دیس دیس کی کہانیوں کے سلسلے کے
لیے میں نے دوسری کہانی آئر لینڈ کی کہانی مسکراتا شہزادہ لی ہے۔ یہ کہانی
"The Happy Prince" کے نام سے آسکروائلڈ نے 1888میں لکھی تھی جو اب تک لکھی
گئی بچوں کی کہانیوں میں مقبول ترین کہانی ہے۔ ہانس کرسچین اینڈرسن کے بعد
بچوں کے لیے دلچسپ کہانیاں لکھنے میں آسکروائلڈ کا نام آتا ہے۔ بچوں کا یہ
پسندیدہ مصنف 1854میں ڈبلن (آئرلینڈ) میں پیدا ہوا اور 46سال کی عمر میں
1900میں انتقال کرگیا۔ (عبدالرزاق واحدی)
یہ ایک شہزادے کی کہانی ہے جو اس کے مرنے کے بعد شروع ہوتی ہے۔
یہ شہزادہ ہنسی خوشی اپنے محل میں رہا کرتا تھا۔ ایک دن بے چارا بیمار پڑا
اور مرگیا۔ مرنے کے بعد لوگوں نے شہزادے کا مجسمہ بنایا اور اسے شہر میں سب
سے اونچی جگہ پر رکھ دیا، شاید اس لیے کہ ہر شخص کو آسانی کے ساتھ نظر آسکے۔
شہزادے کے اس مجسمہ کو کانسی سے بنایا گیا تھا۔ اس کے بعد پورے مجسمے پر
سونے کے ورق جڑدیے گئے تھے۔ دور سے دیکھنے پر ایسا لگتا تھا جیسے یہ مجسمہ
سونے کا بنا ہوا ہے۔ مجسمے کی دونوں آنکھوں میں پتلیوں کی جگہ دو ہیرے جڑے
ہوئے تھے اور اس کے ہاتھ میں جو تلوار تھی اس کی نوک پر ایک لعل لگا ہوا
تھا۔
شہزادے کا مجسمہ اتنا ہی خوبصورت تھا، جتنا خود شہزادہ۔ مجسمہ دیکھ کر
محسوس ہوتا تھا جیسے یہ کانسی کا بنا ہوا مجسمہ نہیں بلکہ زندہ شہزادہ ہے
جو مسکرا رہا ہے، اور بہت خوش ہے۔ جو بھی اس مجسمے کو دیکھتا، کہتا، شہزادہ
کس قدرخوبصورت ہے مگر لوگ یہ بھی کہتے کہ شہزادے کی اس خوبصورتی کا شہر کے
لوگوں کا کیا فائدہ۔
شہزادے کا مجسمہ دیکھ کر لوگ طرح طرح کی باتیں کرتے۔ جب بچے روتے اور اپنی
اماں کا کہنانہیں مانتے تو مائیں اپنے بچوں سے کہتیں۔ ”دیکھو تم سے اچھا تو
یہ شہزاد ہ ہے۔ ہر وقت مسکراتا رہتا ہے۔ کبھی روتا ہے نہ ضد کرتا ہے۔ کیا
تم اس شہزادے جیسے نہیں بن سکتے۔“
بوڑھے اور بیمار لوگ ، جو سدا چڑچڑے اور ناخوش رہتے تھے ، مجسمہ دیکھتے تو
ٹھنڈی سانس بھرتے اور کہتے۔ ”چلو دنیا میں کوئی تو خوش ہے۔“
مجسمے سے کچھ دور ایک گرجا تھا۔ گرجا میں ایک سکول تھا۔ سکول کے بچے جب
گرجا کے باغیچے میں آتے تو انہیں مسکراتا ہوا شہزادہ شہر کی سب سے اونچی
جگہ پر نظر آتا۔ بچے چلاتے۔ ”وہ دیکھو وہ دیکھو فرشتہ بیٹھا مسکرارہا ہے۔“
”فرشتہ ؟“ ارے بھئی یہ تو مسکراتا ہوا شہزادہ ہے جو مرچکا ہے۔“ ماسٹر صاحب
کہتے۔
”اس کی صورت فرشتوں جیسی ہے۔“ بچے دوبارہ چلاتے۔
