تقدیر کے فیصلے

اللہ کریم نے اس شخص کو بڑے عزم ،قوت ارادی ،صبر ،استقامت اور دلیری سے نوازا تھا۔اس بزرگ شخص کا نام بابا محمود تھا اور ہمارے محلے میں وہ سب سے معمر اور قابل احترام تھا ۔اس سفید ریش بزرگ کے چہرے کی جھریوں سے ایام گزشتہ کی صعوبتوں ،آزمائشوں ،ابتلا اور دکھوں کی تحریریں صاف پڑھی جا سکتی تھیں ۔اس کی عمر ایک سو برس کے قریب تھی۔وہ گزشتہ ساٹھ برس سے اس علاقے میں مقیم تھا ۔اس پیرانہ سالی کے باوجود وہ اپنے گھر سے مسجد تک کا دو فرلانگ کا فاصلہ پانچ وقت پیدل طے کرتا اور با جماعت مسجد میں نماز پڑھتا۔وہ سب سے پہلے مسجد میں پہنچتا اور اذان بھی خود بلند آواز سے پڑھتا ۔اس کی دبنگ آواز سن کر دلوں میں اک ولوہءتازہ پیدا ہوتا ۔سننے والے یہ جان لیتے کہ کار جہاں بے ثبات ہے اور یہ سب کچھ بتان وہم و گماں کے سوا کچھ بھی نہیں ۔میری خوش قسمتی یہ رہی کہ میرے خاندان کے ساتھ اس بزرگ کے شفقت بھرے تعلقات گزشتہ چھ عشروں پر محیط تھے ۔وہ بزرگ سراپا شفقت و خلوص تھا ،اس کی موجودگی پورے محلے کے لیے سرمایہ ءافتخار تھا۔اس سے مل کر زندگی کی حقیقی معنویت کا احساس اس طرح اجاگر ہوتا کہ زندگی سے ٹوٹ کر پیار کرنے کو جی چاہتا ۔تمام عزیزوں کے ساتھ اس کا رویہ ہمدردانہ ،مصلحانہ اور مخلصانہ ہوتا تھا ۔شہر کے سب لوگوں کے ساتھ اس نے خلوص اور دردمندی پر مبنی ایک قلبی رشتہ استوار کر رکھاتھا ،اس کا نام سن کر اس کے قریبی رشتہ دار اور غم گسار کچے دھاگے سے کھنچے چلے آتے تھے ۔وہ ایک عالم با عمل تھا ۔اس کی زندگی شمع کے مانند تھی ۔وہ سب کے لیے فیض رساں تھا۔اس کے رہن سہن اور ذریعہ معاش کے بارے میں لوگ کچھ نہیں جانتے تھے ۔اکثر لوگ یہ کہتے تھے کہ بابا محمود نے ہم زاد قابو کر رکھا ہے جو پلک جھپکتے میں اس کی تمام ضروریات پوری کر دیتا ہے اور ہتھیلی پر سرسوں جمانا ا س کے بائیں ہاتھ کا کھیل ہے ۔خواتین کی رائے تھی کہ کوئی پری اس کے تابع ہے جو اس کے طعام کا بندوبست کرتی ہے ۔غرض جتنے منہ اتنی باتیں ۔ایک بات تو سب جانتے تھے کہ کوئی مافوق الفطرت طاقت ضرور ہے جس کے بل بوتے پر بابا محمود اس ناتوانی میں بھی پوری قوت سے سر گرم عمل ہے ۔کئی محیر العقول واقعات بابا محمود سے منسوب تھے ۔اس کے دم درود اور تعویذوں کے بہت چرچے تھے ۔دور دراز علاقوں سے لوگ اس بزرگ کے پاس آتے اور دعا کراتے ۔اللہ کی قدرت کہ ان کی مرادیں پوری ہوجاتیں ۔

