرح دکھائی دیتے ہیں وہ اس طرح ہوتے نہیں۔انسان اس دنیا میں چشم تر آتا ہے مگر جب وہ عدم کے کوچ کے لیے رخت سفر باندھتا ہے تو اس کا دامن تر ہوتا ہے۔اس دنیا کی زندگی اپنی اصلیت کے اعتبار سے مر مر کے جیے جانے کا نام ہے۔سیالوی صاحب کے ساتھ بھی مقدر نے عجب کھیل کھیلا۔وہ بھی کچھ عرصہ پہلے اسی بستی کے مکین تھے ۔وہ بھی میری طرح ایک کرائے کے مکان میں رہتے تھے ۔پھر یوں ہوا کہ ایک رات کسی پر اسرار بھوت نے ان کا تمام ساما ن اور جمع پونجی لوٹ لی اور ٹرکوں میں بھر کر فرار ہو گئے ۔جاتے وقت وہ یہ کہہ رہے تھے
”ہم رابن ہڈ کی اولاد ہیں ۔ڈکیتی کی راہ میں جو دیورا بنے گا نہیں رہے گا۔ سو پشت سے ہمارا پیشہ یہی ہے ۔کوئی ہمارا بال بھی بیکا نہیں کر سکتا ۔ہم بھوت ہیں سب کے منہ پر بھبھوت مل سکتے ہیں ۔“

ان نقاب پوش لٹیروں نے سیالوی صاحب پر اس قدر تشدد کیاکہ وہ ہوش و حواس کھو بیٹھے اور چند ماہ بعد کار جہاں کو ایک افسانہ سمجھ کر ہم سب احباب کو فسانہ بنا گئے ۔ان کے بعد ان کے اہل خانہ کو ظالم لوگوں نے تماشا بنا دیا ۔وہ اسی آسیب زدہ بستی عمر بھر کی کمائی لٹاکر خالی ہاتھ دنیا سے چلے گئے ۔ان کے بعد ہم سب اس آئینہ خانے کے بارے میں سوچتے ہی رہ گئے ۔تلنگے اور لچے لوگوں نے ایک محنتی اور رزق حلال کمانے والے دیانت دار انسان کو موت کے منہ میں دھکیل دیا ۔کوئی سکندر ہو یا قلندر سب پر یہ کڑا وقت آتا ہے کہ اسے سب کچھ لٹا کر اس دنیا کو خالی ہاتھ خیر باد کہنا پڑتاہے ۔
آفاق کی منزل سے گیا کون سلامت
اسباب لٹا راہ میں یاں ہر سفری کا

ا س بستی کی سماجی اور معا شرتی کیفیت دیکھ کر دنیا کی بے ثباتی کا یقین پختہ تر ہو جاتا ۔کئی بار خیال آتا کہ ترک دنیا کا اس سے بہتر درس کہیں اور سے کبھی نہیں مل سکتا۔سیالوی صاحب بھی اپنے تئیں ایک تارک الدنیا شخص تھے ۔ہوس دنیا کی آلو دگیوں سے دامن بچائے وہ بتیس دانتوں میں زبان کے مانند وقت گزار گئے ۔ان کی زندگی شمع کے مانند تھی ۔وہ ایسے شجر سایہ دار تھے جو عمر بھر خودتو آلام روزگار کی تمازتوں کی زدمیں رہے لیکن احباب کو کڑی دھوپ کے سفر میں خنک چھاﺅں فراہم کی ۔آج بھی ان کے احباب ان کی حسین یادوں اورفکر پرور خیالا ت کی چادراوڑھ کر زندگی کے دن پورے کر رہے ہیں ۔ایسے بے ضرر اور درویش منش فقیر کا اس قدر حسرت و یاس کے عالم میں دنیا سے کوچ کر جاناروح کو زخم زخم اور دل کو کرچی کرچی کر گیا ۔وہ اکثر کہا کرتے تھے :
فقیرانہ آئے صدا کر چلے
میاں خوش رہو ہم دعا کر چلے