ماسٹر صاحب پوچھتے۔ ”تمہیں کیسے معلوم ، کیا تم نے فرشتے دیکھے ہیں؟“
”ہاں۔“ سارے بچے شور مچاتے۔ ”ہم نے خواب میں فرشتے دیکھے ہیں۔“
اس پر ماسٹر صاحب کو غصہ آجاتا، کیونکہ وہ نہیں چاہتے تھے کہ بچے خوابوں کی
دنیا میں کھوئے رہیں۔ ماسٹر صاحب کو معلوم تھا کہ جو لوگ خوابوں کی دنیا
میں رہتے ہیں وہ کام نہیں کرتے۔
جس شہر میں مسکراتے ہوئے شہزادے کا مجسمہ تھا۔ اس سے تھوڑی دور ایک چھوٹا
سا جنگل تھا۔ رنگ رنگ کے پھولوں سے لدے ہوئے اور پیارے پیارے جانوروں سے
بھرے ہوئے اس جنگل میں موتی جیسے صاف پانی کی جھیلیں اور میٹھے پانی کے
چشمے تھے۔ وہاں ایک ننھا سا پرندہ بھی رہتا تھا جو تتلی کی طرح خوبصورت
تھا۔ ننھے پرندے کو یوں تو جنگل کے سارے پھول اچھے لگتے تھے مگر گلابی کنول
کا وہ پھول بہت ہی اچھا لگتا تھا جو جھیل کے کنارے پانی کی دھیمی دھیمی
لہروں سے کھیلتا رہتا تھا۔ جنگل میں جب سردی زیادہ پڑنے لگی تو ننھے پرندے
کے دوستوں نے فیصلہ کیا کہ وہ اس سردی سے بچنے کے لیے مصر چلے جائیں جہاں
سردی کم پڑتی ہے۔ ننھے پرندے نے دوستوں سے کہا کہ تم آگے چلو میں کچھ دن
بعد آﺅں گا۔ دوست مصر کے لیے روانہ ہوگئے اور ننھا پرندہ جھیل میں اُگے
ہوئے گلابی کنول کے پاس آگیا۔ اس نے کنول کے پھول کو سلام کیا۔ کوئی جواب
نہیں ملا۔ اس نے پھول سے خیریت پوچھی۔ پھول خاموش رہا۔ اس نے کہا موسم کتنا
اچھا ہے۔پھول نے سنی ان سنی کردی۔ ننھا پرندہ روز صبح شام پھول کے پاس آتا
اور پھول سے باتیں کرنا چاہتا مگر پھول کوئی جواب نہ دیتا۔ آخر ننھا پرندہ
تنگ آگیا اور اپنے دوستوں سے ملنے مصر کی طرف روانہ ہوگیا۔
راستے میں شام پڑگئی۔ تھوڑے فاصلے پر اسے مسکراتے شہزادے کا شہرنظر آیا۔ اس
نے سوچا چلو اس شہر میں تھوڑا آرام کرلوں۔ شہر کے قریب پہنچنے پر اسے
مسکراتا شہزادہ شہر کی سب سے اونچی جگہ پر کھڑا نظر آیا۔ ننھے پرندے کو
شہزادہ بہت اچھا لگا۔ اس نے سوچا اس جگہ ہوا بھی تازہ ملے گی اور پکڑے جانے
کا خطرہ بھی نہیں ہوگا۔ لہٰذا وہ شہزادے کے مجسمے کے دونوں پیروں کے بیچ
میں جاکر بیٹھ گیا۔
”واہ میری خواب گاہ تو سونے کی بنی ہوئی ہے۔“ پرندے نے خوش ہو کر اپنے آپ
سے کہا اور سونے کی تیاری کرنے لگا۔ ابھی اس نے آنکھیں بند کی ہی تھیں کہ
پانی کا ایک بڑا سا قطرہ اس پر گرا۔ وہ چونک پڑا۔ اسے حیرت ہوئی، آسمان پر
بادلوں کا نام و نشان بھی نہیں، پھر یہ بارش کا قطرہ کہاں سے آیا۔ ابھی وہ
سوچ رہا تھا کہ ایک اور قطرہ اس پر گرا۔ اس نے اوپر نظر اٹھائی تو وہ حیران
