خیبر پختونخواہ تاریخ و ثقافت کانفرنس اور بابو جی کے ارشادات

نشہ کسی بھی چیز کا ہو برا ہوتا ہے کیونکہ اس کی وجہ سے بہت سارے لوگ اپنی اوقات بھول جاتے ہیں جب نشہ کرسی اقتدار پیسے اور طاقت کا ہو تو ایسے ایسے کام انسان سے سرزد ہو جاتے ہیں جو اس کے خواب و خیال میں نہیں ہوتے اور انسان ساری عمر اپنی کئے گئے کاموں پر افسوس کرتا رہتا ہے -ہمارے برادری میں تو کچھ لوگ" پینے پلانے" کا نشہ کرتے ہیں اور اب یہ ایک سٹیٹس سمبل بن گیا ہے کہ ہم "پیتے " ہیں پینے والے نشہ کا صرف ایک ہی فائدہ ہے کہ انسان "سچ بولنے"لگ جاتا ہے جبکہ اس کے مقابلے میں "اقتدار اور کرسی"کا نشہ ایسا "نشہ" ہے کہ بہت سارے لوگ اپنی اوقات بھول جاتے ہیں اور پھر"بکواس"شروع کردیتے ہیں-اس کا تجربہ گذشتہ دنوں پشاور یونیورسٹی میں صوبے کی تاریخ و ثقافت کے حوالے سے تین روزہ عالمی کانفرنس کے موقع پر ہوا -پروگرام تو بہت اچھے وقت میں اور صوبے کی بہتری کیلئے کیا گیا تھا لیکن آغاز ایساہوا کہ پھر دوسرے دن جانے کی ہمت نہیں رہی- سیکورٹی کے نام پر اس دن پشاور یونیورسٹی میں جو ہورہا تھا اسے دیکھ کر بہت افسوس ہوا-ایریا سٹڈی سنٹر کی طالبات کو جانے کی اجازت نہیں دی جارہی تھی کیونکہ ہمارے ہاں وفاق کی نمائندگی کرنے والے " بابوجی"نے آنا تھا باقاعدہ تلاشی کے بعد طالبات کو جانے دیا گیا تاہم اس دوران " خفیہ والوں"کا رویہ ان طالبات اور یہاں پر آنیوالے لوگوں کیساتھ ایسا تھا جیسے ان لوگوں کیلئے "خفیہ والوں"کے گھر سے کھانا آتا ہو موجودہ حالات میں سیکورٹی کے نام پر تلاشی ہمیں بھی قبول ہے لیکن وہ پشتو مثل کے بقول " آئیے جناب کھانا کھائیے"اور "اوئے آکر زہر کھالو"اگر "خفیہ والے" سیکورٹی لیتے ہوئے مہمانوں اور خصوصا طالبات کا احترام کریں تو یہ کسی کو بھی برا نہیں لگتا-لیکن وہاں پرانہیں دیکھ کر افسوس ہوا کہ ہمارے ہاں "خفیہ والے "کتنے " تعلیم یاختہ" ہیں-

