آمدن و خرچ

حکومتی حکمت عملی و انتظامات سے عید الا ضحی پرامن طریقے سے گزر گئی اور پاکستانی عوام نے جوش و جذبہ سے اسلامی تہوار منایا، سوائے کھالیں اکھٹی کرنے والے رضا کاروں و تنظیموں کے۔ باقی تمام افراد عید اپنے خاندان وفیملی سے معلاقاتیں کرتے گزاری ، ورنہ موجودہ نام نہاد ترقی یافتہ ۔۔ٹیکنالوجی۔۔تیز رفتار دور مین کس کے پاس اتنا ٹائم ہوتا ہے جو اپنے بچوں ۔۔والدین۔۔چچا۔۔دیگر خاندان کو اپنے قیمتی اوقات کار میں سے ایک لمحہ دے سکئے۔ اور ان کے مسائل۔۔کامیابی کی کہانیاں سن سکئے۔ بس دور لگی ہوتی ہے کہ جلد ازجلد پوری دنیا کی دولت اپنے بینک اکاﺅئنٹ میں جمع ہوجائے تو پھر باقی زندگی آرام سے بیڈ پر گزارے گئے ، اگر بچ گئی ؟

دنیا میں تمام افراد کا جیب خرچ ان کی آمدنی کے تناسب کے مطابق ہی چلا آرہا ہے، جس شخص کی جتنی آمدن ہوتی ہے اس کا خرچ بھی اتنا ہی زیادہ ہوتا ہے۔ہاں اگروہ کوئی غیر قانونی ۔۔غیر اسلامی۔۔غیرانسانی کا م کرتا ہوتوپھرممکن ہے کہ وہ دنیا میں محلات۔۔کوٹھیاں ۔۔بنگلے۔۔فارم ہاﺅس۔۔پلازے۔۔شاپنگ سنٹر۔۔ مارکیٹیں۔۔ فیکٹریاں بنالے مگرایسے افراد کاتناسب آٹے میں نمک کے برابر ہی ہوتا ہے۔ جبکہ99% افراد اپنی دنیاو آخرت تباہ و برباد کردیتے ہیں۔

آج سے 10-15 سال پہلے جب پاکستان میں نام نہاد ترقی کانعرہ وجود میں نہیں آیا تھا، اس وقت عوام کی80% سے زیادہ انسان مسلسل اپنے خاندان سے رابطے میں رہتے تھے۔ والد اپنے بچوں کی تربیت کو ترجیح دیتا تھا۔ بچے اپنے والد کو اپنے مسائل سنا کر ذہینی مسائل سے نجات حاصل کرتے اور اپنی کامیابی کی کہانیاں سناکر ڈاٹ حاصل کرتے ۔ مذید برآںوالد اپنے کاروبار وملازمت سے مقرر وقت پر فارغ ہوکرگھر تشریف لے آتااور اپنا مناسب وقت بچوں ۔۔بیوی۔۔بھائیوں۔۔بہینوں۔۔والد۔۔والدہ۔۔دوستوں اور رشتے داروں میں گزارتا۔اس عمل کی وجہ سے والد و سربراہ خاندا ن کو نوجوان نسل کی تربیت کرنے کاموقع بھی میسر آجاتا۔ جس کی بدولت نوجوان نسل جرائم ۔۔منشیات سے محفوظ رہتے۔جبکہ موجودہ نفسا نفسی کے دور میں نوجوان نسل مگرب سے پہلے تک توگھرہی رہتے ہیںمگراس کے بعد سیروتفریع کے نام پر دوستوں کے ساتھ گھومنے چلیے جاتے ہیں۔

قارئین بیشک سب دوست اچھے رہنما۔۔رہبر نہیں ہوتے ان میں سے کچھ دوست کے روپ میں دشمن بھی ہوتے ہیں۔جوبیشتر اوقات چوری۔۔ڈکیٹی۔۔قتل وغارت ۔۔شراب ۔۔سگریٹ۔۔شیشہ۔۔ہیروئن۔۔کلب ودیگر برائیوں کی تبلیغ کرتے پان شاپ۔۔چوراہوں پر نظر آتے ہیں۔

بیشک پوری مسلم دنیا کی طرح پاکستانی عوام کو عیدالاضحی کی شاپنگ کیلیے عیدالفطر کی جگہ زیادہ ٹائم ملتاہے اور پوری امت مسلماں سوائے پاکستانی عوام کے آرام سے شاپنگ کرتے نظر آتے ہیں۔پاکستان میں عید کے موقع پردوکانیں 18-20 گھنٹے تک کھولی رہتی ہیں اور ہروقت دوکانوں پر کسٹمر کا ہجوم لگاہوتاہے۔مگر پتہ نہیں یہ کسی شاپنگ ہے جو عید کے دوسرے دن دوبار شروع ہوجاتی ہے اور جس کی بدولت کسٹمر کے ساتھ ساتھ دوکان دار حضرات عید کا دن بھی اپنی فیملی کو نہیں دے سکتے ۔

راقم دوکان دار حضرات (گارمنٹس، کراکری، برتن، کلاتھ وغیرہ) سے معزرت کے ساتھ سوال کرتاہے کہ اگر وہ عید کے دودن آرام سے اپنے بچوں میں گزارے تو ان کا کتنا نقصان ہوسکتا ہے؟ یہ نقصان ان کے بچوں کے مستقبل سے زیادہ ہے؟ کیا کسٹمر کی ضررویات پوری کرنے سے بچوں کی ضروریات پوری کرنا ضروری نہیں؟ کیابچوں کا پیار پیسوں سے پورا کیا جاسکتا ہے؟ کیا ان کے بچے اپنا جیب خرچ منشیات یا غلط حرکات پر نہیں لگارہے؟ قارئین ہم جس طرح دن رات ایک کرکے کمائی کرتے ہیں اسی طرح ہمارے بچے دن رات ایک کرکے خرچہ کرتے ہیں، کیونکہ جس طرح ہم دوسروں کے بچوں اور فیملی کا انتظار کررہے ہوتے ہیں اسی طرح ہماری فیملی بھی کسی کی کسٹمر ہوتی ہے۔

کتنا اچھا ہوتا اگر ہم لوگ مغرب کی نماز کے بعد کاروبار زندگی ختم کرکے فیملی لائف شروع کرئے۔ بیشک اس سے ہم بنگلے۔۔کوٹھیاں ۔۔پلازے نہ بنا سکئے مگرہم اپنی اولاد و فیملی ممبر کو اچھا شہری ضرور بنا سکئے گئے۔ اور بڑھاپے میں جاکرخوشگوار زندگی بسر کرسکئے گئے نہ کہ نیند والی گولیاں کھاکر اور فالج و دیگر بیماریوں کا شکار ہوکر۔۔۔
Zeeshan Ansari
About the Author: Zeeshan Ansari Read More Articles by Zeeshan Ansari: 79 Articles with 81401 views Currently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.