دیس دیس کی کہانیوں کے سلسلے کی
یہ تیسری کہانی میں نے بھارت سے لی ہے۔ یہ کہانی بھارت کی بہت قدیم زبان
سنسکرت میں پنڈت وشنوشرما نے لکھی تھی جو ان کی کہانیوں کے مجموعے ’پنج
تنتر“ میں شامل ہے۔ سنسکرت زبان اب دنیا میں کہیں نہیں بولی جاتی لیکن اس
میں لکھی ہوئی تحریریں آج بھی موجود ہیں۔ یہ کہانی ہندی زبان سے ترجمہ کی
گئی۔(انتخاب و پیشکش : عبدالرزاق واحدی)
ایک جنگل میں ایک درخت کے تنے میں جگہ بناکر ایک چکور رہتا تھا۔اس درخت کے
آس پاس کئی اور درخت بھی تھے جن پر بیج اور پھل لگتے تھے۔ ان بیجوں اور
پھلوں کو کھا کر یہ چکور اپنا پیٹ بھرتا اور مزے کرتا، اس طرح کئی سال
گزرگئے۔ ایک دن ایک دوسرا چکور اُدھر سے گزرا تو وہ اس درخت کی ایک شاخ پر
تھوڑا آرام کرنے کے لیے آبیٹھا، دونوں چکوروں میں دوستی ہوگئی اور دونوں نے
ایک دوسرے سے خوب باتیں کیں۔ مہمان چکور کو یہ جان کر حیرت ہوئی کہ اس کا
دوست صرف درختوں کے بیج اور پھل کھا کر گزارا کررہا تھا۔ مہمان چکور نے کہا
۔
”بھئی دنیا میں کھانے کے لیے صرف بیج اور پھل ہی نہیں ہوتے اور بھی کئی مزے
دار چیزیں ہوتی ہیں۔ انہیں بھی کھانا چاہیے۔ کھیتوں میں اگنے والے اناج تو
بڑے ہی مزیدار ہوتے ہیں۔ کبھی منہ کا مزا بدل کر تو دیکھو۔“
مہمان چکور تو یہ کہہ کر اڑگیا لیکن پہلا چکور سوچ میں پڑگیا۔ اس نے فیصلہ
کیا کہ اناج کو بھی چکھ کر دیکھنا چاہیے۔ دوسرے دن اڑ کر وہ بہت دور ایک
کھیت میں جاپہنچا جہاں دھان کی فصل اُگی ہوئی تھی۔ اس نے دھان کی کونپلیں
کھائیں تو اسے بڑا مزہ آیا اور وہ وہیں کھیت کے قریب سوگیا۔ روز وہ ایسا ہی
کرتا۔ چھ سات دن بعد اسے اپنے گھر کا خیال آیا تو وہ اپنے گھر واپس آگیا۔
کیا دیکھتا ہے کہ اس کے گھر کو خالی پاکر ایک خرگوش نے قبضہ کرلیا ہے۔ چکور
کو بڑا غصہ آیا۔ وہ اونچی آواز میں بولا۔
”اے بھائی ! تو کون ہے اور میرے گھر میں کیا کررہا ہے۔؟“
خرگوش نے بھی اونچی آواز میں جواب دیا۔
”میں یہاں سات دن سے رہ رہا ہوں۔ یہ گھر میرا ہے۔“
چکورغصے سے بولا۔
”میں تو یہاں نہ جانے کتنے برسوں سے رہ رہا ہوں، بے شک آس پاس کے پرندوں،
چرندوں سے پوچھ لو۔“
”میں کیوں پوچھوں“ خرگوش بولا۔
”گھر خالی تھا۔ میں رہنے لگا۔ اب یہ گھر میرا ہے۔ تجھے جو کرنا ہے کرلے۔“
چکور، خرگوش سے ڈرگیا۔ وہ مدد اور انصاف کے لیے فریاد لے کر پڑوسیوں کے پاس
گیا مگر کوئی پڑوسی اس کی مدد کو سامنے نہ آیا۔ ایک بزرگ پڑوسی نے اسے
مشورہ دیا کہ زیادہ جھگڑا بڑھانا ٹھیک نہ ہوگا تم دونوں آپس میں ہی کچھ
