گزشتہ سے پیوستہ۔۔۔
گھوڑے نے بد لگام کو آگ میں ڈال دیا
امامِ عالی مقام ، امامِ عرش مقام، امامِ ہُمام ، امامِ تِشنہ کام، حضرتِ
سیِّدُنا امامِ حُسین رضی اللہ تعالیٰ عنہ یومِ عاشورا یعنی بروز جمعةُ
المبارک10 مُحَرَّمُ الحرام 61 ھ کو یزیدیوں پر اِتمامِ حُجّت کرنے کیلئے
جس وَقت میدانِ کربلا میں خُطبہ ارشاد فرما رہے تھے اُس وَقت آپ رضی اللہ
تعالیٰ عنہ کے مظلوم قافِلے کے خَیموں کی حِفاظت کیلئے خندق میںروشن کردہ
آگ کی طرف دیکھ کر ایک بدزَبان یزیدی (مالک بن عُروہ) اس طرح بکواس کرنے
لگا، ” اے حُسین ! ”تم نے وہاں کی آگ سے پہلے یہیں آگ لگا دی!“حضرتِ
سیِّدُنا امامِ عالی مقام رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے فرمایا: کَذَبتَ یا
عَدُوَّاللّٰہ یعنی” اے دشمنِ خدا!تو جھوٹا ہے، کیا تجھے یہ گمان ہے کہ
معاذَاللّٰہعَزَّوَجَلَّ میں دوزخ میں جاﺅں گا!“ اِمامِ عالی مقام رضی اللہ
تعالیٰ عنہ کے قافِلے کے ایک جاںنثار جوان حضرتِ سیِّدُنا مسلم بن عو سجہ
رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے حضرت ِامامِ عالی مقام رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے اُس
منہ پھٹ بد لگام کے منہ پر تیرمارنے کی اجازت طلب کی۔ حضرتِ امامِ عالی
مقام رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے یہ فرما کر اجازت دینے سے انکار کیا کہ ہماری
طرف سے حَملے کا آغاز نہیں ہو نا چاہئے ۔ پھر امامِ تِشنہ کام رضی اللہ
تعالیٰ عنہنے دستِ دُعا بُلند کر کے عرض کی:اے ربِّ قہاّر! عَزَّوَجَلَّ اس
نا بکار کوعذابِ نار سے قبل بھی اس دنیائے نا پائیدار میں آگ کے عذاب میں
مبتَلا فرما۔“ فوراًدُعا مُستجاب( قَبول) ہوئی اور اُس کے گھوڑے کا پاﺅں
زمین کے ایک سوراخ پر پڑا جس سے گھوڑے کو جھٹکا لگا اور بے ادب و گستاخ
یزیدی گھوڑے سے گرا ، اُس کا پاﺅں رَکاب میں اُلجھا ، گھوڑا اُسے گھسیٹتا
ہوادوڑا اور آگ کی خَندق میںڈالدیا۔اور بد نصیب آگ میں جل کر بھسَم ہو گیا۔
امامِ عالی مقام رضی اللہ تعالیٰ عنہنے سجدہ شکر ادا کیا، حمدِ اِلٰہی بجا
لائے اور عرض کی: ” یااللّٰہ عَزَّوَجَلَّ تیرا شکر ہے کہ تُو نے اٰلِ رسول
کے گستاخ کو سزادی۔“ (سوانح کربلا ص۸۸)
اہلبیتِ پاک سے بے باکیاں گستاخیاں
لَعنَةُ اللّٰہِ عَلَیکُم دشمنانِ اہلبیت
سیاہ بچّھو نے ڈنک مارا
گُستاخ و بد لگام یزیدی کا ہاتھوں ہاتھ بھیانک انجام دیکھ کر بھی بجائے
عبرت حاصِل کرنے کے اِس کو ایک اِتِّفاقی اَمر سمجھتے ہوئے ایک بے باک
یزیدی نے بَکا: آپ کو اللّٰہعَزَّوَجَلَّکے رسول صلی اللہ تعالیٰ علیہ
واٰلہ وسلَّمسے کیا نسبت ؟ یہ سُن کر قلبِ امام کو سخت اِیذاءپہنچی اور تڑپ
کر دُعاءمانگی: ” اے ربِّ جبّار عَزَّوَجَلَّ اِس بد گُفتار کو اپنے عذاب
میں گرفتار فرما۔“ دُعا کا اثر ہاتھوں ہاتھ ظاہِر ہوا ، اُس بکواسی کو ایک
دم قضا ئے حاجت کی ضَرورت پیش آئی، فوراً گھوڑے سے اُتر کر ایک طرف کو
بھاگا اور بَرَہنہ ہو کر بیٹھا ، ناگاہ ایک سیاہ بچھُّو نے ڈنک مارانَجاست
آلودہ تڑپتا پھرتا تھا، نہایت ہی ذلّت کے ساتھ اپنے لشکریوں کے سامنے اِ س