اس آسیب زدہ بستی کے متعدد اسرار وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ مجھ پر کھلتے چلے گئے ۔اس بستی میں ہر جمعہ کو ایک فقیر آتا تھا ۔جو ایک ایسی صدا لگاتا کہ سب سننے والے چونک اٹھتے وہ بھیک ضرور مانگتا تھا لیکن کسی کے لیے بد دعا یا غیبت اس کا شیوہ نہ تھا ۔وہ اکثر کہا کرتا تھا ”جو مجھ کو خیرات دے اس کا بھی بھلا جو نہ دے اس کا بھی بھلا“۔ایسے مرنجاں مرنج اور بے ضرر بھکاری اب کہاں؟جب کبھی یہ فقیر کسی ترنگ میں ہوتا تو ترنم سے یہ گیت ضرورگاتا تھا ۔اسے سن کر آنکھیں بھیگ بھیگ جاتیں :
جگ والا میلا یارو تھوڑی دیر دا
ہنسدیاں رات لنگھے پتا نہیں سویر دا
(اے میرے دوستو!یہ زندگی کے میلے ٹھیلے بہت مختصرعرسے کے لیے ہیں ۔ہنستے مسکراتے رات بسر ہوتی ہے لیکن کسے خبر کہ اس رات کی سحر بھی ہو گی یا نہیں ؟)

اس فقیرکی صدا سن کر زندگی کی حقیقی معنویت کے بارے میں کوئی ابہام نہ رہتا ۔اس بستی کی ایک انوکھی بات یہ تھی کہ یہاں کے باشندے زیادہ تر نو جوان اور ادھیڑ عمر کے تھے ۔یہاں کوئی ضعیف مردیا عورت مجھے دکھائی نہ دیا ۔یہ بھی ایک معما تھا ۔ہزاروں الجھنیں تھیں ۔جب بھی کوئی سوچ دامن گیرہوتی تو ایک ہی صدا نہاں خانہ دل سے سنائی دیتی کہ کو ن سی الجھن کو سلجھاﺅ گے یہاں تو سب کچھ گورکھ دھندا ہے ؟اس بستی میں آنے والے تمام لوگ اپنی باتوں سے دانش ور اور فلسفی لگتے ۔ان کی باتیں منطق کی صورت میں فکرو نظر کومہمیز کرتیں ۔سنگترے فروخت کرنے والا ایک خوانچے والاگلا پھاڑ کر صدا لگاتا ”اچھے سنگ ترے “جو شخص اس بات کی تہہ تک پہنچ جاتا اس کا آنکھیں ساون کے بادلوں کی طرح بر سنے لگتیں اور جو سطحی طور پر اس کو سنی ان سنی کر دیتا اس کے لیے اس میں سمجھنے کی سرے سے کوئی بات ہی نہ تھی ۔ایک اور خوانچے والا بھی اس بستی میں چکر لگاتا۔یہ شخص میدے اور چینی سے روٹی کی طرح گول اور خوش ذائقہ ایک خاص مٹھائی تیار کرتا اسے مقامی لوگ پتیسا کہتے تھے ۔نا معلوم اس کا کون سا کاروبار تھاکہ وہ یہ مٹھائی پرانے جوتوں کے بدلے فروخت کرتایا سر کے بالوں کے بدلے وہ پتیسا برابر میں تول کر دے دیتا ۔ادھیڑ عمر کا یہ شخص گزشتہ دوعشروں سے بلاناغہ اس بستی کے باشندوں کو ایک ہی صدا لگا کر متوجہ کرتا تھا۔”سر کے بالوں کے بدلے میں پتیسا۔۔۔ پرانے جوتوں کے بدلے میں پتیسا۔لاﺅبال اور کھاﺅ دال “

ایک مرتبہ میرے پاس ایک صوفی بیٹھے تھے انھوں نے یہ صدا سنی تووہ زار و قطار رونے لگے انھوں نے خوانچے والے کوبلایااور کہنے لگے ”میاں خوانچے والے تم سچ کہتے ہو ہم زندگی بھر جو تیا ں چٹخاتے پھرتے ہیں یا ہمارے بال اہل ثروت کے ہاتھ میں جاتے ہیں اور ہو ہما رے بال پکڑ کر ہمیں کھینچتے پھرتے ہیں تب کہیں جا کر ا کے بدلے میں ہمیں پتیسا کی صورت میں روٹی ملتی ہے۔“

