نظریہ سازش

”اُس شخص کو دیکھ رہے ہو جو ہماری طرف دیکھ رہا ہے؟“
”ہاں، کیوں؟ کیا بات ہے؟“
”مجھے دال میں کچھ کالا نظر آ رہا ہے۔“
”کالا تو تب دکھائی دے گا جب دال نظر آئے گی۔ ذرا یہ تو بتائیے کہ دال کہاں ہے۔“
”بھئی وہ ہماری طرف دیکھ رہا ہے نا؟“
”ہم بھی تو اُس کی طرف دیکھ رہے ہیں!“
”مگر ہم تو بس یونہی دیکھ رہے ہیں، کوئی مقصد تو نہیں ہے اُس کی طرف دیکھنے کا۔“
”ہوسکتا ہے اُس کا بھی کوئی مقصد نہ ہو اور ہماری طرف بس یونہی دیکھ رہا ہو؟“
”تمہیں سمجھانا بہت مشکل ہے۔ تم سمجھ ہی نہیں رہے ہو۔ کوئی کِسی کو خواہ مخواہ تھوڑی گھور کے دیکھتا ہے۔ کوئی نہ کوئی سبب ہوتا ہے۔“
”کیا سبب ہوسکتا ہے؟ اور کیا ضروری ہے کہ ہر بات کا کوئی سبب ہو؟“
”کیوں نہیں؟ اِس دُنیا، بلکہ کائنات میں کچھ بھی بے سبب نہیں۔“
”وہ تو ہے۔ مگر ضروری تو نہیں کہ ہر معاملے کو شک کی نظر سے دیکھا جائے؟“
”دیکھنا پڑتا ہے۔ معاملات کی اصلیت کو سمجھنے کے لیے شک کرنا لازم ہے۔ شک ہی سے تحقیق کی راہ ہموار ہوتی ہے۔“
”بات تحقیق تک رہے تو اچھا ہے۔ بال کی کھال اتارنے سے تو گڑبڑ ہی پیدا ہوتی ہے۔ تحقیق اور تحقیقات میں بہت فرق ہے۔ ضروری تو نہیں کہ ہر معاملے کی تہہ میں کوئی مشکوک معاملہ ہی ہو۔“
”اب تمہیں کون سمجھائے کہ اِس دُنیا میں قدم قدم پر کچھ کا کچھ دکھائی دیتا ہے۔ چیزیں جیسی دکھائی دیتی ہیں ویسی وہ اصل میں ہوتی نہیں ہیں۔ آنکھ قدم قدم پر دھوکا کھا جاتی ہے۔“
”ہر چیز وہی ہوتی ہے جو وہ دکھائی دیتی ہے۔ ہماری سوچ اُسے کچھ کا کچھ بنا دیتی ہے۔ گلاب میں صرف خوشبو ہوتی ہے لیکن اگر ہماری سوچ اُس میں سے بدبو کشید کرنا چاہے تو ایسا بھی کر گزرے گی!“
”اِس دُنیا میں جینا ہے تو سوچنا سیکھو اور سوچو۔ معاملات کی تہہ تک پہنچنے کی کوشش کرو۔ ایسا کروگے تو دُنیا کو آسانی سے اچھی طرح سمجھ پاؤ گے۔“
”زیادہ سوچنے سے ذہن کہیں کا کہیں جا پہنچتا ہے اور کوئی بھی چیز خواہ مخواہ کچھ کی کچھ دکھائی دینے لگتی ہے۔ اور شک کا بیج تو ذہن کی زمین میں پتہ نہیں کیسے کیسے پودے اگا دیتا ہے۔“
”شک کرنے ہی سے تو اندازہ ہوتا ہے کہ ہم کِسی بھی معاملے کو کِس حد تک سمجھتے ہیں اور اُس میں سے اپنے مطلب کی کوئی بھی چیز کِس حد تک کشید کرسکتے ہیں۔“
”مگر کیا شک کرنا لازم ہے؟ کِسی بھی معاملے میں اچھی سوچ رکھنے سے مطلوبہ نتائج حاصل نہیں ہوسکتے؟ ضروری تو نہیں کہ ہم شک ہی کریں اور کِسی بھی معاملے کی تہہ تک پہنچیں۔ مثبت تجسس بھی ہمیں معاملات کی تہہ تک بخوبی پہنچا سکتا ہے۔“
”اگر اِس دنیا کو سمجھنا ہے تو ہر معاملے کو شک کی نظر سے دیکھنا چاہیے۔ شک ہی ہمیں یقین کی منزل تک لے جاتا ہے۔“
”یقیناً ایسا ہی ہوتا ہوگا، خاص طور پر ہر چیز کو یقین کی حد تک مشکوک بنانے کے معاملے میں!“
”تمہاری سمجھ میں اِتنی سی بات کیوں نہیں آتی کہ ہم جس دنیا میں سانس لے رہے ہیں اُس میں ہر معاملہ کوئی نہ کوئی خفیہ پہلو لئے ہوئے ہے؟ اگر ہم ہر چیز کو آنکھ بند کرکے، شک کئے بغیر قبول کرلیں تو کچھ بھی حاصل نہیں ہوگا۔ کچھ معلوم کرنے کے لیے لازم ہے کہ ہم اپنے ذہن کی کھیتی میں شک کا بیج بوئیں، ہر معاملے میں کچھ اور تلاش کرنے کی کوشش کریں۔“