سمجھوتہ کرلو۔
پڑوس میں ایک لومڑی بھی رہتی تھی۔ اس نے چکور اور خرگوش کو مشورہ دیا کہ تم
جنگل کے کسی سمجھدار جانور کو پنچ بنا کر اپنے جھگڑے کا فیصلہ اس سے
کروالو۔
خرگوش اور چکور دونوں کو یہ مشورہ اچھا لگا۔ دونوں پنچ کی تلاش میں
اِدھراُدھر گھومنے لگے۔ انہیں دریائے گنگا کے کنارے ایک درخت کے نیچے ایک
بلی نظر آئی۔ وہ بلی ہرن کی کھال پر آنکھیں موندے ماتھے پر تلک لگائے، گلے
میں جنیو پہنے، ہاتھ میں مالا لیے رام رام جپ رہی تھی۔ خرگوش اور چکور اسے
دیکھ کر خوشی سے اچھل پڑے کہ اس سے بڑا عبادت گزار اور نیک فیصلہ کرنے والا
پنچ انہیں کہاں سے ملے گا۔ انہوں نے سوچا کہ اس بلی نے دولت اور لالچ سے بچ
کر دنیا سے رشتہ توڑ لیا ہے اور اب اس جنگل میں دن رات عبادت کرتی ہے۔ یہ
یقینا ہمارے جھگڑے کا ٹھیک فیصلہ کردے گی۔ خرگوش نے کہا۔
”آﺅ اس کے پاس چلیں۔“
چکور کو کچھ گھبراہٹ ہوئی۔ وہ بولا۔ ”خرگوش جی ہمیں ذرا ہوشیار رہنا
چاہیے۔“
خرگوش نے جواب دیا۔ ”نہیں گھبرانے کی کیا بات ہے۔ آﺅ اس کو سارا حال بتا کر
فیصلہ کروالیں۔“
دونوں بلی کی طرف بڑھے۔بلی انہیں دیکھ کر آنکھیں بند کرکے زور زور سے منتر
پڑھنے لگی۔ خرگوش اور چکور دونوں نے قریب آکر بلی کو ہاتھ جوڑ کر پرنام کیا
اور کہا”جے ماتا جی کی۔“
بلی نے مسکرا کر اپنی آنکھیں کھولیں اور دونوں کو خوب دعائیں دیں اور بولی۔
”تم دونوں بہت فکر مند لگ رہے ہو۔ تمہیں کیا تکلیف ہے بچو!“
خرگوش نے ادب سے کہا۔
”ماتا جی ۔ ہم دونوں کے درمیان جھگڑا ہوگیا ہے۔ ہم چاہتے ہیں کہ آپ اس کا
فیصلہ کردیں۔“
بلی نے اپنی پلکیں جھپکائیں اور نصیحت کرتے ہوئے بولی
”تمہیں جھگڑنا نہیں چاہیے۔ خیر بتاﺅ تمہارا جھگڑا کیا ہے؟“
چکور نے پورا قصہ بلی کو بتایا ۔ اس کے بعد خرگوش نے اپنی بات کہنے کے لیے
منہ کھولا ہی تھا کہ بلی نے ہاتھ اٹھا کر اسے روکا اور بولی۔
”بچو! میں کافی بوڑھی ہوگئی ہوں۔ ٹھیک سے سنائی نہیں دیتا۔ آنکھیں بھی
کمزور ہوگئی ہیں۔ تم دونوں میرے کان کے قریب آکر اونچی آواز میں اپنی اپنی
بات بتاﺅ تاکہ جھگڑے کی وجہ جان سکوں اور تم دونوں کو انصاف دے سکوں۔“
چکور اور خرگوش بلی کے بہت قریب آگئے کہ اپنی اپنی بات کہہ سکیں۔ بلی تو
اسی موقع کی تاک میں تھی۔ اس نے زور سے میاﺅں کی آواز لگائی اور ایک ہی
حملے میں دونوں کو پکڑلیا۔ پھر مزے لے لے کر دونوں کو کھاگئی۔
اس کہانی سے یہ سبق ملتا ہے کہ اگر دو لوگ جھگڑا کریں تو فائدہ تیسرے کو
ہوتا ہے اس لیے جھگڑوں سے دور رہنا چاہیے۔ (ترجمہ:ابصار عبدالعلی) |