یہ سن کر خوانچے والابھی اپنے آنسو ضبط نہ کر سکااور بولا:”بات کو سمجھنا بھی تو مشکل ہے ۔آج تک کسی نے میر ی صدا کا یہ مطلب نہیں نکالا۔تیری آواز مکے اور مدینے ۔سچ تو پھر یہی ہے کہ مظلوم طبقے کو سر سے لے کر پاﺅں تک اہل جور ،ظالم اور لٹیرے اپنے جبر سے کچل رہے ہیں ۔ہماری پگڑی ،لباس اور جوتے سب کچھ روٹی کے بدلے بک جاتا ہے ۔ہمارا بال بال قرضے میں جکڑا ہوا ہے ۔“

یہ کہہ کر خوانچے والا اٹھ کھڑا ہوا اور زور سے چلایا”پرانے جوتوں کے بدلے پتیسا، سر کے بالوں کے بدلے پتیس،لاﺅ بال او ر کھاﺅ دال“سچی بات تو یہ ہے کہ مجھے دال میں کچھ کالا نظر آیا ۔میری چھٹی حس کہہ رہی تھی کہ ہو نہ ہو اس پورے ماحول میں رابن ہڈ کی بد روح گھوم رہی ہے ۔جسے دیکھو مال بنانے کی فکر مین اور عام آدمی چرخے کی مال بن کر رہ گیا ہے ۔ میں سوچتا رہ گیا کہ ہم لو گ بھی کس قدر سادہ ہیں کہ کہ صرف زبان کے سستے چٹخارے کے لیے بال اور جوتے بھی فروخت کر دیتے ہیں ۔سچ تو یہ ہے کہ یہاں قوم فروشیاور ضمیر فروشی کے ڈھب بھی لوگ سمجھ چکے ہیں ۔میر جعفر اور میر صادق قماش کے مسخرے ہر طرف ڈھٹائی سے دندناتے پھرتے ہیں ۔سامنے والی گلی میں ایک مخبوط الحواس شخص رہتا تھا اس نے اس خوانچے والے کی آواز سنی تو تو بگٹٹ بھاگتا ہوا نزدیکی حمام کے سامنے جھاڑو دینے لگا اور وہاں کوڑے کے ڈھیر پر بکھرے پڑے حجام کے پھینکے ہوئے بال اپنی جھولی میں بھر لایا ۔اس فاتر العقل شخص نے خوانچے والے کی ٹوکری میں متعفن بال پھینکتے ہوئے زور سے کہا :
’لاﺅ ان بالوں کے بدلے مجھے پتیسا اور دال کھلاﺅ،میں دو دن سے بھوکا ہوں ۔“اس کے بعد وہ زارو قطار رونے لگا ۔اس نے مگر مچھ کے آنسو بہائے مگر کسی نے ان پر دھیان نہ دیا ۔

خوانچے والے نے پیٹ کی پوجا کرنے والے اس خبطی پر قہر بھری نگاہ ڈالی اور تمام بال ٹوکری سے جھاڑ کر بولا”ارے احمق کہیں کے ۔پتیسا تو صرف عورتوں کے لمبے بالوں کے بدلے ملتا ہے ۔کوڑے کے ڈھیر سے اٹھائے جانے والے ان بالوں کے عوض تو تجھے صرف پھٹکار ہی ملے گی ۔میری مانو تو کوڑے کے ڈھیر سے جاہ و منصب کی ہڈیاں چننے کا ڈھنگ سیکھ لو ۔دم دبائے ایسا کام کرنا مشکل نہیں۔فرعون کے در پر دم ہلاﺅ اور اس کی دہلیز چاٹو اور شرم و حیا اور ضمیر کو غرقاب کردو ۔ اس طرح پیٹ کا دوزخ بھرنا بہت آسان ہو جائے گا ۔میں تو ان غلیظ بالوں کے بدلے صرف دھتکار ہی دے سکتا ہوں۔“