بابا محمود کے بارے میں مجھے معلوم ہوا کہ جب وہ چھوٹا سا تھا تو اس کا والد حرکت قلب بند ہونے کے باعث خالق حقیقی سے جا ملا ۔اس کی ماں نے بیوگی کی چادر اوڑھ کو اپنے چھ بیٹوں اور ایک بیٹی کی پرورش بڑے کٹھن حالا ت میں کی ۔بابامحمود سب بہن بھائیوں میں سے بڑا تھا ۔یہ اس دور کی بات ہے جب پورا بر صغیر برطانوی نو آبادی میں بد ل گیا تھا اور یہاں کے کھیت اور کھلیان برطانوی فوجیوں کے بوٹوں کے نیچے روند ڈالے گئے ۔ 1939جب دوسری عالمی جنگ کا آغاز ہوا تو محمود نے جوانی کی حدود میں قدم رکھا تھا ۔محمود کا خاندان اس زمانے میں حیدرآباد میں مقیم تھا ۔برطانوی استعمار نے بر صغیر میں ایسے متعدد میر جعفر اور میر صادق تلاش کر لیے تھے جو اپنے ذاتی مفادات کی خاطر ملی وقار اور قومی مفاد کو داﺅ پر لگانے میں کوئی عار محسوس نہ کرتے تھے ۔اس قماش کے ابن الوقت اور مفاد پرست عناصر نے بے بس،فاقہ کش اور مظلوم نو جوانوں کو جو پہلے ہی بے روز گاری کے باعث غر بت اور بیماری کے عذاب سہہ رہے تھے ایسے سبز باغ دکھائے کہ وہ برطانوی فوج میں بھرتی ہونے پر آمادہ ہو گئے ۔کئی نو جوانوں کو زبردستی جنگ کی بھٹی میں جھونک دیا گیا ۔محمود کو بھی ایک مقامی جعلی کالے میجر نے جنگ کے شعلوں میں دھکیل دیا اور یہ غریب نو جوان جنگ کے آغا ز میں جرمن فوجوں کی گولیوں کی بو چھاڑ میں جھونک دیا گیا ۔دوسری عالمی جنگ جوچھ سال تک جاری رہی اس کے دوران محمو دبرما ،جاپان ،مصر اور عراق کے مختلف محاذوں پر جرمن فوجوں کے خلا ف نبرد آزما برطانوی افواج میں شامل رہا ۔جو کچھ تنخواہ ملتی وہ گھر روانہ کر دیتا مگر اسے گھر کے حالات کے بارے میں کچھ معلوم نہ تھا ۔چھ سال کے بعد جب وہ گھر لوٹا تو حالت بدل چکے تھے ۔اس کی ماں نے ایک سال قبل عدم کے کوچ کے لیے رخت سفر باندھ لیا تھا ۔بھائی اب مزدوری کرنے لگے تھے ۔سب سے چھوٹی بہن بھی اب جوان ہو چکی تھی ۔وہ گھر کی خانہ داری کی واحد ذمہ دار تھی ۔اب محمود نے یہ تمام ذمہ داریاں سنبھال لیں ۔تقدیر کے ستم بھی عجیب ہوتے ہیں ۔یہ انسان کو ایسے دکھ دے جاتی ہے جو اس کے وہم و گمان میں بھی نہیں ہوتے ۔یہ تقدیر ہی تو ہے جو ہر لحظہ ہر گام انسان کی تمام تدابیر کے پر خچے اڑا دیتی ہے اور اس کے مستقبل کے منصوبوں کی دھجیاں اڑا دیتی ہے ۔

ساری دنیا بدل جاتی ہے مگر الم نصیبوں ،جگر فگاروں اور مصیبت زدوں کا حال جو ں کا توں رہتا ہے ۔محمودنے محسوس کر لیا تھا کہ اس کی قسمت میں کا تب تقدیر نے سکھ بہت کم لکھے ہیں ۔اس نے برطانوی فوج میں ملازمت کے دوران جو کچھ کمایا اس سے اس خاندان کا پیٹ پالنا بہت مشکل تھا ۔سب بھائیوں نے جیسے تیسے محنت شاقہ سے اس قدر رقم جمع کر لی کہ بہن کے ہاتھ بھی پیلے کر نے میں کامیاب ہو گئے اور بے سروساما نی کے باوجود اپنا اپنا گھر بسانے میں بھی قسمت نے ان کی یاوری کی ۔اب وہ سب اپنے اپنے گھر والے ہو چکے تھے ۔نواحی گاﺅں میں وہ مزارع کی حیثیت سے کام کرتے تھے ۔ان کی تھوڑی سی زرعی زمین بھی تھی مگر گاﺅں کے بڑے زمیندار نے اس پر قبضہ کر لیا تھا ۔ان کے پاس محکمہ مال کے کاغذات تو تھے لیکن پٹواری ہمیشہ بڑے زمیندار کی حمایت کرتا اور یوں ان کے لیے زندگی کی تمام رتیں بے ثمر کر دی گئیں ۔ان کی امیدوں کی فصل غارت اور صبح شام کی محنت اکارت چلی گئی ۔1947میں ہجرت کے وقت گھر کا تمام سا مان مہاجن نے سود در سود کے چکر میں ہتھیا لیا ۔ محمود کا خاندان ہجرت کر کے ٹنڈو محمد خان پہنچا ۔اس بار قسمت نے ان کی یاوری کی اور ان کی آبائی زمین کے بدلے انھیں یہاں کلیم میں زمین مل گئی ۔یہ تمام باتیں مجھے اپنے بزرگوں سے معلوم ہو ئیںوہ اس خاندان کے بارے میں بس یہی کچھ جانتے تھے ۔اس کے بعد کیا ہوا اس کے بارے میں کسی کو کچھ معلوم نہ تھا ۔سب یہی کہتے تھے کہ بابا محمود کا اب اس دنیا میں کوئی نہیں ۔یہ اب ستم کش سفر ہے ۔اس کے خاندان کے تما م افراد پر اسرار انداز میں داعی اجل کو لبیک کہہ گئے ۔پے درپے سانحا ت کے باعث بابا محمود مسلسل شکست دل کی وجہ سے لب اظہار پر تالے لگا لیے ہیں ۔اور کسی کو حال دل بتا نے پر آمادہ نہیں۔کچھ لوگوں کا خیال تھا کہ پے در پے صدمات اور دل کی ویرانی کی وجہ سے با با محمود کی ذہنی حالت درست نہیں رہی ۔بعض لوگوں کا خیال تھا کہ بابا محمود عملیات کا ماہر ہے اور اسے جادو ٹونے کے ذریعے جن اور بھوت قابو کرنے میں ملکہ حاصل ہے۔

