پردہ ‘ حیا ‘ طبیعتِ انسانی کی
اس کیفیت کو کہتے ہیں جس سے طبیعت ہر نامناسب بات اور تاپسندیدہ کام سے
تکدر محسوس کرکے اس کا انکار کر دیتی ہے اور اس کے ارتکاب سے اذیت محسوس
کرتی ہے۔ حیاءصرف مخلوق ہی سے نہیں بلکہ خالق سے بھی کی جاتی ہے۔ حیاءکی
معصیت اور نافرمانی سے پرہیز کیا جائے اور کوئی کام ایسان نہ کیا جائے، جو
اس کے حکم اور مرضی کے خلاف ہو۔ دنیا کے تمام مذاہب میں اسلام ہی وہ واحد
مذہب ہے جس نے عورت کو معاشرے میں مرد کے مساوی حقوق عطا کئے۔ مرد کے برابر
کا درجہ عطا کیا۔ زمانہ قدیم میں عورت پست درجہ حقیر و کمتر حیثیت رکھتی
تھی جس کا مقام کنیز، خادمہ اور نوکر سے بڑھ کر نہ تھا۔ اسلام نے عورت کو
پستی کی گہرائیوں سے اٹھا کر معراج عطا کی، اس کو سماج میں برابری کا درجہ
دیا ۔ خدائے عظیم نے اس کو ماں کا درجہ دے کر اعلیٰ کر دیا۔ اللہ رب العزت
فرماتا ہے کہ تم چاہے کتنے ہی نیک بن کر آﺅ، اگر تم نے اپنی ماں کو ناراض
کیا، اس کی نافرمانی کی تو ہم تمہیں معاف نہیں کریں گے۔جب تک تمہیں تہماری
ماں معاف نہ کر دے۔
کتابوں اور لغات کے مطابق حجاب عربی اور پردہ فارسی زبان کا لفظ ہے۔ اور
ظاہر ہے کہ ان دونوں لفظوں میں مجموعہ اور معنی ایک ہی ہے۔ یعنی پردہ ‘
حجاب، اوٹ، آڑ، حیائ، گھونگھٹ،نقاب اور برقع۔ عورتوں کا غیر مردوں، نا
محرموں، اجنبیوں سے پردہ کرنا ، اپنے آپ کو ڈھانپ کر لپیٹ کر رکھنا ہی پردہ
کہلاتا ہے۔
قرآنِ مجید میں ارشاد ہوا ہے کہ: ”اور مومن عورتوں سے کہو کہ اپنی نگاہیں
نیچی رکھیں اور اپنی عصمت کی حفاظت اور اپنی زینت کو ظاہر نہ کریں سوائے اس
زینت کے جو خود ظاہر ہو جائے اور وہ اپنے سینوں پر اوڑھنی کے بکل مار لیا
کریں اور اپنی زینت کو ظاہر نہ کریں۔ مگر ان لوگوں کے سامنے شوہر، باپ، خسر،
بیٹے، سوتیلے بھائی، بھتیجے، بھانجے، اپنی عورتیں اپنے غلام وہ مرد خدمت
گار جو عورتوں سے کچھ مطلب نہیں رکھتے وہ لڑکے جو ابھی عورتوں کی پردہ کی
باتوں سے آگاہ نہیں ہوئے ہیں۔ (نیز ان کو یہ بھی حکم دو کہ) وہ چلتے وقت
اپنے پاﺅں زمین پر اس طرح نہ مارتی چلیں کہ جو زینت انہوں نے چھپا رکھی ہے
اس کا اظہار ہو۔“ (24.31)
اُمّ المومنین اُمِّ سلمہ ؓسے روایت ہے کہ وہ اور حضرت میمونہ ؓ آنحضور ﷺ
کے پاس بیٹھی تھیں اتنے میں ابن اُم مکتوم ؓ (ایک نابینا صحابی)آئے اور
سیدھے آنحضور ﷺ کے پاس پہنچے تو آپ ﷺ نے فرمایا کہ ان سے پردہ کرو۔ حضرت
اُمِّ سلمہ ؓ نے عرض کیا ، کیا یہ نابینا نہیں؟ نہ وہ ہمیں دیکھیں گے نہ
ہمیں پہچانیں گے۔ آنحضور ﷺ نے جواب دیا کہ تم بھی نابینا ہو؟ کیا تم انہیں
نہیں دیکھتی ہو۔ (ترمذی شریف)
زنا کی بہت بڑی وجہ بے پردگی ہی ہے۔ تمام نفسیات کے ماہرین اس بات پر متفق
ہیں کہ عورت کی سب سے بڑی زینت اس کا چہرہ ہے اور اسلام میں زینت کو چھپانے
کا حکم ہے۔ کوئی مانے یا نہ مانے اسلام میں پردہ فرض ہے۔ مغربی معاشروں میں
بے پردگی اس قدر عام ہے جس کی وجہ سے وہاں جنسی بے راہ روی بہت زیادہ ہے۔
دراصل بے پردگی میں مرد اور عورت کے ملنے کے مواقع زیادہ ہو جاتے ہیں جس سے
زنا کے مواقع بھی زیادہ پیدا ہو جاتے ہیں۔ پردے دار خاتون سے کوئی مرد ملنے