رہ گیا۔ ارے یہ کیا۔ مسکراتے شہزادے کی آنکھیں تو آنسوﺅں سے بھری ہوئی تھیں
اور یہ آنسو شہزادے کے سنہری گالوں پر سے لڑھک کر نیچے بیٹھے ہوئے ننھے
پرندے کو بھگو رہے تھے۔ ننھے پرندے کو شہزادے پر بڑا ترس آیا۔ اس نے پوچھا۔
”تم کون ہو؟“
”میں مسکراتا شہزادہ ہوں۔“ مجسمہ نے جواب دیا۔
”تو پھر، تم رو کیوں رہے ہو؟“ پرندے نے تعجب سے کہا۔
”اور رو رو کر تم نے اپنے آنسوﺅں سے مجھے بھگو کر رکھ دیا۔“
شہزادہ جواب میں کہنے لگا۔
”میرا دل بھر آیا تھاننھے پرندے! جب میں زندہ تھا تو میرے سینے میں بھی
انسان کا دل تھا۔ میں ایک عالی شان محل میں مزے سے رہتا تھا۔ جہاں دن عید
اور رات شب برات کاسماں تھا۔ ہر طرف خوشی، آرام، رونق اور قہقہے تھے۔ دن
بھر محل کے باغ میں اپنے دوستوں کے ساتھ کھیلتا۔ رات آتی تو گانے کی محفل
جمتی۔ مجھے نہیں معلوم تھا کہ غم بھی کوئی چیز ہوتی ہے۔ محل کے چاروں طرف
اونچی دیوار تھی۔ اس دیوار کے پیچھے کون سی دنیا آباد ہے۔ مجھے کچھ پتہ
نہیں تھا۔ اس دیوار کے اندر، محل میں اور باغ میں جو کچھ بھی تھا وہ بہت
خوبصورت اور آرام دہ تھا۔ یہی وجہ تھی کہ میں ہر وقت خوش رہتا تھا۔ میرے
دوستوں نے میرا نام ہی ”مسکراتا شہزادہ“ رکھ دیا تھا۔ اب میرے مرجانے کے
بعد میرا مجسمہ بھی اسی نام سے پکارا جاتا ہے۔
میرے مجسمے کو لوگوں نے شہر کی سب سے اونچی جگہ پر رکھ دیا ہے۔ یہاں سے میں
اپنے شہر میں لوگوں کے غم اور پریشانیاں دیکھ سکتا ہوں۔ میں زندہ تھا تو
مجھے یہ سب اس لیے نظر نہیں آتا تھا کہ محل کی دیواریں بہت اونچی تھیں۔
لیکن اب لوگوں کو پریشانی اور غم میں دیکھتا ہوں تو برداشت نہیں کرپاتا۔
حالانکہ میرا دل کانسی کا بنا ہوا ہے۔ مگر اس پر چوٹ پڑتی ہے تو میری
آنکھوں سے آنسو بہہ نکلتے ہیں۔“
اتنا کہہ کر شہزادے کی آواز بھر ا گئی۔
کچھ دیر چپ رہ کر شہزادہ بولا۔
”اے ننھے پرندے!تمہیں میرا ایک کام کرنا ہوگا۔ وہ دیکھو تھوڑی دور ایک مکان
کی کھڑکی کھلی ہوئی نظر آرہی ہے۔ وہاں ایک غریب عورت اپنے بیمار لڑکے کے
پاس غمزدہ بیٹھی سوچ رہی ہے کہ وہ اپنے بچے کا علاج کس طرح کروائے۔ اس کے
پاس تو اتنے پیسے بھی نہیں کہ وہ اپنے بیمار بیٹے کو ایک سنگترہ خرید کردے
سکے۔ وہ سنگترے کے لیے ضد کررہا ہے۔ تم ایسا کرو کہ میری تلوار کی نوک پر
لگا ہوا لعل اتارلو اور اس غریب عورت کو جاکر دے دو تاکہ وہ اپنے بچے کے
لیے سنگترے ، دوا اور روٹیاں خریدے۔“
”مگر میں تو اپنے دوستوں کے پاس مصر جارہا ہوں۔۔ وہ میرا انتظار کررہے ہوں