ایک دن بابا محمود سے میری ملاقات ہو گئی ۔وہ اپنی کٹیا میں بیٹھا اپنی تسبیح روز و شب کا دانہ دانہ شمار کرنے میںمصروف تھا ۔ایام گزشتہ کی کتاب کی ورق گردانی میں مصروف اس معمر بزرگ کی زندگی کے متعدد اوراق ابھی ناخواندہ تھے ۔اس ملاقات میں میرے ساتھ میرا پڑوسی بوم خلجانوی بھی وہاں جا دھمکا ۔اس کی یہ بات مشہور ہے ۔کسی کو اس کی چاہ ہو یا نہ چاہ یہ سب کے ہمراہ۔یہ پیر تسمہ پا بن کر جس کے ساتھ چل نکلے اس کی منزل سرابوں کی بھینٹ چڑھ جاتی ہے ۔بابا محمود نے ہمیں بیٹھنے کو کہا اور پھر ہمارے لیے چائے بنائی ۔اس گھر پر بھوت کی کٹیا کا گماں ہوتا تھا ۔در و دیوارپر حسرت ویاس کی تصویریں نوشتہ ءتقدیر کے مانند آویزاں تھیں ۔جان لیوا تنہائی ،غیر مختتم اداسی اور ویرانی بال کھولے ہر طرف گریہ کناں دکھائی دے رہی تھی ۔خدا جانے کس کی نظر اس گھر کو کھا گئی ۔ اس پر اسرار ماحول کو دیکھ کر دم گھٹنے لگا اور ذہن میں کئی خیالات آنے لگے ۔میرا شک یقین میں بدلنے لگا کہ ہو نہ ہو یہ گھر ضرور آسیب زدہ ہے ۔ بوم خلجانوی نے خاموشی کی مغموم فضا کے مسموم اثرات ختم کرتے ہوئے کہا؛
” آپ محمود ہیں !کیا آپ کی زندگی میں کوئی ایاز آیا؟کیا آپ بھی کسی کی زلف گرہ گیر کے اسیر ہوئے ؟آج ہمیں اپنی زندگی کے ناخواندہ اوراق سنائیں ۔“

بابا محمود نے ٹھنڈی سانس لی اور گلو گیر لہجے میں کہا ”زمانہ بدل گیا ہے اب نہ تو کسی محمود میں پہلے جیسی بے لوث محبت کی تڑپ پے اور نہ ہی مادی دور کے ایاز کی زلفوں میں پہلے جیسا دم خم ہے ۔میاں صاحب زادے جس شخص کی آنتیں قل ہو اللہ پڑھ رہی ہوں وہ کبھی حسن و رومان اور پیار و محبت کے نغمے نہیں الاپ سکتا۔مثل مشہور ہے کہ جاڑے کی چاندنی ر ات اور مفلس و قلاش شخص کا بھرپور شباب دونوں رائیگاں چلے جاتے ہیں ۔میری زندگی کے تمام اوراق پر ابلق ایام کے سموں کی گرد پڑ چکی ہے ۔اب تم جو راکھ کریدتے ہو اس جستجو سے کیا حاصل ہو گا ؟“

میں یہ باتیں سن کر ششدر رہ گیا ۔بابا محمود جس نے کم گوئی کو اپنا شعار بنا رکھا تھااور جس کی داستان اب تک نا گفتہ تھی اس کے باوجود وہ کس اعتماد سے بو ل رہا تھا ۔میں نے مو قع کو غنیمت جاتا اور بڑے ادب سے بابا محمود سے مخاطب ہو کر کہا :

”آپ اپنی زندگی کے واقعات سے ہمیں آگاہ کریں ۔اس طرح آنے والی نسلیں آپ کے تجربات سے فائدہ اٹھا سکیں گی ۔“