یا گفتگو کی زیادہ کوشش نہیں کرتا۔مخلوط تعلیم بھی بے پردگی کا ایک اہم سبب
ہے ۔ مخلوط تعلیم میں نوجوان لڑکے اور لڑکیوں کو باہم ملنے کے مواقع زیادہ
ملتے ہیں۔ اور یہیں سے بے راہ روی کا زور شروع شروع ہو جاتا ہے۔
رسول اللہ ﷺ نے فرمایا۔ مفہوم: ”اللہ نے تم کو اپنی ضرورتوں کیلئے باہر
نکلنے کی اجازت دی ہے۔“ اس حدیثِ مبارکہ سے معلوم ہوا کہ حاجات و ضروریات
کیلئے عورتوں کو باہر نکلنے کی اجازت تھی لیکن یہ اجازت نہ غیر مشروط ہے نہ
غیر محدود۔عورتیں اس بات کی مجاز نہیں کہ جہاں چاہیں پھریں اور مردانہ
اجتماعات میں گھل مل جائیں۔ مسلمان عورتوں کو پردہ کرنے کی سعی کرنی چاہیئے
تاکہ آنے والی نسلیں ان کی گود میں پروان چڑھ کر شرم و حیا جیسی خوبیاں
پیدائشی طور پر ان میں پروان چڑھیں۔
پردے سے متعلق قرآنِ مجید میں سورہ نور، پارہ 18کی یہ آیت کریمہ ہے، مفہوم:
”اور دوپٹے اپنے گریبانوں (سینوں ) پر ڈالے رہیں۔“دوپٹہ مسلمانوں کا شعار
اور اسلامی شناخت ہے، دوپٹہ بھی چادر ہی کی ایک شکل ہے جس سے عورتوں کو
اپنے سر، سینے، چہرے کو چھپاکر رکھنے کا کہا گیا ہے۔
حضرت بریدہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسولِ اکرم ﷺ نے حضرت علی کرم اللہ
وجہ‘ سے بیان فرمایا، اے علیؓ ! ایک نظر کے بعد دوسری نظر نہ دوڑاﺅ اس لئے
کہ پہلی نظر تو تیرے لئے معاف ہے اور دوسری نظر معاف نہیں ہے۔“ (جامع
ترمذی، سنن نسائی، ابنِ ماجہ)حضرت جابر ؓ نے پوچھا کہ” اچانک نظر پڑ جائے
تو کیا کروں؟ آنحضرت ﷺ نے فرمایا فوراً نظر پھیر لو۔“(سنن ابو داؤد)
ہمارے یہاں خواتین کی ایک بہت بڑی تعداد برقعہ چادر تو درکنار دوپٹے کو بھی
بے جا وزن تصور کرتی ہیں ۔ اپنے گھر کے پاس تو پردہ کرنا ہے مگرگھر سے ذرا
دور ہوتے ہی پردہ اُٹھ جاتا ہے۔ ساری خواتین آج کل ہر برائی کے زمرے میں
آنے والے کپڑوں کو فیشن کہہ کر پورا کرتی ہیں۔ دوسروں کے نقشِ قدم پر چلنا
اور اس کی تقلید کرنا سراسر غلط ہے اس لئے کسی کی اندھی تقلید کرنا بے
حیائی ہے۔
رسولِ اکرم ﷺ نے ارشاد فرمایاکہ ” جو عورتیں کپڑے پہن کر بھی ننگی ہی رہیں
اور دوسروں کو رِجھائیں اور خود دوسروں پر ریجھیں اور اونٹ کی طرح ناز سے
گردن ٹیڑھی کرکے چلیں وہ جنت میں ہرگز داخل نہ ہوں گی اور نہ اس کی بُو
پائیں گی۔“ (صحیح مسلم شریف)
ویسے بھی مسلمان مردوں کے ساتھ مسلمان عورتوں کو بھی اپنی نگاہیں جھکا کر
رکھنی چاہیئے۔ انہیں جان بوجھ کر غیر مردوں کو نہ دیکھنا چاہیئے، نگاہ پڑ
جائے تو فوراً ہٹا لینی چاہیئے۔ مردوں کیلئے عورتوں کا ستر ہاتھ اور منہ کے
سوا اس کا پورا جسم ہے جسے شوہر کے سوا کسی دوسرے مردکے سامنے بھی نہ کھلنا
چاہیئے اور عورت کو ایسا باریک اور چست لباس بھی زیبِ تن نہیں کرنا چاہیئے
جس سے بدن اندر سے جھلکے اور جسم کی ساخت نمایاں ہوں۔
آج اہلِ مغرب نے شعائرِ اسلام میں پردہ (حجاب) پر پابندی لگانا چاہتے ہیں،
انہیں سوچنا ہوگا کہ کیا ان ہتھکنڈوں سے مسلم شعائر کو ختم کیا جا سکتا ہے
، ہرگز نہیں مسلمان خواتین حضرت عائشہ ؓ کی روشِ حجاب کو قطعی نہیں چھوڑ
سکتیں۔ احکامِ اسلامی پر ہی عمل پیرا ہو کر ہم ان شیاطینِ مغرب کو مات دے
سکتے ہیں۔ |