او بدبخت! مجھ سے دُور ہو

حضرتِ سیِّدُنا ابو محمد سلیمان الاعمش کُوفی تابعی علیہِ رحمةُاللّٰہِ القَوی فرماتے ہیں: میں حجِ بیتُ اللہ کے لئے حاضِر ہوا، دَورانِ طواف ایک شخص کو دیکھا کہ غِلافِ کعبہ کے ساتھ چِمٹا ہو ا کہہ رہا تھا:یا اللّٰہ!عزوجل مجھے بخش دے اور میں گُمان کرتا ہوں کہ تو مجھے نہیں بخشے گا۔ “ میں اس کی اِس عجیب سی دُعا پر بَہُت مُتَعَجِّب ہوا کہ سُبحٰنَ اللّٰہِ العظیم آخِراِس کاایسا کون سا گناہ ہے جس کی بخشِش کی اِس کواُمّید نہیں، مگر میں طواف میں مصروف رہا ۔دوسرے پھیرے میں بھی سناتو وہ یِہی کہہ رہا تھا، میری حیرانی میں مزید اضافہ ہوا۔ میں نے طواف سے فارِغ ہو کر اس سے کہا،تُو ایسے عظیم مقام پر ہے جہاں بڑے سے بڑا گناہ بھی بخشا جاتا ہے تو اگرتُو اللّٰہ عزوجل سے مغفِرت اور رَحمت طَلب کرتا ہے تو اس سے اُمّید بھی رکھ کیوں کہ وہ بڑا رحیم و کریم ہے۔ اس شخص نے کہا: اے اللّٰہ کے بندے تو کون ہے؟ میں نے کہا میں سلیمان الاعمش (رحمة اللہ تعالیٰ علیہ) ہوں ! اس نے میرا ہاتھ پکڑا اور مجھے ایک طرف لے گیا اور کہنے لگا، میرا گناہ بَہُت بڑا ہے۔ میں نے کہا، کیا تیرا گناہ پہاڑوں ،آسمانوں،زمینوں اور عرش سے بھی بڑا ہے ؟ کہنے لگا، ہاں میرا گناہ بَہُت زیادہ بڑا ہے!افسوس! اے سُلَیمان! میں اُن ستّر70 بدنصیب آدَمِیّوں میں سے ہوں جو حضرتِ سیِّدُنا امامِ عالی مقام امامِ حسین رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے سرِانور کو یزیدِ پلید کے پاس لائے تھے ۔ یزیدِ پلید نے اس مبارَک سر کو شہر کے باہَر لٹکانے کا حکم دیا۔ پھر اس کے حکم سے اُتارا گیا اور سونے کے طَشت میں رکھ کر اس کے سَونے کے کمرے(BEDROOM) میں رکھا گیا۔ آدھی رات کے وَقت یزید ِ پلیدکی زوجہ کی آنکھ کھلی تو اس نے دیکھا کہ امامِ عالی مقام رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے سرِ انور سے لے کر آسمان تک ایک نورانی شُعاع جگمگا رہی ہے! یہ دیکھ کروہ سخت خوف زدہ ہوئی اور اس نے یزیدِ پلید کو جگایا اور کہا، اُٹھ کر دیکھو، میں ایک عجیب وغریب منظر دیکھ رہی ہوں، یزید نے بھی اس روشنی کو دیکھا اور خاموش رہنے کیلئے کہا۔ جب صبح ہوئی تو اس نے سرِ مبارَک نکلوا کر دِیبائے سبز(ایک عمد ہ قِسم کے سبز کپڑے) کے خیمے میں رکھوا دیا اور اس کی نگرانی کے لیے ستّر آدمی مقرَّر کر دیئے، میں بھی ان میں شامل تھا ۔ پھر ہمیں حُکم ہوا جاﺅ کھانا کھا آﺅ ۔جب سورج غُروب ہو گیا اور کافی رات گزر گئی تو ہم سو گئے ۔ یکایک میری آنکھ کُھل گئی ، کیا دیکھتا ہوںکہ آسمان پر ایک بڑا بادَل چھایا ہوا ہے اور اس میں سے گڑگڑاہٹ اور پروں کی پھڑپھڑاہٹ کی سی آواز آ رہی ہے پھر وہ بادَل قریب ہوتا گیا یہاں تک کہ زمین سے مل گیا اور اس میں سے ایک مرد نُمُودار ہوا جس پر جنّت کے دو حُلّے تھے اور اس کے ہاتھ میں ایک فَرش اورکُرسیاں تھیں، اس نے وہ فَرش بچھایا اوراس پرکُرسیاں رکھ دیں اور پکارنے لگا : اے ابوالبشر! اے آدمعَلٰی نَبِیِّناوَعَلَیہِ الصَّلٰوةُ وَالسَّلام! تشریف لائیے۔ ایک نہایت حسین و جمیل بُزُرگ تشریف لائے اور سرِ مبارک کے پاس کھڑے ہو کر فرمایا: ”سلام ہو تجھ پراے اللہ کے ولی! سلام ہو تجھ پر اے بقیةُ الصّالحین ! زندہ رہے تم سعید ہو کر ، قتل ہوئے تم طَرید یعنی خلف ہو کر ،پیاسے رہے حتّٰی کہ اللہ عزوجل نے تمہیں ہم سے ملا دیا ۔ اللہعزوجل تم پر رحم فرمائے اور تمہارے قاتل کے لیے بخششِ نہیں، تمہارے قاتِل کے لیے کل قِیامت کے دن دوزخ کا بَہُت بُرا ٹھکانا ہے ۔ “

یہ فرما کر وہ وہاں سے ہٹے اور اُن کرسیوں میںسے ایک کرسی پر تشریف فرما ہو گئے۔ پھر تھوڑی دیر کے بعد ایک اور بادَل آیا وہ بھی اِسی طرح زمین سے مل گیا اور میں نے سُنا کہ ایک مُنادی نے نداکی : اے نبیَّ اللہ! اے نوحعَلٰی نَبِیِّناوَعَلَی ±ہِ الصَّلٰوةُ وَالسَّلام! تشریف لایئے ۔ ناگاہ ایک صاحِب ِوَجاہت زَردی مائل چہرہ والے بُزُرگ دو۲ جنّتی حُلّے پہنے ہوئے تشریف لائے اور اُنہوں نے بھی وُہی الفاظ ارشاد فرمائے اور ایک کُرسی پر بیٹھ گئے۔ پھر ایک اور بڑا بادَل آیا اور اس میں سے حضرت سیِّدُنا ابراھیم خلیل اللہ عَلٰی نَبِیِّناوَعَلَیہِ الصَّلٰوةُ وَالسَّلام نُمُودارہوئے، اُنہوں نے بھی وُہی کلمات فرمائے اور ایک کرسی پر بیٹھ گئے اِسی طرح حضرتِ سیِّدُنا موسیٰ کلیم ُاللہ عَلٰی نَبِیِّناوَعَلَیہِ الصَّلٰوةُ وَالسَّلام اورحضرتِ سیِّدُنا عیسیٰ رُوحُ اللہ عَلٰی نَبِیِّناوَعَلَیہِ الصَّلٰوةُ وَالسَّلامتشریف لائے اور اِسی طرح کے کلمِات ارشاد فرما کر کُرسیوں پر جلوہ اَفروز ہو گئے۔