پروفیسر مظہر
مصحف مجید میں فیصلہ کر دیا گیا کہ جو اللہ کے قانون کے مطابق فیصلے نہ کرے
وہ کافر ، ظالم اور فاسق ہے۔ شعبہ ہائے زندگی پر محیط یہ احکاماتِ الٰہی
کتاب اللہ میں درج ہیں، پوری صراحت کے ساتھ ۔سورہ المائدہ میں جان کے بدلے
جان ، آنکھ کے بدلے آنکھ ، ناک کے بدلے ناک ، کان کے بدلے کان ، دانت کے
بدلے دانت ، زخموں کے برابر زخم اور چور کا ہاتھ کاٹنے کا حکم صادر
ہوا۔سورہ النساءمیں زنا کی سزا اور سورہ الانعام میں شرائعِ الٰہیہ کا
مفصّل ذکر موجود ہے ۔ایک مسلمان کے لئے قُرآنِ کریم کے ایک حرف تک کا انکار
بھی پورے قُرآن سے انکار کے مترادف ہے اور دینِ مبیں میں مرتد واجب
القتل۔اسی لیے جان و مال اورجابر حکمران کی پرواہ کیے بغیر پورے کا پورا
اسلام میں داخل ہونے کا حکم ہے ۔میرے نبی نے فرمایا ”سید الشہداءحمزہ ابنِ
عبد المطلب ہیں اور وہ بھی جس نے جابر حاکم کے سامنے کلمہ ¿ حق کہا اور قتل
کر دیا گیا “ ۔حسین ابنِ علیؓ نے فرمایا ”جب تم جان لو کہ تم حق پر ہو تو
پھر جان کی پرواہ کرو نہ مال کی “ اور اقبالؒ نے تو یہاں تک کہہ دیا
اگر ملک ہاتھوں سے جاتا ہے ،جائے
تُو احکامِ حق سے نہ کر بیوفائی
لیکن ہمارے ہاں تو معاملہ ہی اُلٹ ہے ۔ہم مسلمان ہوتے ہوئے بھی نصوصِ
قُرآنی پرکج بحثی کرکے اپنے آپ کو بحرِ علم کے شناور ثابت کرنے کی کوشش
کرتے ہیں۔ہمارے سیکولر دانشوروں اور انسانی حقوق کی تنظیموں کو شریعتِ
الٰہی خصوصاََ اسلامی تعزیرات میں وحشت و درندگی نظر آتی ہے ۔ایک مغرب زدہ
کہن سالہ خاتون کو تو کسی پل چین نہیں۔ہمارے کچھ ٹی وی اینکرز محترمہ کو
علماءکے ساتھ بُلا کر ”چسکے“ لیتے اور ریٹنگ بڑھاتے رہتے ہیں ۔وہ خاتون
آزادی نسواں کی بات کرے یا سزائے موت کے خاتمے کی ، ہمیشہ پٹڑی سے اُتر
جاتی ہیں۔مدلل گفتگو سے کوسوں دور البتہ کج بحثی کی ماہر ۔۔۔ اپنی بد کلامی
میں مشہور ایک سقّہ لکھاری کو مشاہیرِ عالمِ اسلام چور ، ڈاکو اور لٹیرے
نظر آتے ہیں جبکہ امریکہ اور اقوامِ مغرب عظمتوں کی معراج پر ۔ایک اور
معروف لکھاری، جنہوں نے قوم کو امریکہ سے ڈرانے کا ٹھیکہ لے رکھا ہے ، جبکہ
کئی دانشور وں کا یہ نظریہ ہے کہ جہاںعقل کا دروازہ نہیں کھُلتا وہاں لوگ
غیرت کی بات کرنے لگتے ہیں ۔ بجا ، مگر آقا نے فرمایا ”اللہ غیرت مند ہے
اور غیرت مندوں کو دوست رکھتا ہے “۔قولِ علیؓ ہے ”کمینہ اپنی عزت کے بدلے
مال کماتا ہے“۔اور قابلِ غور ہے اُم المومنین حضرت عائشہ صدیقہؓ کا فرمان
کہ ”جب معدہ بھر جاتا ہے تو قوتِ فکر کمزور پڑ جاتی ہے اور حکمت و دانش کی
صلاحتیں گُنگ“۔غالباََ ان باد فروشانِ افرنگ کے معدے بھی بھردیئے گئے ہیں
اسی لیے ان پر حکمت و دانش کے دروازے نہیں کھُلتے اور نہ یہ اپنی بے حمیتی
کے خول سے باہر نکل کر یہ سمجھنے کی صلاحیت رکھتے ہیں کہ اقوامِ عالم کی
ساتویں اور عالمِ اسلام کی پہلی ایٹمی قوت ہونے کے باوجود ان زمینی خُداو
¿ں کی چوکھٹ پہ سجدہ ریزی کو سوائے بے غیرتی وبے حمیتی کے اور کوئی نام
نہیں دیا جا سکتا۔کوئی ذی ہوش جنگ کو پسند نہیں کرتا لیکن اگر جنگ مسلط کر
دی جائے تو زندہ قومیں پیچھے نہیں ہٹا کرتیں ۔ہم پر بھی 9/11 کی آڑ میں
امریکہ نے جنگ مسلط کر رکھی ہے اور ہم پچاس ہزار انسانی جانوں اور اربوں
ڈالر زکے نقصان کے باوجود تا حال امریکہ کے تلوے چاٹ رہے ہیں۔کیا زندہ
