جس طرح کسی مہذب معاشرے کیلئے
آئین وقانون اورعدل وانصاف کی اہمیت سے انکار نہیں کیا جاسکتا اس طرح ہم
ایک آزاداورخودمختارریاست کی حفاظت اوردفاع کیلئے فوج کی مضبوطی اور اس کے
کردارکونہیںجھٹلاسکتے ۔عدلیہ کاکام عوام کوانصاف فراہم کرناجبکہ سرحدوں اور
عوام کی حفاظت کرنا فوج کافرض منصبی ہے۔جس طرح ایک جج کے کسی ماورائے آئین
اقدام پرپوری عدلیہ کے کردارپرانگلی نہیں اٹھائی جاسکتی اس طرح کسی فوجی
آمر کی سیاہ کاریوں کو بنیادبناتے ہوئے فوج کوبحیثیت ادارہ کٹہرے میں
کھڑانہیں کیا جاسکتا۔اگرماضی میںفوج کے چندجرنیل اپنے ادارے کی بدنامی
کاسبب بنے ہیں توکچھ ججوں نے بھی ماضی میں عدلیہ کاتقدس پامال کرنے میں
کوئی کسر نہیں چھوڑی ۔پاکستان کی افواج کے زیادہ تر جرنیل اہل اورایماندار
تھے اوراب بھی فوج میںمحب وطن اورمخلص آفیسرز کی کمی نہیں ہے تاہم کسی نہ
کسی صورت اورکسی نہ کسی حدتک میں بدعنوانی دنیا کے ہرملک اور سبھی اداروں
میں پائی جاتی ہے۔بلاشبہ غلطیاں سب سے ہوئی ہیں مگر غلطیاں نہ دہرانازیادہ
اہم ہے۔ایک انسان کے دل کابھید کوئی دوسراانسان نہیں جان سکتا لہٰذا کسی
فرد یاادارے کی نیت پرشبہ یابار باراس سے وضاحت طلب کرنابسااوقات اسے باغی
بنادیتا ہے ۔پاک فوج کے سربراہ جنرل اشفاق پرویزکیانی کی حالیہ گفتگوبلاشبہ
تنگ آمدبجنگ آمد کے زمرے میں آتی ہے۔ہمارے ہاںپچھلے کئی ماہ سے مسلسل فوج
کوجمہوریت دشمن ڈکلیئر کرنے کی مجرمانہ کوشش کی جارہی ہے ،بدقسمتی سے ہمارے
بیشتر سیاستدانوں کوحساس موضوعات پربات کرنے کاسلیقہ تک نہیں آتا۔جولوگ ٹی
وی ٹاک شوزمیں بیٹھ کردوسروں پر کیچڑاچھالنااوران پرچارج شیٹ لگانااپنا حق
سمجھتے ہیں کاش وہ اپنے گریبان میں بھی جھانک لیا کریں۔ایٹمی ملک کاحکمران
اورسیاستدان توبلٹ پروف گاڑیوں میں بیٹھتا ہے جبکہ ہمارے جانبازمحافظ دفاع
وطن کیلئے اپنی جان ہتھیلی پراٹھائے پھرتے ہیں ۔سیاسی پارٹیوں کی طرف سے
ایک دوسرے کوزچ کرنے یاپوائنٹ سکورنگ کیلئے ناقابل فہم اورناقابل برداشت
بیانات کاسلسلہ کبھی ختم نہیںہوتا جبکہ فوج کی قیادت سیاسی بیانات کے جواب
میں سیاسی بیان نہیں دے سکتی اوران کی خاموشی کوبھی زیادہ ترمنفی اندازمیں
لیا جاتا ہے۔اگرایک ادارہ کسی دوسرے ادارے کے حوالے سے کوئی تحفظات رکھتا
ہے تو میڈیا کے سوابھی بات کرنے کے کئی موثر فورم دستیاب ہیں،ہمارے کچھ
میڈیا گروپ توخبربریک نہیں کرتے بلکہ نمک مرچ لگاکرگویافروٹ چاٹ بیچتے
ہیں۔میڈیا کے حوالے سے ایک ضابطہ اخلاق کی اشدضرورت محسوس کی جارہی ہے،کسی
