قصاب کو پھانسی دینے میں جس قدر
سرعت کا مظاہرہ کیا گیا اور جس طرح رازداری برتی گئی ہے اس سے تمام تجزیہ
نگار،بال کی کھال نکالنے والے صحافی،چھوٹے چھوٹے موضوعات پر بحث کی میز
سجانے والے اینکراور یہاں تک کہ دہشت گردی امور کے ماہرین بھی حیران
ہیں۔انہیں یہ سوال کھائے جارہا ہے آخر حکومت نے پھانسی دینے میں اس قدر جلد
کیوں کی، کیا وجہ تھی کہ ڈنکے کی چوٹ پر پھانسی نہ دیکر خفیہ اور رازدارانہ
انداز میں پھانسی دی گئی۔ ہندوستان میں ہندو قوم پرستوں کی اس خواہش کو سخت
دھچکا لگا ہے جو یہ آرزو رکھتے تھے کہ قصاب کو سر عام پھانسی دی جائے۔
حکومت نے ان لوگوں کی خواہش کا احترام نہ کرتے ہوئے اتنی راداری کے ساتھ
آخر پھانسی دی اور اس کا نام ’آپریشن ایکس‘ رکھا۔ اس میں کہیں کسی کو کوئی
ذرہ برابر یہ وہم تک نہیں تھا کہ قصاب کو پھانسی نہیں ہوگی۔ یہاں کے لوگ
دھوم سے دھام سے پھانسی کی توقع کر رہے تھے تاکہ پاکستان کو ایک واضح پیغام
دیا جاسکے۔ کیوں کہ پاکستان کے معاملے میں یہاں منفی سوچ زیادہ پائی جاتی
ہے اور پوری دنیا کی غلطیوں کو ہندوستانی عوام معاف کرسکتے ہیں لیکن
پاکستان کی ذرا سی چوک کو نہیں۔ کہا جاتا ہے کہ کیوں کہ قصاب کا تعلق
پاکستان سے تھا اس لئے ا س میں کسی طرح گنجائش ہی کہاں نکلتی تھی۔ اس کے
علاوہ قصاب کا جرم ہی اتنا بڑا تھا کہ اس میں معاف کرنے کا کوئی سوال ہی
نہیں تھا۔ اس لئے سنگین جرائم کرنے والوں کو پھانسی کی سزا تو ہونی ہی
چاہئے۔ اگرچہ انسانی حقوق کے علمبردار پھانسی کی سزا کے خلاف ہیں کیوں کہ
اب تک جتنے لوگوں کو پھانسی دی گئی ہے ان سب کا تعلق غریب اور بے سہارا
افراد سے رہا ہے۔ آج تک نہ تو کسی سیاست داں اور نہ کسی بڑے افراد کو
پھانسی دی گئی ہے۔ایسا تو نہیں ہے کہ بڑے افراد جرم نہیں کرتے۔ جرائم کو
دیکھا جائے تو پھانسی کی سزا پانے والے ان چھوٹے لوگوں کے جرائم کہیں نہیں
ٹکتے جس طرح بڑے بڑے لوگوں نے جرائم کئے ہیں لیکن پیسہ اور اثر و رسوخ کی
بنا پر وہ آسانی سے چھوٹ جاتے ہیں۔بیچارہ غریب پھانسی کے پھندے پر آسانی سے
چڑھ جاتا ہے۔ انسانی حقوق کے علمبرداروں کی یہی دلیل ہے کہ پھانسی کی سزا
صرف غریبوں کو دی جاتی ہے نہ کہ امیروں کو۔ اس لئے اس سزا کو ختم کیا جانا
چاہئے۔ بہر حال یہ الگ بحث ہے لیکن سردست بات ہورہی ہے قصاب کی پھانسی کی۔
قصاب کی پھانسی سے تجزیہ نگار ایک اور وجہ سے حیران ہیں پھانسی میں ان کا
تیرہواں نمبر تھا۔یعنی قصاب سے پہلے ۱۲ لوگوں کو پہلے پھانسی دی جانی تھی