بابا محمود کی آنکھوں سے آنسو بہنے لگے اور وہ گلو گیر لہجے میں بولا ”میں اپنی زندگی کے حالات کیا بتاﺅں ۔تقدیر کے ستم سہتے سہتے یہ حالت ہوئی کہ میں خود بھی اپنی اصلیت سے آگا ہ نہیں ہوں۔میری بے بسی اور بے چارگی نے مجھے تماشا بنا دیا ہے ۔اس دھوپ بھری دنیا میں سائے کی تلاش فضول ہے ۔یہاں سرابو ں کے عذابوں کے سوا کچھ بھی تو نہیں ۔“

”آپ نے درست فرمایا ۔میں سمجھتا ہوں نشہ بڑھتا ہے شرابیں جو شرابوں میں ملیں “بوم خلجانوی نے ہرزہ سرائی کی ”شرابوں کے عذابوں والی بات میری سمجھ میں آ گئی ہے ۔جسے بھی منشیات کی لت پڑ جائے اس کی زندگی ایک عذاب بن جاتی ہے ۔آپ کو کس نے شراب کا عادی بنا دیا ؟“

بوم خلجانوی کی بے تکی باتیں سن کر بابا محمود کے چہرے پر ناگواری کے جذبات ظاہر ہوئے ۔بابا محمود نے بوم خلجانوی کی طرف دیکھتے ہوئے کہا :”میاں !اندھا کیا جانے بسنت کی بہار ؟سچی بات تو یہ ہے کہ ساون کے اندھے کہ ہمیشہ ہرا ہی دکھائی دیتا ہے ۔“

میں نے محسوس کر لیا کہ گفتگو کا رخ اب بدلنے لگا ہے ۔اس سے پہلے کہ بوم خلجانوی کی ہف وات سے تنگ آکر بزرگ ہمیں نکال باہر کرتا میں نے مداخلت کرتے ہوئے کہا :
”بابا جی اس کی باتوں پر دھیا ن نہ دیں اس کی مثال تو اس مردے کی ہے جو ہمیشہ کفن پھاڑ کر بو لتا ہے ۔ایسے لوگ چلتے پھرتے ہو ئے مردے ہیں ۔“

خدا خدا کر کے میں بوم خلجانوی کا منہ بند کرنے میں کامیاب ہو گیا ۔کچھ دیر توقف کرنے کے بعد بابا محمود نے کہا:”میں بیسویں صدی کے پہلے سال کے پہلے مہینے میں پیدا ہوا ، علی گڑھ سے میٹرک کرنے کے بعد مجھے برطانوی فوج میں سپاہی بھرتی کیا گیا اور دوسری عالمی جنگ میں مجھے برما ،عراق ،مصر ،جاپان اور دیگر محاذو ں پر برطانوی فوج کے سا تھ جنگ میں شامل کیا گیا ۔اس تمام عرصے میں مجھے مصر ،ترکی بصرہ ، کربلا ،کوفہ ،شام ،بیت المقدس ،مکہ ،مدینہ ،رنگون ،ٹوکیواور ایران جانے کا موقع ملا۔حج بیت اللہ کی سعادت بھی نصیب ہوئی ۔اب اکیسویں صدی کا آغاز ہو چکا ہے ۔اس صدی کے بھی دس برس بیت گئے ہیں ۔پیچھے مڑ کردیکھتا ہوں توعمر رواں کی خطا اور حسرت و یاس کے سوا کچھ دکھائی نہیں دیتا ۔میں نے رنگون میں بہادرشاہ ظفر کی آخری آرام گاہ دیکھی ۔قبر کے اندرتہہ ظلمات سلا طین کے بدن بھی کرمک و مور کے جبڑوں میںآجاتے ہیں۔اس بادشاہ کو تودفن کے لیے دو گز زمین بھی اہنے وطن میں نہ مل سکی ۔زندگی کی یہی حقیقت ہے جوخون کے آنسو رلاتی ہے ۔“