گے۔“ ننھے پرندے نے جواب دیا۔
”بس ایک رات۔۔۔ صرف ایک رات یہاں ٹھہر جاﺅ، لڑکا پیاس سے مررہا ہے اور اس
کی ماں غم سے نڈھال ہے۔ ان کی مدد کرو۔“شہزادے نے التجا کی۔
پرندہ عجب مشکل میں پڑگیا۔ مگر اس نے صاف صاف بتادیا۔
”مجھے لڑکے اچھے نہیں لگتے۔ یہ شیطانی کرتے ہیں۔ پچھلے سال گرمیوں میں بہت
سے لڑکوں نے مل کر مجھے پتھر مارے تھے۔ میں نے ان کا کیا بگاڑا تھا۔ میں تو
آرام سے دریا کنارے ٹھنڈی ہوا کے مزے لے رہا تھا۔“
شہزادے کو یہ سن کر بہت افسوس ہوا۔ اس نے کہا۔
”جس طرح ہاتھ کی پانچ انگلیاں برابر نہیں ہوتیں اس طرح سارے لڑکے شیطان
نہیں ہوتے۔“
ننھا پرندہ راضی ہوگیا۔ اس نے شہزادے کی تلوار کے سرے پر لگا ہوا لعل اپنی
چونچ میں پکڑا او ربیمار لڑکے کے گھر کی طرف اڑنے لگا۔ جب وہ مسکراتے
شہزادے کے محل کے اوپر سے گزرا تو وہاں بڑی روشنی تھی اور گانے کی محفل جمی
ہوئی تھی۔ سازوں کی آواز سے کان پھٹے جارہے تھے۔ جب وہ دریا کے اوپر سے
گزرا تو اس نے دیکھا کہ جہاز سفر پر روانہ ہونے کے لیے تیار کھڑے ہیں۔ اس
کے بعد جب وہ آگے بڑھا تو نیچے بازار نظر آئے ،جہاں بڑی رونق تھی اور لوگ
خرید و فروخت کررہے تھے۔ آخر جب وہ کھلی ہوئی کھڑکی سے کمرے میں داخل ہوا
تو بیمار لڑکا بستر پر کروٹیں بدل رہا تھا اور اس کی بدنصیب ماں روتے روتے
سوگئی تھی۔ ننھے پرندے نے قیمتی لعل ماں کے ہاتھ کے پاس رکھ دیا اور
مسکراتے شہزادے کے پاس لوٹ آیا۔ شہزادہ اس کا انتظار کررہا تھا۔ پرندہ بوا۔
”اس وقت موسم بہت سرد ہے۔ مگر مجھے یہ بہت خوشگوار لگ رہا ہے۔“
اس لیے کہ تم نے کسی کی مدد کی ہے۔“ شہزادے نے جواب دیا
”کسی کی مدد کرنے سے جو سکون ملتا ہے اس میں خراب موسم بھی اچھا لگنے لگتا
ہے۔“
”تم ٹھیک کہتے ہو۔“ ننھے پرندے نے جمائی لیتے ہوئے کہا اور سوگیا۔
دوسرے دن صبح اٹھ کر پرندہ، شہر گھومنے اور کھانے پینے گیا۔ اس نے جی بھر
کے سیر کی۔ شام کو واپس آیا اور شہزادے سے بولا کہ اسے اب مصر جانے کی
اجازت دے کیونکہ اس کے ساتھی وہاں اس کا انتظار کررہے ہوں گے۔ شہزادے نے
کہا۔
”میرے ننھے دوست، مہربانی کرو۔ ایک رات اور رُک جاﺅ۔ مجھے تم سے ایک اور
کام ہے۔“
شہزادے نے اس قدر محبت سے کہا کہ پرندے کو رکنا پڑا حالانکہ شہر کی رات بہت
سرد تھی وہ سردی سے مرا جارہا تھا۔
شہزادے نے پرندے کا شکریہ ادا کیا اور کہا۔
”شہر میں آخری سرے پر ایک چھوٹا سا گھر ہے۔ اس میں اندھیرا ہے۔ وہاں ایک