صوبے کی تاریخ و ثقافت پر ہونیوالی تین روزہ کانفرنس کا مقصد دہشت گردی کے حوالے سے بدنام صوبے کی تاریخ و ثقافت سے آگاہ کرنا تھا جس میں پانچ ممالک سے مندوبین شریک ہوئے اور انہوں نے صوبے کے آٹھ مختلف شعبوںپراپنی ریسرچ/مقالے پیش کئے تاہم سچی بات ہے کہ میرے لئے تو اہم بات صوبے کی موجودہ حالات تھے کیونکہ ہمارا آج آنیوالے کل کی تاریخ ہے اور ہمیں اندازہ ہے کہ ہم اپنی آج کیساتھ کیا کررہے ہیں پروگرام کیلئے وقت ساڑھے نو بجے دیا گیا تھا تاہم ہمارے "بابو جی" چونکہ لیٹ اٹھتے ہیں اس لئے ان کی آمد کی وجہ سے نہ صرف پاکستان بھر سے آنیوالے مندوبین ذہنی تنائو کا شکار تھے بلکہ پانچ مختلف ممالک سے آنیوالے غیر ملکی بھی حیران تھے کہ دنیا بھر کو صوبے کی تاریخ سے آگاہ کرنے والے کتنے "سست رو" لوگ ہیں کیونکہ پروگرام "بابو جی "کی لیٹ آنے کی وجہ سے افتتاحی پروگرام پونے گیارہ بجے شروع ہوا - صوبے میں بننے والی ایک بڑی یونیورسٹی کے سربراہ نے بڑی اچھی بات کی کہ صوبے کے مختلف شعبوں میں نمایاں کارکردگی کا مظاہرہ کرنے والے رہنمائوں کو نصاب میں ڈالاگیا ہے جو کہ اچھی بات ہے کیونکہ مجھ سمیت صوبے کی ہر ایک فرد کو "اپنے نامور" افراد کے بارے میں معلومات کا موقع ملے ابھی تو صرف ہماری نصابی کتب میں ہم نے "رحمان بابا اور "خوشحال بابا"کے علاوہ کچھ نہیں پڑھا چلو اچھی بات ہے نئی نسل کو صوبے کے "اپنے اسلاف"کے بارے میں بہت کچھ جاننے کا موقع ملے گا تاہم یہاں صرف عرض کرتے ہیں کہ اس میں تمام لسانی گروپوں کو برابری کی بنیاد پر اگر اہمیت دی جائے تو صوبے میں "تقسیم کرو اور ووٹ لو" کی صورتحال پیدا نہیں ہوگی-

خیر بات ہورہی تھی صوبے کی تاریخ و ثقافت پر بین الاقوامی کانفرنس کی پروگرام کے دوران کئی مرتبہ توسٹیج پر بیٹھے "بابو جی" سو گئے جب ہم اپنے ساتھی کو کہا کہ جلدی سے اس کی تصویر لو یا فلم بنائو کیونکہ یہ بھی ہمارے لئے خبر ہے کہ ہمارے "بابوجی" کو صوبے کی تاریخ و ثقافت سے کتنی دلچسپی ہے لیکن اندازہ ہوا کہ ہمارے "بابوجی"بڑے ہوشیار تھے کیونکہ جب وہ دیکھتے کہ فوٹوگرافر تصویر بنا رہا ہے یا فلم بن رہی تو اپنے آپ کو بڑا"ایکٹیو "دکھاتے -مہمان خصوصی کی حیثیت سے خطاب کرتے ہوئے "بابوجی" کا کہنا تھا کہ یونیورسٹیاں ایسی جگہ ہونی چاہئیے جہاں پر ہر چیز کو کہنے کی آزادی ہونی چاہئیے اور پابندی کا اصول ختم کرنا چاہئیے موصوف نے یہ ارشاد کرنے کے بعد کہا کہ "جس نظرئیے پر پاکستان بنا تھا آج وہ نظریہ ہمیں کمزور کررہا ہے" -اس کی ارشاد کو سننے کے بعد میں بھی چونک کیا اور میرا ساتھی صحافی بھی حیران رہ گیا کہ " بابوجی"کیا فرما رہے ہیں اس دوران ہمارے دائیں طرف بیٹھی طالبات نے پینے کے پانی کی حاجت ہوئی تو وہاں پر موجودہ ایک "سوٹڈ بوٹڈ" صاحب کہنے لگے کہ یہ کیا وقت ہے پانی پینے کا ہم لوگ احساس کمتری کے شکار وہ قوم ہیں کہ "سوٹ" پہن کر بہت کچھ بھول جاتے ہیں کرائے کے "سوٹ " میں سوٹڈ بہت سارے پشاور یونیورسٹی کے "بابوئوں"کو ہم نے دیکھا کہ ان کے روئیے سے لگ رہا تھا جیسے ان لوگوں نے "آسمان "کا بوجھ اپنے کندھوں پر اٹھایا ہوا تھا -

