کربلا کا واقعہ تاریخ کے آئینے میں

یزید کا پیغامِ بیعت اور امامِ حسین رضی اللّٰہ تعالیٰ عنہ کی مدینے سے روانگی
زندگی اپنی رفتار سے گز ر رہی تھی ۔شب روز نانا جانؐ کے دین کی اشاعت و ترویج کاکام جاری و ساری تھا۔یکایک حالات و واقعات بدلنے لگے ۔٢٢رجب المرجب ٥٩ھ؁ کو صحابی ئ رسول و محب اہل بیت اطہار ،کاتب وحی ،خال المسلمین سیدنا حضرت امیر معاویہ بن حضرت ابو سفیان (رضی اللہ تعالیٰ عنہ )کا دمشق میں وصال باکمال ہوا اور یزید تخت نشیں ہوگیا۔تخت حکومت کی خماری میں بدمست اسے یہ خوف لاحق ہوا کہ سب سے پہلے مجھے ان لوگوں کی خبر لینی چاہیے جو مجھے امیر تسلیم کرنے پر رضامند نہیں ۔تاکہ انھیں اپنا مطیع و فرمانبر دار بناسکوں۔

یزید نے مدینہ کے صوبہ دارولید کو خط لکھا کہ حسین اور عبداللہ ا بن عمر اور عبد اللہ ا بن زبیررضی اللہ تعالیٰ عنہم سے بیعت کے لئے کہے اور مہلت نہ دے۔ ابنِ عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ ایک مسجد میں بیٹھنے والے آدمی ہیں اورابنِ زبیر رضی اللہ تعالیٰ عنہ جب تک موقع نہ پائیں گے خاموش رہیں گے ،ہاں حسین رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے بیعت لینا سب سے زیادہ ضروری ہے کہ یہ شیر اور شیر کا بیٹا موقع کا انتظار نہ کریگا ۔

صوبہ دار نے خط پڑھ کر پیامی بھیجا،امام رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے فرمایا:''چلوآتے ہیں''۔ پھر عبداللہ ابن زبیر رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے فرمایا :'' دربار کا وقت نہیں، بے وقت بلانے سے معلوم ہوتا ہے کہ سردار نے وفات پائی ،ہمیں اس لئے بلایا جاتا ہے کہ موت کی خبر مشہور ہونے سے پہلے یزید کی بیعت ہم سے لی جائے ''۔ ابن زبیر رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے عرض کی:'' میرابھی یہی خیال ہے ایسی حالت میں آپ رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی کیا رائے ہے؟'' فرمایا: ''میں اپنے جوان جمع کر کے جاتا ہوں ،ساتھیوں کودروازے پر بٹھا کر اس کے پاس جاؤں گا ۔'' ابن زبیررضی اللہ تعالیٰ عنہ نے کہا:''مجھے اس کی جانب سے اندیشہ ہے۔'' فرمایا:''وہ میرا کچھ نہیں کرسکتا۔ ''پھر اپنے اصحاب کے ساتھ تشریف لے گئے ،ہمراہیوں کو ہدایت کی: ''جب میں بلاؤں یا میری آوازبلند ہوتے سنو ،اندرچلے آنا اورجبتک میں واپس نہ آؤں کہیں ہل کر نہ جانا۔''یہ فرما کر اندر تشریف لے گئے ۔ولید نے خط پڑھ کر سنایا وہی مضمون پایا جو حضور رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے خیال شریف میں آیا تھا ۔ بیعت کا حال سن کر ارشاد ہوا:''مجھ جیسے چھپ کربیعت نہیں کرتے ،سب کو جمع کرو ، بیعت لو، پھر ہم سے کہو '' ولیدنے بنظرِعافیت پسندی عرض کی :''بہتر!تشریف لے جائیے۔'' مروان بولا: ''اگر اس وقت انہیں چھوڑدے گا اور بیعت نہ لے گا توجب تک بہت سی جانوں کا خون نہ ہو جائے، ایساوقت ہاتھ نہ آئے گا ،ابھی روک لے بیعت کر لیں تو خیر ورنہ گردن ماردے۔ ''یہ سن کر امام رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے فرمایا: ''ابن الزرقاء !تُو یا وہ ،کیا مجھے قتل کر سکتا ہے ؟خداکی قسم!تُونے جھوٹ کہا اورپاگل پن کی بات کی ۔'' یہ فرماکر واپس تشریف لائے۔