میڈیا گروپ کو محض ریٹنگ کیلئے قومی مفاداوروقارسے کھیلنے کی اجازت نہیں دی
جاسکتی ۔
پاکستان میں آج تک چاربارفوجی بغاوت ہوئی ،تاہم اس ماورائے آئین اقدام
کیخلاف ہمارے کسی قومی ادارے نے بھرپوراندازمیں مزاحمت نہیں کی بلکہ
الٹاآمروں کواپناچہرہ اوراپنے گناہ چھپانے کیلئے آئینی راستہ فراہم کیا
گیااورہمارے جمہوریت پسندعوام ان چاروں فوجی آمروں کے آنے اورپھرجانے پر
مٹھائیاں بانٹے دیکھے گئے۔کیا اگرجنرل اشفاق پرویزکیانی چاہتے توانہیں کوئی
جمہوریت کی عمارت کوبلڈوزکرنے سے روک سکتا تھا ،ا ن کی اقتدارمیںآمدپربھی
کئی سیاسی پارٹیوں کے دفاترمیں جشن منایا جاتااورعام شہری بھی گلی محلے میں
مٹھائیاں تقسیم کرتے۔ملک میںبدترین سیاسی ،معاشی اوراقتصادی صورتحال کے
باوجود جنرل اشفاق پرویز کیانی اپنے ادارے کومنظم کرنے اورشدت پسندوں
کاصفایا کرنے میں مصروف رہے مگرانہیں خوامخواہ باربار سیاست میں گھسیٹ لیا
جاتا ہے،بدقسمتی سے ان کی اس کمٹمنٹ اور خوبی کوبھرپوراندازمیں نہیںسراہا
گیا،کوئی مانے یانہ مانے پاکستان میں جمہوریت کے تسلسل اورپارلیمنٹ کی
آئینی مدت پوری ہونے میں سب سے زیادہ اہم کردارجنرل اشفاق پرویزکیانی نے
اداکیا ہے۔جنرل اشفاق پرویز کیانی شروع دن سے پاکستان میں جمہوریت کے دوام
اوراستحکام کیلئے اپنا مثبت کرداراداکررہے ہیں ۔ پاک فوج کیخلاف امریکہ ،بھارت
اوراسرائیل کی کوئی سازش کامیاب نہیںہوئی مگرہمارے کچھ اپنے اس قومی ادارے
کوبدنام اورناکام کرنے کے درپے ہیں مگروہ بھی شیطانی تکون کی طرح اپنے
مذموم مقاصدمیں کامیاب نہیں ہو ں گے۔پاک فوج پرلفاظی کی کاری ضرب لگانے
کامطلب ایٹمی پاکستان کوکمزورکرناہے ۔جوگفتگوبندکمرے میں بھی بیحداحتیاط سے
کی جانی چاہئے وہ سرعام کرنامیرے نزدیک ملک دشمنی ہے۔ہم دنیا کو پاکستان کے
حوالے سے کیا تاثر یاپیغام دے رہے ہیں ۔اس طرح توصرف ہمارے اندرونی وبیرونی
دشمنوں کوخوشی ہوگی اوروہ یقینا اس صورتحال سے فائدہ اٹھانے کی کوشش کریں
گے ۔
میرے نزدیک اپنی اپنی اناکواس ملک کے عوام ، آئین اورقانون سے زیادہ اہم
سمجھنادرست نہیں ۔کوئی فردیاادارہ محض اپنی اناکی تسکین کیلئے شعوری طورپر
اس مملکت خدادادکے وقاراوراستحکام کوفناکرنے کی کوشش نہ کرے ۔بلاشبہ ہمارے
فوجی ہماری پرسکون نینداورآزادی کی حفاظت کیلئے سرحدوں پر دشمن کی گولیاں
اپنے سینے کی ڈھال سے روکتے ہیں مگرہم پرآنچ نہیں آنے دیتے ۔چنداقتدارپرست
فوجی آمروں کی زیادتیاں اپنی جگہ مگراس ادارے کی کمٹمنٹ اورقربانیوں
کودیکھتے ہوئے وہ تلخیاں فراموش کی جاسکتی ہیں ۔انصاف کے قلم سے کسی مجرم
