لا جواب..........

آج عدالت عالیہ میں ایک اہم کیس کا فیصلہ سنایا جانا تھا۔ کمرہ عدالت سامعین سے کھچا کھچ بھرا ہوا تھا ، بالی مجرموں کے کوٹھڑے میں کھڑا سر کو جھکائے گہری سوچوں میں گم تھااس کی حالت بڑی عجیب و غریب ہوتی جارہی تھی۔ بکھرے ہوئے بال ورم آلود آنکھیں اور مسلے ہوئے کپڑے پیروں میں پرانے جوتے۔ دوسری طرف سے مخالف پارٹی کا وکیل بھی عدالت عالیہ میں کیس کی ڈیلنگ کے لئے پہلے سے موجود تھا۔وکیل استغاثہ کے چہرے پر خاصی مسکراہٹ تھی اور اس مسکراہٹ میں شدت اس وجہ سے تھی کہ اس بالی نے اپنی صفائی میں کوئی وکیل نہیں کیا تھا ۔ جج صاحب عدالت میں داخل ہوئے اور اپنی کرسی پر براجمان ہوگئے۔ معمول کی رسمی کاروائی شروع ہوئی تو چند لمحوں بعد جج صاحب نے یہ الفاظ ادا کئے کہ”یہ عدالت ملزم بالی کو سزا سنانے سے پہلے اپنی صفائی میں کچھ کہنے کا موقع دیتی ہے“۔ بالی نے اپنا جھکا ہو ا سر اٹھایا اور چند لمحے توقف کے بعد جج صاحب کی آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر گویا ہوا۔

” جج صاحب آج سے کوئی بیس سال پہلے کی بات ہے کہ شہر کے مرکزی بازار میں خوب رش تھا ایک نو عمر لڑکا موٹر سائیکل پر چلا آ رہا تھا۔ پریشانی کے آثار اس کے چہرے پر دور سے عیاں ہو رہے تھے۔چوک پر ٹریفک پولیس والے نے اسے روکا اور موٹرسائیکل سائیڈ پر کھڑا کروا دیا۔ اور لڑکے سے کاغذات مانگے ساتھ لائسنس کا بھی اصرار کیا۔دونوں لوازمات اس لڑکے کے پاس موقع پر موجود نہ تھے ، کاغذات گھر پہ تھے اور لائسنس اس کے ابو کے نام ہوا تھا۔ ہیڈ کانسٹیبل نے سپاہی کو حکم دیا کہ لڑکے اور موٹر سائیکل دونوں کو تھانے میں بند کردو۔

اس حکم پر لڑکا گھبرا گیااور ہیڈکانسٹیبل کی منتیں کرنے لگا کہ اسے جانے دیا جائے کیونکہ وہ اپنی بیمار ماں کے لئے دوائی لینے آیا تھا جو اس وقت گھر میں درد سے بے چین ہے۔ لیکن ہیڈکانسٹیبل اس کی کوئی بات سننے پر آمادہ نہ تھا۔ تھوڑی دیر بعد ایک سپاہی اس لڑکے کو سائیڈ پر لے گیا اور اس سے کہا کہ ” او بھولے سائیں ! جا ناں یار صاحب کو ٹھنڈا جوس دو صاحب خوش ہو جائیں گے اور ہاں سو کا ایک لال ٹوٹ بھی اس کی ہتھیلی میں چپکے سے ڈال دینا اور پھر دیکھنا صاحب کیسے خوش ہوتا ہے ،،،جا رے جا ناں صاحب گھور گھور کے دیکھ رہا ہے ۔

