12 ویں ذوالحجہ کی سہانی صبح تھی
جب میرے آنگن میں چاندنی نے ڈیرے ڈال دیے ۔ اللہ کریم نے اپنے فضل سے ہماری
گود کو اپنی رحمت سے بھر دیا ایک پیاری سی ………اوں ……مم ………میٹھی سی گڑیا
پیدا ہوئی ۔
اولاد کیا ہوتی ہے ؟ آج احساس ہوا ۔ خالق دو جہاں نے اس کو آزمائش کیوں کہا
؟ اب سمجھ آئی ۔ وہ جو اللہ کریم سے دعائیں مانگیں تھیں …رَبَّنَا هَبْ
لَنَا مِنْ أَزْوَاجِنَا وَذُرِّيَّاتِنَا قُرَّةَ أَعْيُنٍاے اللہ ہماری
ازواج اور اولاد کو آنکھوں کی ٹھنڈک بنا …… سووہ قبول ہوگئیں ۔
سورۃ الفرقان پارہ نمبر 19 آیت نمبر 74
نماز ظہر کے بعد مسجد کے نمازیوں میں مٹھائی بانٹی ۔مبارک باد دینے کے لیے
گھر میں اعزہ واقارب کا تانتا بندھ گیا ۔ پیاری گڑیا کی دادی ماں کا چہرہ
خوشی سے تمتماتا ہوا نظر آرہا تھا ۔ آنے والے مہمانوں کی مٹھائی اور کولڈ
ڈرنک سے ضیافت کی جارہی تھی ۔
ہائے نی ! آنکھیں دیکھو بالکل اپنی ماں پر گئی ہے ۔ نہیں اپنے باپ پر گئی
ہے،آنکھ کان کا پتہ نہیں لمبے لمبے ہاتھ پاؤں بالکل باپ جیسے ہیں ناک چھوٹا
ہے نہیں ری اور کتنا بڑا ہوتا ؟؟ ماتھا ایسا ہے جیسے ……مختلف قسم کے تبصرے
نومولود پر شروع ہوگئے ۔ ادھر گڑیا نیا خوبصورت فراک زیب تن کیے لوگوں کی
خیال آرائیوں سے کوسوں دور میٹھی نیند کے مزے لوٹ رہی تھی ۔ اللہ اس کو نیک
بنائے اور علوم شریعت سے بہرہ ور فرمائے ۔ آمین
آج قرآن کریم سورۃ شوریٰ کی تلاوت کی سعادت نصیب ہوئی لِلَّهِ مُلْكُ
السَّمَاوَاتِ وَالْأَرْضِ يَخْلُقُ مَا يَشَاءُ يَهَبُ لِمَنْ يَشَاءُ
إِنَاثًا وَيَهَبُ لِمَنْ يَشَاءُ الذُّكُورَأَوْ يُزَوِّجُهُمْ ذُكْرَانًا
وَإِنَاثًا وَيَجْعَلُ مَنْ يَشَاءُ عَقِيمًا
سورۃ الشوریٰ پارہ نمبر 25 آیت نمبر 49 ،50
اللہ فرماتے ہیں کہ میں زمینوں اور آسمانوں کا مالک ہوں پیدا کرتا ہوں جو
چیز چاہتا ہوں جس کو چاہتاہوں بیٹیاں عطا کرتا ہوں اور جس کو چاہتا ہوں
بیٹے ۔ چاہوں تو جڑواں جڑواں بیٹے اور بیٹیاں دے دوں اور میں مالک ہوں
چاہوں تو کچھ بھی نہ دوں ۔
قرآنی اسلوب کو ایک بار پھر مد نظر رکھیے اولاد کے تذکرے میں رب تعالیٰ نے
بیٹیوں کا ذکر پہلے فرمایا ۔ کیوں ؟
اس لیے کہ اس وقت کے جہلاء عرب اور آج کے جہلاء عجم دونوں بیٹی کو منحوس
گردانتے ہیں جہلاء عرب کی حالت کا نقشہ اللہ تعالیٰ نے ان الفاظ میں کھینچا
ہےوَإِذَا بُشِّرَ أَحَدُهُمْ بِالْأُنْثَى ظَلَّ وَجْهُهُ مُسْوَدًّا