نوجوان بیٹھا ہے جس کی میز پر ایک گلدستہ رکھا ہے۔ گلدستے کے پھول مرجھاچکے
ہیں۔ وہ ڈراما لکھ رہا تھا جو سردی اور اندھیرے کی وجہ سے ادھورا رہ گیا۔
سردی سے نوجوان کی انگلیاں بھی ٹھٹھرگئی ہیں۔ تم میری آنکھ سے ایک ہیرا
نکال کر اسے دے آﺅ۔“
”نہیں نہیں“۔ ننھا پرندہ بولا۔
”یہ کیسے ممکن ہے کہ میں تمہاری آنکھ سے ہیرا نکال لوں۔ یہ ہیرا تو تمہاری
آنکھ کی پتلی ہے۔ تم اس آنکھ سے دیکھنے کے قابل نہیں رہو گے۔
”تم اس کی فکر نہ کرو۔ میری دوسری آنکھ تو سلامت رہے گی۔“ شہزادے نے جواب
دیا۔
ننھا پرندہ رونے لگا، بولا ”یہ مجھ سے نہیں ہوسکے گا۔“
شہزادے نے پیار سے کہا۔
”میں جو کہتا ہوں وہی کرو۔“ نوجوان اس ہیرے کو فروخت کرکے لکڑی، روٹی اور
موم بتی خریدلے گا اور آرام سے اپنا ڈراما مکمل کرے گا۔“
ننھے پرندے نے شہزادے کی آنکھ سے ہیرا نکال لیا، اور نوجوان کے گھر پہنچ
گیا مگر سخت سردی کی وجہ سے نوجوان نے کمرے کی تمام کھڑکیاں بندکررکھی
تھیں۔ پرندہ مایوس ہو کر لوٹنے ہی والا تھا کہ اسے کمرے کی چھت میں ایک
سوراخ دکھائی دیا، وہ اسی سوراخ میں سے اندر چلاگیا۔ میز پر مرجھائے ہوئے
پھولوں کے گلدستے کے قریب نوجوان بیٹھا تھا۔ اس نے اپنے دونوں ہاتھوں میں
اپنا سر چھپایا ہوا تھا۔ ننھے پرندے نے ہیرا مرجھائے ہوئے پھولوں پر رکھ
دیا اور اسی سوراخ سے واپس لوٹ آیا۔ ہلکی سے آہٹ سے نوجوان چونکا تو اس کے
سامنے ہیرا چمک رہا تھا۔ ہیرا دیکھ کر نوجوان کی آنکھیں چکاچوند ہوگئیں۔ اس
نے خدا کا شکر ادا کیا اور دل میں کہا یقینا یہ تحفہ کسی ایسے شخص نے بھیجا
ہے جسے میرے ڈرامے اچھے لگتے ہیں۔
ننھا پرندہ واپسی میں جب دریا پر سے گزرا تو کئی جہاز واپسی کے لیے تیاریاں
کررہے تھے۔ اس نے دل میں سوچا آج وہ بھی یہاں سے چلاجائے گا۔ سردی اس قدر
ہے کہ یہاں ٹھہرنا ممکن نہیں۔ یہی سوچتا ہوا وہ شہزادے کے پاس پہنچ گیا اور
بولا۔
”میرے دوست اب میں تمہیں خدا حافظ کہنے آیا ہوں۔“
”صرف ایک رات اور رک جاﺅ۔ “ شہزادے نے التجا کی۔
پرندے نے کہا۔ ”نہیں شہزادے ، آج تو اتنی سردی ہے کہ شاید برف بھی گرے، میں
برف باری کیسے برداشت کروں گا؟ مصر کا موسم یہاں سے بہتر ہوگا۔ میرے
ساتھیوں نے وہاں اپنے گھونسلے بھی بنانا شروع کردیے ہوں گے۔ مصر کی گلابی
اور سفید چڑیاں انہیں گھونسلے بناتے ہوئے حیرت سے دیکھ رہی ہوں گی۔ بس مجھے
اب جانے دو۔“
”تم کل چلے جانا میرے دوست‘ آج کی رات میرا ایک کام او رکردو۔“
شہزادے نے کچھ اس طرح کہا کہ ننھے پرندے کو ہاں کرنا پڑی۔ شہزادہ کہنے لگا۔