لیکن ان ۱۲ مجرم کو ایک طرف کرکے آناً فاناً پھانسی دی گئی جس کی وجہ سے
لوگ طرح طرح کی قیاس آرائیاں کررہے ہیں۔ ویسے یہاں کے لوگوں کو پھانسی کی
سزا میں صرف دو لوگوں سے مطلب تھا اور ہے ایک اجمل عامر قصاب اور دوسرا
افضل گرو۔ اس کے علاوہ کسی اورسے کوئی مطلب نہیں۔باقی مجرمین سے کوئی مطلب
کیوں نہیں ہے یہاںیہ بتانے کی ضرورت نہیں۔
اجمل عامر قصاب کو ۲۶ نومبر کو ممبئی پر دہشت گردانہ الزام حملہ کے جرم میں
پھانسی سزا سنائی گئی تھی۔ پہلے ٹرائل کورٹ نے سزا سنائی ، اس کے بعد بمبئی
ہائی کورٹ نے اور پھر سپریم کورٹ نے بھی اس سزا پر مہر لگادی۔ اس کے بعد
صدر جمہوریہ سے رحم کی اپیل ٹھکرائے جانے کے بعد پھانسی دیا جانا تقریباً
طے تھا۔ اجمل قصاب کو پونے کی یروڈا جیل میں ۲۱ نومبر کو بدھ کی صبح ساڑھے
سات بجے پھانسی دی گئی۔ پاکستانی حکومت نے اجمل قصاب کی لاش کا مطالبہ نہیں
کیا گیا تھا اس لئے ان کی لاش کو پونے کی یروڈا جیل کے احاطے میں ہی
نامعلوم مقام پردفن کر دیا گیا ہے۔ اجمل قصاب کی رحم کی درخواست کی فائل ۱۶
اکتوبر کو صدر جمہوریہ پرنب مکھرجی کے پاس بھیج دی تھی اور صدر نے قصاب کی
رحم کی درخواست کو مسترد کرکے فائل پانچ نومبر کو وزارتِ داخلہ کو بھیج دی
تھی اور وزیر داخلہ سشیل کمار شنڈے نے اس فائل پر سات نومبر کو دستخط کرنے
کے بعد اسے آٹھ نومبر کو مہاراشٹر حکومت کے پاس بھیج دی تھی۔وزیر داخلہ کے
مطابق آٹھ نومبر کو یہ فیصلہ کرلیا گیا کہ تھا کہ ۲۱ نومبر کو قصاب کو
پھانسی دی جائے گی۔ 26 نومبر2008 میں قصاب اپنے دس ساتھیوں کے ساتھ سمندر
کے راستے ممبئی آیا تھا۔اپنے حملے کے دوران انہوں نے شیواجی ریلوے سٹیشن،
تاج ہوٹل اور ایک یہودی ثقافتی مرکز سمیت شہر کے کئی علاقوں کو نشانہ بنایا
تھا، جس میں 166 افراد مارے گئے تھے۔ قصاب زندہ بچ جانے والا واحد دہشت گرد
تھا۔ ممبئی کی ذیلی عدالت نے قصاب کو مجرمانہ سازش، ملک کے خلاف جنگ چھیڑنے،
اقدام قتل اور انسداد دہشت گردی قانون کے تحت مختلف معاملات کا مجرم قرار
دیا تھا۔ انہیں اسلحہ ایکٹ، دھماکہ خیز مادہ ایکٹ، پاسپورٹ ایکٹ، غیر ملکی
ایکٹ اور ریلوے ایکٹ کے دیگر 19 معاملات میں قصوروار پایا گیا تھا۔بمبئی
ہائی کورٹ نے گزشتہ برس اپنے فیصلے میں کہا تھا کہ یہ معاملہ اس سنگین
نوعیت کے جرم کے زمرے میں آتا ہے جس میں موت کی سزا دی جاتی ہے۔ قصاب نے
بمبئی ہائی کورٹ کے فیصلے کو سپریم کورٹ میں چیلنج کیا تھا۔ جسٹس آفتاب
عالم اور اور جسٹس سی کے پرساد پر مشتمل دو ججون کی ایک بینچ اس معاملے کی