مروان نے ولیدسے کہا:''خداکی قسم! اب ایساموقع نہ ملے گا ۔'' ولیدبولا: ''مجھے پسند نہیں کہ بیعت نہ کرنے پرحسین رضی اللہ تعالیٰ عنہ کو قتل کروں ،مجھے تمام جہاں کے ملک ومال کے بدلے میں بھی حسین رضی اللہ تعالیٰ عنہ کاقتل منظورنہیں ،میرے نزدیک حسین رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے خون کا جس شخص سے مطالبہ ہو گا۔ وہ قیامت کے دن خدائے قہار کے سامنے ہلکی تول والا ہے۔'' مروان نے منافقانہ طورپرکہہ دیا:'' تُونے ٹھیک کہا۔ ' (الکامل فی التاریخ،ذکر بیعت یزید )

یہ رات امام رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے اپنے جدِکریم علیہ افضل الصلوۃوالتسلیم کے روضہ منورہ میں گزاری کہ فراق کی گھڑیاں آچکی ہیں ۔چلتے وقت تو اپنے جدِکریم صلی اللہ تعالیٰ علیہ واٰلہٖ وسلم کی مقدس گودسے لپٹ لیں پھرخداجانے زندگی میں ایساوقت ملے یا نہ ملے ۔امام رضی اللہ تعالیٰ عنہ آرام میں ہیںکہ خواب دیکھا، حضورپرنور صلی اللہ تعالیٰ علیہ واٰلہٖ وسلم تشریف لائے ہیں اورامام رضی اللہ تعالیٰ عنہ کو کلیجے سے لگا کرفرماتے ہیں:''حسین رضی اللہ تعالیٰ عنہ !!! وقت قریب آتاہے کہ تم پیاسے شہیدکئے جاؤ اور جنت میں شہیدوں کے بڑے درجے ہیں ۔''یہ دیکھ کرآنکھ کھل گئی ،اٹھے اور روضہ مقدس کے سامنے رخصت ہونے کو حاضر ہوئے۔
وہ شمع بارگاہِ خاندانِ مرتضوی
رہے گامثلِ حرم جس کا آستاں مجھ کو
نفس سے جس کے کھلی میری آرزوکی کلی
بنایاجس کی مروت نے نکتہ داں مجھ کو

مسلمانو!حیاتِ دنیاوی میں امام کی یہ حاضری پچھلی حاضری ہے، صلوۃ وسلام عرض کرنے کے بعدسرجھکا کرکھڑے ہوگئے ہیں ،غمِ فراق کلیجے میں چٹکیاں لے رہا ہے ،آنکھوں سے لگاتارآنسوجاری ہیں ،رقت کے جوش نے جسمِ مبارک میں رعشہ پیداکردیاہے ،بے قراریوں نے محشربرپاکررکھا ہے ،دل کہتا ہے سرجائے ،مگریہاں سے قدم نہ اٹھائیے، صبح کے کھٹکے کاتقاضاہے جلدتشریف لے جائیے ،دو قدم جاتے ہیں اورپھر پلٹ آتے ہیں۔وطن کی خاک جب قدموں پر لوٹتی ہے کہ کہاں جاتے ہو؟غربت دامن کھینچتی ہے کیوں دیر لگاتے ہو ؟شوق کی تمنا ہے کہ عمربھرنہ جائیں، مجبوریوں کاتقاضا ہے دم بھرنہ ٹھہرنے پائیں ۔

شعبان کی چوتھی رات کے تین پہرگزرچکے ہیں اورپچھلے پہرکے نرم نرم جھونکے سونے والوں کو تھپک تھپک کر سلارہے ہیں ،ستاروں کے سنہرے رنگ میں کچھ کچھ سپیدی ظاہرہوچلی ہے ،اندھیری رات کی تاریکی اپنادامن سمیٹناچاہتی ہے تمام شہر میں سناٹاہے ،نہ کسی بولنے والے کی آوازکان تک پہنچتی ہے ،نہ کسی چلنے والے کی ٹِک ٹِک بڑھتے قدموں کی آہٹ سنائی دیتی ہے ،شہربھرکے دروازے بند ہیں ،ہاں خاندانِ نبوت کے مکانوں میں اس وقت جاگ ہو رہی ہے اورسامانِ سفر درست کیا جارہا ہے۔ ضرورت کی چیزیں باہرنکالی گئی ہیں ،سواریاں دروازوں پرتیارکھڑی ہیں ،محمل کس گئے ہیں ،پردے کا انتظام ہوچکاہے،ادھرامام رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے بیٹے،بھائی،بھتیجے،گھروالے سوارہورہے ہیں ادھر امام رضی اللہ تعالیٰ عنہ مسجدنبوی علی صاحبہ الصلاۃوالسلام سے باہرتشریف لائے ہیں محرابوں نے سرجھکا کرتسلیم کی،میناروں نے کھڑے ہو کر تعظیم دی،قافلہ سالارکے تشریف لاتے ہی نبی زادوں کاقافلہ روانہ ہو گیاہے ۔