” وہی تھوڑی سی دے دو میں بہت بھوکا ہوں ۔“خبطی نے ٹسوے بہاتے ہوئے کہا”بال تو بال ہی ہوتے ہیں خواہ چھوٹے ہوں یا بڑے “

”بڑا فرق ہے ان میں “خوانچے والے نے کہا ”جس طرح بڑے آدمی اور چھوٹے آدمی میں فرق ہے اسی طرح بالوں میں بھی زمین آسمان کا فرق ہوتا ہے لیکن تجھے کیا معلوم تو نے تو دماغ کو چھٹی دے رکھی ہے ۔یہ باتیں تیرے سر سے گزر جائیں گی ۔اونہہ آ جاتے ہیں مفت خور ،لیموں نچوڑ کہیں کے ۔“

خوانچے والے نے اپنی ٹوکری اٹھائی اور وہاں سے چل دیا ۔تھوڑی دیر بعد ایک چمٹا بجانے والا بستی کے اس کوچے سے گزرا ۔اس کے سر ،لے ،آہنگ اور تان سے ایک سماں بندھ جاتا تھا۔وہ لہک لہک کر لوک گیت اور کافیا ں سناتا اور اپنی ہوا میں مست اپنی دھن میں مگن پر اسرار انداز میں ان جانی مسافتوں کی جانب گامزن رہتا ۔وہ یہ کلام اکثر گاتا تھا ۔

ٹک حرص و ہوا کو چھوڑ میاں مت دیس بہ دیس پھرے مارا قزاق اجل کا لوٹے گا جب لاد چلے گا بنجارا
اس پر اسرار اور آسیب زدہ بستی کاباوا آدم ہی نرالاتھا ۔یہاں جو بھی ملتا وہ دل میں اک طوفان چھپائے دکھائی دیتا مگر لب اظہار پر تالے لگائے کسی کو اپنا محرم راز نہ بناتا۔مجھے معلوم ہوا کہ اس آسیب زدہ بستی کے مشرقی کنارے پر کسی زمانے میں ایک باغ ہوا کرتا تھا ۔اس باغ میں گلاب کے پھول کثرت سے اگا کرتے تھے لیکن المیہ یہ ہوا کہ باغ میں گدھوں کی بے روک ٹوک آمد اور باغبانوں کی غفلت کے باعث ان پھولوں کو گدھے چر جاتے اور پھر سب پھو ل دار پودے نیست و نابود ہو گئے ۔اکثرلوگوںسے یہ بھی سنا کہ اس باغ میں بے شمار بلند نخل تناور بھی تھے جن پر کسی زمانے میں عقابوں کے نشیمن تھے حالات نے ایسی کروٹ لی کے سب شاہینوں اور عقابوں کو باغ سے بارہ پتھر کر دیا گیا۔ ان کے بعد ان کے آشیانوں میں زاغ و زغن گھس گئے ۔کئی چرواہوں نے بھیڑیں پال رکھی تھیں پھر ایسا ہوا کہ بھیڑئیے روپ بدل کر آگئے اور انھوں نے بھیڑ کا سوانگ رچایا اور تمام بھیڑوں کو کھا گئے ۔اس باغ میں انگور کی بیلیں بھی تھیںجنھیں بے حس باغبانوں نے کیکر پر چڑھا دیا اوراس طرح انگور کے تمام گچھے اور بیلیں چھلنی ہو کر رفتہ رفتہ سوکھ گئیں ۔اس باغ کے مالی اسی درخت کو کاٹتے جس پر وہ بیٹھتے یا جو شجر ان کے لیے گھنی چھاﺅں کی فراہمی کو یقینی بناتا اس کو جڑ سے اکھاڑ پھینکنا ان کا وتیرہ تھا ۔وہ ہر اس شجر کی جڑوں کو کھوکھلا کرنے میں ہمہ وقت مصروف رہتے جو عام لوگوں کے لیے مفید ہوتا ۔اپنی تخریب کا کوئی موقع وہ ہاتھ سے جانے نہ دیتے ۔وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ بستی ،اس کے گرد و نواح اور باغ سے تمام طائران خوش نوا کوچ کر گئے صرف زاغ و زغن اور بوم و شپر باقی بچ گئے ۔وہ بھی دن کو منقار زیرپررہتے مگر شام ہوتے ہی ایام گزشتہ کی نوحہ خوانی میں مصروف ہو جاتے ۔بوم و شپر کی آوازیں سن کر مہیب سناٹے کا طلسم تو کسی حد تک ٹوٹ جاتا مگر خوف کی اعصاب شکن فضا میں دم گھٹنے لگتا۔اس آسیب زدہ بستی کا ماحول حد درجہ لرزہ خیز تھا جس کے سامنے دشت و صحرا کی ویرانی کوئی حیثیت نہ رکھتی تھی ۔
کوئی ویرانی سی ویرانی ہے
دشت کو دیکھ کے گھر یاد آیا