سماعت کے بعد ٹرائل کورٹ اور ہائی کورٹ کے فیصلے کو برقرار رکھا تھا۔اس کیس
میں دو ہندوستانی شہریوں فہیم احمد اور صباح الدین کو سابقہ عدالتوں کے
فیصلہ کو برقرار رکھتے ہوئے سپریم کورٹ نے بھی ان دونوں کو بری کردیا
تھا۔سپریم کورٹ کی دو رکنی بینچ نے فیصلہ سناتے ہوئے کہا تھا ’ہمارے پاس
سزائے موت دینے کے علاوہ کوئی اور آپشن نہیں ہے۔ قصاب کا سب سے پہلا اور سب
سے اہم جرم یہ ہے کہ اس نے ہندوستان کی حکومت کے خلاف جنگ کی۔اس کے علاوہ
عدالت عظمیٰ نے اجمل قصاب کے اس دعوے کو بھی مسترد کردیا تھا کہ ممبئی میں
ان کے خلاف مقدمے کی منصفانہ سماعت نہیں ہوئی تھی کیونکہ انہیں اپنی صفائی
پیش کرنے کے لیے وکیل کی خدمات فراہم نہیں کی گئی تھیں۔ بینچ نے کہا کہ
مقدمے کی سماعت کے ابتدائی مراحل میں ذیلی عدالت نے قصاب کو کئی مرتبہ وکیل
کی خدمات فراہم کرنے کی پیشکش کی تھی جسے انہوں نے نامنظور کر دیا تھا۔ اس
کے واحد متبادل صدر جمہوریہ سے رحم کی اپیل تھی جو کہ نامنظور ہوگئی تھی۔
اجمل قصاب کو پھانسی دینے کے بعد ہندوستان نے راحت کی سانس لی ہے۔جہاں
مرکزی حکومت نے پھانسی دیکر عوام کے دباؤ کو کم کیا ہے وہیں اس نے حزب
اختلاف کے ہاتھوں سے دھار دار ہتھیار بھی چھین لیا ہے۔ جس کو لے کر بی جے
پی، آرایس ایس اور اس قبیل کی دوسری جماعتیں اور تنظیمیں حکومت اور گاندھی
خاندان پر رکیک حملے کرتی تھیں۔ جیل میں بند کرنل پروہت اور پرگیا سنگھ
ٹھاکر، سوامی اسیمانند اور دیگر ہندو دہشت گردوں کے لئے نرم گوشہ رکھنے
والی بی جے پی اور اس کے لیڈران قصاب کو بریانی پیش کئے جانے پرکانگریس پر
حملہ کرتے تھے۔ معلوم نہیں کہ قصاب کو جیل میں کبھی بریانی دی گئی یا نہیں
لیکن پورے ملک میں قصاب کی بریانی کا شورو غوغا ضرور ہوا اور پانی پی پی کر
کوسا گیا۔ حیرانی اس بات کی ہوتی ہے کہ ہندوستان کے کٹر ہندو جماعتوں کی
خواہش تھی کہ بغیر کسی عدالتی کارروائی کے قصاب یا دہشت گردی کے الزام میں
قید مسلم نوجوانوں کو سرعام پھانسی دی جائے۔ جاہلوں اور عام لوگوں کو جانے
دیجئے پڑھے لکھے اور وکالت کے پیشہ سے وابستہ بیشتر ہندو وکلائ کا خیال تھا
اور ہے کہ ان دہشت گردوں ( مسلم نوجوانوں کو) اناج کھلانے سے کیا فائدہ
انہیں فوراً (بغیر کسی عدالتی کارروائی کے) پھانسی دے دی جانی چاہئے۔ یہی
وجہ ہے ہم آئے دن اخبارات میں یہ خبریں پڑھتے رہتے ہیں کہ فلاں جگہ کے
وکیلوں یا بار کونسل نے دہشت گردی کے الزام میں قید مسلم نوجوانوں کا کیس
