علامہ اسد کے بارے میں صاحب علم
لوگ تو بہت کچھ جانتے ہیں تاہم آج کی نوجوان نسل انہیں بھول چکی ہے۔ آج کے
کالم میں صرف اتنا ہی تعارف کافی ہو گا کہ علامہ اسد پہلے غیر ملکی تھے
جنہیں بابا ئے قوم حضرت قائداعظم محمد علی جناح نے پاکستانی شہریت عطا
فرمائی تھی اور انہیں پاکستان کو ایک حقیقی اسلامی ریاست بنانے کے لیے
بنیادی خدوخال طے کرنے والے کمیشن کا سربراہ مقرر فرمایا تھا ۔ بابائے قوم
کے اس تاریخی فیصلے سے حضرت علامہ کی شخصیت کا خاصا تعارف قارئین کو حاصل
ہو جائے گا۔ تفصیلی تعارف پھر کبھی۔ انہوں نے قیام پاکستان سے چند ماہ قبل
ایک مضموں تحریر کیا تھا کہ ہم پاکستان کیوں بنانا چاہتے ہیں، اس مضمون کی
چند ایک جھلکیاں نذر قارئین کرنا چاہتا ہوں۔
مسئلہ قومیت
” ہمیں بلا خوف وخطر، ببانگ دہل، ڈنکے کی چوٹ یہ اعلان کرنے میں ہچکچاہٹ
کیوں ہے کہ لفظ قوم کے رواجی مفہوم سے ہمیں کوئی نسبت نہیں۔ ہاں، ہم ایک
قوم ہیں لیکن محض اس لیے نہیں کہ ہماری عادات، ہمارے رسوم و رواج، ہمارے
ثقافتی مظاہر اس ملک میں بسنے والی دوسری قوموں سے مختلف ہیں، بلکہ ہم اس
مفہوم میں ایک قوم ہیں کہ ہم اپنے نصب العین کے مطابق اپنی زندگیاں ڈھالنا
چاہتے ہیں۔ہم کوئی نسلی وحدت نہیں ہیں۔ ہم لسانی وحدت بھی نہیں ہیں۔ ہم
انگریزوں اور عربوں یا چینیوں کی طرح قوم نہیں ہیں اور نہ کبھی اس مفہوم
میں قوم بن سکتے ہیں۔ یہی ایک حقیقت ہے کہ ہم لفظ قوم کے روایتی اور مغربی
مفہوم میں نہ تو قوم ہیں اور نہ قوم بن سکتے ہیں۔
امت مسلمہ کا نصب العین
”ہماری اندرونی قوت (اسلام) ہی ہمارا سرچشمہ ہے۔ اس قوت کی بنیاد پر ہمیں
یہ شعور حاصل ہوتا ہے کہ پورے قرہ ارض پر اس شان دار منظر میں حیات نو پیدا
کرسکتے ہیں جو چودہ سو سال پہلے عرب کے صحراؤں سے اٹھا تھا۔ ایسے مردوں اور
عورتوں کی ایک امت کا شاند ار منظر جو نسل، زبان اور وطن کے اتفاقی،
حادثاتی بندھنوں کے باعث متحد ویک جان نہیں ہوئے تھے بلکہ ایک مشترک نصب
العین سے اپنی باشعور اور آزادانہ وفاشعاری کے باعث متحد و متفق ہوئے تھے۔
نصب العین سے وابستگی
”عظیم قوموں کے مقدر کا انحصار اس بات پر نہیں ہوتا کہ ان کے پڑوسی ممالک
ان کے اغراض و مقاصد سے اتفاق یا اختلاف رکھتے ہیں بلکہ ان کے مقدر کا
انحصار ان کے اغراض ومقاصد کی روحانی طاقت (یاکمزوری) پر ہوتا ہے۔ اگر
پاکستان کے لیے ہماری آرزو منزل مقصود پر پہچنے سے پہلے اس نصب العین کے
بارے میں ہماری بصارت واضح اور ہماری بصیرت پاکیزہ ہے،اگر مقصد کو مقصد
بالذات جان کر اس سے محبت کا سلیقہ سیکھ لیں، اس عقیدے کے ساتھ کہ اپنے
مطلقہ مفہوم میں یہ خیراعلیٰ ہے یا اللہ کی نظر میں خیراعلیٰ ہے تو محض اس
لیے نہیں کہ ظاہری طور پر ہماری قوم کے لیے معاشی طورپر فائدہ مند ہے۔ تب
