گُذشتہ(14)۔ اقساط کا خُلاصہ۔۔۔
یہ کہانی ہے۔ ایک ایسے نُوجوان کامِل علی کی جِس کے سر سے اُسکے والد کا
سایہ بچپن میں ہی اُٹھ گیا۔۔۔ والدہ کی نوجوانی میں بیوگی سے بے شُمار
مسائل جنم لینے لگتے ہیں۔ ایک طرف گھر میں ایسے حالات پیدا ہُوجاتے ہیں۔ کہ،،
جسکی وجہ سے کامِل علی چُھوٹی چھوٹی خُوشیوں کیلئے ترس جاتا ہے۔ تُو دوسری
طرف معاشرے کے نکمے اُور گندگی سے لِتھڑے ذہن کے مالک اُوباش نوجوان اُسکی
والدہ کو حریص نِگاہوں سے دیکھتے ہیں۔ آئے دِن کے مسائل کی وجہ ایک طرف
اُسکی والدہ ہِراساں رِہنے لگی تھی۔ تُو دوسری طرف محلہ کے مولوی صاحب کی
زُوجہ کا انتقال ہُوجاتا ہے۔ محلہ والوں اُور مولوی صاحب کی دُو بہنوں کی
کوشش سے کچھ عرصہ میں کامل علی کی بیوہ والدہ پھر سے مولوی رمضان کی دُلہن
بن جاتی ہے۔ ۔ کامِل علی کو اپنے ہمسائے چاچا ارشد کی بیٹی نرگس سے بُہت
دِلی لگاوٗ پیدا ہُوجاتا ہے۔ وُہ اس رشتہ کو کوئی نام نہیں دے پاتا۔ لیکن
جوانی میں قدم رکھتے رکھتے اُسے اِحساس ہُوجاتا ہے۔ کہ وُہ صرف دِلی لگاوٗ
نہیں ہے۔ بلکہ مُحبت کا رشتہ اُسکے دِل میں اپنی جڑیں کافی گہری بنا چُکا
ہے۔ مولوی رمضان صاحب کی اکلوتی بیٹی جلباب نے کبھی کامل علی کو احساس نہیں
ہُونے دِیا کہ وُہ اسکی سگی نہیں بلکہ سُوتیلی بہن ہے۔
کچھ ہی عرصہ بعد جلباب کی سفینہ پھپو اُسے اپنے بیٹے سے بیاہ کر جہلم لے
جاتی ہیں ۔لیکن قُدرت کو ابھی کامِل علی کے مزید اِمتحان مقصود تھے۔ مولوی
صاحب حد درجہ شفیق اِنسان تھے۔ اِس لئے اُنہوں نے بھی کامِل علی کو ہمیشہ
حقیقی والد کی طرح مُحبت دینے کی کوشش کی۔ اُور بڑی شفقت سے کامل علی کی
پرورش کی لیکن ایک دِن کامل علی کی والدہ بھی کامل علی کو سسکتا اُور تڑپتا
چھوڑ کر اپنے خالقِ حقیقی سے جامِلتی ہیں۔ اَماں کے انتقال کے بعد مولوی
صاحب بھی ذیادہ دِن نہیں جی پائے۔۔۔۔ کامل علی پھر سے اپنے پُرانے گھر میں
لُوٹ آیا۔ نرگس سے مُلاقاتوں کے سلسلے جاری تھے۔ کہ چاچا ارشد غلط فہمی کا
شِکار ہُوگئے۔ حالات کی ستم ظریفی کے باعث کامل علی نے اُستاد عبدالرشید کے
پاس مُلازمت اُور سکونت اِختیار کرلی۔ چاچا ارشد نے موقع پاکر سادگی سے
نرگس کی شادی کِسی دوسرے شخص سے کروادی۔ جسکی وجہ سے کامل علی مزید
دلبرداشتہ ہُوگیا۔
حالات اُور زمانے کے بار بار ستائے جانے پر کامل علی رُوحانی عملیات کی
جانب راغب ہُوجاتا ہے۔ اُسکا خیال ہے کہ اگر ایک مرتبہ اُسکے پاس کوئی
رُوحانی طاقت آجائے۔ تُو وہ تمام زمانے سے خاص کر چاچا ارشد سے بدلہ لے
سکتا ہے۔ لیکن بار بار چلہ کاٹنے کے باوجود بھی ناکامی اُسکا مقدر ٹہرتی
ہے۔ وُہ ایک بنگالی جادوگر کی شاگردی اِختیار کرنا چاہتا ہے۔ لیکن ہر بار
