گر چاہتے ہو منزل ۔۔۔۔۔پرواز بدل ڈالو

کراچی میں قتل و غارت کا کھیل جاری ہے آئے روز خون کی ہولی کھیلی جا رہی ہے،بے گناہ لوگوں کو خون میں نہلایا جا رہا ہے جلاؤ گھیراؤ ،توڑ پھوڑ کی وجہ سے کراچی کے مکینوں کی زندگیاں اجیرن کر دی گئی ہیں امن تباہ و بر باد کر دیا گیا ہے۔متحدہ قومی موومنٹ،عوامی نیشنل پارٹی،کالعدم امن کمیٹی،اور قوم پرست جماعتوں نے آپسی جھگڑوں کی وجہ سے کراچی کا سکون برباد کر کے رکھ دیا ہے،ٹارگٹ کلینگ،بوری بند نعشیں،بھتہ خوری،عدم تحفظ ،خوف و ہراس،فرقہ وارانہ فسادات، اغوا برائے تاوان،اسٹریٹ کرائمز اور چھینا چھپٹی تو اب کراچی کی پہچان بن چکی ہیں،اب تو لوگ یہ کہنے لگے ہیں کہ جب تک کراچی میں بارہ پندرہ لوگ نہ مریں لگتا ہے کہ آج کراچی میں صبح ہی نہیں ہوئی،اگر کوئی آدمی اپنے کام کاج سے صحیح سلامت شام کو گھر لوٹتا ہے لوگ اسے عظیم کارنامے تصور کرتے ہیں ۔نسل کشی کی انتہا اپنے عروج پر ہے جس کی واضح مثال بلوچوں کی ٹارگٹ کلینگ اور لیاری آپریشن ہے،اہلیان لیاری نے صرف اپنے حقوق کے لیے آواز اٹھائی تھی جنہیں ایک مخصوص جماعت کے کہنے پہ آگ و خون سے نہلا دیا گیااور ان کے حقوق پر شب خون مارا آپریشن کے دوران بطور صحافتی کارکن کے راقم خود چیل چوک میں موجود تھا ازخود تمام مناظرازخود اپنی تیسری آنکھ سے دیکھتا رہا،لیاری آپریشن کے دوران وہاں کے مقیم جس کرب سے گزرے یوں لگ رہا تھاجیسے یہ پاکستان کے سب سے بڑے شہر کراچی کا قصبہ نہ ہو بلکہ کشمیر،بیروت یا فلسطین کا کوئی حصہ ہو جہاں غاضب ملک نے قبضہ کیا ہوا ہے اور انسانیت کی تذلیل ہو رہی ہو،سرکاری شخصیات کے لیے لیاری نو گو ایریا بن گیا تھا،پولیس مزاحمت کاروں کے تابڑ توڑ حملوں کے سامنے پسپا ہوتی ہوئی نظر آئی اور چوہدری اسلم بھی فرضی نعروں تک محدود رہا ، لیاری والوں کا ہمدرد زوالفقار مرزا بھی منظر سے غاہب ہو چکا، رحمٰن ملک کے دعوے بھی دھرے کے دھرے رہ گئے،نہ جھنڈے اترے نہ ہی قتل و غارت گری میں کمی واقع ہوئی،ملزمان کی سرکوبی کے بجائے صرف ڈبل سواری پر پابندی لگتی آئی ہے،آئے روز کشیدگی کی وجہ سے لوگ نقل مکانی پر مجبور ہو چکے ہیں، یوں لگتا ہے کہ کراچی میں حکومت کا کوئی وجود نہیں ہے۔موقع پرست اتحادی کے سامنے حکومت بے بس نظر آ رہی ہے،لندن قیادت نے بھتہ خوری کی آڑ میں مخالفین کے خلاف کاروائی کا مطالبہ بھی منوا لیا تھا،ایسے میں کراچی کے عوام کو تحفظ کون فراہم کرے گا؟