بدزَبان کی جان نکلی ۔ مگر ان سنگ دلوں اور بے شرموں کو عبرت نہ ہوئی اِ س
واقِعہ کو بھی ان لوگوں نے اِتّفاقی اَمر سمجھ کر نظر انداز کر دیا۔
( ایضاً ص 89)
علی کے پیارے خاتونِ قِیامت کے جگر پارے
زمیں سے آسماں تک دھوم ہے ان کی سیادت کی
گستاخِ حُسین پیاسا مرا
یزیدی فوج کا ایک سخت دل مُزنی شخص امامِ عالی مَقام رضی اللہ تعالیٰ عنہ
کے سامنے آ کر یوں بکنے لگا:” دیکھو تو سہی دریائے فُرات کیسا موجیں ما
ررہا ہے، خدا کی قسم ! تمہیں اس کا ایک قطرہ بھی نہ ملے گا اور تم یوں ہی
پیاسے ہَلاک ہو جاﺅ گے ۔“ امامِ تِشنہ کام رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے بارگاہ ِ
ربُّ الاَنام عَزَّوَجَلَّ میں عرض کی، اللّٰھُمَّ اَمِتہُ عَطشَانا۔ یعنی
” یااللّٰہعَزَّوَجَلَّاِس کو پیاسامار۔“ اما مِ عالی مقام رضی اللہ تعالیٰ
عنہ کے دُعا مانگتے ہی اُس بے حیا مُزنی کا گھوڑا بِدَک کر دوڑا، مُزنی پکڑ
نے کیلئے اس کے پیچھے بھاگا ، پیاس کا غَلَبہ ہوا، اس شدّت کی پیاس لگی کہ
اَلعَطَش! اَلعَطَش ! یعنی ہائے پیاس !ہائے پیاس! پکارتا تھا مگر پانی جب
اِس کے منہ سے لگاتے تھے تو ایک قطرہ بھی پی نہ سکتا تھایہاں تک کہ اِسی
شدّتِ پیاس میں تڑپ تڑپ کر مر گیا۔ (سوانح کربلا ص90)
ہاں مجھ کورکھو یاد میں حیدر کا پِسر ہوں
میں دِیدہ ہمّت کیلئے نورِ نظر ہوں
اور باغِ نُبُوَّت کے شجر کا میں ثَمَر ہوں
پیاسا ہوں مگر ساقی کوثر کا پِسر ہوں
کرامات اِِتمامِ حُجت کی کڑی تھی
محترم قارئین! دیکھا آپ نے ! امامِ عالی مقام رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی شانِ
عالی کس قَدرعظمت و الی ہے۔ معلوم ہوا کہ خداوَندِغَفُور عَزَّوَجَلَّ کو
امامِ پاک رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی بے ادَبی قَطعاً نا منظور ہے۔ اورآپ رضی
اللہ تعالیٰ عنہ کا بد گو دونوں جہاں میں مردود ومَطرود ہے۔ گستاخانِ حُسین
کو دنیا میں بھی دردناک سزاﺅں کا سامنا ہوااور اس میں یقینا بڑی عبرت ہے
۔صدرُ الافاضِل حضرتِ علّامہ مولیٰنا سیِّد محمد نعیم الدّین مُراد آبادی
علیہ رحمة اللہ الھادی بعض گستاخانِ حسین کے ہاتھوں ہاتھ ہونے والے عبرتناک
بد انجام کے واقِعات نقل کرنے کے بعد تحریرفرماتے ہیں:فرزندِ رسول کو یہ
بات بھی دکھا دینی تھی کہ اس کی مقبولیّتِ بارگاہِ حق پر اور ان کے قُرب
ومَنزِلت پر جیسی کہ نُصُوصِ کثیرہ و احادیثِ شَہِیرہ شاہِد ہیں ایسے ہی ان
کے خَوارِق و کرامات بھی گواہ ہیں۔ اپنے اس فضل کا عملی اظہار بھی اِتمامِ
حجُّت کے سلسلے کی ایک کڑی تھی کہ اگرتم آنکھ رکھتے ہو تو دیکھ لو کہ جو
ایسا مُستجابُ الدَّعوات ۱ ہے اس کے مقابلہ میں آنا خدا (عَزَّوَجَلَّ)سے
جنگ کرنا ہے ۔ اس کا انجام سوچ لو اور بازرہو مگر شرارت کے مُجَسَّمے اس سے
بھی سبق نہ لے سکے اور دنیا ئے نا پائیدار کی حِرص کا بھوت جو ان کے سروں
پر سُوار تھا اس نے انھیں اندھا بنا دیا۔ (سوانح کربلا ص 90)
فیضان سنت کا فیضان ۔۔۔۔جاری ہے۔۔۔
وہ آج تک نوازتا ہی چلا جارہا ہے اپنے لطف وکرم سے مجھے
بس ایک بار کہا تھا میں نے یا اللہ مجھ پر رحم کر مصطفی کے واسطے |