یہ سن 3000عیسوی ہے:
اللہ تعالٰی شروع ہی سے تھا۔ اس نے اپنی پہچان کرانے کے لیے یہ کا ئنات
بنائی اور اس میں پہلے انسا ن )حضرت آدم علیہ السلام( کو اپنا نائب بنا کر
بھیجا۔اور پھر انسانوں کی ہدایت کے لیے اپنے خاص خاص بندوں )جنہیں نبی رسول
امام اور ولی کہا گیا( کو وافر مقدار میں روحانی طاقت اور علم و عقل دے کر
زمیں پر بھیجا جنہوں نے آ کر بنی نوع انسان کو انسانیت سکھلائی۔ آج سے
تقریبا 2012سال پہلے حضرت عیسٰی علیہ السلام نے آسمانی باد شا ہت کی
خوشخبری سنائی اور تقریبا 1500سال پہلے حضرت محمد صلی اللہ علیہ والہ وسلم
نے اپنے ما ننے والوں کو جنت کی خو شخبری دی تھی۔ جو آسمانوں میں ہے اور
جہا ں موت نہیں ہے۔ جہاں ہمیشہ کی زندگی ، حسن جوانی اور ہر طرف نہ ختم
ہونے والی نعمتیں ہیں۔ ہر طرف با غات، محلات، حورو غلمان، روشنیاں،پھول
خوشبو ئیں، پھلوں سے لدے ہوئے درخت، جھیلیں، خو بصورت پرندے، جانور، شہد،
شراب، دودھ اور میٹھے پانی کی نہریں ہیں۔ اورانسان جو مانگے گا ملے گا جو
چاہے گا ہو گا۔ سائنس نے ثا بت کر دیا ہے کہ جو بات ماضی میں نا ممکن تھی
وہ آج ممکن ہے اور جو بات آج نا ممکن ہے وہ مستقبل میں ممکن ہو جائے گی۔
چنا نچہ جس رفتار سے آج سائنسی ترقی ہو رہی ہے اسی رفتار سےآج سے تقریبا
988سال بعد کیا ہو جا ئے گا۔
فرض کرو کہ یہ3000 ء ہے۔ پوری دنیا جدید ٹیکنا لوجی کی وجہ سے ایک گلوبل
ولیج بن گئی ہے۔ یہاں ہر طرف کھیت ہی کھیت، سبزہ ہی سبزہ، ہر طرف پھلوں سے
لدے ہوئے باغات ہی باغات، ، دودھ ،شہد، شراب اور پانی کی نہریں ہی نہریں
ہیں۔ عنبر کستوری کے ڈھیر ہیں۔ ہر قسم کی نعمتوں کی فرا وانی ہے۔ انسان
فضاءمیں گولے پھینک کر اپنی مرضی سے بارش برسا رہے ہیں۔ قدرتی آفات آندھیوں،
طوفانوں اور زلزلوں پر قابو پایا جا چکا ہے۔ کھیتوں، کارخانوں، میدانو ں
اور سمندروں میں روبوٹ کام کرتے ہیں۔ انسانوں کی حفا ظت کے لئے رو بو ٹوں
کی فوج کھڑی ہے۔ یہ روبوٹ کمپیو ٹرائزڈ ریموٹ کنٹرول سے چلتے ہیں۔ ہر طرف
سونے چاندی زمرد کےبنے مرصع محلات، پھولوں سے لدے ہوئے پودے، پھلوں سے لدے
ہوئے باغات، خوشبوئیں اور روشنیاں ہی روشنیاں ہیں۔ انسان کچھ نہیں کرتے وہ
ہر طرف اڑتے پھرتے ہیں۔ صرف خوش گپیاں اور سیر سپاٹا کرتے ہیں۔ ان کے دلوں
اور دماغوں سے نکلنے والی خواہشات کی لہریں ، ہاتھوں پر گھڑیوں کی مانند
بندھے ہوئے کمپیو ٹرائزڈ ریموٹ کنٹرول سسٹم سے روبوٹس کو حکم دیتی ہیں کہ
فلاں چیز لے آؤ یہ کام کرو وہ کام کرو۔ وہ روبوٹ کرتے ہیں۔ انہیں کی طاقت
حاصل ہے وہ جو مانگتے ہیں مل جاتا ہے اور جو چاہتے ہیں ہو جاتا ہے۔ وہ اپنی
جنت آپ بناتے ہیں انہیں ہر نعمت اور ہر خوشی حاصل ہے۔ کھانے کی گولیاں اور
دل پسند مشروبات صرف ڈکار لینے اور پسینہ آنے سے ہضم ہو جاتے ہیں۔ کوئی
فضلہ نہیں ہوتا۔ ان کے ملبوسات پھولوں کی طرح اور خوشبودار ہیں۔ ان کے
زیورات سونے چاندی اور زمرد کے ہیں اور ان کے تخت بھی سونے کے ہیں۔ ۔ ان کے
محلات بھی سونے چاندی اور عنبر کستوری سے بنائے گئے ہیں۔ ان کے انجئنیرز نے
ان کی سہولت کے لیے الیکٹرونکس کی ہر چیز تیار کر رکھی ہے اور ان کے
فارماسسٹس نے ایسی ایسی لائف سیونگ ڈرگز بنا لی ہیں کہ انہوں نے ڈی این اے
اور جینز پر تجربے کر کے،ان کی خامیاں اور کمزوریاں دور کر کے ان کے طاقتور