لڑکا حیران رہ گیا اس نے یہ سوچا بھی نہ تھا کہ پولیس کا سپاہی اس کو ایسے بھی کہہ سکتا ہے۔ اس لڑکے نے ابھی تک صرف کتابوں میں رشوت لینے اور دینے والے کو جہنمی پڑھا تھا ، لیکن اپنی آنکھوں آج رشوت طلب ہوتی پہلی بار دیکھ رہا تھا ۔ دوسری طرف گھر میں اس کی ماں بیمار پڑی تھی جو اپنے بچے کی راہ تک رہی تھی۔لڑکے نے کچھ دیر سوچا اور پھر ماں کے درد کی کیفیت بھانپ کر جلدی سے وہ دو گلاس جوس کے لے آیا ساتھ ہیڈ کانسٹیبل کو بھی سو کا نوٹ تھما دیا ، اسی دوران سپاہی نے بھی اپنے سگریٹ پانی کے لئے روپے طلب کئے اور ساتھ اسے موٹرسائیکل لے جانے کا اشارہ کیا۔ اس دوران مجھے یہاں کھڑے کھڑے ایک گھنٹہ سے زائد ہو چکا تھا میں نے جلدی سے موٹرسائیکل اسٹارٹ کیا اور سپیڈ سے گھر کی طرف دوڑانا شروع کر دیا۔ جب میں دروازے کے اندر داخل ہوا تو پتا چلا کہ ماں اس دنیا سے کوچ کر گئی ہے اور پڑوسن نے بتایا کہ وہ بار بار آپ کا نام لے کر آوازیں دیتی رہی ۔ ماں کی لاش سامنے دیکھ کر میرے پیروں تلے سے زمیں تک کھسک گئی، دیوار کے سر رکھ کر رونے لگا اور سوچنے لگا کہ ایک گھنٹہ جلدی پہنچ جاتا تو کم از کم اپنی ماں سے جی بھر کر باتیں تو کر لیتا۔

جناب وہ لڑکا میں تھا، جسے سترہ سال کی عمر سے ہی اس معاشرے کے اجارہ داروں نے رشوت دینے اور لینے پر مجبور کردیا۔ ماں کی وفات کے بعد سے سے کر آج تک رشوت میری نس نس میں سرایت کر چکی ہے۔ایک سرکاری افسر کی حیثیت سے بھی رشوت میرا شیوہ بن چکا ہے، جب کبھی میں اس رشوت بارے سوچتا ہوں تو دل کرتا ہے اس سے چھٹکارہ پا لوں لیکن جب ماں کی حالت اور پھر پولیس والوں کا رویہ سامنے آتا ہے تو انسانیت کو بھی بھول جاتا ہوں ، ہر جائز و نا جائز کام کو رشوت کے بل بوتے پر کرتا ہوں، تو پھر کیا آپ توقع رکھیں گے کہ میں محکمانہ کام میں رشوت لینے سے گریز کروں،،،،! میں نے رشوت لے کر کوئی جرم نہیں کیا ، مجرم میں نہیں بلکہ وہ ہیڈ کانسٹیبل ہے اور وہ پورا معاشرہ ہے جو نو عمری میں ہی سے افراد کو برے کاموں کی طرف راغب کرتا ہے۔ ”جج صاحب“ ایک میں ہی نہیں بلکہ میرے جیسے سیکڑوں ہزاروں بلکہ لاکھوں افراد ہوں گے جو اس معاشرہ سے تنگ آکر رشوت یا دوسری برائیوں کے مرتکب ہو رہے ہیں ۔ جب ایک درخت کی جڑیں ہی کھوکھلی کر دی جائیں تو وہ درخت کیا پھلے پھولے گا۔۔۔۔۔۔؟تھوڑی دیر خاموش رہنے کے بعد بالی پھر بولا ” بھلا وہ اینٹ عمارت کو کیا سہارا دے گی جس کو لگایا ہی ٹیڑھا گیا ہو“۔ جج صاحب آپ ہی بتائیں۔۔۔۔! بتائیں نا جج صاحب مجرم کون ہے ؟ میں ، ہیڈ کانسٹیبل یا پھر یہ معاشرہ جو خود اد کی ترویج میں برابر کا قصور وار ہے ( بالی نے جذباتی انداز میں کہا)،۔ اب جو جی میں آئے مجھے سزا سنا دیجئے جج صاحب؟ Thats all your honour. ۔۔۔! اس سوال کا جواب جج کے پاس تو کیا کمرہ عدالت میں موجود کسی فرد کے پاس نہ تھا۔ سب ایک دوسرے کا منہ تکتے لاجواب رہ گئے۔
واجد نواز ڈھول
About the Author: واجد نواز ڈھول Read More Articles by واجد نواز ڈھول : 62 Articles with 102318 views i like those who love humanity.. View More