بہت دیر کر دی صنم آتے آتے

بہاروں کا مو سم تھا شام ڈھل رہی تھی چاند کی روشنی دھیرے دھیرے بڑھ ررہی تھی ۔پورا ماحول سنسان تھا اور ہم دونوں دوست سڑک پر بنے چھوٹے سے پُل کی دیوار پر بیٹھے ہو ئے تھے کبھی کبھی اکا دکا گاڑی سڑک سے گذر رہی تھی ورنہ یہ سڑک پوری طرح سے سنسان تھی سڑک کے کنارے لہلاتے کھیت ، سرد ہوائیں اور چاندنی رات بہت ہی خوبصورت منظر تھا ہم نے ٹائم پاس کے لئے مونگ پھلی کے دانے لے رکھے تھے ۔معصوم بڑی دیر سے چاند کی طرف دیکھ رہا تھا میں نے معصوم کو ایک دم ٹوکا کس کا چہرہ چاند میں ڈھونڈرہے ہو معصوم ؟اور وہ دیوانہ کہنے لگا یار تم تو جانتے ہی ہو کہ ایک ہی چہرا ہے میرے خوابوں خیالوں میں ، میری آنکھوں میں ،یاووں میں مجھے تو ہر چیز میں بس نازیہ کا ہی چہرا نظر آتا ہے وہ تو میرے خوابوں خیالوں میں بس چکی ہے یوں تو چمن میں کافی پھول کھلتے ہیں لیکن جس گل پہ میری چاہت کی نگا ہ ہے وہ صرف اور صرف نازیہ ہے ۔ بہت پیار کرتے ہو نا اُس سے ؟...... ہاں یار لیکن وہ تو میرے ساتھ مجھ سے بھی زیادہ پیار کرتی ہے۔ نازیہ کے پیار نے ہی تو مجھے محبت کرنا سکھا دیا ورنہ میں تو ............ اب اسے اپنانا ہے ذیشان اسی لئے تو پریشان ہوں کئی رشتے آئے اس کے لئے لیکن نازیہ نے میری وجہ سے انکار کر دیا۔لیکن میں جاﺅں بھی تو کون سا منہ لے کر اس کے گھر رشتہ مانگنے جاﺅں؟ اس کے پاپا کہیں گے کیاکرتے ہو تم ؟ .......... کہاں رکھو گے میری بیٹی کو؟........ کیا کھلاﺅ گے اسے ؟ ........”پیار ومحبت “......؟

رو مت میرے یار انشااللہ سب کچھ ٹھیک ہو جا ئے گا کو ئی نہ کو ئی جاب(JOB) مل ہی جا ئے تمھیں پھر تم .....تم نہیں ہم لوگ جا ئیں گے نازیہ کا ہاتھ تمھارے لئے مانگنے اب Please رونا بند کر لو ....... اچھا یہ بتاﺅآج بات ہو ئی نازیہ کے ساتھ ؟ ہاں یار بات ہو ئی تھی وہ کہہ رہی تھی کہ ممی بول رہی تھی کہ بہت سارے رشتے آرہے ہیں آپ کے لئے اب آپ کے ہاتھ پیلے کرنے ہی پڑیں گے ۔ نازیہ......تم بہت جلدی کچھ کرو معصوم! بہت درد تھا اس کی باتوں میں مجھ سے اس کا درد برداشت نہیں ہوتا۔

میں نے معصوم کو گلے سے لگایا اور کہا کہ ایک ایجنٹ سے میری دوستی ہے اگر تم چاہو تو میں بات کروں گا اس کے ساتھ جاﺅ گے باہر ملک میں ؟ معصوم نے جلدی سے ہاں کہہ دی اور کہا کہ کرلو اس ایجنٹ سے بات میں نازیہ کے لئے کچھ بھی کر سکتا ہوں ہوں ۔ ایک دن معصوم کا ویزا آگیا لیکن اس غریب کے پاس پیسے نہیں تھے ہم سب دوستوں نے پیسے اکھٹے کر کے دس ہزار روپے معصوم کے ہاتھ میں تھما دئے ۔اور معصوم باہر ملک جانے کے لئے تیار ہو گیا ۔ جانے سے پہلے معصوم نازیہ سے ملنے گیا ۔نازیہ جدائی کے غم میں بہت رو رہی تھی معصوم نے کہا دیکھو رونا بند کر لو میں نے بہت کو شش کی لیکن یہاں پر نوکری نہیں مل سکی میں بھی نہیں چاہتا کہ آپ سے جدا ہو جاﺅں لیکن یقین مانو نازیہ میں آپ کو کسی بھی حالت میں کھونا نہیں چا ہتا ہوں ۔ وہ کہنے لگی مت جاﺅ میں تمھارے بغیر رہ نہیں پا ﺅں گی.....مت رو نازیہ میں تمھارے لئے ہی تو جا رہا ہوں میں وہا ں جاکر دولت کما لوں گا اور ایک بہت بڑا آدمی بن کر آپ کے گھر آپ کے پا پا سے آپ کا ہاتھ مانگنے آﺅں گا اور پھر ہم دونوں عمر اکھٹے رہیں گے پھر ہم کبھی بھی جدا نہیں ہو نگے۔صرف ایک سال کے لئے مجھے وہاں رہنا ہے آپ کے لئے ، تمھارے لئے ، ہم دونوں کے پیار کے لئے ، گبھرانا مت میں تجھے خط لکھوں گا ۔ تم اپنا خیال رکھنا اور میرے آنے کا انتظار کرنا ۔تب کہیں نازیہ سنبھلی اور کہا جاﺅ خوب محنت کرو دولت کماﺅ۔میں تمھارے ساتھ ہوں اور میرا پیار تمھارے ساتھ ہے میں آپ کا درد سمجھتی ہوں ۔ جاﺅ میں تمھارا انتظار کروں گی ۔ تم میرے لئے واپس آنا۔ اور میرے بن کر آنا جاﺅ مرے جانو جاﺅ ! اللہ تمھاری حفاظت کرے گا ۔ دونوں اس طر ح جدا ہو رہے تھے کہ پھر کبھی نہیں ملیں گے اور پھر معصوم چلا گیا ۔