لڑنے سے انکار کردیا اگر کسی وکیل نے ہمت کی تو اس کی پٹائی کردی گئی۔ اس
طرح کے حالات کے بی جے پی حکومت والی ریاستوں میں عام ہیں۔ محمد عامر خاں
جنہیں ۱۹ معاملات میں گرفتار کیا گیا تھا غازی آباد میں وکیلوں نے مقدمہ
لڑنے سے انکار کردیا تھا اس کے بعد دہلی کے پنچولی صاحب نے مقدمہ کی پیروی
کی تھی اور وہ آج سارے مقدمات میں بری ہوگیا ہے۔سارے مقدمات میں پولیس کی
کارکردگی پر سوالیہ نشان اٹھاتے ہوئے ان پولیس اہلکاروں کے خلاف کارروائی
کرنے کی سفارش بھی کی گئی ہے۔ ہندوستان میں مسلم نوجوانوں کو دہشت گردی کے
الزام میں گرفتاری پر پہلی ہی نظر انہیں دہشت گرد تسلیم کرلیا جاتا ہے۔ یہ
سوچ اور رویہ تمام شعبوں میں پایا جاتا ہے اور جب تک اس میں تبدیلی نہیں
آتی مسلمانوں کے ساتھ انصاف مشکل امر ہے۔
ممبئی میں ۲۶ نومبر ۲۰۰۸ میں اس وقت حملہ ہوا تھا جب کرنل پروہت، پرتگیا
سنگھ ٹھاکر اور دیگر ہندو دہشت گرد کی گرفتاری عمل میں آئی تھی۔ ہندو
جماعتیں ممبئی اے ٹی ایس کے سربراہ ہیمنت کرکرے کے خون کی پیاسی تھیں۔ مسٹر
اڈوانی سمیت بھارتیہ جنتا پارٹی ، شیو سینا اور دیگر کٹر ہندو جماعت کے
رہنما ہیمنت کرکرے کو ہٹانے کیلئے جدوجہد کرہی تھی۔ ہندوستان میں پہلی بار
ہندو دہشت گردوں کے نیٹ ورک کو آنجہانی ہیمنت کرکرے نے نہ صرف اجاگر کیا
تھا بلکہ فوج اور دیگر شعبوں میں اپنی جڑیں پیوست کرنے والے ان عناصر کی
نشاندہی بھی کی تھی۔ مالیگاؤں بم دھماکے کی تحقیقات کے دوران انہیں پتہ چلا
مسلم نوجوانوں کے نام پر دہشت گردانہ کارروائی کوئی اور انجا م دے رہا ہے۔
ان کا خیال تھا کہ دہشت گردی کا کوئی مذہب نہیں ہوتا اس لئے کوئی بھی اس کی
طرح گھناؤنی حرکت کو انجام دے سکتا ہے۔ اسی سوچ نے انہیں سچ کی طرف رہنمائی
کی اور جو نام سامنے آیا اس سے پورے ہندوستان میں سناٹا چھا گیا۔ ان میں
ریٹائرڈ میجر رمیش اپادھیائے، کرنل پروہت، سادھوی پرگیا اور دیانند پانڈے
سمیت ۱۱ /افراد کو گرفتار کیا گیا تھا۔ ان لوگوں کی گرفتاری کیا عمل میں
آئی دائیں بازو کی جماعتیں ان کے خون کی پیاسی ہوگئی تھیں۔ قتل کرنے کی
دھمکیاں دی جانے لگیں۔ ممبئی حملہ کا اگر سب سے بڑا نقصان کہا جاسکتا ہے تو
وہ ہیمنت کرکرے کے قتل کی صورت میں ہوا تھا۔ ان کے قتل سے ممبئی پر حملہ
دہشت گردانہ حملہ کا مقصد بھی سمجھ میں آتا ہے۔ اس میں کوئی شک نہیں ممبئی
پر دہشت گردانہ حملہ دوسروں نے انجام دیا لیکن سوال یہ ہے کہ ان کو یہاں
پناہ کس نے فراہم کی۔ کئی سوال ایسے ہیں جس کا جواب دیا جانا ضروری ہے ورنہ