ایک مَجذوب اُسکے راستے میں دیوار کی مانند کھڑا ہُوجاتا ہے۔ اُستاد
عبدالرشید کے بار بار سمجھانے پر بھی جب کامل علی عملیات سے باز نہیں آتا۔
تب اُستاد عبدالرشید اُسے ایک اللہ کے ولی ،،میاں صاحب ،، کے پاس بھیجتا
ہے۔ لیکن یہاں بھی ناکامی کامل علی کا پیچھا نہیں چھوڑتی۔ اُور وہ خالی
ہاتھ ہی اپنے گھر لُوٹ آتا ہے۔
کامِل علی مجذوب کی تلاش میں ایک مُقام تک پُہنچتا ہے۔ جہاں اِسے ایک
نوجوان کے توسل سے معلوم ہُوتا ہے کہ،، اُس مجذوب کا نام ،، بابا صابر
،،ہے۔ اُور گُذشتہ دَس برس سے کِسی نے بابا صابر کو کسی سے گُفتگو کرتے
نہیں دیکھا ہے۔ بابا صابر مُلاقات کے دُوران اُسے بتاتے ہیں کہ فی الحال
انکا یہ راز وُہ کسی پر بھی آشکار نہ کرے۔ اُور کسی نادیدہ ہستی کو پکڑنے
کیلئے دُوڑ جاتے ہیں۔ افلاطون نامی ایک نوجوان کامل علی کے گھر میں گُھسنے
کی کوشش کرتا ہے ۔ لیکن کامل علی دھکے دے کر اُسے گھر سے نِکال دیتا ہے۔
لیکن جب وُہ دروازے میں کنڈی لگا کر پلٹتا ہے۔ تُو اُسی نوجوان کو اپنے
بستر پر دراز دیکھتا ہے۔ گھبراہٹ میں کامل علی کا پاوٗں رَپٹ جاتا ہے۔
افلاطُون بروقت سہارا دیکر اُسکی آنکھ ضائع ہُونے سے بچا لیتا ہے۔ جسکے بعد
ابو شامل اُسے بتاتا ہے ۔ کہ وُہ ایک جِن زادہ ہے۔ اُور ایک عامِل اُسکے
پیچھے پڑا ہے کیونکہ وُہ کافی طاقتور جن ہے۔ افلاطُون پیشکش کرتا ہے کہ اگر
کامل علی اُس عامل سے بچانے میں اِسکی مدد کرے تُو،، افلاطُون دُوست بن کر
دُنیا کی ہر شئے کو اسکے قدموں میں لاکر دال سکتا ہے۔
اَب مَزید پڑھیئے۔۔۔
کامِل علی نے کچھ پَس و پیش کے بعد افلاطُون کے بڑھے ہُوئے ہاتھوں کو اپنے
ہاتھوں میں تھامتے ہُوئے کہا۔۔۔ دیکھو افلاطُون ۔۔ مجھے دُوست کہا ہے ۔ تُو
اِس رشتہ کی لاج بھی رکھنا۔۔۔ کیونکہ میں نے زمانے میں اتنے دُھوکے اُور
فریب کھائے ہیں۔ اُور اتنی تکلیفیں سہی ہیں کہ مزید برداشت کی ہمت باقی
نہیں رہی ہے۔ جسقدر ممکن ہُوگا میں تُمہاری مدد کرونگا۔۔۔۔ اُور تُم سے یہ
توقع رکھتا ہُوں کہ تُم بھی مجھے مایُوس نہیں کرُوگے۔۔
بے شک میرے دُوست۔۔۔ میں تُم سے وعدہ کرتا ہُوں کہ ،، ہمیشہ دوستی کا بھرم
قائم رَکھوں گا۔۔۔ البتہ میری تُم سے ایک درخواست ہے کہ آئیندہ مجھے
افلاطُون کے بجائے ابو شامل کہہ کر مخاطب کرنا۔۔ کیونکہ مجھے اپنا یہ نام
دوسروں کی زُبان سے سُننا بُہت پسند ہے۔ اب کہو میرے لئے کیا حُکم ہے۔
افلاطُون کے صرف چہرے پر ہی نہیں بلکہ لہجے میں بھی کامل علی کی رضا مندی
کے بعد شُوخی دَر آئی تھی۔
کیا تُم نرگِس سے ابھی اِسی وقت میری مُلاقات کا بندوبست کرسکتے ہُو۔ کامل
علی نے نظریں جھکا کر ملُتجانہ لہجے میں افلاطُون کو مخاطب کرتے ہُوئے
کہا۔۔۔۔۔۔!