بابا محمود یہ کہہ کر زارو قطار رونے لگا ۔مجھے افسوس ہوا کہ میں نے یاد ماضی کو ایک کرب کی صورت میں اس ضعیف کے سامنے لا کھڑا کیا۔دشت غربت میں رنج سفر کھینچتے کھینچتے اس کی یہ حالت ہو گئی ہے کہ اب وہ آلام روزگار کے مہیب بگولوں میں بار ہستی کو خاک بہ سر کھینچتے ہوئے درماندہ رہرو کی طرح دم آخریں کا منتظر ہے ۔اپنے کلبہءغم میں وہ سانس گن گن کر زندگی کے دن پورے کر رہاہے ۔اتنے رنج و کرب سہنے کے بعد وہ اپنے جینے کا کیا جواز پیش کرتا ۔ تاریخ کے مسلسل عمل کے حوالے سے میں نے بابا محمود سے دریافت کیا :
”آج آپ کو اپنی دہلیزسماعت پر ماضی اور حال کے واقعات اور مستقبل کے امکانات کی آہٹ کیسے سنائی دیتی ہے اور آپ اس سے کیا تاثر لیتے ہیں ؟کیا ہمارے لیے تسلی کی کوئی صورت آپ کو دکھائی دیتی ہے ؟کیا آپ کو کوئی ایسا درد آشنا ملا جو آپ کی آنکھوں میں اتری غربتوں اور محرومیوں کے کرب کا مداوا کر تا ۔؟
میرے اس سوال پر بابا محمود چونک اٹھا۔شاید میں نے اس کی دکھتی رگ پر ہاتھ رکھ دیا تھا ۔اس سوال پر میرے پاس بیٹھے اونگھتے ہوئے بوم خلجانوی نے بھی سوال داغ دیا :”ان بے نمو رتوں میں کیا اب بھی بہار کا کوئی امکان دکھائی دیتا ہے ۔میرا مطلب یہ ہے کہ کیا اس عالم پیری میں بھی آپ کسی کو دل دے کے اپنی بے برگ و ثمر زندگی میں پھول کھلانے کی تمنا رکھتے ہیں ۔کیا ہی اچھا ہو کہ آپ کے گھر کے طاق میں جھٹ پٹے کے وقت طاق میں دیا روشن کرنے والی کوئی حسینہ موجود ہو جو آپ کی شریک غم بھی ہو اورشریک حیات بھی ۔“

بابا محمود نے جب بوم خلجانوی کی باتیں سنیں تو وہ دانت پیس کررہ گیا۔اس نے صبر کا دامن ہاتھ سے نہ جانے دیا اور بولا؛”میرے دردو غم کا مداوا کسی مسیحا کے بس کی بات نہیں۔میری عیادت کے لیے آنے والے اچھی طرح جانتے ہیں کی میرا غسل میت ہی در اصل غسل صحت کی ایک صورت بن سکتا ہے ۔وسعت کائنات بھی اس حقیقت سے بے خبر ہے کہ اس کی ابتدا اور انتہا کیا ہے ۔ آپ مجھ سے میری زندگی کا سراغ کیسے لگائیں گے میں تو خود رفتگاں کے سراغ میں بھٹک رہا ہوں ۔“

ایک سو دس سال کی عمر میں بھی بابا محمود پورے وثوق سے محو گفتگو تھا اور اس کے وسیع تجربات اور مشاہدات پر مبنی اس کی گفتگو سن کر فکروخیال کے متعدد نئے دریچے وا ہوتے چلے جاتے تھے۔میں نے اس جہاندیدہ شخص سے مزید معلومات حاصل کرنے کی غرض سے سوال کیا:”آپ نے دنیا کے بہت سے ممالک کا سفر کیا ،چھ برس تک میدان جنگ میں توپوں اورگولہ باری کی گھن گرج میں گزارنے کے بعد کیا آپ یہ محسوس کرتے ہیں کہ دنیا اب اصلاح کی جانب گا مزن ہے ؟کیا آنے والا زمانہ ماضی سے بہتر ہو گا ۔آپ کو نئے دور کی آمد کیسے لگتی ہے ؟“

” کون سا نیا دور ؟“بابا محمود بولا ”مجھے تو یوں لگتا ہے کہ زندگی اب پھر پتھر کے زمانے کی جانب لوٹ رہی ہے ۔ایثار ،خلوص ،دردمندی ،انسانی ہمدردی اب عنقا ہیں ۔ہوس نے نوع انساں کو ٹکڑے ٹکڑے کر دیا ہے ۔انسان اپنے ابنائے جنس کے خون کا پیاسا ہو چکا ہے ۔ہم ترقی معکوس کی جانب جا رہے ہیں۔کارواں کے دل سے احساس زیاں نا پید ہو چکاہے ۔تہذیبی و ثقافتی اقدار کی زبوں حالی کسی سے پو شیدہ نہیں ۔بے حسی ،بے غیرتی اور بے ضمیری کا عفریت چاروں جانب منڈلا رہا ہے ۔زمین جو کہ دل کے مانند دھڑک رہی ہے وہ کسی ہو لناک حادثے کے بارے میں خبردار کر رہی ہے ۔“