”میری سمجھ میں تو آج تک تمہاری کوئی بات نہیں آئی۔ پتہ نہیں تم کون سی دنیا میں رہتے ہو۔ جب دیکھو، ہر معاملے میں کچھ کا کچھ تلاش کرنے کی کوشش کرتے رہتے ہو۔ یہ روش ایک دن تمہارے ذہن کا کچومر نکال دے گی۔“
”ارے تم کیا جانو، کچھ تلاش کرنے کی کوشش کیا ہوتی ہے۔ ذہن گھوڑے کی طرح دوڑتا ہی رہتا ہے۔ ہر معاملہ قدم قدم پر ایک نئے پہلو کے ساتھ ہمارے سامنے آتا ہے، اور پھر ذہن کے اُفق پر رنگ ہی رنگ بکھرنے لگتے ہیں۔ معاملات کی راکھ کریدنے ہی سے تو آگ لگنے کے اسباب کا اندازہ ہو پاتا ہے۔ بال کی کھال نکالنا ہی تو ذہن کا کام ہے۔ اب اگر ذہن اپنا کام کر رہا ہو تو کیا ہم اُسے روک دیں؟“
”ذہن کو نہ روکو، اپنے آپ کو تو روکو۔ کِس نے مشورہ دیا ہے کہ ہر وقت کچھ نہ کچھ اُلٹا سیدھا سوچا ہی جائے؟ کیا زندگی ہمیں اِس کام کے لیے مِلی ہے؟ دُنیا میں کرنے کو اور بھی بہت کچھ ہے۔“
”اب اور کیا کرنے کو رہ گیا ہے؟ سب کچھ تو میسر ہے۔ زندگی آرام سے گزر رہی ہے۔“
”کیوں؟ کیا مل گیا ہے؟ زندگی کی کون سی سہولت ڈھنگ سے میسر ہے، ذرا بتاؤ۔“
”ارے بھائی! جب مشکلیں حد سے گزر جائیں تو آسانی میں تبدیل ہو جاتی ہیں۔ ہم جن سہولتوں کے حصول کی تمنا میں تڑپا کرتے تھے اور آخر میں دِل مسوس کر رہ جایا کرتے تھے اُن کے حوالے سے حکومت نے ہمیں بے فکر کردیا ہے۔ اب کوئی تمنا، کوئی آس نہیں رہی اِس لیے رونا اور تڑپنا کیسا؟ جب کوئی اُمید ہی نہیں رہی تو پھر پریشانی کس بات کی، رونا کیسا اور کیوں؟“
”اچھا .... یعنی بد انتظامی نے اُمیدوں کی ناکامی کو ’بے اُمیدی‘ میں تبدیل کردیا ہے تو وقت کو جی بھر کے قتل کیا جائے!“
”فارغ وقت اُس جن کی طرح ہوتا ہے جو ہر وقت کوئی نہ کوئی کام مانگتا ہے اور کام نہ ملنے کی صورت میں آقا ہی کو ختم کر ڈالتا ہے!“
”بات بات پر شک کرنے والا ذہن بھی جھاڑی کی طرح ہوتا ہے جس میں کپڑے پھنس جائیں تو بحفاظت نکالنا انتہائی دشوار ہوتا ہے۔ اگر ہم ذہن کو ہر وقت کام پر لگائے رکھیں گے تو وہ بالآخر جن کی طرح ہم پر چڑھ دوڑے گا اور ہمارے لیے جان چھڑانا دشوار ہو جائے گا۔“
”تم نے تو بال کی کھال کو بھی اُدھیڑ دیا۔ اگر تم جیسے دو چار اور ہو جائیں تو ’نظریہ سازش‘ دم توڑ دے اور میڈیا کی ساری رونقیں داغ مفارقت دے جائیں!“
”ہم کیا اور ہماری ہستی کیا۔ جب تک تم جیسے لوگ اِس دنیا میں ہیں، کِسی بھی حالت میں نظریہ سازش دم نہیں توڑے گا، بلکہ دم بہ دم پنپتا ہی رہے گا۔“
”اللہ کرے ایسا ہی ہو ورنہ تم جیسے لوگوں نے تو دُنیا کو بے رونق کرنے میں کوئی کسر اُٹھا نہیں رکھی!“
M.Ibrahim Khan
About the Author: M.Ibrahim Khan Read More Articles by M.Ibrahim Khan: 572 Articles with 486347 views I am a Karachi-based journalist and columnist. .. View More