کیوں نہیں میرے دُوست۔۔۔ میں ابھی نرگس کو اُسکے گھر سے یہاں اُٹھالاتا
ہُوں۔ افلاطُون نے یقینی لہجے میں کامل کو جواب دیتے ہُوئے اپنا داہنا ہاتھ
سینے پر رکھ کر اپنے سر کو ہلکا سا خم کرتے ہُوئے کہا۔۔
نہیں یار۔۔۔ اِس طرح تُو وُہ بدنام ہُوسکتی ہے۔ ۔۔۔ کیونکہ وُہ اب ایک شادی
شُدہ عورت ہے۔۔۔ اُور ایک شادی شُدہ عُورت کا رات میں ایک لمحے کیلئے بھی
غائب ہُونا کِسی قیامت سے کم نہیں ہے۔۔۔۔۔ میرا مقصد اُسے پانا ہے نا کہ
بدنام کرنا۔۔۔تُم ایسا کیوں نہیں کرتے ابو شامل کہ مجھے ہی اُس کے گھر لے
چلو۔۔۔ کامل علی نے تجویز پیش کرتے ہُوئے کہا۔۔۔!
ہُم۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ اگر ایسی ہی بات ہے ۔ تب میرے دُوست تمہیں آج کا دِن مَزید
صبر کرنا پڑے گا۔ کیونکہ صبح کی رُوشنی پھیلنے ہی والی ہے۔ ویسے بھی تُم
تمام رات کے جاگے ہُوئے ہُو۔ ایسی حالت میں جب کے نیند کا خُمار طاری ہُو۔
محبوب سے ملنے میں کیا خاک مَزہ آئے گا۔ آج ہم کُچھ کھیل تماشے کریں گے۔
کُچھ سیر سپاٹے کریں گے۔ اُور رات ۱۲ بجے کے بعد میں تُمہیں تُمہاری نرگس
سے مِلانے کیلئے لے جاؤں گا۔ لیکن ابھی تُمہیں سُوجانا چاہیئے۔
نرگِس کے ذکر نے اگرچہ کامل کی آنکھوں سے نیند اُڑا دی تھی۔ لیکن ابو شامِل
کی بات میں دَم تھا۔ ایک تو کامل علی کے جسم پر تھکن کے اَثرات تھے۔ دُوسرے
دِن کی رُوشنی میں نرگس سے مُلاقات واقعی خطرناک ثابت ہُوسکتی تھی۔ اسلئے
ناچار کامِل علی کمبل اُوڑھ کر بستر پر دراز ہُوگیا۔ ابو شامل نے جاتے جاتے
کامل علی کُو مُخاطب کرتے ہُوئے کہا۔۔۔ کامل جب جاگ کر تیار ہُوجاؤ تب مجھے
آواز دے لینا۔ میں فوراً حاضر ہُوجاؤ گا۔
کامل علی کی جب آنکھ کُھلی تب اُسے پہلے پہل ایسے مِحسوس ہُوا جیسے اُس نے
رات میں کوئی سپنا دیکھا ہُو۔۔۔ لیکن چائے کے خَالی کپ دیکھ کر اُسے یقین
ہُوگیا کہ وُہ کوئی سپنا نہیں بلکہ ایک حقیت تھی دیوار پر لگی گھڑی دیکھ کر
کامل علی کو اندازہ ہُوا کہ دوپہر کے تین بجنے کو ہیں ۔ مطلب وُہ کافی دیر
تک سُوتا رہا ہے۔۔۔ یہی سُوچ کر کامل علی جلدی سے واش رُوم میں داخِل
ہُوگیا۔
واش رُوم سے نِکل کر جب کامِل علی باہر آیا تب تلک کمرے کی حالت بالکل ہی
بَدل چُکی تھی۔ مکان کے اِس اکلوتے کمرے میں جُو کے ابھی کُچھ ہی لمحے قبل
کاٹھ کباڑ کی آماجگاہ بنا ہُوا تھا۔ وہاں ضرورت کی ہر شئے قرینے سے رکھی
ہُوئی تھی۔ جِن دیواروں سے پلاستر تک نابُود ہُوچُکا تھا۔ اَب ایسے چمک رہی
تھیں ،، گُویا دیواروں پر پلاستر نہیں بلکہ شیشے پر پینٹ کردیا گیا ہُو۔