بابا محمود کی گفتگو قنوطیت پر مبنی تھی لیکن اس کی باتوں کی ترددید بھی ممکن نہ تھی ۔کسی بھی آنکھ میں اتنا دم نہیں ہو تا کہ وہ ہجوم غم میں دل کو سنبھال کر تمام عمر رہ رفتگاں کو تکتا رہے اور سفر کی دھول کو اپنا پیرہن بنا کر خیال پلاﺅپکاتا رہے ۔میں ابھی کوئی سوال سوچ ہی رہا تھا کہ بو م خلجانوی پکار اٹھا :”رسی جل گئی مگر بل نہ گیا ۔ایک صدی بیت گئی مگر بڑے میا ں کو حالات جو ںکے توں دکھائی دیتے ہیں۔ترقی کا زمانہ ہے انسان نے ستاروں پر کمند ڈال کر سورج کی شعاعوں کو گرفتار کر لیا ہے مگر ادھر مرغے کی وہی ایک ٹانگ کی رٹ لگی ہے ۔اسی کا نام تو ناسٹلجیا ہے جو کہ ایک خطرناک نفسیاتی روگ ہے ۔بابا جی کچھ تو خدا کا خوف کریں زندگی کے ہر شعبے میں انقلاب بر پاہو چکا ہے ،مہلک بیماریوں پر قابو پایا جا چکا ہے ،مواصلات ،تعلیم اور سائنس کے شعبوں میں ترقی نے حالات کی کایا پلٹ دی ہے ۔یہ سب کچھ ایک کور چشم کو کیسے دکھائی دے سکتا ہے ؟سچی بات تو یہ ہے کہ روشنی اپنی اصلیت کے اعتبار سے بصارت کی چمک کی مرہون منت ہے ۔آنکھیں بند ہوں تو نمود سحر کا یقین بھی نہیں ہوتا۔یہی تو کو ر مغزی اور بے بصری کی دلیل ہے ۔“

”خاموش ہو جاﺅ !تم کیوں ایک بزرگ کی توہین کر رہے ہو؟“میں نے بوم خلجانوی کو ٹو کتے ہوئے کہا”بابا جی کی باتیں گہرے تفکر کی مظہر ہیں ۔اچھا یہ بتائیں کہ آپ کو کسی شعبہ ءزندگی میں ترقی کی کوئی علامت دکھائی دیتی ہے یا ہم تمام شعبوں میں اب تک پس ماندہ ہیں اور وہی حالات ہیں جو ایک صدی قبل تھے ۔کہیں آپ کو ماضی کی نسبت اضافہ دکھائی دیتا ہے ؟“

”ہاں اضافہ ہوا ہے ۔میں مانتا ہوں کہ بالکل اضافہ ہوا ہے ۔“

”خدا کا شکر ہے کہ حقائق سے شپرانہ چشم پوشی کرنے ولوں کو بھی کچھ اضافہ تو ماضی کی نسبت دکھائی دیا “بوم خلجانوی نے بابا جی کو گھورتے ہوئے کہا ”اب یہ بھی ارشاد فرمائیں کہ کس شعبے میں آپ کو ماضی کی نسبت اضافہ دکھائی دے رہا ہے اور یہ اضافہ معاشرتی زندگی پر کیا اثرات مرتب کررہا ہے ؟“
اس بار بابا محمود نے بھی ترکی بہ ترکی جواب دیا اور بوم خلجانوی کی آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر کہا ”ماضی کی نسبت معاشرتی زندگی میں خون خرابے میں بے پناہ اضافہ ہوا ہے ۔پوری انسانیت کے لیے ہلاکت خیزی کے جو سامان اب مہیا ہو چکے ہیں ماضی میں ایسے نہیں تھے ۔منشیات کے دھندے میں بھی بہت اضافہ ہوا ہے ۔“

یہ سن کر بوم خلجانوی کو تو جیسے سانپ سونگھ گیا اور وہ حیرت زدہ رہ گیا ۔اب اس بات کا جواب دینا اس کی محدود سوچ سے باہر تھا ۔میں بابا محمود کی دردمندی اور کرب کو دل سے محسوس کر سکتا تھا ۔وہ جب بات کرتا تو فرط جذبات سے اس کی آواز بھراجاتی اور آنکھیں پرنم ہو جاتیں ۔دنیا نے اس ضعیف شخص کو تجربات و حوادث کی صورت میں جو کچھ دیاوہ اسے من و عن پیش کر رہاتھا ۔اس کا سینہ ایک صدی کے واقعات اور سانحات کا امین تھا مگر اب وہ اس قدر مایوس تھا کہ اسے سفاک ظلمتوں میں روشنی کی کوئی کرن دکھائی نہیں دیتی تھی ۔بابا محمود اپنی بات مکمل کر چکا تھا۔ہم اٹھ کھڑے ہوئے ۔جب ہم باہر جانے لگے تو بابامحمود نے یہ اشعار پڑھے جو دیر تک فکر و نظر کو مہمیز کرتے رہے :
میں یہ کس کے نام لکھوں جو الم گزر رہے ہیں
مرے شہر جل رہے ہیں مرے لوگ مر رہے ہیں
کوئی اور تو نہیں ہے پس خنجر آزمائی
ہمیں قتل ہورہے ہیں ،ہمیں قتل کر رہے ہیں