کافی دن گزر گئے مجھے بستی اور اس کے آسیب زدہ ماحول کے بارے میں پائے جانے والے تضادات کے بارے میں کوئی سراغ نہ مل سکا۔ایک دن ایک نجومی اور اور اس کے ساتھ ایک رمال بستی کی گلی میں گھوم رہے تھے۔وہ شاید کسی دوسری آبادی سے اس طرف آئے تھے ۔میں نے اس موقع کو غنیمت سمجھا اور ان سے اس سارے معاملے کے بارے میں تفصیل سے بات کی ۔میری باتیں سن کر رمال اور نجومی نے زور سے قہقہہ لگایا۔ان کی باچھیں کھل گئیںاور کافی دیر تک وہ ہنسی ضبط نہ کر سکے ۔جب وہ قدرے پر سکون ہوئے تو نجومی بولا:
”کیسا آسیب اور کیسی نحوست ؟یہ سب تو لوگوں کی شامت اعمال کے سبب ہے ۔جس معاشرے سے عدل و انصاف کو بارہ پتھر کر دیا جائے وہاں اسی قسم کے حالات اور انہونی واقع ہو تی ہے “

میں نے حیرت سے کہا ”آخر اس بستی پر یہ افتاد کیوں پڑی ؟یہاں کا ہر باشندہ رنج و الم کی تصویر ہے اور اس کے چہرے پر تقدیر کے ستم اور حالات کی سنگینی کے انمٹ نقوش صاف نظر آتے ہیں۔“

رمال بولا”ظلم کے سائے بڑے خطر ناک ہو تے ہیں۔جب طاقتور طبقہ مظلوم اور بے بس انسانیت پر مظالم ڈھاتا ہے تو اس کے اثرات نسل در نسل چلتے ہیں ۔راستے سے بھٹک جانے والے افراد سے لمحوں میں جو خطائیں سر زد ہوتی ہیں ان کا خمیازہ آنے والی نسلوں کو صدیوں تک اٹھانا پڑتا ہے ۔اس بستی میں چور اچکے ہی کرتا دھرتا ہیں ۔اہل ہوس ہی مدعی بھی ہیں اور منصف کے منصب پر بھی غاصبانہ طور پر وہی قابض ہیں ۔اس بستی میںجو فروش گندم نما اور بگلا بھگت عناصر کی کثرت ہے ۔کالی بھیڑیں ،سفید کوے اور گندی مچھلیوں نے پورے ماحول کو عفونت اور سڑاند کی بھینٹ چڑھا دیا ہے ۔“

رمال اور نجومی اٹھ کھڑے ہوئے اور اس آسیب زدہ بستی کی سامنے والی سنسان گلی میں مل کر یہ صدا لگا رہے تھے :
”دن بھلے تاں متر وی بھلے : رب نوں بھاوے تاں سکے وی ساوے ۔“
(جب اچھے دن آتے ہیں تو احباب کا رویہ بھی اچھا ہو جاتا ہے ۔اگر رب کریم کو پسند ہو تو خشک درخت بھی ہرے بھرے ہو جائیں ۔“