”وہ دیکھو، وہ سامنے جو گلی نظر آرہی ہے۔ اس میں کس قدر کیچڑ اور پانی ہے۔
اور وہ دیکھو گلی کے کونے میں ایک ننھی سی بچی کھڑی رو رہی ہے۔ وہ ماچس
بیچنے گھر سے نکلی تھی۔ ماچسوں کا بنڈل زمین پر گرا اور کیچڑ میں لت پت
ہوگیا۔ اب ماچسیں نہ بکیں تو لڑکی کا باپ اسے بہت مارے گا۔“
”تو کیا میں ماچس کا وہ بنڈل اٹھا کر لڑکی کو دے دوں؟“ ننھے پرندے نے
پوچھا۔“
”نہیں میرے دوست۔“ شہزادے نے جواب دیا۔
”اتنی سرد رات میں گیلی ماچس کون خریدے گا۔ تم ایسا کرو کہ میری دوسری آنکھ
بھی نکال لو۔ اس میں جو ہیرا ہے وہ بے چاری غریب لڑکی کو جاکر دے دو۔ اس کا
باپ اسے بیچ کر کاروبار کرلے گا اور یہ ننھی بچی روزانہ کی مصیبت سے بچ
جائے گی۔“
”لیکن یہ کیسے ممکن ہے۔ میں نے تمہاری دوسری آنکھ بھی نکال لی تو تم بالکل
نابینا ہوجاﺅ گے۔ تمہاری تو
دنیا اندھیر ہوجائے گی۔“ ننھا پرندہ سہم کر بولا۔
شہزادے نے پورے اعتماد کے ساتھ جواب دیا۔
”میں جو کہتا ہوں وہی کرو۔“
اور ننھے پرندے کو اپنے پیارے دوست مسکراتے شہزادے کی بات مانناپڑی۔ اس نے
شہزادے کی دوسری آنکھ بھی نکال لی اور اپنی چونچ میں ہیرا دبا کر لڑکی کے
پاس پہنچا۔ لڑکی اب بھی رو رہی تھی۔ ننھے پرندے نے ہیرا لڑکی کے ہاتھ پر
گرادیا اور واپس آگیا۔ ہیرا دیکھ کر لڑکی سارے غم بھول گئی اور خوشی خوشی
گھر چلی گئی۔
ننھا پرندہ واپس شہزادے کے پاس آیا تو شہزادے نے کہا۔
”میرے دوست تمہارا شکریہ، میں تمہیں خدا حافظ کہتا ہوں۔ اب تم مصر جانے کی
تیاری کرو۔“
”نہیں نہیں میرے دوست، میں تمہیں اکیلا چھوڑ کر نہیں جاﺅں گا تم تو اب دیکھ
بھی نہیں سکتے۔ میں اب زندگی بھر تمہارے ساتھ رہوں گا۔“
یہ کہہ کر ننھا پرندہ شہزادے کے پیروں کے پاس سوگیا۔
دوسرے دن صبح ہوئی تو ننھا پرندہ جاگا اور اڑ کر شہزادے کے کاندھے پر
جابیٹھا۔ وہ چاہتا تھا کہ شہزادے کا دل بہلائے۔ ننھے پرندے نے دنیا کے بہت
سے ملکوں کا سفر کیا تھا۔ وہاں اس نے بہت سی نئی نئی چیزیں دیکھی تھیں۔ وہ
ان چیزوں کے بارے میں بتانے لگا۔ وہ کہنے لگا۔
”دریائے نیل بہت بڑا ہے۔ وہاں اس نے ہزاروں کی تعداد میں سرخ رنگ کے بڑے
بڑے سارس دیکھے تھے جو دور تک قطار باندھے کھڑے ہوئے تھے کہ کب مچھلی ساحل
کے قریب آئے اور وہ اپنی لمبی سی چونچ سے اسے شکار کرلیں۔ ننھے پرندے نے
شہزادے کو ریگستانوں کا حال بھی سنایا جہاں میلوں تک نہ سایہ تھا اور نہ
پانی۔ گرمی اتنی تھی جیسے سورج سوا نیزے پر آگیا ہو۔ لیکن لوگ اونٹ پر مزے