بابا محمود کے بھائی برادران یوسف ثابت ہوئے ۔اس کی اولاد نے بھی اسے تنہا چھوڑ کر کاروبار اور روزگار کے سلسلے میں یہاں سے بوریا بستر سمیٹ کر بیرون ملک ڈیرے ڈال رکھے تھے ۔بیوی کی وفات کے بعد وہ زندگی سے بھی بیزار رہنے لگا تھا ۔اس کی باتیں زندگی کے بارے میں گہری معنویت کی مظہر ہوتی تھیں۔اس سے کئی بار سر راہے ملاقات ہوئی مگر وہ سلام دعا کے سوا کچھ کہنے کا روادار نہ تھا ۔ایک بات جو مجھے مختلف لوگوں نے بتائی وہ یہ تھی کہ بابا محمود فلاحی کاموں میں بڑھ چڑھ کر حصہ لیتا تھا ۔دردمندوں ،ضعیفوں اور الم نصیبوں کے ساتھ اس نے عمر بھر پیمان وفا باندھے رکھا۔ اگرچہ وہ کوئی کام نہ کرتا تھا لیکن اسے کبھی کسی کے سامنے دست سوال دراز کرتے کسی نے کبھی نہ دیکھا تھا ۔کچھ لوگوں کا خیال تھا کہ اس بوڑھے کے پاس یا تو اللہ دین کا چراغ ہے یا اس نے خزانے ڈھونڈنے والا سرمہ آنکھ میں لگا رکھا ہے ۔یہی وجہ ہے کہ یہ شخص دکھی انسانیت کے دکھوں کا مداوا کرنے کے لیے بے دریغ رقم خرچ کرتا ہے ۔تمام باتیں اپنی جگہ پر لیکن اس کی زندگی کے متعدد راز ابھی تک سر بستہ تھے ۔ان گتھیوں کو اور الجھنوں کو سلجھانا کسی کے بس کی بات نہ تھی ۔جس طرح نخل تناور کو دیمک لگ جائے تو اند ہی اندر سے کھو کھلا ہو جاتا ہے اسی طرح اگر کوئی انسان بھی غم کو دل میں بٹھا لے تو یہ غم اس کی جان لے کر ہی باہر نکلتا ہے ۔آبادی سے کچھ فاصلے پر ایک شہر خموشاں تھا ۔بابا محمو داکثر وہاں جاتا اور اہل القبور کے ساتھ وقت گزارتا۔اس علاقے میں گدھ ،بجو ،کوے ،چیلیں نیولے ،سانپ بچھو اور کنڈیالے چوہے کثرت سے پائے جاتے تھے ۔اس کا آبائی مکان ایک بھیانک صورت پیش کرتا تھا ۔کئی لوگوںنے اس مکان کی چھت پررات کی تاریکی میں روشنی کے ہیولے اٹھتے دیکھے تھے اور وہ اس جانب جانے سے کتراتے تھے ۔ دو ہزار دس کا سال اپنے اختتام کو پہنچ رہا تھا ،سردیوں کی ایک شام تھی ، بابا محمو دقبرستان سے گھر آ رہا تھا کہ دو نا معلوم نقاب پوشوں نے اسے روکا اور ہڈیوں کے اس ڈھانچے کو دیکھ کر ان کی چیخیں نکل گئیںوہ سمجھے کہ یہ کوئی مردہ ہے ،کوئی بد روح ہے یا آدم خور ہے جو ابھی قبر سے نکل کر اپنا شکار تلاش کر رہا ہے ۔دوسرے ہی لمحے وہ دم دبا کر بھا گ گئے مگر اس بو کھلاہٹ میں وہ اپنی گٹھڑ ی اٹھانا بھو ل گئے بابا محمود وہ گٹھڑی اٹھا کر گھر لایا۔اس میں پانچ کلو سونا اور لاکھوں روپے کے کرنسی نوٹ تھے ۔اس نے یہ تمام رقم ایک یتیم خانے کے لیے دے دی اور دامن جھاڑ کر چلا گیا اس کے بعد اس کا کوئی اتا پتا نہ چلا ۔میںنے کئی لوگوں سے اس کے بارے میں معلوم کرنے کی کوشش کی مگر بے سود ۔وہ تو عجیب مانوس اجنبی تھا کوئی نہیں جانتا تھا کہ وہ کہاں سے آیا اور کس طرف عازم سفر ہو گیا ۔وہ دنیا کو آئینہ خانہ قرار دیتا تھا اس کے بعد وہ سب جاننے والوں کو تماشا بنا گیا اور خود فسانہ بن گیا ۔وہ جو سب کے لیے مرہم بہ دست موجود ہوتا تھا دیکھتے ہی دیکھتے کسی نا معلوم منزل کی جانب چل نکلا ۔بابا محمود کے اچانک محلے سے چلے جانے کے بعد لوگوںکو اس بات کا شدت سے احسا س ہوا کہ اس ضعیف بزرگ کا وجود کتنی بڑی نعمت تھا۔تقدیر انسان کے عزائم کی تحریروں کے اوراق کے پرزے بکھیر دیتی ہے ۔تقدیر کے چاک سوزن تدبیر سے کبھی رفو نہیں ہو سکتے ۔

