دولت آبادملک میں ایک بادشاہ
حکومت کرتا تھا ۔ وہ بڑا رحم دل اوررعایا پرور تھا۔ جو بھی اس کی پاس آتا
وہ اسے ضرور کچھ نہ کچھ دے کر رخصت کرتا۔ اگر کسی کو کوئی پریشانی ہوتی تو
راجا خود اُس کو حل کرنے کی کوشش کرتا۔ غریبوں اور مجبوروں کا بہت خیال
رکھتا ۔ یہی وجہ ہے کہ دولت آبادملک کے لوگ اپنے بادشاہ سے بہت خوش تھے
اور اس سے بے انتہا پیار کرتے تھے۔وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ بادشاہ کے سر میں
غرورسمانے لگا۔ اور وہ اپنی جھوٹی تعریف سُن کر خوش ہونے لگا۔
جب یہ خبر عام ہوئی تو ایک دن بادشاہ کے محل میں ایک لالچی اور خوشا مدی
فقیر آیا ۔ اُس فقیر نے بادشاہ کے محل میں جاکربادشاہ کی جھوٹی تعریفیں
کرتے ہوئے صدا لگانا شروع کی کہ: ’’ ہمارا بادشاہ بڑا سخی ہے جو کوئی نہ دے
پائے وہ راجا دے ۔‘‘ بادشاہ کو یہ بات سُن کر بڑی خوشی ہوئی ۔ اس نے فقیر
کو ایک پپیتا انعام میں دے کر اسے رخصت کیا ۔ فقیر نے پپیتا لیا اور منہ
لٹکائے واپس ہوگیا اسے اِس انعام سے ذرا بھی خوشی نہیں ہوئی۔
پہلے فقیر کے جاتے ہی دوسرا فقیر محل میں داخل ہوا اور اُس نے حق بات کی
صدا لگانا شروع کی کہ :’’ جو اللہ دے وہ کوئی نہ دے پائے نہ ہی ہمارے
بادشاہ ۔‘‘ فقیر کی یہ بات بادشاہ کو ناگوار گذری ۔ لیکن چوں کہ وہ عام
رعایا میں سخی اور رحم دل مشہور تھا اس لیے محل میں آئے ہوئے فقیر کو خالی
ہاتھ واپس لوٹانا اس نے مناسب نہ جاناسواُس نے اس فقیر کو دو سونے کے سکّے
دیے اور محل سے رخصت کردیا ۔ دوسرا فقیر دو سونے کے سکّے پاکر بہت خوش ہوا
۔
اتفاق سے دونوں فقیر وں کی بازار میں ملاقات ہوگئی ۔ پہلا فقیر بہت زیادہ
دکھی نظر آرہا تھا۔ دوسرے فقیر نے اُس سے پوچھا : ’’دوست! تم اتنے دکھی
کیوں دکھائی دے رہے ہو۔ ‘‘
پہلے فقیر نے جواب دیا :’’ مَیں بادشاہ کے محل میں گیا تھا اور اس کی تعریف
بھی کی اور اس نے انعام میں مجھے صرف ایک پپیتا دیا ہے جو میرے کسی کام کا
نہیں۔‘‘
دوسرے فقیر نے کہا:’’ مَیں بھی بادشاہ کے محل میں گیا تھا اور مَیں نے ایک
صحیح اور سچی بات کہی تھی ، وہ سُن کر بادشاہ نے مجھے دو سونے کے سکّے ا
نعام دیے جنہیں پاکر مجھے بہت خوشی ہوئی۔ ‘‘
پہلے فقیر نے دوسرے فقیر سے کہا :’’ کیا تمہیں پپیتا پسند ہے؟ ‘‘ دوسرا
فقیر جسے دولت سے محبت نہیں تھی اور نہ ہی وہ لالچی تھا کہنے لگا کہ :’’
ہاں! مجھے پپیتا پسند ہے۔‘‘ پہلا فقیر یہ سُن کر کہتا ہے :’’ تو تم یہ
پپیتا خرید لو۔‘‘ دوسر افقیر دونوں سونے کے سکّوں کے بدلے میں وہ پپیتا
خرید لیتا ہے۔ پہلا فقیر سونے کا سکّہ پاکر بہت خوش ہوتا ہے اور وہاں سے
چلا جاتا ہے۔
پہلا فقیر جب اپنے گھر لوٹتا ہے اور پپیتا کاٹتا ہے تو اس میں سے ہیرے
جواہرات نکلتے ہیں وہ سمجھ جاتا ہے کہ مجھے بادشاہ کے سامنے حق بات کہنے کا
انعام مِلا ہے۔
جب کہ دوسرالالچی اور خوشامدی فقیر چند ہی دن میں پورے پیسے اڑا کر دوبارہ
بادشاہ کے محل میں بھیک مانگنے جاتا ہے ۔ جیسے ہی بادشاہ اُس کو دیکھتا ہے
تو پوچھتا ہے کہ :’’ اے فقیر مَیں نے تو تیری بات سُن کر خوشی میں تجھے
ہیرے جواہرات سے بھرا ہوا پپیتا انعام میں دیا تھا ، کیا ہوا کہ تُو پھر سے
بھیک مانگنے لگا؟‘‘
پہلے فقیر نے دوسرے فقیر سے ملنے اور دوسکّوں کے بدلے میں پپیتا بیچنے کی
بات بتائی۔ یہ سُن کربادشاہ کو بڑا تعجب ہوا اس نے دوسرے فقیر کو محل میں
طلب کیا اور پوچھا کہ :’’ پپیتا کاٹنے پر اُس میں سے کیا نکلا؟‘‘ دوسرے
فقیر نے سب کچھ سچ سچ بتلا دیا اور یہ بھی کہا کہ :’’ مَیں نے یہ پپیتا اس
لیے پہلے فقیر کو واپس نہیں کیا کہ مَیں نے سن رکھا تھا بادشاہوں کے سامنے
حق بات کہنے پر اللہ تعالیٰ اپنے بندوں کو انعام سے نوازتا ہے ۔ اس لیے
مَیں سمجھ گیا کہ پپیتے کے ذریعے مجھ کو اللہ تعالیٰ نے انعام عطا کیا ہے۔
‘‘ یہ سُن کربادشاہ کی آنکھ کھل گئی اور وہ دوبارہ پہلے جیسا نرم دل اور
تواضع والا بادشاہ بن گیا اور لالچی فقیر کو اس نے جِلا وطن کردیا۔ |