وَهُوَ كَظِيمٌ۔ جب ان کو بیٹی خوشخبری دی جاتی ہے تو ان کا چہرہ سیاہ
پڑجاتا ہے اور ان کا دل غم اور حزن سے بھر جاتا ہے ۔
سورۃ النحل پارہ نمبر 14 آیت نمبر 58
دربار نبوت لگا ہے عرب کا ایک بدو دیہاتی زار وقطار آنسووں کی برسات میں
بھیگ چکا ہے روتے روتے ہچکی بندھی ہوئی ہے یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم
!مااجد حلاوۃ الاسلام منذ اسلمت جب سے اسلام لایا ہوں اسلام کی چاشنی اور
مٹھاس کو محسوس نہیں کرپارہا ۔ یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم زمانہ
جاہلیت میں میرے ہاں ایک بیٹی پیدا ہوئی میں گھر سے کہیں دور سفر پر تھا جب
گھر واپس لوٹا تو وہاں وہ چھوٹے چھوٹے قدموں اور ننھے منے ہاتھوں کے بل چل
رہی تھی اس کی توتلی زبان اور معصومانہ شرارتیں ………یارسول اللہ صلی اللہ
علیہ وسلم میں نے گھر والی کو کہا کہ اس کو تیار کر!اس نے اسے خوبصورت لباس
پہنایا میں اس کو ساتھ لے کر دور ایک جنگل میں چلاگیا ۔
گرمی اور لو…… وادی عرب کے تپتے صحرا نے ہمارے قدموں تک کو جھلسا کر رکھ
دیا جب میں پسینے میں شرابور ہوجاتا تو میری بیٹی ننھے منے ہاتھوں سے اپنے
چھوٹے سے دوپٹے سے میرا پسینہ پونچھتی ۔
یارسول اللہ! یا رسول اللہ !میں نے ایک جگہ گڑھا کھودا ،کھدائی کرتے وقت وہ
بار بار اس گڑھے کی طرف دیکھتی اور میری طرف بھی ۔ وہ مجھ سے سوال کرتی تھی
: ابو یہ کس لیے گڑھا کھود رہے ہو؟
یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم جب میں نے اس کے لیے گڑھا کھود کر تیار کر
لیا اور اس کو اٹھا کر اس میں ڈالنے لگا تو وہ چلائی اس نے مجھے دہائی دی
وہ ابو ابو کرتی رہی ۔یارسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم وہ کہتی رہی کہ ابو
مجھے مت دفن کرو ابو مجھے معاف کردو ابو مجھے چھوڑ دو ابو مجھے ڈر لگتا ہے
ابو ابو میں آپ کے گھر نہیں آؤں گی ابو کبھی بھی واپس نہیں لوٹوں گی ۔ ابو
میں آپ پر بوجھ بن کرنہیں رہوں گی ابو میں اکیلی بالکل اکیلی رہ لوں گی ابو
ابو ابو ……… یہاں تک کہ میں نے اس کے سر پر بھی مٹی ڈال دی ۔ آخر وقت تک وہ
معصوم چلاتی رہی اپنی زندگی کی بھیک مانگتی رہی لیکن یا رسول اللہ صلی اللہ
علیہ وسلم میرا پتھر دل موم نہ ہوا اور میں اس کو وہیں جنگل میں پیوند خاک
کر کے گھر لوٹ آیا ۔
یارسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اس کے الفاظ میری کانوں کی سماعتوں سے ٹکرا