ممبئی پر دہشت گردانہ حملہ بھی امریکہ کے نائن الیون حملہ کی طرح اسرار و
رموز کے گہری کھائی چلا جائے گا۔ سب سے بڑا سوال یہ ہے کہ بغیر کسی مقامی
مدد کے جس کی رسائی حکومت کے تمام شعبوں میں ہو، اتنا بڑا حملہ انجام نہیں
دیا جاسکتا۔ صرف دو دو کی ٹولی میں پورے ہوٹل، نریمن ہاو ¿س اور اس طرح کے
دیگر مقامات کو کنٹرول نہیں کیا جاسکتا۔ یہ بھی ناممکنات میں سے ہے کہ یہ
دہشت گرد اتنے بڑے ہتھیار لے کر ممبئی کے علاقے میں گھومتے رہے اور کسی نے
انہیں دیکھا اور اس وقت دیکھا جب فائرنگ ہونے لگی اور اتلاف جان ہونے لگا۔
ان دہشت گردوں کی مدد ایسے افراد نے کی ہے جس کا ممبئی پر دبدبہ ہو۔ جس پر
کسی کو شک کرنے کی ہمت نہ کرسکے۔ اس کے علاوہ یہ دہشت گردوں کو ہیمنت کرکرے
کو قتل کرکے کیا مقصد حاصل کرنا چاہتے تھے۔ کیوں کہ انہوں نے ایک طرح سے
ہندو دہشت گردوں کو گرفتار کرکے مسلمانوں کی مدد ہی کی تھی تو مسلم دہشت
گرد انہیں کیوں مارنا چاہیں گے۔ تو ممبئی پر دہشت گردانہ حملہ کرنے والے
کرائے کے قاتل تھے؟ اگر ایسا ہے تو کس نے سپاری دی تھی۔ ان تمام جہات پر
تحقیقات ضروری ہے۔ اس کے علاوہ قصاب کی پھانسی سے پاکستانی جیل میں
بندسربجیت کی رہائی میں اب بہت مشکل ہوگئی ہے۔ حکومت ہند نے دباو ڈالنے
کااخلاقی حق کھو دیا ہے۔
ممبئی پر دہشت گردانہ حملے کے خلاف انصاف کا عمل اس وقت پورا نہیں ہوگا جب
تک اس کے اصل خاطی کو کیفردار تک نہ پہنچایا خواہ وہ ہندوستان میں ہو یا
بیرون ملک میں پوشیدہ ہو۔ قصاب کو پھانسی دیکر حکومت نے ایک طرح اس عمل کو
روک دیا کیوں کہ واحد زندہ دہشت گردتھا جو تمام باتیں بتاسکتا تھا،سازشوں
کی کڑیوں کو جوڑ سکتا تھا۔ پاکستانی تحقیقاتی کمیشن قصاب سے پوچھ گچھ کرنا
چاہتی تھی تاکہ اصل حقائق سامنے آسکیں جو اب ممکن نہیں ہوسکے گا۔ ممبئی پر
دہشت گردانہ حملوں میں جاں بحق ہونے والے عام لوگ ،پولیس افسران، اے ٹی ایس
کے اہلکار اور خاص طور پر ہیمنت کرکرے کے لئے بہترین خراج عقیدت یہی ہوگا
کہ اس کے اصل سازش رچنے والے کو سامنے لایا جائے۔ خصوصاً ان چہروں کو بے
نقاب کیا جائے جس نے ہیمنت کرکرے کے جیسے ایماندار، جانباز اور بہادر افسر
کو قتل کرنے کے لئے پریشان تھا۔ اس کے لئے اتنی بڑی سازش رچی کہ دونوں
ممالک ہندوستان اور پاکستان جنگ کے دہانے پر پہنچ گئے تھے۔ ہیمنت کرکرے کے
قتل سے کس کو سب سے زیادہ فائدہ ہونے والا تھا اور کون ان کی جان کے پیچھے
تھا، ان سب پرسے پردہ دہ اٹھنا ضروری ہے۔ |