دو سال بعد ایک نجی مصروفیت کے سلسلے میں حیدرآباد کا سفر کرنا پڑا ۔ریلوے سٹیشن کے شمال میں واقع ایک قبرستان میں میرے چچا کی ابدی آرام گا ہ ہے ۔میں فاتحہ پڑھنے کی غرض سے وہاں پہنچا تو یہ دیکھ کر میری آنکھیں کھلی کی کھلی رہ گئیں کہ بڑی تعداد میں لوگ ایک جنازہ لیے وہاں پہنچے تھے۔سب لوگ زارو قطار رو رہے تھے ۔میں نے اندازہ لگایا کہ یہ جنازہ کسی بڑے پیر یا روحانی پیشوا کا ہو گا ۔میں نے جنازہ پڑھنے کے بعد میت کا آخری دیدا ر کیا ،یہ تو بابا محمود کا جسد خاکی تھا ۔حیدر آباد کے اس شہر خموشاں کی زمین نے کتنے بڑ ے آسمان کو اپنے دامن میں چھپا لیا ۔ایک شجرسایہ دار جو غریبوں کے سر پر سایہ فگن تھا اجل کے ہاتھوں زیر زمین چلا گیا۔مجھے یوں محسوس ہوا کہ آلام روزگار کی تمازت میں کئی گنا اضافہ ہو گیا ہے ۔میں نے اس بزرگ کی خاک مرقد کے سامنے کھڑے ہو کر اس کی مغفرت کی دعاکی اور پر نم آنکھوں سے واپس روانہ ہوا ۔

جنازے میں شامل ایک معمر شخص نے بتایا” یہ راجپوت قبیلے کا چشم و چراغ بابا محمود تھاجس نے ساٹھ سال تک اپنی مرضی سے خدمت خلق کو شعار بنایا اور گوشہءگم نامی میں رہا ۔تمام مال و دولت چھوڑ کر اپنی دنیا آپ پیدا کی اور غربت کے مسائل کو قریب سے دیکھا اور غم زدوں کاحال جاننے کی سعی کی ۔وہ غربت کے تجربے کا حصہ بنا رہا اور جو صدمے مفلس و قلاش لوگوں پر گزرتے ہیںان کا قریب سے مشاہدہ کیا ۔ ساٹھ سال کی خود اختیار کردہ جلا وطنی کے بعد ایک سال قبل وہ گھر آیا تو خاندان کے لو گوں نے اس کا بھر پور خیر مقدم کیا۔کس خاموشی سے وہ شخص پیمانہ ءعمر بھر گیا ۔اب ا س کی موت پر ہر دل سو گوار اور ہر آنکھ اشک بار تھی ۔اس کی نیکیا ں زندہ رہیں گی اور اس کی خوبیاں ابد تک باقی رہیں گی.تقدیرکے فیصلے بلا شبہ انوکھے ہوتے ہیں “میں یہ باتیں سن کر دنگ رہ گیا ابھی کچھ لوگ دنیا میں باقی ہیں جو نمود و نمائش کی خاطر نہیں بل کہ اللہ کی رضا کی خاطر انسانیت کی خدمت کرتے ہیں سچی بات تو یہ ہے کہ اس عالم آب و گل کا نظام ایسے ہی لوگوں کے دم سے چل رہا ہے جو تقدیر کے ہر فیصلے کے سامنے سر تسلیم خم کرتے ہیں اور کبھی حرف شکایت لب پر نہیں لاتے ۔ مجھے اس وقت ممتاز شاعر شیر افضل جعفری کا یہ شعر یاد آگیا:
میری موت تے ہو سیں جنج ورگی
سنجی زندگی چپ چپیتی اے
(میری موت پر لوگ بڑی تعداد میں برات کی طرح امڈ آئیں گے اگرچہ میری زندگی ویران اور خاموش ہے )
Ghulam Ibn-e-Sultan
About the Author: Ghulam Ibn-e-Sultan Read More Articles by Ghulam Ibn-e-Sultan: 277 Articles with 680314 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.