دائروں کے قیدی

حقیقت تو یہی ہے کہ ہم لوگ اس وقت ایک قوم نہیں بلکہ ایک ہجوم کی شکل اختیار کر گئے ہیں مسا ئل،مہنگائی،بدامنی،نفسانفسی، وغیرہ وغیرہ ، جی ہاں ہر کسی کی زبان پر ان سب کا تذکرہ ہے مگر ان سب کا شکار صرف ہم جیسے لوگ ہی کیوں ہیں؟ آخر کیا وجہ ہے کہ ہماری جان ان سب چیزوں سے نہیں چھوٹ رہی؟ کہیں ایسا تو نہیں کہ ان سب کے ذمہ دار ہم خود ہی ہیں؟آئیے دیکھتے ہیں۔

۱: کمزور معاشرتی اقدار:۔
ایک صحتمند معاشرہ وہ ہوتا ہے جس کے افراد اپنی معاشرتی اقدار پر عمل کریں۔ سب سے پہلی بات معاشرتی اقدار ہیں کیا؟ اقدار سے مراد وہ اعمال یا افعال ہوتے ہیں جو کوئی بھی معاشرہ اپنے افراد کے لئیے مقرر کرتا ہے ۔مثال کے طور پر جھوٹ بولنا اچھی بات نہیں، بڑوں اور خواتین کا احترام کریں، کسی کو تنگ نہ کریں، دکاندار ایمانداری سے سودا بیچیں وغیرہ وغیرہ۔ میں حکومت یا کسی سیاسی جماعت کی بات نہیں کرتا آپ لوگ خود ہی فیصلہ کریں کہ ہم لوگ کسقدر اپنی معاشرتی اقدار پر عمل کر رہے ہیں؟ بنیادی طور پر ہم نے اپنے معاشرہ کو خود ہی کمزور کیا ہوا ہے۔ یہاں ہر کوئی ایک دوسرے پر چڑھ کر آگے بڑھنے کی کوشش میں لگا ہوا ہے۔ یہ معاشرہ ہم جیسے لوگوں سے ہی مل کر بنا ہے مگر افسوس کہ ہم جیسے لوگ ہی اسے تباہ کر رہے ہیں۔ میں ماضی کا ذکر نہیں کرنا چاہتا کہ پرانا وقت آج سے بہت اچھا تھا، کیوں کہ ہر دور کہ اپنے تقاضے ہوتے ہیں پہلا وقت آج سے بہت سادہ تھا لوگوں کی دنیا محدود تھی جبکہ آج دنیا گلوبل ویلج بن گئی ہے ۔ ہر معاشرہ کو وقت کے ساتھ چلنے کے لئیے خود کو بدلنا پڑتا ہے تاکہ وہ زندگی کی دوڑ میں دوسروں سے پیچھے نہ رہ جائے،مگر کسی بھی معاشرہ کی پہچان اسکی اقدار سے ہوتی ہے جو اس معاشرہ کی مضبوطی کی بھی ذمہ دار ہوتی ہیں۔ میرا رونا اسی بات کا ہے کہ ہم لوگ دنیا کا مقابلہ بھی کرنا چاہتے ہیں، اپنے مسائل سے چھٹکارہ بھی چاہتے ہیںمگر اپنے گریبان میں جھانک کر دیکھئے کہ ہم لوگوں نے اپنی معاشرتی اقدار کو کہاں پھینکا ہوا ہے؟ آج کون سی سیاسی، دینی جماعت یا تاجروں کی انجمن یا این جی او ہے جو لوگوں کی تربیت معاشرتی اقدار کی مضبوطی کے لئیے کر رہی ہے؟

۲: انتہاپسندی:
ہم لوگوں میں برداشت کی کمی ہو گئی ہے۔ ہم لوگ اتنے جزباتی ہو گئے ہیں کہ دوسرے کی بات سنتے ہی نہیں اور اپنے آپ کو ہر حالت میں ٹھیک سمجھتے ہیں۔ جناب یہی انتہا پسندی ہے بیشک دینی ہو ، سیاسی ہو یا دنیاوی۔ ہمارا یہ رویہ ہمارے معاشرے کے بگاڑ کا سبب بن رہا ہے۔ اگر کوئی ہماری مخالف جماعت کا بندہ یا لیڈر ہے تو ہم اس کے اچھے کام میں بھی کیڑے نکالتے ہیں تاکہ دوسرے لوگ اس سے متاثر نہ ہو جائیں اور اپنے جزبات کی تسکین کرتے ہیں۔ ہمیں اپنا یہ رویہ بھی تبدیل کرنا ہوگا۔ یقین کریں کہ اگر ہم نے دوسروں کی رائے کا احترام کرنا اور انکے اچھے کاموں کی تعریف کرنا شروع کر دیا تو ہمارا معاشرہ ٹھیک ہوتا جائے گا بلکہ ہم اپنی ذات کے اندر بھی سکون محسوس کریں گے۔

۳: دائروں کے قیدی:۔
جی ہاں ہم سب اس وقت دائروں کے قیدی ہیں۔ پہلا دائرہ اپنی ذات کا ہے کہ میں سب سے اچھا ہوں۔ پھر اپنے خاندان کا، پھر اپنے محلے کا کہ ہمارا محلہ شریف ہے۔ پھرعلاقے کا، پھر شہر کا،پھر صوبے کا کہ ہمارا صوبہ سب سے اچھا ہے۔ مگر ہائے افسوس اس وقت جو دائرہ سب سے اچھا ہونا چاہئیے تھا اسی کو ہم نے بگاڑ دیا ہے سمجھ تو آپ گئے ہی ہونگے یعنی ملک کا دائرہ۔ مگر جناب بات یہی پر ختم نہیں ہوتی بہت سے دائرے بلکہ ہزاروں کی تعداد میں ایسے بھی ہیں جو نظر نہیں آتے مگر موجود ہیں مثال کے طور پر تاجروں کا دائرہ جس میں بے شمار دائرے موجود ہیں، سرکاری و غیر سرکاری ملازموں کا دائرہ ، استاذوں کا دائرہ، مستریوں کا، درزیوں کا ٹرانپورٹروں کا غرض کہ دائرے ہی دائرے ہیں جو اپنے مفاد کہ لئے تو حرکت کرتے ہیں ورنہ خاموش اپنے کام میں لگے رہتے ہیں۔ یہ اتنے سارے دائرے معاشرے میں نفسا نفسی کے فروغ کا ذریعہ بن رہے ہیں۔ اگر یہ سب مل کر صرف ایک بڑے دائرے کا حصہ بن جائیں تو معاشرہ سے نفسا نفسی کا خاتمہ ہو سکتا ہے۔

سوچئیے، سمجھیئے، عمل کیجیئے۔
M Asif khilji
About the Author: M Asif khilji Read More Articles by M Asif khilji: 5 Articles with 7304 views Salam. I am BCS + B.A from TIU Lahore and BZU Multan. I Love Science News and Also try to discover new ideas of science. Now days I am doing my own Ir.. View More