جسم بنا لئے ہیں کہ سب جوان ہیں اور ان میں کوئی بوڑھا نہیں۔ بھوک پیاس سے
بےنیاز نبی رسول اور ولی خدا کا دیدار کر رہے ہیں جو کائنات میں سب سے
زیادہ خوبصورت اور ستر ماؤں سے بھی زیادہ مہربان ہے۔ نبیوں، رسولوں اور
ولیوں نے خدا سے عاجزانہ دعائیں مانگ مانگ کر اور روحانی عملیات کر کے مردہ
روحوں کو واپس بلا کر انہیں ہمیشہ ہمیشہ کے لئے دوبارہ زندہ کر لیا ہے۔
جیسا کہ حضرت عیسی علیہ السلام مردوں کو زندہ کر لیا کرتے تھے۔ اور جنتی
لوگ تبدیل شدہ طاقتور جینز، جنتی آب وہوا اور بہترین خوراک کی وجہ سے صحت
مند اور خوبصورت ہیں اور جوان ہیں اور جو نہ بوڑھے ہوتے ہیں اور نہ مرتے
ہیں ۔ گویا موت کو ختم کر دیا گیا ہے۔ بیماری، معذوری ، بڑھاپا اور پلاسٹک
سرجری اور مصنوعی اعضاء کی پیوندکاری قصہ پارینہ بن چکی ہیں۔ ان کے کٹے
پھٹے اعضاء اور وہ اعضاء بھی جو صلاحیت )مثلا نظر، سماعت، گونگا پن اور
معزوری( سے عاری تھے وہ صحیح سالم اور تندرست ہو گئے ہیں۔وہ ہر وقت جوان ،صحت
مند،خوبصورت اور چست رہتےہیں۔ ان کے حسن اخلاق، باہمی پیار محبت اور خلوص
کی وجہ سے کوئی جھگڑا نہیں ہوتا اور وہ ہنسی خوشی زندگی گزار رہے ہیں۔ وہ
ہر وقت خدا کا شکر اور اس کی تعریف کرتے رہتے ہیں۔ انہیں صبح و شام اور دکھ
درد کا پتہ ہی نہیں۔ ہمیشہ بہار کا موسم اور صبح کا سہانا سماں رہتا ہے۔
گویا وہ جنت میں ہیں اور یہ جنت خلاوں یعنی ستاروں میں ہے کیونکہ انسان
3000ءسے پہلے ستاروں پر پہنچ چکا ہے۔ اور نبی پاک صلی اللہ علیہ والہ وسلم
کا یہ فرمان درست ہے کہ یہ ستارے آسمانوں پہ لٹکتی ہوئی جنتیں ہیں جو کہ
ماننے والوں (مومنوں) کے لئے ہیں۔
جنت والوں نے جنتی ماحول کو خوشگوار اور پرسکون رکھنے کے لئے اور امن کو
تباہی سے بچانے کے لئے عدالتیں بنا رکھی ہیں جو مجرموں کو ان کے گناہوں کی
سزا دینے کے لئے واپس زمین پر بھیج دیتے ہیں )تاکہ وہ جنت کو بھی دوزخ نہ
بنا دیں( جہاں وہ ہمیشہ تڑپتے رہتے ہیں کیونکہ زمین ایٹمی جنگوں کی وجہ سے
جہنم بنی ہوئی ہے۔ جہاں ایک قیامت برپا ہے ہر طرف چیخ و پکار اور آگ ہی آگ
ہے۔ اور وہاں سے نکلنا ممکن نہیں اور دوزخیوں کی یہ حالت زار جنت والے ٹی
وی پر دیکھ رہے ہیں۔ اور دوزخی شرم کے مارے منہ چھپا تے پھر رہے ہیں وہاں
وہ نہ مرتے ہیں نہ جیتے ہیں البتہ شاید وہ گناہوں کی سزا بھگت کر صدیوں بعد
جنگوں کے ختم ہونے اور امن قائم ہو جانے پر خلاوں میں جنت میں جانے کے قابل
ہو جائیں گے۔
لوگو !جہالت جرائم، لڑائی بھڑائی،حرص حسد اور نفرت چھوڑ دو اور آپس میں
پیار محبت سے رہو ۔نیکی بھلائی، علم و تحقیق اور غوروفکرکرو ۔نبیوں،رسولوں،اماموں،ولیوں
گرووں اوتاروں کی پیروی کرو اپنے گناہوں سے توبہ کرو اور اللہ تعالٰی سے
معافی مانگو اور حسن اخلاق، صبروشکر اور اعتدال سے زندگی گزارو اور امن
قائم کرو تاکہ تم بھی جنت میں جا سکو اسی لئے نبی پاک صلی اللہ علیہ والہ
وسلم نے فرمایا ہے کہ ایک گھڑی کا غوروفکر دونوں جہان کی عبادت سے بہتر ہے۔
نیز یہ کہ توبہ اور اصلاح سے گناہ معاف ہوتے ہیں پس خدا کی پہچان کرو اس سے
دلی محبت اور سانسوں اور دل میں ہر وقت یاد کرو اور روحانی طاقت حاصل کرو
اور دنیا اور آخرت میں کامیابی حاصل کرو تاکہ تم بھی دوزخ سے بچ سکو اور
جنت میں جا سکو۔ |