رہے ہیں اس کی معصوم بھولی صورت اور دلربا ادائیں میرے دل پر نقش ہوگئی ہیں
۔ یا رسول اللہ کلما ذکرت قولھا لم ینفعنی شئی ۔ یا رسول اللہ میرا کیا بنے
گا ؟
ادھر عرب کا دیہاتی رو رہا تھا اور ادھر فخر دو عالم رحمت کائنات صلی اللہ
علیہ وسلم کی مازاغ آنکھوں میں آنسو کے سمندر امڈ آئے موتیوں کی اس لڑی میں
محبت وشفقت ومودت کے انمول خزینے چھلکنے لگے آپ نے فرمایا میرے صحابی ماکان
فی الجاہلیۃ فقد ھدمہ الاسلام تم نے جو گناہ زمانہ جاہلیت میں کیے قبول
اسلام نے ان کو ہمیشہ کے لیے مٹاڈالا ۔
اللباب فی علوم الکتاب سورۃ النحل جز 12 ص 90
علاقے پر علاقے فتح ہورہے ہیں ، قیصر وکسری جیسی سپر پاور طاقتیں کہلانے
والی ریاستیں اسلام کا نام سن کر لرزہ براندام ہوجاتی ہیں ۔ ایک جنگ میں
کچھ لوگوں کو قیدی بنا کر لایا گیا اسی اثنا ء میں ایک بیٹی …….دشمن کی
بیٹی …… کے سر سے آنچل اتر گیا ۔ مزمل ومدثر والے نبی نے اپنی کالی کملی
اتاری اور کہا کہ جاؤ اور جا کر اس بیٹی کے سر پر میری یہ چادر اوڑھا دو ……
ہاں ہاں ! وہی چادر جس کی عرش والا رب قسمیں کھاتا ہے …….کسی نے کہہ دیا کہ
یارسول اللہ یہ کافر کی بیٹی ہے ۔ نطق نبوت حرکت میں آئی اور رہتی دنیا تک
اسلام کا وسیع النظر مشفقانہ اصول وضع ہو گیا کہ بیٹی ؛ بیٹی ہوتی ہے خواہ
کافر کی ہی کیوں نہ ہو۔
میری بہنو!بیٹی جیسی رحمت خدا ہر گھر کے مقدر میں نہیں کرتا ، بیٹی کو خدا
کی انعام اور رحمت سمجھو ۔ آج کے جہلاء بیٹی کی پیدائش کو منحوس سمجھتے ہیں
یہ تو ان جہلاء عرب سے بھی آگے نکل چکے ہیں کہ جب ان کو بیٹی کی خوشخبری دی
جاتی یتواریٰ من القوم من سوء مابشر بہ ایمسکہ علی ھون ام یدسہ فی التراب
شرم سے منہ چھپاتے پھرتے پھر بیٹی کی پیدائش پر اس کی ماں کو طلاق دے دیتے
اور ایسے گھر میں چھوڑ دیتے جہاں کوئی آتا جاتا نہیں تھا ۔
بیٹی پیدا ہوتی تو اس کو اون یا بالوں سے بنا ہوا جبہ پہنا دیتے اور وہ
اونٹوں اور بکریوں کو چراتی رہتی ،بیٹیوں کے قتل کے نت نئے طریقے بنا رکھے
تھے کبھی گڑھا کھود کر زندہ دفن کردیتے کبھی پہاڑ کی چوٹی سے گرا دیتے ،
کبھی دریا کی بے رحم موجوں کے حوالے کر کے غرق کر دیتے کبھی ذبح کردیتے اور
پھر ان سب کو غیرت وحمیت کا نام دیتے کبھی فقر وفاقہ کا عذرلنگ تراش کر
معصوم کلیوں کو موت کی آغوش میں سلادیتے اور کبھی اس خوف سے کہ کہیں اور
بیاہی جائے گئی تو اس کا مال ان کا ہوجائے گا ۔
تفسیر سراج منیر سورۃ النحل جز 2 ص 188