ایک سپیرا اتوار کی صبح یہاں سے گزرتا وہ چوک میں کھڑا ہو جاتا اور سانپ دکھا کر لوگوں سے بھیک مانگتا ۔کچھ عرصے سے وہ بھی غائب ہو گیا ۔اس سپیرے کے اچانک غائب ہونے سے ماحول کی فضا اور بھی غمگین محسوس ہوتی تھی۔مجھے معلوم ہوا کہ اس کا کاروبار شدید مندے کا شکار تھا ۔اب کوئی بھی اس کے سانپوں کو دیکھنے نہ آتا تھا۔جب ہر طرف آستین کے سانپ عام ہوں تو ان عفونت زدہ سانپوں کو دیکھنے کی تمنا کون کر سکتا ہے ۔ گلی کے ایک لڑکے نے اس سپیرے کے بارے میں یہ شعر پڑھ کر اپنے جذبات کا اظہار کیا۔
مقید کر دیا سانپوں کو یہ کہہ کر سپیرے نے
کہ انسانوں کو انسانوں سے ڈسوانے کا موسم ہے

چند روز قبل میرے ساتھ والے مکان کے مکین کے پاﺅں پر چوٹ لگی ، میں نے اس کے زخم پر خود مرہم پٹی کی۔یہ شخص میرے مکان کا مالک بھی تھا ۔کدال لگنے کی وجہ سے گہرا زخم تھا دو دن کی مرہم پٹی کے بعد زخم بہتر ہونے لگا ۔اس شخص نے مجھے زخم لگنے کی وجہ نہ بتائی کئی دن اسی شش و پنج میں گزرے۔اس شخص کے بارے میں مجھے معلوم ہوا کہ یہ پورے علاقے کا خطرناک نقب زن ہے ۔اس پر اسرار ماحول کے بارے میں کسی کو کچھ معلوم نہ تھا یا سب کے سب کسی ان جانے خوف کے باعث دل کی بات لبوں پر لانے کی تاب نہیںرکھتے تھے ۔ دسمبر کا مہینہ تھا ،سردیوں کی ایک شام تھی ۔آسمان پر کالے بادل امڈ آئے ۔گھنگھور گھٹا برسی اور ساتھ ہی ژالہ باری بھی شروع ہوگئی ۔ہر طرف بھیانک تیرگی تھی ،ہاتھ کو ہاتھ سجھائی نہیں دیتا تھا ۔میں اپنے کمرے میں دبکا بیٹھا تھا۔میرے تمام افراد خانہ یہاں نہیں تھے ۔سردی کی شدت کی وجہ سے ہاتھ پاﺅں شل ہو رہے تھے ۔کمرے میں کوئلے کی انگیٹھی جل رہی تھی لیکن با ہر کی سردی اور موسم کی شدت نے اس حرارت کو غیر موثر بنا دیا تھا ۔اچانک دروازے پر زور کی دستک ہوئی ۔میں حیران تھا کہ آج تک کسی نے اس وقت اتنی زور سے اور اچانک میرے مکان کے دروازے پر کبھی دستک نہیں دی تھی ۔میں نے کانپتے ہوئے ہاتھوں سے دروازہ کھولا دستک دینے والے نوارد اجنبی نے سر اور منہ پوری طرح ڈھانپ رکھا تھا ۔اس کی شناخت ممکن ہی نہیں تھی ۔اس کے سراپا پر نظر ڈالی تو اس اجنبی کے ٹخنے پر بندھی پٹی وہی تھی جو میں نے صبح کے وقت باندھی تھی ۔ یہ دیکھ کر میری آنکھیں کھلی کی کھلی رہ گئیں کہ ایک ڈھانچہ میرے سامنے کھڑا تھا جس کا سر ہی نہیں تھا۔اس کے ساتھ دس دیگر افراد بھی تھے جو سب کے سب سروں کے بغیر تھے ۔یہ دیکھتے ہی سر کٹے شخص نے مجھے زور سے دھکا دیا میں منہ کے بل گرا اور پھر مجھے کچھ ہو ش نہ رہا ۔جب میں نے آنکھ کھولی تو سورج کی شعائیں کمرے میں آرہی تھیں ۔میںآنکھیں ملتا ہو ا اٹھ بیٹھا۔ رات کے پر اسرار واقعے پر غور کر رہا تھا کہ میری نظر کمرے کی الماری پر پڑی ۔سب کپڑے اور سامان غائب تھا ۔جب میں نے باقی مکان کا جائزہ لیا تو معلوم ہوا کہ سب کچھ لوٹ لیا گیا ہے ۔میں دامن جھاڑ کر باہر نکلا۔یہ واردات رات کو ہو چکی تھی ۔لوگ اسے بھوتوں اور آسیب کے شیطانی فعل سے تعبیر کرتے ہیں ۔اب میں معاملے کی تہہ تک پہنچ چکا تھا ۔میں نے رب کریم کا شکر ادا کیا کہ اس نے میری جان بچائی ۔گھر کا سار ا سامان تو بھوت لے گئے۔آج دسمبر کی چار تاریخ تھی ۔اس مہینے کا مکان کا کرایہ میں پہلی تاریخ کوایڈوانس دے چکا تھا ۔میرے اہل خانہ سردیوں کی چھٹیوں کی وجہ سے گھر سے باہر تھے ۔میں یہاں تنہا تھا اب میں اکیلا یہاں سے نکلا ۔ساتھ والے مکان میں اس مکان کامالک رہتا تھا ۔اس شخص کے ٹخنے پر لگنے والے زخم کی مرہم پٹی میں نے کل صبح کی تھی ۔مجھے دیکھ کر وہ شخص باہر آیا میں نے اس کی خیریت دریافت کی ،اس کے زخم کی دوبارہ مرہم پٹی کی ۔ایسا محسوس ہوتا تھا کہ اس شخص نے کوئی زیادہ کٹھن کام کیا ہے جس کی وجہ سے زخم سے خون پر سے رسنے لگا تھا ۔مرہم پٹی سے فارغ ہو کر میں نے خالی مکان کی چابی اس شخص کے حوالے کی اور خالی ہاتھ اپنے آ بائی گاﺅں جاپہنچا ۔میرے بچوں نے مجھ سے اچانک آمد کے بارے میں پوچھا :
” آپ میلے کپڑوں میں خالی ہاتھ کیوں آگئے ہیں ؟گھر کا سامان کس کے حوالے کیا ؟وہاں تو اندھیر نگری ہے بستی میں تو ڈاکو راج ہے ۔“