سندھ کی صورت حال بھی گھمبیر تر ہے،حکومتی عدم توجہی کے بعد سندھی قوم پرستوں نے علیحدگی کا نعرہ لگا کر قوم پرست جنونیوں کی روح کو گرما دیا ہے ،جسقم بھی بشیر قریشی مرحو م کی پر اسرار وفات کے بعد غیر فعال ہو چکی ہے ،اور کہاں گیا سندھ کا چمپےئن کہلوانے والا ذوالفقار مرزا؟آخر اس کی بولتی کس نے بند کر دی ہے؟صوبہ خیبر پختون خواہ میں بھی طالبانائزیشن کے نام پر امن کی دھنجیاں اڑائی جا رہی ہیں،بم دھماکے جگہ جگہ ہو رہے ہیں ،یہا ں بھی حکومتی وجود آٹے میں نمک کے برابر نظر آتا ہے۔اس کے بعد رخ کرتے ہیں پنجاب کی طرف،مگر یہ کیا یہا ں بھی آوے کا آوا بگڑا ہوا ہے،کراچی کی طرح یہاں بھی بوری بند لاشوں کا سلسلہ جاری ہے،اگر یہا ں سے بچ کر نکلیں تو کرائمز کی بھر مار نظر آئے گی،پھر حکومتی ناکامی کا سب سے بڑا ثبوت ڈینگی کے حملے سے بچنے کے لیے احتیاطی تدابیراور ڈینگی وائرس کے مکمل خاتمے میں ناکامی ہے جس کے باعث اس سال بھی ڈینگی مچھر کے لگاتار حملے ہیں ، مانا کہ باقی صوبوں کی طرح پنجاب کی حکومت کسی حد تک کامیاب ہوئی ہے مگرجو کمی رہتی ہے اس کی وجہ پیپلز پارٹی اور مسلم لیگ نواز میں سیاسی محاذ آرائی ہے جو عوام میں فاصلہ پیدا کر رہی ہے۔باقی جو کمی رہ جاتی ہے وہ ہر سال سیلاب کی تباہ کاریو ں کے باعث پوری ہو جاتی ہے،نسلیں تباہ ہو گئی مگر ابھی تک مزید ڈیم نہ بن سکے۔وزیر اعلیٰ پنجاب میاں شہباز شریف بھی سیاسی اعتاب کا شکار ہوتے نظر آرہے ہیں انھیں بھی عمران خان کی مقبولیت سے آئندہ الیکشن ہاتھ سے نکلتا ہوا دکھائی دے رہا ہے۔

گلگت و بلتستان کی صورت حال بھی آپ سب کے سامنے ہے،فرقہ وارانہ فسادات اور شیعہ سنی کے نام پر قتل و غارت گری جاری ہے ،کب کیا ہو جائے کوئی نہیں جانتا،حکومت مکمل ناکام اور بے بس نظر آ رہی ہے۔شمالی و جنوبی وزیرستان کی حالت بھی کسی سے ڈھکی چھپی نہیں ہے،آئے روز ڈرون حملوں کی بھرمار اب تک ہزاروں بے گناہوں کی جان لے چکی ہے اور حکومت صرف فرضی بیانات تک محدود ہے،اب دیکھتے ہیں کہ عمران خان کا امن مارچ کیا رنگ لاتا ہے؟

دوسری طرف اس وقت پاکستان کا سب سے بڑا مسئلہ بلوچستان بد امنی کیس ہے جس میں بلوچ رہنما ؤں نے وفاق سے انتہائی ناراضگی کا ردعمل ظاہر کیا ہے،بلوچ رہنماؤں کے مطالبات ماننا نا گزیر ہو چکا ہے،لاپتہ افراد کی بازیابی،حساس اداروں کی جانب سے مارے جانے والے بلوچوں کے قاتلوں کی گرفتاری،نواب اکبر بگٹی کے قاتل سابق صدر جنرل پرویز مشرف کی گرفتاری،تین فوجی چھاونیوں کا خاتمہ اور فوجیوں کو واپس بیرکوں میں بھیجنا اولین مطالبات میں شامل ہیںِ ۔بلوچستان میں مزید چھاونیوں کی تعمیر روکنا اور فوج کو واپس بیرکوں میں بھیجنا فوجی قیادت کی اس خواہش کا اظہار ہے کہ وہ اپنے آپ کو لا تعلق کرنا چاہتی ہے،جس آئی جی ایف (میجر جنرل عبید اللہ خٹک ) کے بارے میں سب سے زیادہ واویلا کیا جا رہا ہے وہ بھی کمانڈ سنبھالنے کے بعد خود عطاء اللہ مینگل صا حب اور دیگر بلوچ رہنماؤں کی خدمت میں رہنمائی کے لیے حاضر ہوئے تھے،لیکن المیہ یہ ہے کہ سوچ کی یہ تبدیلی عوام تک منتقل ہو رہی ہے نہ بلوچ رہنماؤں تک، وجہ اس کی اس کہ سوا کچھ نہیں کہ سیاسی قیادت اور فوج کے درمیان ہم آہنگی اور مکالمے کا فقدان ہے۔ اس ہم آہنگی کی راہ میں سیاسی قیادت کی غلط ترجیحات کا بھی عمل دخل ہے لیکن عسکری ادارے بھی بعض اوقات فروعی مسائل میں الجھ کر اسے بد دل کرنے کا موجب بنتے ہیں۔عسکری قیادت کو چاہے کہ وہ وسیع تر قومی مفادات میں اسطرح کے فروعی معاملات سے متعلق بھی اپنے ماتحت اداروں کو روکے تاکہ سیاسی حلقوں کے لئے اس کی سوچ میں مثبت تبدیلی کے رجحان کو قبول کرنے اور اس کے قریب آنے میں رکاوٹیں حائل نہ ہوں ۔بلوچستان کا مسئلہ ہو ،فاٹا کا ہو،یا خیبر پختون خواہ کا، یہ بھیانک ضرور ہیں لیکن ان کا حل نکل سکتا ہے ۔اگر عسکری اور سول قیادت حقیقی معنوں میں ایک صف پر آجائیں اور دونوں باہمی اعتماد اور اشتراک کے ساتھ کوشش کریں تو حل نکل سکتا ہے لیکن المیہ یہ ہے کہ مطلوبہ سطح پر مکالمہ یا تعاون ہوتا نظر نہیں آرہا۔ایک لمحے کے لیے فرض کر لیجیئے کہ اگر آصف علی زرداری،میاں نواز شریف،جنرل کیانی،اور ظہیر الاسلام عباسی مل کر بلوچ رہنماؤں کے پا س جائیں تو وہ کیونکر بات کرنے سے انکاری کریں گے؟میڈیا کی طرح ارباب اختیار کو حالات کی سنجیدگی کا ادراک ہوتا تو آج مسائل نہ ہوتے،حالات کو بہتر کرنا ہے تو پینسٹھ برس تک حکمرانی کرنے والی قوتیں عوام کو حاکم سمجھیں ،وقتی تسلیوں سے اب بات نہیں بنے گی،بلوچستان کے حالات آج جس مقام پرہیں وہا ں سے واپسی کے امکانات نظر نہیں آ تے ہیں ،سردار اختر مینگل نے لاپتہ افراد سمیت دیگر مسائل سننے پر عدالت کا شکریہ ادا کیااور کہا کہ میرے چھ نکات کو شیخ مجیب الرحمٰن کے نکات سے الگ نہ سمجھا جائے،انہوں نے یہ بھی کہا کہ اگر بلوچوں کو پاکستانی سمجھا جاتا تو انہیں ظلم و جبر کا نشانہ بنا کر قتل نہ کیا جاتا ،وہاں پر پانچ بار فوجی آپریشن نہ ہوتے۔خون خرابے سے بہتر ہے کہ گلے مل کر خوش اسلوبی سے الگ ہو جائیں۔ ہمیں بلوچستان کے حالات ،وجوہات ،زیادتیوں اور مظالم کے بارے میں جاننا ہو گا ،ہم مشرقی پاکستان نہیں بھولنا چاہے، بلوچ عوام بھی اگر ہم سے دور ہو گئی تو مشرقی پاکستان جیسا ایک اور سانحہ ہو سکتا ہے،معاملات کا سنجیدگی سے نوٹس لینا ہو گا۔سردار اختر مینگل کے چھ نکات مندرجہ ذیل ہیں ۔
(۱)۔بلوچ عوام کے خلاف تمام خفیہ اور کھلے ملٹری آپریشن فوری طور پر بند کئے جائیںَ۔
(۲)۔تمام لاپتہ افراد کو بازیاب کر کے عدالتوں کے سامنے پیش کیا جائے۔
(۳)۔آئی ایس آئی اور ایم آئی کے تحت کام کرنے والے تمام ڈیتھ اسکواڈ ختم کےئے جا ئیں ۔
(۴)۔ بلوچ سیاسی جماعتوں کو انٹیلی جینس ایجنسیوں کی مداخلت کے بغیر سیاسی سرگرمیاں چلانے کی اجازت دی جائے۔
(۵)۔ بلوچ رہنماؤں اور کارکنان پر غیر انسانی تشدد،ایذا رسائی ، قتل اور لاشوں گو گم کرنے والوں کو انصاف کے کٹہرے میں لایا جائے۔
(۶)۔ کسمپرسی کی حالت میں پڑے ہزاروں بلوچ عوام کی بحالی کے لیے ضروری اقدامات کئیے جائیں ۔