کاسرتوقلم کیا جاسکتا ہے مگرکسی ملک دشمن فوج کاراستہ نہیں روکاجاسکتا،یہ
کام ایک منظم اورپیشہ ورفوج کے سواکوئی نہیں کرسکتا ۔چودہ سوسال پہلے کی
طرح آج انصاف نہیں ہوتامگرپھربھی اُس وقت فوج کاادارہ موجودتھا۔حضرت
عمرفاروق ؓ نے جہاں اسلامی تعلیمات کی روشنی میں عدل و انصاف قائم کیا وہاں
ان کی فتوحات بھی انسانی تاریخ کاروشن باب ہیں جوایک زیرک سپہ سالار اور
پیشہ ورفوج کی مرہون منت تھیں۔محض قوانین پاس یاسخت سزائیںمقررکرنے سے کوئی
معاشرہ سوفیصد جرم سے پاک نہیں ہوجاتا،اگرقانون یاقلم کے ڈرسے جرم ختم ہوتا
توقتل کی صورت میں سزائے موت کے باوجود معاشرے میں جابجاقتل کیوں ہوتے
اورڈاکے کیوں پڑتے۔ہمارافوکس جرم کی بجائے صرف مجرم کوختم کرنے پرہے ۔ریاست
جرم کی وجوہات ختم کردے میں وثوق سے کہتا ہوں معاشرے میں مجرم بننے کاسلسلہ
خودبخودبندہوجائے گا۔انصاف سے زیادہ انسان کو مجرمانہ سوچ یاروش کا احساس
اورادراک ہونازیادہ اہم ہے ۔معاشرہ ان خطوط پرتعمیر کیا جائے جہاں لوگ مجرم
کی بجائے جرم سے نفرت کریں اورقانون سے ڈرانے دھمکانے کی بجائے انسانیت اور
قانون کے احترام کی تربیت اورترغیب دی جائے ۔
عدلیہ اورججوں کی بحالی کے بعدسے عدالت عظمیٰ کے چیف جسٹس کسی نہ کسی حوالے
سے خبروں میں اِن رہتے ہیں ۔میں سمجھتا ہوں اگرکوئی صدرمملکت منتخب ہونے
کاخواب شرمندہ تعبیرکرنے کیلئے سیاست میں آنے یاجاتے جاتے ہیروبننے کاارادہ
رکھتاہے تووہ آئینی مدت پوری ہونے کا انتظارکرے تاہم قبل ازوقت سیاسی
اندازمیں بیانات ہرگزنہ دے کیونکہ اگرکوئی غیرسیاسی شخصیت سیاستدانوں کے
ساتھ سیاسی اندازمیں گفتگوکرے گی،ان سے چھیڑچھاڑکرے گی توپھریقینااسے جواب
بھی اسی اندازمیں ملے گا۔یہ دنیا بڑی بے رحم ہے جواقتداراوراختیار کے نشے
میں خوامخواہ دوسروں کی پگڑیاں اچھالتا ہے اس کی اپنی دستار بھی محفوظ نہیں
رہتی کیونکہ یہ نظام قدرت ہے۔ ہمارے ہاں کوئی سامنے سے حملہ کرتا ہے توکچھ
نقاب پوش لوگ پیٹھ پروارکرتے ہیںلہٰذا محتاط رہنا ضروری ہے،انصاف پراستحصال
کارنگ غالب نہ آنے پائے۔بلاشبہ عزت اورذلت قدرت کے اختیار میں ہے اور عزت
کسی کی دولت یااس کے عہدے یا منصب کی مرہون منت نہیں ہوتی ،دنیا میں کئی
شخصیات بڑے بڑے عہدوں پربراجمان ہیں مگردوسروں کے نزدیک ان کی عزت دوکوڑی
کی نہیں ہوتی جبکہ کئی خوش نصیب وہ بھی ہیں جودنیاوی منصب سے محروم ہوتے
ہیں مگر معاشرے میں انہیں بڑی قدرکی نگاہ سے دیکھا جاتا ہے۔میرے نزدیک
ڈاکٹرعبدالقدیرخان اور عبدالستارایدھی سمیت کئی ممتازشخصیات ہیں جوبظاہر
