روشنی دیتارہے گاتاابد خون حسین
شام ہی جس کی نہ ہوگی وہ سحر ہے کربلا
وہ بظاہرسانحہ تھاچند ساعت کا مگر
غورسے دیکھوتو صدیوں کا سفر ہے کربلا
کامیابیوں و کامرانیوں کے سفر پر رواں جواں جذبہ قافلہ حسین رضی اللہ تعالیٰ
عنہ باوقار انداز میں بڑھتے چلے جارہاہے ۔دلیری ،شجاعت و بہادری جسے ورثہ
میں ملی ۔اس جنّتی دولہا ،جنّتی نوجوانوں کے سردار کی آمد کی خبر عام ہوگئی
۔
اہلِ کوفہ کو جب یزیدکی تخت نشینی اورامام حسین رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے
بیعت طلب کئے جانے اورامام رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے مدینہ چھوڑ کرمکے تشریف
لے آنے کی خبرپہنچی، فریب دہی وعیاری کی پرانی روش یاد آئی۔سلیمان بن
صردخزاعی کے مکان پرجمع ہوئے، ہم مشورہ ہوکرامام حسین رضی اللہ تعالیٰ عنہ
کوعرضی لکھی کہ تشریف لائیے اورہم کویزید کے ظلم سے بچائیے۔کثیر تعدادمیں
عرضیاں جمع ہوجانے پرامام رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے تحریر فرمایا کہ ''اپنے
معتمدچچازاد بھائی مسلم بن عقیل رضی اللہ تعالیٰ عنہ کوبھیجتا ہوں ،اگریہ
تمہارامعاملہ ٹھیک دیکھ کراطلاع دیں گے توہم جلدتشریف لائیں گے ۔ ''
حضرت مسلم رضی اللہ تعالیٰ عنہ کوفہ پہنچے ،ادھرکوفیوں نے امام حسین رضی
اللہ تعالیٰ عنہ کے ہاتھ پر بیعت کرنے اور امام رضی اللہ تعالیٰ عنہ کومدد
دینے کا وعدہ کیا ،بلکہ کئی ہزار داخلِ بیعت بھی ہو گئے اورحضرت مسلم رضی
اللہ تعالیٰ عنہ کو یہاں تک باتوں میں لے کر اطمینان دلایا کہ انہوں نے
امام رضی اللہ تعالیٰ عنہ کوتشریف لانے کے متعلق مکتوب بھی لکھے ہیں ۔
ادھر یزید کوکوفیوں نے خبر دی کہ حسین رضی اللّٰہ تعالیٰ عنہ نے حضرت مسلم
رضی اللہ تعالیٰ عنہ کوبھیجا ہے ۔کوفہ کے حاکم نعمان بن بشیر ان کے ساتھ
نرمی کابرتاؤ کرتے ہیں ۔کوفہ کابھلا منظور ہے تواپنی طرح کوئی زبردست ظالم
بھیج ۔
اس نے عبد اللہ ابن زیادکوحاکم بناکرروانہ کیا اورکہاکہ ''مسلم رضی اللہ
تعالیٰ عنہ کوشہید کر ے یا کوفہ سے نکال دے ۔''جب یہ کوفہ پہنچا امامسلم
رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے ہمراہ کئی ہزارکی جماعت پائی ۔امیروں کودھمکانے
پرمقررکیا ۔کسی کودھمکی دی، کسی کولالچ سے توڑا ۔ یہاں تک کہ تھوڑی دیرمیں
امام مسلم رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے پاس صرف تیس آدمی رہ گئے ۔ان سفاکوں نے
امام مسلم کو شہید کرنے کا عزم کررکھا تھا ان کی آنکھوں پر غفلت کے پردے
پڑچکے تھے ۔ شیرِمظلوم حضرت امام مسلم رضی اللہ تعالیٰ عنہ کا تن ان ظالموں
کے پتھروں سے خوناخون تھا۔ ابن اشعث نے اظہار ہمددری کرتے ہوئے کہا کہ''آپ
رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے لئے امان ہے نہ آپ قتل کئے جائیں نہ کوئی گستاخی ہو
۔''
تصور کیجیے وہ کس قدر پریشان کن حالات ہونگے ۔آہ آہ!!!حضرت امام مسلم رضی