سے سفر کررہے تھے جیسے یہ دھوپ نہیں چاندنی تھی۔ ننھے پرندے نے یہ بھی
بتایا کہ ایک جگہ اس نے ہرے رنگ کا ایک بہت بڑا اژدہا کھجور کے درخت سے
لپٹا ہوا دیکھا تھا۔ اسے بیس آدمی مزیدار اور بڑے بڑے کیک کھلارہے تھے۔ مگر
اس کی بھوک پھر بھی باقی تھی۔
شہزادے نے یہ باتیں سنیں اور کہا۔
”ننھے دوست ، اتنی دلچسپ باتیں سنانے کا شکریہ، مگر میں چاہتا ہوں کہ میں
اپنے شہر کے لوگوں کا حال سنوں۔ تم شہر جاﺅ اور جو کچھ دیکھو وہ مجھے
بتادو۔“
ننھا پرندہ شہر گیا۔ دیر تک شہر پر اڑتا رہا۔ اور پھر واپس آکر شہزادے کے
کاندھے پر بیٹھ گیا۔ اس نے شہزادے کو بتایا کہ شہر میں مالدار لوگ بڑے
ٹھاٹھ باٹھ سے رہ رہے ہیں۔ ان کے عالی شان گھروں میں قیتی سامان اور کھانے
پینے کی چیزیں بھری پڑی ہیں۔ اس کے ساتھ بہت سے غریب لوگ بھی ہیں جو مالدار
لوگوں کے دروازوں پرکھڑے بھیک مانگ رہے ہیں۔ پھول سے بچوں کے چہرے پیلے
پڑگئے ہیں۔ وہ ایک ایک نوالے کو ترس رہے ہیں۔ سردی بہت زیادہ ہے۔غریبوں کے
پاس جلانے کو لکڑی نہیں۔
ننھے پرندے نے یہ بھی بتایا کہ اس نے ایک پل کے نیچے دو ننھے منے بچوں کو
دیکھا۔ وہ سردی کے مارے ایک دوسرے سے جڑے ہوئے بیٹھے تھے۔ بھوک سے ان کا
برا حال تھا، اتنے میں پل کا چوکیدار آیا اور اس نے ان دونوں لڑکوں کو مار
کر وہاں سے بھگادیا۔
”بس بس اب اور نہ بتاﺅ۔“ مسکراتے شہزادے کی آنکھوں میں آنسوآگئے۔ وہ بولا۔
”میرے شہر کے لوگ کس قدر غریب اور کس قدر دکھی ہیں۔ مجھے پتہ ہی نہیں چلا
کہ محل کی اونچی دیواروں کے اندر اتنے سکھ اور دیواروں کے باہر اتنے دکھ
ہیں۔“
”میں نے جو دیکھا، وہی بتایا۔“ ننھا پرندہ خود بھی غمگین تھا۔ ”شکریہ میرے
دوست۔“ شہزادہ بولا۔ ”اب تم ایک کام کرو۔ میرے پورے جسم پر سونے کے لاتعداد
ورق جڑے ہوئے ہیں۔ تم یہ ورق ایک ایک کرکے لے جاﺅ اور میرے شہر کے غریبوں
اور ضرورت مندوں کو دے دو۔“
ننھے پرندے نے وہی کیا جو شہزادے نے کہا۔ اس نے سونے کے تمام ورق جو شہزادے
کے جسم پر جڑے ہوئے تھے، ایک ایک کرکے اتارے اور شہر لے جاکر غریبوں میں
بانٹ دیے۔
سونے کے تمام ورق اترنے کے بعد مسکراتے شہزادے کا کانسی کا بنا ہوا مجسمہ
بے رونق ہوگیا۔ اندر سے کانسی کا میلا میلا سلیٹی رنگ نظر آنے لگا لیکن شہر
کے بھوکے بچوں کے پیلے چہروں پر رونق آچکی تھی۔ غریب لوگ اچھا لباس پہنے
صحت مند اور خوش نظر آنے لگے تھے۔ مالدار لوگوں کے دروازوں پر جو فقیر بھیک
مانگا کرتے تھے وہ بھی اب وہاں سے چلے گئے تھے۔ انہی دنوں بہت برف پڑی۔