مدینہ میں اہلِ بیت رضی اللہ تعالیٰ عنہم سے حضرت صغریٰ امامِ مظلوم رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی صاحبزادی اور جناب محمد بن حنفیہ مولیٰ علی رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے بیٹے باقی رہ گئے ۔
باغِ جنت کے ہیں بحر مدح خوانِ اہل بیت
تم کو مژدہ نار کااے دشمنانِ اہلبیت
بے ادب گستاخ فرقے کو سنا دے اے حسن
یوں کہاکرتے ہیں سنی داستاں اہلبیت

اللہ اکبر! ایک وہ دن تھاکہ حضورسرورِعالم صلی اللہ تعالیٰ علیہ واٰلہٖ وسلم نے کافروں کی ایذا دہی اورتکلیف رسانی کی وجہ سے مکہ معظمہ سے ہجرت فرمائی۔ مدینہ والوں نے جب یہ خبر سنی ،دلوں میں مسرت آمیزاُمنگوں نے جوش مارا اورآنکھوں میں شادی عید کا نقشہ کھنچ گیا ، آمدآمدکاانتظارلوگوں کوآبادی سے نکال کرپہاڑوں پرلے جاتا، منتظر آنکھیں مکہ کی راہ کو جہاں تک ان کی نظر پہنچتی ،ٹکٹکی باندھ کرتکتیں ،اورمشتاق دل ہرآنے والے کودورسے دیکھ کرچونک پڑتے ،جب آفتاب گرم ہوجاتا، گھروں پر واپس آتے ۔ اسی کیفیت میں کئی دن گزرگئے ،ایک دن اَورروز کی طرح وقت بے وقت ہو گیا تھا اورانتظارکرنے والے حسرتوں کو سمجھاتے ،تمناؤں کوتسکین دیتے پلٹ چکے تھے ،کہ ایک یہودی نے بلندی سے آوازدی''اے راہ دیکھنے والو!پلٹو!تمہارا مقصودبرآیا اورتمہارا مطلب پوراہوا۔''اس صداکے سنتے ہی وہ آنکھیں جن پرابھی حسرت آمیز حیرت چھاگئی تھی ،اشکِ شادی برسا چلیں ،وہ دل جو مایوسی سے مرجھا گئے تھے ،تازگی کے ساتھ جوش مارنے لگے ،بے قرارانہ پیشوائی کوبڑھے ،پروا نہ وارقربان ہوتے آبادی تک لائے ،اب کیا تھاخوشی کی گھڑی آئی ،منہ مانگی مرادپائی، گھرگھر سے نغماتِ شادی کی آوازیں بلند ہوئیں ،پردہ نشین لڑکیاں دف بجاتی، خوشی کے لہجوں میں مبارک بادکے گیت گاتی نکل آئیں :
طَلَعَ الْبَدْرُ عَلَیْنَا مِنْ ثَنِیَّاتِ الْوَدَاعٖ
وَجَبَ الشُّکْرُ عَلَیْنَا مَا دَعَا لِلّٰہِ دَاعٖ
(یعنی وداع کے ٹیلوں سے ہم پر ایک چاند طلوع ہوا جب تک کوئی بلانے والا اللہ تعالیٰ کی طرف بلاتا رہے گا ہم پر اس (چاند)کاشکر واجب ہے۔بنی نجار کی لڑکیاں گلی کوچوں میں اس شعرسے اظہارِ مسرت کرتی ہوئی ظاہر ہوئیں :
نَحْنُ جَوَارٍ مِنْ بَنِی النَّجَّارِ
یَا حَبَّذَا مُحَمَّدٌ مِنْ جَار
( یعنی ہم قبیلہ بنی نجار کی بچیاں ہیں حضرت سیدنا محمد صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم کیسے اچھے پڑوسی ہیں۔)