اللہ تعالیٰ عنہ رونے لگے ۔ ایک شخص بولا: ''تم جیسا بہادراور روئے ۔
''فرمایا:''اپنے لئے نہیں روتاہوں، رونا حسین اورآلِ حسین رضی اللہ تعالیٰ
عنہم کا ہے کہ وہ تمہارے اطمینان پرآتے ہوں گے اور انہیں اس مکرو بدعہدی کی
خبر نہیں۔''پھر ابن اشعث سے فرمایا:''میں دیکھتا ہوں کہ تم مجھے پناہ دینے
سے عاجز رہو گے اورتمہاری امان کام نہ دے گی ۔ اگرہوسکے تو اتنا کرو کہ
اپنے پاس سے کوئی آدمی امام حسین رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے پاس بھیج کرمیرے
حال کی اطلاع دے دو کہ وہ واپس جائیں اورکوفیوں کے فریب میں نہ آئیں ۔ ''
جب حضرت مسلم رضی اللہ تعالیٰ عنہ ابن زیاد بدنہاد کے پاس لائے گئے ،ابن
اشعث نے کہا: میں انہیں امان دے چکا ہوں ۔وہ خبیث بولا:''تجھے امان دینے سے
کیا تعلق ؟ہم نے تجھے ان کے لانے کو بھیجا تھا نہ کہ امان دینے کو۔'' ابن
اشعث چپ رہے ،مسلم رضی اللہ تعالیٰ عنہ اس شدتِ محنت اور زخموں کی کثرت میں
پیاسے تھے ۔
فرمایا:''مجھے پانی پلا دو ۔'' ابن عمروباہلی بولا:''تم پانی کی بوند تک نہ
چکھنے پاؤ گے ''
امام مسلم رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے فرمایا:''اوسنگ دل! آب حمیم ونارِجحیم
کاتو مستحق ہے۔ '' پھرعمارہ بن عقبہ کو ترس آیا ،ٹھنڈاپانی منگا کرپیش کیا،
امام رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے پینا چاہا ،پیالہ خون سے بھر گیا،تین بارایسا
ہی ہوا،فرمایا: ''خداکوہی منظورنہیں ۔ ''
جب ابن زیاد بدنہاد کے سامنے گئے،اسے سلام نہ کیا وہ بھڑکا اور کہا: تم
ضرورقتل کئے جاؤ گے ۔ فرمایا:'' تو مجھے وصیت کر لینے دے۔'' اس نے اجازت دی
۔ حضرت امام مسلم رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے عمروبن سعدسے فرمایا:'' مجھ میں
تجھ میں قرا بت ہے اور مجھے تجھ سے ایک پوشیدہ حاجت ہے۔اس سنگدل نے کہا میں
سننا نہیں چاہتا۔ابن زیاد بولا '' سن لے کہ یہ تیرے چچا کی اولاد ہیں۔'' وہ
الگ لے گیا،فرمایا: '' کوفہ میں،میں نے سات سودرہم قرض لئے ہیں وہ
اداکردینااوربعدقتل میراجنازہ ابن زیاد سے لیکر دفن کرادینا اورامام حسین
رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے پاس کسی کوبھیج کرمنع کرابھیجنا ۔'' ابن سعد نے
ابنِ زیاد سے یہ سب باتیں بیان کردیں ۔وہ بولا:''کبھی خیانت کرنے والے کو
بھی امانت سپردکی جاتی ہے''یعنی انہوں نے پوشیدہ رکھنے کوفرمایا،تونے ظاہر
کردیں، اپنے مال کاتجھے اختیار ہے جوچاہے کراور حسین رضی اللہ تعالیٰ عنہ
اگرہماراقصد نہ کریں گے ،ہم ان کانہ کریں گے ،ورنہ ہم ان سے باز نہ رہیں گے
،رہامسلم رضی اللہ تعالیٰ عنہ کاجنازہ ۔اس میں ہم تیری سفارش سننے والے
نہیں ،پھر حکم پاکرجلادظالم انہیں بالائے قصرلے گیا ،امام مسلم رضی اللہ
تعالیٰ عنہ برابرتسبیح واستغفارمیں مشغول تھے یہاں تک کہ شہید کئے گئے
اوران کاسرمبارک یزیدکے پاس بھیجا گیا ۔ (الکامل فی التاریخ،دعوۃ اھل
الکوفۃ...)
