بہتے ہوئے خون کا شور سنائی دے
رہا ہے ‘ اس کی کان پھاڑ آواز ایک چنگھاڑ کی صورت میں کروڑوں لوگوں کے
اوسان خطا کرتی رہی۔ امریکہ اور اس کے حواریوں نے اسے سینڈی کا نام دیا ہے
جس نے13ریاستوں کو متاثر کرتے ہوئے9میں ایمرجنسی کی صورتحال پیدا کردی ‘
نیویارک ‘ واشنگٹن ‘ ورجینیا ‘نیوجرسی اور دیگر اہم شہر پانی کی سرکش موجوں
کے نرغے میں بے بسی کی تصویر بنے رہے ۔ طوفانی لہروں نے ٹوئن ٹاورز کی جگہ
تعمیر ہونے والے گراﺅنڈ زیر و کا بھی طواف کیا اور ایٹمی ریکٹرز ‘ آئل
ریفائنریز ‘ گرڈ اسٹیشنز ‘ زیر زمین ریلویز اور مواصلاتی نظام کو درہم برہم
کرکے رکھ دیا۔ اپنی پوری طاقت کے باوجود سپر پاورز کے عوام اور حکمران
طوفان کا کچھ نہ بگاڑ سکے ان کی جدید ٹیکنالوجی نے طوفان کی آمد کی خبر تو
دی تاہم اس کا مقابلہ کرنے کےلئے ان کے پاس کوئی چارہ کار نہیں تھا۔ کمزور
اور غریب ممالک کو دھمکیاں دینے اور جارحیت کا شکار بنانے والے حکمران اس
امر پر چیں بجبیں رہے کہ وہ اس کا الزام کسے دیں اور اس کی آڑ میں کس طرح
اپنے مفادات حاصل کریں؟ لیکن سوچ بچار اور غور وخوض کے باوجود بھی انہیں اس
معاملے میں کوئی کامیابی نہیں مل سکی ورنہ ان سے کچھ بعید نہیں تھا کہ یہ
الزام عائد کردیا جاتا کہ سینڈی کی طوفانی دہشت گردی برپا کرنے والے دہشت
گرد طالبان ہیں‘ وہ حقانی گروپ سے تعلق رکھتے ہیں‘ پاکستان انہیں پناہ دینے
کا مجرم ہے اس لئے اگر شمالی وزیرستان میں آپریشن نہ کیا گیا تو پاکستان کو
اس کے سنگین نتائج بھگتنا ہوں گے۔ اب انہیں خود نتائج بھگنا پڑ رہے ہیں
انہیں ان کے شہروں کو کھنڈرات میں تبدیل کرکے جو تحفہ دیا گیا ہے یہ انہی
کھنڈرات کی جانب سے ہے جن پر بی باون طیاروں سے کارپٹ بمباری کرتے ہوئے وہ
قہقہے لگاتے اور جام ٹکراتے تھے۔ ہنستے بستے گھرانوں کو گھروں سے بے گھر
کرنے اور ان کے آشیانوں کو راکھ کا ڈھیر بنانے والے اپنے عوام کی بے گھری و
بے دری کا تماشا دیکھ رہے ہیں۔ کمزوروں و بے بسوں پر میزائل برسانے اور
سازشوں کے عادی سینڈی کے خلاف کوئی سازش نہیں کر سکے۔ بے گور و کفن لاشے ان
کی شیطنت‘ درندگی اور دہشت کا مذاق اڑا رہے ہیں۔ انہوں نے اس کا تصور بھی
نہیں کیا ہوگا کہ وہ جو آفت دوسروں پر ڈھاتے رہے ہیں وہ انہیں بھی اپنی
لپیٹ میں لے سکتی ہے‘ آج وہ خود آفت زدہ ہیں۔ تباہی و بربادی کی دل دہلا
دینے والی ہلاکت آفریں داستانیں رقم کرنے والے خود اسی داستان کا ایک حصہ
بن گئے ہیں۔ سیاہ فام صدر ‘ گورے تھنک ٹینکس ‘ یہودی گماشتے اور پاکستان کی
ساس ہیلری کلنٹن کی سمجھ میں کچھ نہیں آ رہا ۔ ان کے اوسان خطا ہیں مگر وہ
اس کا اظہار نہیں کررہے۔ طاقت کی کارفرمائی کے نتائج بھگتنے کے باوجود وہ
طاقت کے نشے میں مگن ہیں۔ کون نہیں جانتا کہ یہ الارم ہے ‘ وارننگ ہے ‘
انتباہ ہے ‘ سبق ہے ‘ ہر کمال را زوال کی جھلک ہے ۔ پانی نے وہ ساری املاک
تباہ کر دیں جو مسلم ملکوں سے دولت لوٹ کر بنائی گئی تھیں۔ امریکی عوام کو
یہ دن اس لئے دیکھنا پڑے کہ انہوں نے اپنے حکمرانوں کو بے گناہوں کے خون سے
کھیلی جانے والی ہولی سے منع نہیں کیا۔ وہ اپنے حکمرانوں کا ہاتھ روکتے تو
اس مصیبت سے ہرگز دوچار نہ ہوتے۔ شاید ان میں یہ احساس بیدار ہو جائے کہ
پیاروں کی جدائی اور آشیانوں کی تباہی کا غم کیا ہوتا ہے۔ لوگ کمزور
‘حکمران غلام اور حواری مفاد پرست ہیں تو کیا ہوا فطرت تو کمزور نہیں ہے‘
وہ اپنی طاقت کے مظاہر ضرور دکھاتی ہے۔ اسے خواہ سونامی کا نام دیا جائے یا
سینڈی کا ۔ یہ نہ سینڈی ہے نہ سونامی یہ لہروں کے پر اسرار تموّج سے بھی
پیدا نہیں ہوا۔ کوئی مانے یا نہ مانے یہ ویتنامی‘جاپانی ‘عراقی‘ افغانی‘
فلسطینی اور امت مسلمہ کے دیگر ممالک میں بے موت مارے جانے والے شہداءکے
لواحقین کے آنسو ہیں جو برسوں قطرہ قطرہ بہتے جمع ہوتے رہے۔ زمین کی تہہ تک
دیکھ لینے کا دعویٰ کرنے والوں نے ان پر دھیان دینے کے بارے میں نہیں سوچا۔
ان آنسوﺅں کو غضب اور قہر بن کر آگے بڑھنے کا انتظار تھا جونہی انہیں حکم
ملا انہوں نے اپنی بھر پور نفرت وغصہ نکالنے میں کوئی کسر نہ اٹھا رکھی۔
اوباما ٹھیک ہی کہتے ہیں طوفان کو معمولی نہ سمجھا جائے ‘ آہوں‘سسکیوں اور
آنسوﺅں کا طوفان معمولی ہو بھی نہیں سکتا تھا۔ |