”سامان کسی کے حوالے کرنے کی نوبت ہی نہیں آئی “میں نے کرب ناک لہجے میں کہا”مالک مکان نے اپنے کرایہ دار کی تمام دشواریوں کا ازالہ کر دیا ۔“

”ہم کچھ نہیں سمجھے “بچوں نے بہ یک زبان کہا” گھر کا سامان کہا ں ہے ۔کیا ہم مجبوروں کی عمر بھر کی کمائی لٹ گئی ہے ؟“

”ہاں !“ میں نے جواب دیا ”ساغر صدیقی نے سچ کہا تھا :
جس عہد میں لٹ جائے فقیروں کی کمائی
اس عہد کے سلطان سے کچھ بھو ل ہوئی ہے

سب لو گ فرط غم سے نڈھال تھے ۔اس سانحے نے 1947کی ہجرت کی یاد تازہ کر دی ۔میرے والد بتا یاکرتے تھے کہ جب ہم مدراس سے چلے تھے تو خالی ہاتھ ہی نکلے تھے ۔تقدیر کے فیصلے عجیب ہوتے ہیں ۔ان کے سامنے کسی کو دم مارنے کی مجال نہیں ۔

”لیکن یہ سب کچھ کیسے ہوا؟“میرے بھائی نے پوچھا”ڈاکو کہا ںسے آئے اور کدھر گئے ان کا کچھ سراغ ملا ؟“