امام مسلم رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی شہادت کے بعد حالات نے نئی کروٹ لی
۔حسینی قافلہ رواں دواں ہے ۔اس جانب بڑھے چلا جارہا تھا۔جس کی خبر مخبر
صادق حضوراکرم نورمجسم ؐ فرماچکے تھے یعنی کربلا۔آئیے !واقعہ کربلاکے پرسوز
واقعہ کوجاننے سے پہلے ۔ اس سرزمین کے حدوداربعہ پر اک نظر دوڑاتے چلیں۔یاد
رہے !!!جو سر زمین کربلا کے نام سے موسوم ہے۔ وہ دراصل ان قریوں اور زمینی
ٹکڑوں کا مجموعہ ہے۔ جو اس زمانے میں ایک دوسرے سے ملحق تھے۔ عرب میں چھوٹے
چھوٹے ارضی قطعات تھے جو مختلف ناموں سے موسوم ہوا کرتے تھے چنانچہ جب
انہیں خصوصیت کے اعتبار سے دیکھا جاتا اور جب ان کے باہمی قرب پر نظر کی
جاتی تو وہ سب ایک قرار پائے جاتے اور یہی وجہ ہے ایک مقام کا واقعہ دوسرے
مقام سے منسوب کیاجاتا ۔کربلا کے محل وقوع کے تحت جو بہت سے نام مشہور ہیں۔
مثلاً نینوا' غاضریہ' اور شطر فرات وغیرہ انہیں ایک ہی جگہ کے متعدد نام
نہیں سمجھنا چاہئے بلکہ وہ متعدد جگہیں تھی۔ جو باہمی اتصال کی وجہ سے ایک
سمجھی جاسکتی تھی اور اس لئے محل وقوع واقعہ کے اعتبار سے ہر ایک کا نام
تعارف کے ساتھ ذکرکرنا نفع بخش ثابت ہوگا۔
نینوا:
یہ ایک گاؤں تھا جس کے پہلو میں 'غاضریہ' تھا جو قبیلہ بنی اسد کی ایک شاخ
غاضرہ سے نسبت رکھتا تھا ۔یہیں پر ایک قطعہ اراضی کربلا کے نام سے تھی۔ جو
اب موجودہ شہر کربلا کا مشرقی و جنوبی حصہ ہے۔ اسی سے متصل "عقر بابل" نام
کا ایک قریہ تھا جو غاضریات کے شمال ومغرب میں واقع تھا۔ جہاں اب کھنڈرات
کے اثرات پائے جاتے ہیں۔ یہ قریہ دریائے فرات کے کنارے آباد تھا اور ٹیلوں
میں گھرے جانے کی وجہ سے ایک قلعہ کی حیثیت رکھتا تھا۔اسی کے مقابل
"غاضریات" کے دوسری طرف "نواویس" نام کا ایک مقام تھا جو اسلامی فتوحات سے
پہلے ایک قبرستان تھا ۔اس کے وسط میں "حیر" نام کی ایک زمین تھی جو اب
"حائر" کے نام سے معروف ہے۔ اسی زمین پر حضرت امام حسین رضی اللہ تعالیٰ
عنہ کی قبر مبارک ہے "حیر" ایک وسیع میدان تھا۔ جو تین طرف پہلو بہ پہلو
ٹیلوں سے گھرا ہوا تھا۔
فرات:
جسے ہم دریائے فرات کہتے ہیں اس کا براہ راست تعلق کربلا کی زمین سے نہیں
تھا بلکہ وہ "حلہ" اور "میب" وغیرہ سے گزر کر کوفہ کے بیرونی حصہ کو سیراب
کرتا تھا لیکن اس کی ایک شاخ مقام رضوانیہ کے پاس سے الگ ہو کر کربلا کے
شمالی و مشرقی ریگستانوں سے ہوتی ہوئی اس مقام سے گزرتی تھی۔
طفـ:
"طف" کے معنی ہیں نہر کاکنارہ خصوصی طور پر دریائے فرات کے اس کنارے کو
"طف" کہاجاتا ہے جو جنوبی پہلو میں "بصرہ" سے "ہیئت" تک تھا اس مناسبت سے
"علقمہ" کے اس کنارے کو بھی طف کہاجانے لگاجس میں کربلا واقع تھا اس لیے
کربلا کے واقعہ کو واقعہ الطف بھی کہا جاتا ہے اور کربلا کو شطر فرات بھی
کہا جاتا ہے۔
اہل لغات کربلاکی وجہ تسمیہ مختلف بتاتے ہیں (١)کربلا پاؤں کی نرم روی کو
بھی کہتے ہیں ۔یہ زمین چونکہ نرم و کشادہ تھی اس لیے کربلا نام
پایا(٢)کُرْبِلَتِ الحِنْطَۃَ:چونکہ یہ زمین کنکروں سے خالی ہے اس لیے
کربلاکہلائی(٣)کربل:ایک کڑوی جنگلی گھاس کا نام ہے جس اس میدان میں بھی
اُگتی تھی ۔(لغت اردودائرہ معارفہ اسلامیہ )
یہ تھا مختصر تعارف اس سرزمین کا جو اس زمانہ میں گرم ریت کے ٹیلوں،
کھنڈرات لق و دق صحرا اور جنگلو ں کا نمونہ تھی لیکن امام کے خون نے اس
زمین میں وہ تاثیر پیدا کردی اسے خاک شفا بنادیا اسے مرجع خلائق بنا دیا
اور آج دن ورات ہزاروں لاکھوں زائرین اس زمین اقدس کو بوسے دے رہے ہیں۔ |