بھارتی عورتیں ریپ کا شکار کب تک؟

راشد محمود

بھارت جو دنیا کی سب سے بڑی جمہوریت اور خواتین کے حقوق کا علمبردار ہونے کا دعویدار ہے اس کا انسانی حقوق بالخصوص خواتین کے حقوق کے حوالے سے انتہائی پسماندہ ریکارڈ ہے۔ بھارتی میڈیا، سول سوسائٹی اور خواتین کی حقوق کیلئے کام کرنے والی تنظیمیں عورتوں کے خلاف جرائم پر تسلسل سے آواز اٹھا رہی ہیں۔ گزشتہ 20 برسوں کے دوران خواتین کے ساتھ ریپ کے کیسز دگنا ہو گئے ہیں۔ ہر 20 منٹ میں ایک عورت ریپ کا شکار ہوتی ہے۔ ریپ کا ہر تیسرا شکار بچہ ہے۔ نیشنل کرائم ریکارڈ بیورو (این سی آر بی) کے مطابق ہریانہ سے لیکر مغربی بنگال تک عورتوں اور بچوں کے ساتھ ریپ کے جرائم میں بہت زیادہ اضافہ ہو چکا ہے اور خواتین محفوظ نہیں ہیں۔ حال ہی میں ہریانہ میں یکے بعد دیگرے ریپ کے کیسز سامنے آنے پر میڈیا چیخ اٹھا۔ میڈیا رپورٹس کے مطابق این سی آر بی کی تحقیق میں معلوم ہوا ہے کہ ریپ بھارت کا سب سے تیزی سے پھیلنے والا جرم بن چکا ہے اور گزشتہ پانچ دہائیوں کے دوران اس میں 873 فیصد اضافہ ہو چکا ہے۔ ریپ کے واقعات بھارت کی سبھی ریاستوں میں بڑھے ہیں بالخصوص دہلی، راجستھان، ہریانہ، مہاراشٹر، کرناٹک، مغربی بنگال اور مدھیہ پردیش میں ان میں بہت تیزی دیکھنے میں آئی۔ 2011ءمیں سب سے زیادہ ریپ کے واقعات ریاست مینہ ورام میں ہوئے۔ پہلے یہاں ہر ایک لاکھ میں سے 9.1 عورتیں ریپ کا شکار ہوتی تھیں لیکن اس برس ایک لاکھ میں سے 25000 عورتوں کے ساتھ ریپ کیا گیا۔ ان میں سے 9.398 بجوں کو ریپ کا نشانہ بنایا گیا۔ رپورٹ کے مطابق عام طور پر ریپ کرنے والا مجرم ریپ کے شکار شخص کا واقف کار ہوتا ہے۔ 2011ءمیں مدھیہ پردیش میں 3,406، مغربی بنگال میں 2363، اترپردیش میں 2042 واقعات ہوئے۔ دہلی میں 2011ءمیں 568 کیسز ریکارڈ پر آئے۔ ریپ کرنے والے ملزمان جو جیل میں قید ہیں ان کی تعداد ایک لاکھ تک پہنچ چکی ہے جبکہ 1973ءمیں ان کی تعداد 4,991 تھی۔ ہریانہ میں سال 2011ءمیں ہر ماہ 60 ریپ کے واقعات ہوئے۔ نیشنل کرائم ریکارڈ بیورو کے اعداد و شمار کے مطابق 2011ءمیں ریاست ہریانہ میں 725 خواتین ریپ کا شکار ہوئیں۔ 2006ءسے اب تک ہر ماہ 50 عورتوں کے ساتھ ریپ کیا جاتا ہے۔ صرف 2007ءکے سال میں ان کی تعداد تھوڑی کم ہوئی اور ہر مہینے 40 عورتیں ریپ کا نشانہ بنیں۔ گزشتہ دو برسوں کے دوران ریپ کے اوسط واقعات ہر ماہ 60 تک پہنچ چکے ہیں۔ مینہ ورام، تری پورہ اور آسام میں ریپ کے واقعات میں سب سے آگے ہیں۔ انتہائی گھٹن زدہ اور تنگ نظر معاشرے اور دیگر سماجی رویوں اور پابندیوں کے باعث ریپ کے کیسز بہت کم رپورٹ ہوتے ہیں۔ ریپ کی شکار خواتین سماجی بائیکاٹ اور معاشرے کے غیرمناسب رویے اور بے عزتی کے ڈر سے اس کو منظر عام پر لے کر ہی نہیں آتیں۔ جیسا کہ ہسیار کے علاقے میں ایک 16 برس کی دلت لڑکی کے ساتھ گینگ ریپ کیا گیا لیکن اس نے اپنے والدین کو اس کے بارے میں 10 روز کے بعد مطلع کیا اور جب اس نے اپنے والدین کو اس واقعہ کے بارے میں بتایا تو لڑکی کے والد نے خودکشی کر لی۔ رپورٹ میں مزید بتایا گیا کہ بھارت میں ہر روز 19 بچے ریپ کا شکار ہوتے ہیں۔ یہ وہ واقعات ہیں جو رپورٹ ہوتے ہیں بلکہ ایسے بہت سے واقعات ہیں جن کی رپورٹ ہی نہیں کی جاتی۔ گزشتہ برسوں کے دوران ان واقعات میں جس تیزی سے اضافہ ہوا ہے اس سے اندازہ لگایا جا سکتا ہے کہ بھارت عورتوں اور بچوں کے حوالے سے کس قدر غیرمحفوظ ہے۔ مدھیا پردیش کو ریپ کے واقعات کے حوالے سے دارالحکومت کہا جاتا ہے جس میں 3406 واقعات ہر سال ہوتے ہیں جو بھارت میں سب سے زیادہ ہیں۔ اس کے بعد اترپردیش اور راجھستان کا نمبر آتا ہے۔ ریپ کے علاوہ اغواءکے واقعات میں بھی تیزی سے اضافہ ہوا ہے۔ اغواءملک کا دوسرا بڑا جرم ہے۔ اس میں گزشتہ 5دہائیوں کے دوران 749 فیصد اضافہ ہو چکا ہے۔ قتل اور دنگا فساد میں 250 اور 233 فیصد اضافہ ہوا۔ دوسری طرف بھارتی حکومت اور میڈیا بھارت کا انسانی حقوق کے علمبردار ہونے کی تصویر کشی کرتا ہے اور دنیا کو یہ باور کرانے کی کوشش کی جاتی ہے جیسے بھارت میں انسانی حقوق کی مکمل پاسداری کی جاتی ہے اوپر بیان کئے گئے اعداد و شمار بھارت کا مکروہ اور گھناؤنا چہرہ کھول کر رکھ دیتے ہیں۔ اس کے ساتھ بھارت کی فلم اور فیشن انڈسٹری یہ ثابت کرنے پر تلی ہوئی ہے جیسے بھارت خواتین کے لئے جنت ہے اور عورتوں کو رہنے، کام کرنے کی مکمل آزادی ہے اور وہ بالکل محفوظ ہیں لیکن حالات و واقعات اس کی مکمل نفی کرتے ہیں۔ بھارت میں خواتین اور بچوں کے خلاف ریپ، اغواءاور قتل و غارت گری کے واقعات جس تیزی سے پھیل رہے ہیں۔ اس سے اندازہ ہوتا ہے کہ بھارت کس قدر غیرمحفوظ ملک ہے۔
Javed Ali Bhatti
About the Author: Javed Ali Bhatti Read More Articles by Javed Ali Bhatti: 14 Articles with 8386 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.