کسی عہدے پرنہیںہیں مگرلوگ دل وجاں سے ان کی عزت اورقدرکرتے ہیں
۔لہٰذااگرہم اورہمارے ادارے ایک دوسرے کی عزت نہیں کریں گے تویقینا کوئی
پرایابھی ہماری عزت نہیں کرے گا۔
عہدحاضر میں کسی بھی ریاست کے داخلی استحکام اوردشمن ملک کی جارحیت سے
یقینی حفاظت کیلئے اس کے پاس پیشہ ورفوج اورجدیدجنگی سازوسامان کاہوناازبس
ضروری ہے ،دنیا کاکوئی باشعورفرد اس حقیقت سے انکار نہیں کر سکتا۔لیکن اگر
کسی ملک کے فوجی پیشہ ورانہ تربیت ،دفاعی مہارت ،جدیداسلحہ اورشوق شہادت سے
عاری ہوں توشکست اورشرمندگی اُس قوم کامقدربن جاتی ہے۔اگرہمارے چارجرنیل
جمہوریت پرشب خون مارنے یاچندایک ضمیرفروش سیاستدانوں کی خریدوفروخت کرتے
اورقومی وسائل میں نقب لگاتے رہے ہیں توہماری قابل فخرفوج کے ہزاروں
جانبازوں نے اس مادروطن کی جغرافیائی سرحدوں کادفاع کرتے ہوئے جام شہادت
بھی نوش کیا ہے اورہم ان کی قربانیوں کی قیمت پیسوں میں ادانہیں
کرسکتے۔پیسہ توسیاست ،تجارت،صحافت اورشوبزسمیت کسی بھی شعبہ کے پلیٹ فارم
سے کمایا جاسکتا ہے مگرشہادت کاجام نوش کرنا صرف نڈرفوجی ،رینجرزاورپولیس
اہلکار وں کونصیب ہوتا ہے،یہ وہ سوغات اور سعادت ہے جوہرکسی کونہیں ملتی
۔پاکستان کاپڑوسی ہمارے بارے میں جس قسم کی جارحانہ اورمنافقانہ سوچ رکھتا
ہے اس تناظرمیں ہم فوج کی پیشہ ورانہ صلاحیت اورجدید اسلحہ کی ضرورت
پرکمپرومائز نہیں کرسکتے ،تاہم پاکستان نے اسلحہ کی دوڑ شروع نہیں کی
۔اگرعہدحاضر کامتمدن اورمہذب ملک جاپان بھی ایٹمی طاقت ہوتا تو جولائی1945
میںامریکہ کبھی اس پرجوہری حملے کی جسارت نہ کرتا جس طرح آج بھارت اپنے
جارحانہ عزائم کے باوجودایٹمی پاکستان کی سا لمیت کومیلی آنکھ سے نہیں دیکھ
سکتا ۔1965ءکے حق وباطل کی معرکہ آرائی میں بھی ہمارے نڈرمحافظوں نے خودسے
بڑی دفاعی طاقت کوپسپائی پرمجبورکردیا تھا۔جب ایک ملک کسی دوسرے ملک پرحملے
کاارادہ کرتا ہے تواسے اپنے دشمن ملک کی فوج کے سواکسی دوسرے ادارے کی
آزادی ،مہارت یامضبوطی سے کوئی سروکار نہیں ہوتا۔
یہ ایک دوسرے پرانگلیاں اٹھانے اورایک دوسرے کے کپڑے چوراہے میں بیٹھ
کردھونے یا ماضی میں ہونیوالے شرمناک واقعات کاماتم کرنے کاوقت نہیں بلکہ
اتحادویکجہتی اارتفاق رائے سے ایک موثرقومی ایجنڈابنانے کیلئے آپس میں
سراوردل جوڑنے کاوقت ہے۔جب ایک ساتھ کئی دشمن گھات لگائے بیٹھے ہوںتوپھرآپس
میں الجھناجہالت اور حماقت ہے۔ہم اس انسانی تاریخ کاحصہ ہیں جومسلسل لکھی
جارہی ہے ،سوایساکچھ نہ کیا جائے جس کوپڑھ کرہما رے بچے شرمندہ ہوں۔ |