غرض مسرت کا جوش تھا، درودیوار سے خوشی ٹپکی پڑتی تھی ،ایک آج کا دن ہے کہ امام مظلوم رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے مدینہ چھوٹتا ہے،مدینہ ہی نہیں بلکہ دنیا کی سب راحتیں، تمام آسائشیںایک ایک کر کے رخصت ہوتی اور خیرباد کہتی ہیں۔ یہ سب درکنار، ناز اٹھانے والی ماں کاپڑوس،ماں جائے بھائی کاہمسایہ اور سب سے بڑھ کر امام رضی اللہ تعالیٰ عنہ پر اپنا بیٹا قربان کردینے والے جدِکریم علیہ الصلوۃ والتسلیم کاقرب ،کیا یہ ایسی چیزیں ہیں جن کی طرف سے آسانی کے ساتھ آنکھیں پھیر لی جائیں ؟آسانی سے آنکھیں پھیرنی کیسی!اگرامام رضی اللہ تعالیٰ عنہ کومدینہ نہ چھوڑنے پرقتل کردیا جاتا توقتل ہونا منظورفرماتے اورمدینہ سے پاؤں باہر نہ نکالتے ،مگر اس مجبوری کا کیا علاج کہ امام رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے ناقہ اس میدان کی جانب لئے جاتی ہے، جہاں قسمت نے پردیسیوں کے قتل ہونے ،پیاسوں کے شہیدکئے جانے کا سامان جمع کیاہے۔مدینے کی زمین جس پرآپ رضی اللہ تعالیٰ عنہ گھٹنوں چلے جس نے آپ رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی بچپن کی بہاریں دیکھیں،جس پرآپ رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی جوانی کی کرامتیں ظاہر ہوئیں، اپنے سرپر خاکِ حسرت ڈالتی اورپردیس جانے والے کے پیارے پیارے نازک پاؤں سے لپٹ لپٹ کر زبانِ حال سے عرض کر رہی ہے کہ'' اے فاطمہ رضی اللہ عنہاکی گودکے سنگھار!کلیجے کی ٹیک !زندگی کی بہار!کہاں کا ارادہ فرمادیا؟وہ کون سی سرزمین ہے جسے یہ عزت والے پاؤں جومیری آنکھوں کے تارے ہیں،شرف بخشنے کاقصد فرماتے ہیں ؟

جس قدریہ برکت والاقافلہ نگاہ سے دورہوتاجاتاہے اسی قدرپیچھے رہ جانے والی پہاڑیاں اورمسجدِنبوی علی صاحبہ الصلاۃوالسلام کے منارے سر اٹھااٹھا کردیکھنے کی خواہش زیادہ ظاہر کرتے ہیں،یہاں تک کہ جانے والے نگاہوں سے غائب ہوگئے اورمدینہ کی آبادی پر حسرت بھرا سناٹا چھا گیا ۔اللھم صل علی سیدنا ومولانامحمدوعلی الہ واصحٰبہ اجمعین۔

راستے میں عبد اللہ بن مطیع رضی اللہ تعالیٰ عنہ ملے ،عرض کی:''کہاں کا قصد فرمالیا؟'' فرمایا: ''فی الحال مکہ کا ۔''عرض کی:''کوفے کاعزم نہ فرمایا جائے وہ بڑابے ڈھنگاشہر ہے ،وہاں آپ رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے والدِماجدرضی اللہ تعالیٰ عنہ شہید ہوئے ،آپ رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے بھائی رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے دغاکی گئی ،آپ رضی اللہ تعالیٰ عنہم کے کے سوا کہیں کا ارادہ نہ فرمائیں ،اگرآپ رضی اللہ تعالیٰ عنہ شہیدہوجائیں گے توخداکی قسم!ہماراٹھکانانہ لگارہے گا،ہم سب غلام بنا لئے جائیں گے۔'' بالآخرحضوررضی اللہ تعالیٰ عنہ مکہ پہنچ کرساتویں ذی الحجہ تک امن وامان کے ساتھ قیام فرما رہے ۔(الکامل فی التاریخ،ذکر الخبر عن مراسلۃ الکوفیین...)

سفر ابھی ختم نہیں ہوا۔سعادتوں کے سفر کا ابھی تو آغاز ہے ۔ابھی تو وفاشعاری ،تابعداری کی وہ عظیم مثال قائم کرنی ہے ۔ایثار و قربانی کی عظیم داستانیں رقم کرنی ہیں ۔امام حسین رضی اللہ عنہ کا عزم ،چہرے کی بشاشت کسی تاریخ ساز کارنامے کے وقوع کا پتہ دے رہی تھی ۔کچھ ہونے والاہے ۔بڑھے چلے جارہے تھے ۔بڑھتے ہی چلے جارہے تھے ۔
سلطانِ کربلا کو ہمارا سلام ہو
جاناناں مصطفی کوہماراسلام ہو
کربلا کے جاں نثاروں کو سلام
فاطمہ زھراء کے پیاروں کو سلام
DR ZAHOOR AHMED DANISH
About the Author: DR ZAHOOR AHMED DANISH Read More Articles by DR ZAHOOR AHMED DANISH: 380 Articles with 544031 views i am scholar.serve the humainbeing... View More