قوموں کا یہی وطیرہ ہوتا ہے؟۔یہ بزدلی ، بے غیرتی اور بے حمیتی نہیں تو
اورکیا ہے؟۔
شکم سیری کو ہی کعبہ مقصود بنانے والوں کے سامنے جب نصوصِ قُرآنی رکھی جاتی
ہیں تو یہ لا جواب ہو کر واویلا کرنے لگتے ہیں کہ کس کی شریعت نافذ کی جائے
؟۔سُنی کی ، شیعہ کی یا طالبان کی؟۔حالانکہ جانتے یہ بھی ہیں کہ شریعت تو
صرف ایک ہی ہے اور وہ ہے شریعتِ الٰہی جس میں تحریف نا ممکن ہے کیونکہ اس
کی حفاظت کا ذمہ خود ربّ ِ کردگار نے لے رکھا ہے ۔لیکن یہ سیکولر ٹولا
ہمیشہ مسلکی اختلافات کو شریعت سے خلط ملط کرنے کی کوششوں میں لگا رہتاہے
حالانکہ شرائع الٰہیہ پر کسی مسلک کا کوئی اختلاف نہیں۔ کسی مسلک کے
علماءقتلِ عمد ، ارتداد اور شادی شدہ زانی کو سزائے موت دینے کے خلاف ہیں
نہ چور کا ہاتھ کاٹنے کے ۔کوئی فرقہ عورت کی مادر پدر آزادی کے حق میں ہے
نہ کبھی کسی عالم نے خود کُش حملوں کو جائز قرار دیا ہے ۔مسالک کے ما بین
تمام تر اختلافات فروعی ہیں جن کا مل بیٹھ کر حل ممکن ہے ۔لیکن اگر سبھی
مسالک متفق ہو بھی جائیں تو یہ پھر بھی نہیں مانیں گے کیونکہ ان مغرب زدہ
لوگوں کو تقلیدِ مغرب میں ہی عافیت نظر آتی ہے ۔جس مغرب کی پیروی میں یہ
قُرآنِ کریم کے احکاماتِ ناطق کو ماننے کے لیے بھی تیار نہیں ، خود اُس کا
یہ عالم ہے کہ انگلینڈ جہاں 1969 ءسے سزائے موت کا قانون ختم کر دیا گیا ہے
وہاں اخبار ”دی میل“ کے حالیہ سروے کے مطابق 53 فیصد شہریوں نے اس قانون کے
خلاف اور صرف 30 فیصد نے حق میں ووٹ دیا ہے ۔امریکی سروے کے مطابق 80 فیصد
امریکی خوف میں مبتلا اور 70فیصد عدم تحفظ کا شکار ہیں۔امریکی رسالے
”سائیکالوجسٹ“ کی مئی 2009ءکی رپورٹ کے مطابق 2004ءمیں زنا بالجبر کے
94ہزار کیس رجسٹر ہوئے ۔یہ تعداد 70 فیصد کے برابرتھی ، 30 فیصد نے مقدمات
درج ہی نہیں کروائے۔رپورٹ کے مطابق آجکل امریکہ میں14فیصد عورتیں جنسی
جرائم کا شکار ہوتی ہیں۔2008ءمیں قتل اور تشدد کے آٹھ لاکھ کیس درج ہوئے
اور ڈکیتی کی ساڑھے چار لاکھ وارداتیں ہوئیں۔انسانی حقوق کے علمبردار اگر
FBI کی ہر سال ستمبر میں شائع ہونے والی کرائم رپورٹس کا مطالعہ کر لیں تو
ان کے ہوش ٹھکانے آ جائیں۔
لیکن یہ ٹولہ نصوصِ قُرآنی ماننے کو تیار ہے نہ آئینِ پاکستان کو ۔ آئین کے
آرٹیکل 228 کے مطابق اسلامی نظریاتی کونسل نے تمام قوانین کوسات سالوں میں
اسلامی سانچے میں ڈھالنا تھا جو آج تک تشنہ تکمیل ہے لیکن غنیمت ہے کہ یہ
آرٹیکل ابھی تک آئین کا حصہ ہے ۔کہتے ہیں کہ آئین سے انحراف پر آئینی
آرٹیکل چھ لاگو ہوتا ہے جس کی سزا موت ہے۔یہ المیہ نہیں تو اور کیاہے کہ
آرٹیکل 228 بھی موجود ، جان کے بدلے جان کا واضح قُرآنی حکم بھی موجود اور
مرتد واجب القتل بھی اس کے باوجود لوگ تعزیرتِ الٰہی اور آئینِ پاکستان کا
کھلم کھلا مذاق اُڑا رہے ہیں اور حکومت خاموش تماشائی ۔اگر حکومت ان دراز
ہوتی زبانوں کو بند نہیں کر سکتی تو پھر آئین کو اُٹھا کر بحیرہ عرب میں
پھینک دیجئے اور اسلامی جمہوریہ پاکستان کا نام بدل کر سیکولر سٹیٹ آف
پاکستان رکھ دیں کہ ایسا کرنے سے وہ لوگ بھی خوش ہو جائیں گے جو عوام سے یہ
سوال کرتے ہیں کہ انہیں ”سیکولر پاکستان چاہیے یا طالبان کا
پاکستان“اورامریکی ایجنٹوں کو طالبان کا نام دے کر دینِ مبیں کو بدنام کرنے
کی مذموم کوششیں بھی دم توڑ جائیں گی ۔ |