ایک سال معصوم نے کیسے گزارا یہ اسی کا دل جانتا ہے کئی خط لکھے تھے نازیہ کو لیکن ایک بھی خط کا جواب نہیں ملا۔معصوم کشمکش میں تھابہت سارے تحفے لائے تھے میرے اور نازیہ کے لئے ۔میں اسے لینے بس اسٹینڈ گیا تھا معصوم مجھ سے گلے ملااور خوشی سے پھولے نہ سمایا۔ اس نے سب سے پہلے یہ سوال کیا کہ نازیہ کیسی ہے ذیشان؟ ایک بھی خط کا جواب نہیں دیا اس نے.......!

میں خاموش رہا میں نے کہا گھر چلو سب کچھ تمھیں خود بخود معلوم ہو جائے گا۔گھر پہنچا تو نازیہ کے گھرکے پاس شامیانے لگے ہوئے تھے وہ دم بخود رہ گئے۔

یہ سب کیا ہے؟میں نے کہا مجھے معاف کر دو معصوم میں کچھ کر نہیں پا یا تمھارے لئے !معصوم میرے کندھے پر سر رکھ کر رونے لگا۔میں نے کہا بہت کو شش کی میں نے معصوم نازیہ کے پا پا کو منانے کی لیکن اس سنگدل نے ایک بھی نہ مانی اس نے صاف انکار کر دیا ۔کہا پتہ نہیں کب آئے گا معصوم اور آکر وہ یہاں کرے گا بھی کیا؟ میں نے کہا معصوم بہت محنتی لڑکا ہے وہ نازیہ کو ہمیشہ خوش رکھے گا ۔مگر وہ ایک بھی نہ مانے ۔نازیہ کو تمھارا صرف ایک خط ملا باقی سب اس کے پاپا نے نے جلا دئے ۔وہ تمھارا انتظار کرتی رہی مگر اس کے سنگدل باپ نے زبردستی اس کی شادی شہر کے ایک مالدار شخص سے کر لی ۔ہاں! نازیہ نے تمہارے لئے ایک خط چھوڑا ہے ۔اسے پڑھ لو شائد آپ کی سمجھ میں کچھ آجائے اس کی آنکھوں سے آنسوﺅں کی برسات جاری تھی ۔بد ن کانپ رہا تھا ۔اس نے کانپتے ہاتھوں سے خط کھولا اور تھرتھراتے لبوں سے پڑھنے لگا۔

میری جان! معصوم
ایک معصوم اور بے بس لڑکی کا پیار بھرا آخری سلام
”کون کہتا ہے کہ محبت ٹوٹ جاتی ہے بلکہ محبت کرتے کرتے محبت کرنے والے ہی ٹوٹ جا تے ہیں “.... معصوم! میں نے آپ کا بہت انتظار کیا لیکن وقت جو کہ کسی کا انتظار نہیں کر تا ۔ایک بھی خط نہیں لکھا تم نے میرا دل تمہار ا ، میری دھڑکنیں تمہاری ،تم ہی تم ہو مرے خوابوں خیالو ں میں میں کس حد تک آپ سے پیار کرتی ہوں معلوم نہیں اب میں اپنے دل کو بھی تمہارا نام دے رکھا ہے ۔معصوم تم ایسا نہ سوچنا کہ ہماری شادی نہیں ہو ئی..... تو ہمارا پیار ختم ہو گیا۔ پیار تو اب امر ہو گیا ہے ۔میرے جانو! پاپا نے زبر دستی میری شادی کسی اور سے کر دی ۔کاش! تم آجاتے تو میں تمہارے ساتھ چلی جاتی سب کی نظروں سے دور جہاں صرف تم اور ہم ہو تے مگر تم نہیں آئے اور نہ ہی تمہاری کو ئی خبر آئی خدا کو جو منظور تھا وہی ہوا اب میں صبر کے سوا کیا کر سکتی ہوں۔تم بھی وہی کر لو معصوم.......بھول جاﺅ مجھے اورایک نئی زندگی کا آغاز کر لو ۔
تمہاری” نازیہ“
اوراب معصوم بے ہو ش ہو گیا ۔جس کے لئے اس نے دولت کمائی تھی اسے کھو دیا ۔
MOHAMMAD SHAFI MIR
About the Author: MOHAMMAD SHAFI MIR Read More Articles by MOHAMMAD SHAFI MIR: 36 Articles with 30024 views Ek Pata Hoon Nahi Kam Ye Muqader Mera
Rasta Dekhta Rehta Hai Sumander Mera
.. View More