افتتاحی تقریب کے بعد جب ہم نے اسلامی جمہوری عوامی اور فلاحی پاکستان کے صوبہ " پختون خوار" میں تعینات " بابوجی" جو شائد جلدی میں "ناک" صاف کرنا بھول گئے تھے کیونکہ ہمارے ساتھی صحافی کہہ گئے کہ یاراتنے بڑے عہدے پر آنیوالا شخص کتنا لاپرواہ ہے کیا اسے اندازہ نہیں کہ لوگ اسے دیکھتے ہیں- اقتدار اور اور حرام شے کی "نشے" میںدھت ہمارے " بابوجی"اس دن اپنی دل کی بات کہہ گئے موصوف کا کہنا تھا کہ جس نظرئیے پر پاکستان بنا تھا وہ نظریہ ہمیں آج کمزور کررہا ہے بقول ان کے مذہب ہمارا بڑا مسئلہ ہے اور اہمیت ریاست کو دینی چاہئیے نہ کہ نظرئیے کو "بابوجی"نے مزید ارشاد فرمایا کہ روس چین یورپ نے اپنے نظریات کو وقت کیساتھ بدلا ہے اور نظریہ پاکستان سے زیادہ ریاست کو اہمیت دینی چاہئیے اسلامی نظریہ پر بننے والے اسلامی فلاحی عوامی اور جمہور ی ملک کے اعلی کرسی پر بیٹھے یہ"بابوجی"کے ہیں اس موقع پر ہمیں پتہ نہیں کونسے شاعر کا ایک شعر ذہن میں آرہا کہ"اس گھرکو آگ لگ گئی گھر کے چراغ سے "تعلیمی درسگاہیں کسی بھی ملک کی ترقی میں اہم کردار ادا کرتی ہے ان درسگاہوں سے فارغ التحصیل ہونیوالے طلبائوطالبات ملک کے مستقبل کے امین ہوتے ہیں لیکن اپنے امینوں کے دل و دماغ میں اگر ایسی باتیں ڈالیں گے تو اندازہ کیا جاسکتا ہے کہ اس کے اثرات کیا نکلیں گے -بابوجی کے ارشاد عالیہ پر اب تو مختلف لوگوں کی رائے آرہی ہیں کوئی کہہ رہا ہے کہ شائد وہ "حرام"شے کی نشے میں تھے اس لئے یہ بات کہہ گئے لیکن مجھ سمیت دیگر ساتھی جو اس وقت وہاں موجود تھے نے خود سناکہ بابو جی جاتے جاتے اپنے "ساتھیوں"کو کہہ گئے کہ "بس اتنی متنازعہ بات بہت ہے"یہ کہنے کے بعد واپس چلے گئے ہمیں اندازہ ہوگیا کہ موصوف کو نشہ "کرسی و اقتدار کا ہے "اس لئے ایسی باتیں کررہے ہیں اگر یہاں پر صحیح معنوں میں "اسلامی " حکومت ہوتی تو "بابوجی"شائد "پینے پلانے " کی وجہ سے اندر ہوتے-روس امریکہ اور یورپ کی کمیونزم اور سوشلزم کی مثالیں دینے والے اور ان میں ترمیم کی باتیں کرنے والے بابوجی کیلئے ہم اتنا عرض کرتے ہیں کہ الحمد اللہ یہ ملک اسلام کے نام پر بنا تھا اور یہاںپر نظام اسلام ہی کا آئیگا اور آخری بات کہ اسلام مکمل دین حیات ہے اور اسلامی نظریہ پر بننے والے پاکستان میں ان جیسے بہت سارے آئے اور گئے کچھ اپنے آپ کو "شہداء "بھی کہتے ہیںلیکن کامیاب اور شہید وہی ہے جس نے اسلام کیلئے آواز اٹھائی اور اسلام کیلئے موت کو چنا -

میری باتیں بہت سارے لوگوں کو بری لگیں گی اور شائد کچھ لوگ اسے ذاتیات پر مبنی بھی سمجھیں لیکن سچ یہ ہے کہ اگر اس طرح کے لوگ ہماری حکمران رہیں گے تو ہمیں دشمنوں کی ضرورت نہیں صوبے کی تاریخ و ثقافت پر پروگرام کرنے والے اگرکسی پروفیسر ڈاکٹر کو مہمان خصوصی کے طور پر بلاتے تو شائدبہتر ہوتا کیونکہ تعلیم و تحقیق سے وابستہ لوگ ہی اس ملک کے اصل وارث ہیں اور ان کی آج کی کاوش ہمارے آنیوالے کل کا تاریخ ہیں-
Musarrat Ullah Jan
About the Author: Musarrat Ullah Jan Read More Articles by Musarrat Ullah Jan: 636 Articles with 498068 views 47 year old working journalist from peshawar , first SAARC scholar of kp , attached with National & international media. as photojournalist , writer ,.. View More