پرانے ٹی وی کی جگہ دیوار پر جہازی سائز کی ایل ای ڈی جگمگارہی تھی۔ کمرے
سے اُسکی جھلنگا چارپائی غائب ہُوچُکی تھی۔ اب کمرے کے درمیان میں سنگ مرمر
کا ڈبل بیڈ آنکھوں کو خیرہ کئے دے رَہا تھا۔ کمرے کے ایک کُونے میں ایستادہ
نہایت حسین گُلدستہ کمرے کی خُوبصورتی میں مزید اِضافہ کررہا تھا ۔کمرے سے
ملحق اُوپن کچن بھی کسی عالیشان کُوٹھی کی نُمایندگی کررہا تھا ۔ کامل علی
حیرت کے ساگر میں گُم اِن مناظر میں کُھویا ہُوا تھا۔ کہ ،، عقب سے ابو
شامِل کی آواز سُنائی دِی۔۔۔۔ اتنی حیرت سے کیا دیکھ رہے ہُو میرے دُوست۔
ابھی تُو بُہت کُچھ بدلنا باقی ہے۔ کامل علی نے گھوم کر دیکھا تُو ابو شامل
مسہری پر نیم دراز نظر آیا۔۔۔۔ کامِل علی کو ہلکا سا حیرت کاجھٹکا لگا۔
لیکن پھر جلد ہی اُس نے اپنے آپ کو سنبھال لیا۔۔۔ کیونکہ رات کو وُہ دیکھ
چُکا تھا۔ کہ مٹی اُور پتھر کی دیواریں ابوشامل کا راستہ روکنے کیلئے کافی
نہیں ہے۔۔۔۔۔۔۔
میں بُہت جلد اپنے دُوست کیلئے اِس شہر میں یا جِس شہر میں تُم رہنا پسند
کرو۔۔۔ وہاں ایک ایسی کُوٹھی تیار کرواؤں گا کہ دیکھنے والوں کی گردن حیرت
سے قُوس کی شِکل اختیار کرجائے۔۔۔۔ اُور اُسمیں دُنیا کی ہر نعمت کو جمع
کردُونگا۔ افلاطون نے مسکرا کر کامل علی کی جانب دیکھتے ہُوئے کہا۔۔۔
نہیں ابوشامل مجھے مزید کسی کوٹھی یا بنگلے کی ضرورت نہیں ہے۔ میرے لئے یہ
گھر ہی کافی ہے۔۔۔ البتہ تُم نے اِس گھر میں جُو تبدیلیاں کی ہیں اُس سے
واقعی مجھے خُوشی ہُوئی ہے۔ جسکے لئے میں تہہ دِل سے تُمہارا شُکر گُزار
ہُوں۔ کامل علی نے خُلوص سے شکریہ ادا کرتے ہُوئے کہا۔۔۔ اب یہ بتاؤ کہ آج
کا کیا پروگرام بنایا ہے تُم نے۔۔۔؟ مجھے یاد ہے تُم نے رات کو کُچھ سیر
سپاٹے کی بات کی تھی۔۔۔۔
یار دیکھو ایک بات کان کھول کر سُن لُو آج کے بعد یہ شکریہ وغیرہ کے الفاظ
کم از کم مجھ سے مت کہنا۔ ورنہ میں تُم سے ناراض ہُوجاؤں گا۔ کیونکہ دُوستی
میں کوئی کِسی پر اِحسان نہیں کرتا۔ بس تُم کو میری تبدیلی پسند آئی سمجھو
مجھے انعام بھی مِل گیا۔ اُور خوشی بھی حاصِل ہُوگئی۔۔۔۔ اُور جہاں تک بات
ہے سیر سپاٹے کی تُو کیا خیال ہے دریائے جہلم نہ چلا جائے۔۔۔ وہاں دریا کے
کنارے انجوائے بھی کریں گے اُور۔۔۔۔۔۔ اتنا کہہ کر ابو شامل نے گفتگو
ادھوری چھوڑ دی۔ ۔۔۔۔ اُور کیا۔۔۔ کامل علی نے استفاپمیہ انداز میں ابو
شامل کی جانب دیکھتے ہُوئے سُوال کیا۔
کیا جلباب کو بُھول گئے۔۔۔؟ کیا تُمہیں یاد نہیں مولوی رمضان صاحب نے