میں نے گلوگیر لہجے میں جواب دیا ”اس آسیب زدہ بستی میں گزشتہ رات ایک مانوس بھوت اور اس کے دس کے قریب بھوت ساتھیوں نے مل کر میرا سب سامان اٹھا لیا۔اور وہاں ایک سوئی بھی نہیں رہنے دی ۔یہ سب کچھ اس قدر پر اسرار انداز میں ہوا کہ کچھ سمجھ میں نہیں آتا ۔اللہ کریم کا شکر ہے کہ میری جان بچ گئی “
میرے بھائی نے اس تمام الم ناک صور ت حال کے بارے میں جب سنا تو وہ بھی معاملے کی تہہ تک پہنچنے میں کامیاب ہو گیا ۔وہ دل گرفتہ لہجے میں بولا:
جو درپئے پندار ہیں ان قتل گہوں سے
جاں دے کے بھی سمجھو کہ سلامت نکل آئے

اس آسیب زدہ بستی کے بگلا بھگت مکینوں نے کتنے گھر بے چراغ کر دیئے ۔بے شمار شریف لوگ دربہ در اور خاک بہ سر ہو گئے ۔مظلوم سہاگنیں بیوہ ہو گئیں ،بچے یتیم ہو گئے اور مجبور لوگ فاقہ کشی پر مجبور ہو گئے ۔ لوگ سوچتے تھے کہ اس علاقے کے فراعنہ کی مدت کیوں ختم نہیں ہوتی ؟میں اسی فکر میں مبتلا تھا کہ اچانک دروازے پر دستک ہوئی ۔میرے کرم فرما قریشی صاحب موجود تھے ۔میری حالت زار پر وہ بہت دل گرفتہ تھے ۔کہنے لگے :
” اللہ کریم کے ہاں دیر تو ہے مگر وہاں اندھیر کا تصور ہی کفر ہے ۔ظالموں کو ڈھیل تو مل جاتی ہے مگر ان کو مظلوموں پر کوہ ستم توڑنے کی کھلی چھٹی کبھی نہیں ملتی ۔تم اپنامعاملہ اپنے رب کی عدالت میں پیش کردو ۔وہی عدالت سب سے بڑی عدالت ہے ۔اس دنیا میں مظلوم کو انصاف کے حصول کے لیے در در کی ٹھوکریں کھانی پڑتی ہیں ۔اور حالات اسے زندہ درگور کر دیتے ہیں ۔اللہ پر توکل رکھو اس قادر مطلق کی گرفت سے کوئی نہیں بچ سکتا۔مظلوموں کی داد رسی خالق کائنات کی بارگا سے ضرور ہوتی ہے ۔“

میں نے قریشی صاحب کی شفقت پر ممنونیت کا اظہار کیا اور ان سے دعا کی التجا کی ۔وہ پرنم آنکھوں سے کہنے لگے :
”یا رب کریم! تو ظالموں کو کیفر کردار تک پہنچا ۔تیری ذات ہی ان مظلوموں کے درد کا درماں ہے اور بے چاروں کی چارہ گری تیرے سوا کون کر سکتاہے ؟“

قریشی صاحب ایک تہجد گزار ،نمازی اور با کردار صوفی ہیں ۔ان کے جانے کے بعد دل کو سکون ملا ۔میں نے کبھی کسی کے لیے بد دعا نہیں کی ۔چند ماہ بعد مجھے معلوم ہوا کہ جس علاقے میں وہ پر اسرار آسیب زدہ بستی تھی وہاں ایک ہولناک زلزلے نے تباہی مچا دی ہے ۔بستی کی اینٹ سے اینٹ بج گئی ۔نہ مکان رہے اور نہ ہی کوئی مکین سلامت رہا فطرت کی انتہائی سخت تعزیروں کی زد میں آنے والے پوری دنیا کے لیے عبرت کا نشان بن جاتے ہیں ۔ان لوگوں کے بارے میں سیالوی صاحب اکثر کہا کرتے تھے ۔
حذر اے چیرہ دستاں سخت ہیں فطرت کی تعزیریں
Ghulam Ibn-e-Sultan
About the Author: Ghulam Ibn-e-Sultan Read More Articles by Ghulam Ibn-e-Sultan: 277 Articles with 679865 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.