اور آج کا جاہل ماں کے پیٹ میں ہی اس کو ختم کرادیتا ہے ، اسقاط حمل کے جرم
میں دن بدن اضافہ ہورہا ہے ، بچی کی ولادت پر اسے اور اس کی ماں کو زندہ
جلا دیتا ہے ، بیٹی جیسے معصوم رشتے کی پیدائش پر اس کی ماں کو طلاق دے
دیتا ہے کبھی یکے بعد دیگرے بیٹیوں کی پیدائش عورت کا جرم قرار دیتا ہے ۔
معاف کرنا !ایسے مسلمان پر اسلام کے الف کا اثر بھی نہیں ہوا وہی جاہلیت
زدہ خیالات اور فرسودہ عقائد دل ودماغ میں رچے بسے ہوئے ہیں ۔
تفسیر شعراوی اور دیگر تفاسیر میں ایک واقعہ مرقوم ہے کہ ام حمزہ عرب کی
ایک سمجھ دار اور شاعرانہ مزاج کے حامل عورت تھی ۔ اس کو بھی یکے بعد دیگرے
بیٹیاں پیدا ہوئیں تو اس کے خاوند ابو حمزہ نے اس وجہ سے گھر آنا چھوڑ دیا
اس پر اس نے برجستہ اشعار کہے :
مَا لأبي حمزةَ لاَ يأتِينَا غَضْبانَ ألاَّ نَلِدَ البَنِينا
تَاللهِ مَا ذَلكَ فِي أَيْدينا فَنَحنُ كَالأَرْضِ لغارسينا
نُعطِي لَهُم مِثْل الذِي أُعْطِينَا
تفسیر شعراوی تحت آیت الا ساء ما یحکمون
ابو حمزہ کو کیا ہوگیا ہے کہ وہ ہمارے پاس نہیں آتا وہ اس لیے ناراض ہے کہ
ہم بیٹوں کو جنم نہیں دیتیں اللہ کی قسم یہ ہمارے اختیار میں نہیں ہماری
مثال توکاشت کار کے لیے زمین جیسی ہے سو جو بویا جائے گا وہی کاٹا جائے گا
بیٹی کے بارے ہادی عالم صلی اللہ علیہ وسلم کے دو فرامین پڑھ لیجیے ۔
حضرت انس بن مالک رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے
فرمایا مَنْ عَالَ جَارِيَتَيْنِ حَتَّى تَبْلُغَا جَاءَ يَوْمَ
الْقِيَامَةِ أَنَا وَهُوَ هَكَذَا وَضَمَّ إصْبَعَيْهِ.
جس نے دو بیٹیوں کی پرورش کی یہاں تک کہ وہ بالغ ہوگئیں ……پھر ان کا اچھے
گھرانےمیں نکاح کردیا ……تو وہ قیامت کے دن میرے ساتھ ایسے ہوگا جیسے یہ
انگلیاں ۔ پھر آپ نے دونوں ہاتھو ں کی انگلیوں کو آپس میں داخل کر دیا ۔
مصنف ابن ابی شیبہ جز 8 ص 364
مسند احمد میں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کا یہ فرمان ثابت شدہ ہے کہ مَنْ
ابْتُلِيَ مِنْ الْبَنَاتِ بِشَيْءٍ فَأَحْسَنَ إِلَيْهِنَّ كُنَّ لَهُ
سِتْرًا مِنْ النَّارِ
مسند احمد جز 41 ص 120
جس شخص کو بیٹی جیسی اولاد دے کر آزمایا گیا اور اس نے ان کی تعلیم وتربیت
کے ساتھ اچھی پرورش کی تو وہ بیٹی اس کے لیے جہنم کی آگ سے ڈھال بن جائے گی
۔
اللہ تعالی ہم سب کو اسلام کی تعلیمات کے مطابق زندگی گزارنے کی توفیق بخشے
۔
آمین بجاہ النبی الرحمۃ علی البنات والبنین |