انتقال سے قبل جلباب کی ذمہ داری تُمہارے سپرد کی تھی۔۔۔۔ ؟ ابو شامل نے
ایک ایک لفظ پر زُور دیتے ہُوئے کہا۔۔۔۔ نہیں یار۔۔۔ میں جلباب کو کیسے
بُھول سکتا ہُوں اُسکے اُور مولوی رمضان صاحب کے مجھ پر بُہت سے احسانات
ہیں ۔۔ لیکن جہلم جانے آنے میں تُو کم از کم ۲ دِن لگ جائیں گے۔ جب کہ تُم
نے مجھ سے وعدہ کیا تھا۔ کہ آج رات تُم میری نرگس سے مُلاقات کراؤ گے۔۔۔۔
کامل علی نے ابو شامل کو اُسکا وعدہ یاد دِلاتے ہُوئے کہا۔۔۔۔
اُو میرے بھائی ۔۔۔ میں تجھے چناب ایکسپریس سے لیکر نہیں جارہا۔ جُو تجھے
آنے جانے میں ۲ دِن لگ جائیں گے۔۔۔ تُم شہزادہ ابو شامل کے ساتھ جارہے ہُو۔
کسی ریلوے مُلازم کے ساتھ نہیں۔۔۔ہم پانچ منٹ سے بھی پہلے جلباب کے گھر
جہلم پُہنچ جائیں گے اُور وقتِ مقررہ سے بُہت پہلے واپس بھی آجائیں گے۔ کیا
سمجھے۔۔۔۔؟ ابو شامل نے کامل کے کاندھے پر ہاتھ رکھتے ہُوئے مُسکرا کر
کہا۔۔۔ اگر ایسی بات ہے ۔ تُو چلو ٹھیک ہے لیکن یہ تُمہیں ایکدم جلباب اُور
جہلم کا خیال کیسے آگیا۔۔۔۔؟ کامل علی نے کُچھ سوچتے ہُوئے سوال کیا۔۔۔
یار مولوی رمضان صاحب کا ایک قرض مجھ پر بھی ہے۔ بس وہی قرض اُتارنے کی
کُوشش کررہا ہُوں۔۔۔۔ تُمہیں شائدبالکل بھی خبر نہیں ہے ۔ مگر میں جانتا
ہُوں کہ،، مولوی رمضان صاحب کی بیٹی جلباب آجکل بُہت کسمپُرسی کی زندگی
گُزار رہی ہے۔ کیونکہ اُسکا شوھر جُوئے اُورشراب کی لَت کے ساتھ ساتھ ایک
دوسری عورت کے چکر میں بھی گرفتار ہُوگیا ہے۔ اُور جلباب آجکل بُہت پریشان
حال ہے ۔۔۔ابو شامل کا لہجہ جلباب کا تذکرہ کرتے ہُوئے بُہت غمگین
ہُوگیا۔۔۔۔۔ جیسے وُہ اپنی بِہن کا تذکرہ کررہا ہُو۔۔۔
اگر ایسی بات ہے۔۔۔ تُو میں بھی جلباب سے فوراً مِلنا چاہُوں گا۔ کامل علی
نے جذباتی لہجے میں جواب دیا۔
چلو پھر تُم ۲ منٹ میرا انتظار کرو میں ابھی آتا ہُوں۔ ابو شامل یہ کہتے
ہُوئے دروازے کی جانب مُڑا۔۔۔
مگر تُم جا کہاں رہے ہُو۔۔۔۔۔؟ کامل علی کے سوال پر ابو شامل نے مُڑ کر
کامِل علی کو دیکھتے ہُوئے کہا۔۔۔ ارے میرے بُدھو دُوست بہن کے گھر جارہے
ہیں تُو کیا خالی ہاتھ جائیں گے۔۔۔۔؟ اِتنا کہہ کر ابو شامل گھر سے باہر
نِکل گیا۔۔۔ مگر اِس مرتبہ گھر سے باہر جانے کیلئے اُس نے دروازے کا ہی
استعمال کیا تھا۔۔۔۔۔۔۔!
(جاری ہے)
پھر دَرد بڑھ رَہا ہے پھر نیند کی خُواہِش
ہُوئی دِل میں پِھر سے پیدا تیری دِید کی خُواہش
تیری رَاہ کے خَار سارے ۔۔۔ پَلکوں سے اپنی چُن لُوں
مجھے پا کے تیرے مَن میں۔۔ نہ رہے مَزید خُواہش |