دنیا کی کوئی طاقت ہمیں پاکستان بنانے سے نہیں روک سکتی، جو دنیا بھر میں
تجدید و احیاے دین کا دروازہ کھول دے گا۔
عام مسلمان محض ایک ایسی نئی ریاست کا خواب نہیں دیکھتا، جس میں مسلمانوں
کو موجودہ معاشی مراعات سے کچھ زیادہ حاصل ہو سکیں۔ وہ تو ایک ایسی ریاست
کا خواب دیکھ رہا ہے، جس میں احکام الہی کی فرماں روائی ہو۔ ایسا نہیں ہے
کہ عام آدمی معاشی مراعات و سہولیات کی پروا نہیں کرتا ، وہ یقینا اس کی
پروا کرتا ہے بلکہ بہت زیادہ کرتا ہے۔ معاش ہر شخص کی بنیادی ضرورت ہے لیکن
وہ محسوس کرتا ہے اور بجاطور پر محسوس کرتا ہے کہ ایک سچی اسلامی ریاست میں
اسے نہ صرف معاشی انصاف اور مادی ترقی کے مساوی موقع ملے گا جو فی الوقت
اسے حاصل نہیں ہے اور اس کے انسانی وقار اور اس کے روحانی استحکام میں بھی
قابل قدر اضافہ ہوگا“۔
ریاست کا مستقبل
”مذہب کو سیاست سے الک نہیں ہو سکتا اور اس کی وجہ بڑی سادہ ہے، وہ یہ کہ
اسلام صرف ہمارے روحانی ارتقا سے غرض نہیں رکھتا بلکہ ہماری جسمانی،
معاشرتی اور اقتصادی زندگی سے بھی پورا، پورا تعلق رکھتا ہے۔ اسلام ہمارا
مکمل ضابطہ حیات ہے۔ چند ماہ قبل علی گڑھ یونیورسٹی سے سالانہ جلسہ سے خطاب
کرتے ہوئے قائداعظم کے دست راست لیاقت علی خان صاحب نے خطبہ صدارت میں بڑے
زور دار الفاظ میں یہ حقیقت اجاگر کی کہ تحریک پاکستان کے محرکات کا اصل
سرچشمہ قرآن مجید ہے لہذا ہم جس ریاست کے قیام کی جدوجہد کر رہے ہیں وہ
اپنی سند اختیار و مجاز صرف شریعت سے حاصل کرے گی۔حضرت قائد اعظم محمد علی
جناح نے بھی متعدد موقعوں پر ایسے ہی انداز فکر میں خطاب کیا ہے“۔
غور کیجیے
علامہ اسد نے مسلمانان برصغیر کی درست طور پر ترجمانی فرمائی اور تحریک
پاکستان کے خدوخال واضع کیے۔ آج پینسٹھ سال بعد ہمیں غور و فکر کرنا چاہیے
کہ کیا ہم بطورقوم ان بنیادوں پر قائم ہیں یا کسی گمراہی کا شکار ہو کر
اپنی منزل تبدیل کرچکے ہیں۔ پاکستان کی بنیاد کوئی نسل اور زبان نہیں تھی
اور نہ ہی پاکستان اس طرح کی کسی تفریق کا متحمل ہو سکتا ہے۔ آج ہم نے امت
مسلمہ کا تصور بھول چکے ہیں اور ملت اسلامیہ پاکستان کو علاقوں (پنجابی،
سندھی، مہاجر، بلوچی، پختوں) کی بنیاد پر تقسیم کردیا ہے۔ اسلام کو بطور
نظام مملکت کرنے کے بجائے خدا سے بغاوت پر مبنی جاہلانہ قوانین کو اپنی
شریعت بنا لیا ہے۔ کیا ان بنیادو پر ہم اپنے پاکستان کی حفاظت کر سکتے ہیں؟
ہمیں یہاں تک لے جانے میں حکمران اور سیکولر سیاسی جماعتوں نے شب و روز
کوششیں کی ہیں۔ ہر ایک جانتا ہے کہ قوم کو اس جانب لے جانا کس کا ایجنڈا
ہے۔ اس ایجنڈے پر کام کرنے کے لیے وسائل کس نے فراہم کیے ہیں اور کیوں کیے
ہیں۔ کیا یہ قوم کبھی اس بنیاد پر سوچنے کے لیے وقت نکال لے گی یا سب کچھ
خاکستر (نعوذباللہ) ہونے کا انتظار کرے گی۔ |