عمارتیں اور سڑکیں چاندی جیسی برف سے ڈھک گئیں۔ لیکن اب ان سڑکوں پر سردی
سے کپکپاتے غریب لوگ دکھائی نہیں دیتے تھے۔ سب کے پاس فروالے گرم کوٹ تھے
جنہیں پہن کر وہ مزے سے گھوم رہے تھے۔
دوسری طرف ننھے پرندے کا سخت سردی کی وجہ سے برا حال تھا۔اتنی سردی اس کی
برداشت سے باہر تھی۔ مگر وہ اپنے پیارے دوست مسکراتے شہزادے کو اکیلا
چھوڑنے پر تیار نہ تھا۔ اسے اندازہ ہوگیا تھا کہ وہ اب زندہ نہیں بچے
گا۔جاڑے کی شدت سے اس کے پروں میں اڑنے کی طاقت بھی تقریباً ختم ہوگئی تھی۔
وہ شہزادے کے پیروں کے پاس بیٹھا تھا۔ یہاں سے اس کی کمزور آواز شہزادے کے
کانوں تک نہیں پہنچ رہی تھی۔
آخر اس نے اپنی تمام طاقت اکٹھی کرکے زور لگایا اور مشکل سے اڑ کر شہزادے
کے کاندھے پر اس طرح پہنچا کہ بس گرتے گرتے بچا۔ اور بولا۔
”خدا حافظ شہزادے“
شہزادے نے کہا۔
”خدا حافظ ننھے دوست! تم نے میرے بڑے کام کیے۔ مجھ پر احسان کیا۔ مجھے خوشی
ہے کہ تم اب مصر جارہے ہو۔“
”مصر نہیں میرے دوست۔“ ننھا پرندہ بڑی مشکل سے بولا۔ ”میں اب وہاں جارہا
ہوں جہاں سب جاتے ہیں اور کوئی واپس نہیں آتا۔“
ننھے پرندے کی طاقت اب جواب دے چکی تھی وہ لڑھک کر شہزادے کے پیروں کے بیچ
میں جاگرا جہاں وہ پہلی بار جاکر بیٹھا تھا اور مرگیا۔
اسی لمحے مسکراتے شہزادے کے اندر سے کسی چیز کے چٹخنے کی آواز سنائی دی۔ یہ
شہزادے کا دل تھا۔ جو ٹوٹ گیا تھا۔دوسرے دن صبح کی شہر کی بلدیہ کے میئر
اپنے کونسلروں کے ساتھ ادھر سے گزرے۔ مسکراتے شہزادے کے مجسمے کے قریب پہنچ
کر وہ سب ٹھہرگئے۔ میئر نے کہا۔
”مسکراتے شہزادے کا مجسمہ کس قدر پرانا اور خراب ہوچکا ہے۔“
تمام کونسلروں نے میئر کی ہاں میں ہاں ملائی۔
میئر نے شہزادے کے مجسمے پر اوپر سے نیچے تک نگاہ ڈالی اور بولا۔
”تلوار سے لعل اور آنکھوں سے ہیرے غائب ہوچکے ہیں۔ سونے کے ورق بھی شہزادے
کے جسم پر باقی نہیں رہے۔ اب یہ شہزادہ نہیں رہا، فقیر ہوگیا ہے۔“
تمام کونسلروں نے میئر کی ہاں میں ہاں ملائی۔
میئر کی نظر شہزادے کے پیروں پر پڑی تو وہ بولا۔
”یہ مرا ہوا پرندہ یہاں کہاں سے آیا، ہمارا فرض ہے کہ ہم پرندوں کو شہر میں
رکھے ہوئے خوبصورت مجسموں پر نہ بیٹھنے دیں، یہ مجسموں کو خراب کرتے ہیں۔“
تمام کونسلروں نے میئر کی ہاں میں ہاں ملائی۔
میئر کے حکم پر مسکراتے شہزادے کے مجسمہ کو وہاں سے ہٹادیا گیا۔ میئر کا
خیال تھا اب اس کی جگہ اس کا اپنا مجسمہ لگادیا جائے۔ (ترجمہ:ابصار
عبدالعلی) |