بلوچستان میں جاری واقعات کے پس منظر میں سابق وزیر اعلیٰ بلوچستان سردار اختر مینگل کی سپریم کورٹ میں حاضری،چیف جسٹس کی طرف سے خفیہ ایجنسیوں کو اپنے ڈیتھ اسکواڈ ختم کرنے کی ہدایت ،اہم ترین فوجی و حکومتی عہدیداروں سے رد عمل کی طلبی اہم پیشرفتیں ہیں ۔جبکہ نواب اکبر بگٹی کی موت کے حو الے سے جوڈیشنل انکوائری کی پٹینشن کے بعد ناگزیر ہو گیا ہے کہ معاملات مزید خرابی سے بچانے کے لیے ہر سطح پر ضروری اقدامات کئے جائیں ۔صوبے کی تشویشناک صورتحال کے منظر نامے میں سپریم کورٹ نے جس جراتمندانہ انداز میں پیش رفت کی ہے اس سے عوام کا اس ادارے پر اعتماد مظبوط ہوا ہے لیکن افسوس ناک امر یہ ہے کہ حکمرانوں کی طرف سے اس معاملے میں مطلوبہ سنجیدگی کا مظاہرہ دیکھنے میں نہیں آیا ۔ عدالت عظمیٰ کی جانب سے خفیہ ایجنسیوں کو دی جانے والی ہد ایت بعض ایسی باتو ں کی موجودگی ظاہر کرتی ہیں جو کسی بھی طرح پاکستان جیسے نظریاتی ملک کے شایان شان نہیں ہے۔ایک بڑی پیشرفت بلوچستان کے سابق وزیر اعلیٰ سردار اختر مینگل کا عدالت میں پیش ہو کر یہ بیان دیناہے جس میں صوبے میں بڑھتی ہوئی بے چینی کی اصل وجہ شہریوں کی جبری گمشدگی کو قرار دیا گیا ہے۔ان کا کہنا تھا کہ شیخ مجیب الرحمٰن کی کتاب پڑھ کر ایسا معلوم ہوتا ہے کہ ہمارے حکمرانوں نے پاکستان سے بے پناہ محبت کرنے والے بنگالیوں کو زبردستی الگ کیا ہے ۔سابق وزیر اعلیٰ بلوچستان نے اسی پس منظر میں اپنا چھ نکاتی ایجنڈہ پیش کیا جس کی تجاویز قابل عمل ہیں ،ان پر عمل درآمد میں تاخیر نہیں کی جانی چاہیے۔اس کے ساتھ ہی حکومتی حلقوں کو اپنی اس ذمہ داری کا بھر پور احساس ہونا چاہئے کہ جو قانون کی عمل داری اور عدالتی احکامات کی بجا آوری کے سلسلے میں اس پر عائد ہوتی ہے۔بلوچستان کا مسئلہ اس وقت جس مقام پر نظر آرہا ہے اس کا تقاضا ہے کہ ہر سطح پر اس کے حل کے لیے سنجیدگی سے اقدامات کیےَ جائیںَ ۔ سیاست میں اسٹیبلشمنٹ کی غیر جانبداری اور بلوچستان میں قانون کی عملداری ہی مسئلے کا اصل حل ہے اور یہی کرنے کے کام ہیں ۔ اس وقت ہمارا ملک بیشمار مسائل میں گھیرا ہوا ہے، اگر ہم نے اب بھی صیح فیصلے نہ کئے تو ہمارے پاس سوائے پچھتاوئے کے کچھ بھی نہیں بچے گا۔،ہمیں ان گمبیر مسائل سے نکلنے کے لیے شاعر مشرق ڈاکٹر علامہ محمد اقبال ؒ کی اس نظم کی عملی تفسیر بننا پڑے گا،
تسکین نہ ہو جس سے ، وہ راز بدل ڈالو
جو راز نہ رکھ پا ئے ، ہمراز بدل ڈالو
تم نے بھی سنی ہو گی ، یہ عام کہاوت ہے
انجام کا ہو خطرہ، آغاز بدل ڈالو
اے دوست کرو ہمت ، کچھ دور سویرا ہو
گر چاہتے ہو منزل ، پرواز بدل ڈالو
فیصلہ آپ کے ہاتھ میں ہے،آپ کی آراء کا انتظاررہے گا۔
سید عمر اویس گردیزی
About the Author: سید عمر اویس گردیزی Read More Articles by سید عمر اویس گردیزی: 6 Articles with 5791 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.