پھر ایک بَہُت ہی بڑا بادَل آیا اُس میں سے حضرتِ سیِّدُنا و مولیٰنا محمدِ مَدَنی صلَّی اللہ تعالیٰ علیہ واٰلہ وسلَّم اور حضرتِ سیِّدتُنا بی بی فاطِمہ اور حضرتِ سیِّدُنا حَسَن مُجتَبیٰ رضی اللہ تعالیٰ عنہما اور ملائکہ نُمُودار ہوئے ۔پہلے مدینے کے سلطان،رَحمتِ عالَمیان ، سرورِذیشان صلَّی اللہ تعالیٰ علیہ واٰلہ وسلَّم سرِ انور کے پاس تشریف لے گئے اور سرِ مبارَک کو سینے سے لگایا اور بَہُت روئے ۔ پھر حضرتِ سیِّدَتُنا بی بی فاطمِہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا کو دیا ، اُنہوں نے بھی سینے سے لگایا اور بَہُت روئیں۔ پھرحضرت سیِّدُنا آدم صَفِیُّ اللّٰہ عَلٰی نَبِیِّناوَعَلَیہِ الصَّلٰوةُ وَالسَّلام نے نبیِّ رَحمت ،شفیعِ امّت،شَہَن ±شاہِ نُبُوَّت ، تاجدارِ رسالت صلَّی اللہ تعالیٰ علیہ واٰلہ وسلَّم کے پاس آ کر یوں تعزِیَّت کی:
اَلسَّلَامُ عَلَی الوَلَدِالطَّیِّبِ، اَلسَّلَامُ عَلَی الخَلقِ الطَّیِّبِ، اَعظَمَ اللّٰہُ اَجرَکَ وَ اَحسَنَ عَذَائَ کَ فِی ابنِکَ الحُسَینِ۔
سلام ہو پاکیزہ فطرت و خصلت والے پاک فرزند پر، اللہ آپ کو بَہُت زیادہ ثواب عطا فرمائے اور آپ کے شہزادہ گرامی حسین (کے اس امتحان) میں اَحسن یعنی بہترین صَبر دے۔

اسی طرح حضرتِ سیِّدُنا نُوحنَجیُّ اللہعَلٰی نَبِیِّناوَعَلَیہِ الصَّلٰوةُ وَالسَّلام، حضرتِ سیِّدُنا ابراھیم خلیل اللہ عَلٰی نَبِیِّناوَعَلَیہِ الصَّلٰوةُ وَالسَّلام،حضرتِ سیِّدُنا موسیٰ کلیم ُاللہ عَلٰی نَبِیِّناوَعَلَیہِ الصَّلٰوةُ وَالسَّلام،حضرتِ سیِّدُنا عیسیٰ روحُ اللہعَلٰی نَبِیِّناوَعَلَیہِ الصَّلٰوةُ وَالسَّلام نے بھی تعزیَّت فرمائی۔پھرسرکارِ والا تبار، بِاِذنِ پروردگار دو جہاں کے مالِک ومختار، شَہَنشاہِ اَبرار صلَّی اللہ تعالیٰ علیہ واٰلہ وسلَّم نے چند کلمِات ارشاد فرمائے ۔ پھر ایک فرِشتے نے سرکارِ مدینہ، سلطانِ باقرینہ ، قرارِ قلب وسینہ ، فیض گنجینہ صلَّی اللہ تعالیٰ علیہ واٰلہ وسلَّم کے قریب آکر عرض کی،اے ابو القاسِم صلَّی اللہ تعالیٰ علیہ واٰلہ وسلَّم ( اس واقِعہ ہائلہ سے) ہمارے دل پاش پاش ہو گئے ہیں۔ میں آسمانِ دنیا پر مُوَکَّل (مُ۔وَ۔کَّل) ہوں۔ اللہ تعالیٰ نے مجھے آپ صلَّی اللہ تعالیٰ علیہ واٰلہ وسلَّم کی اِطاعت کاحکم دیا ہے اگر آپ صلَّی اللہ تعالیٰ علیہ واٰلہ وسلَّم مجھے حکم فرمائیں تو میں ان لوگوں پر آسمان ڈھادوں اور ان کو تباہ و برباد کردوں ۔ پھر ایک اور فرِشتہ نے آ کر عرض کی، اے ابو القاسِم! صلَّی اللہ تعالیٰ علیہ واٰلہ وسلَّممیں دریاؤں پر مُوَکَّل ہوں، اللہ تعالیٰ نے مجھے آپ صلَّی اللہ تعالیٰ علیہ واٰلہ وسلَّم کی اِطاعت کا حکم دیا ہے اگر آپ صلَّی اللہ تعالیٰ علیہ واٰلہ وسلَّم فرمائیں تو میں ان پر طوفان برپا کر کے ان کوتَہِس نَہِس کر دوں۔ سرکار ِ مدینہصلَّی اللہ تعالیٰ علیہ واٰلہ وسلَّم نے فرمایا: اے فرشتو! ایسا کرنے سے باز رہو۔ حضرتِ سیِّدُنا حسن مجتبیٰ رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے( سوئے ہوئے چوکیداروں کی طرف اشارہ کرتے ہوئے بارگاہِ رسالت صلَّی اللہ تعالیٰ علیہ واٰلہ وسلَّممیں )عرض کی، نانا جان! یہ جو سوئے ہوئے ہیں یہی وہ لوگ ہیں جو میرے بھائی( حُسین)کے سرِ انور کو لائے ہیں اور یِہی نگرانی پر بھی مقرَّر ہیں۔ تو نبیِّ پاک صلَّی اللہ تعالیٰ علیہ واٰلہ وسلَّم نے فرمایا: ”اے میرے ربّ (عزوجل)کے فرِشتومیرے بیٹے کے قتل کے بدلے میں ان کو قتل کر دو۔“ تو خدا کی قسم ! میںنے دیکھاکہ چند ہی لمحوں میں میرے سب ساتھی ذبح کر دیئے گئے۔ پھر ایک فرِشتہ مجھے ذبح کرنے کے لئے بڑھا تو میں نے پکارا،اے ابو القاسِم ! صلَّی اللہ تعالیٰ علیہ واٰلہ وسلَّم مجھے بچایئے اور مجھ پر رحم فرمایئے اللہ عزوجل آپ پر رحم فرمائے۔ تو آپ صلَّی اللہ تعالیٰ علیہ واٰلہ وسلَّم نے فرِشتہ سے فرمایا: ”اسے رہنے دو پھر آپ صلَّی اللہ تعالیٰ علیہ واٰلہ وسلَّمنے میرے قریب آ کر فرمایا:تو ان ستّر آدمیوں میں سے ہے جو سر لائے تھے؟ میںنے عرض کی، جی ہاں! پس آپ صلَّی اللہ تعالیٰ علیہ واٰلہ وسلَّم نے اپنا ہاتھ مبارک میرے کندھے میںڈال کر مجھے منہ کے بل گرادیا اور فرمایا:” اللہ عزوجلتجھ پر نہ رحم کرے اور نہ تجھے بخشے ، اللہ عزوجل تیری ہڈّیوں کو نارِ دوزخ میں جلائے ۔“ تو یہ وجہ ہے کہ میں اللّٰہ عزوجل کی رحمت سے نااُمّید ہوں۔ حضرتِ سیِّدُنا اَعمَش رحمة اللہ تعالیٰ علیہ نے یہ سُن کر فرمایا: او بدبخت! مجھ سے دُور ہو کہیںتیری وجہ سے مجھ پر بھی عذاب نازِل نہ ہو جائے۔
( شامِ کربلا ص 267 تا 270 )
باغِ جنّت چھوڑ کر آئے ہیں محبوبِ خدا
اے زہے قسمت تمہاری کُشتگانِ اہلبیت

حُبِّ جاہ و مال
محترم قارئین کرام :!حُبِّ جاہ ومال بَہُت ہی بُرا وَبال ہے۔ میرے پیارے پیارے آقا مَدینے والے مصطَفٰے صلَّی اللہ تعالیٰ علیہ واٰلہ وسلَّم کافرمانِ معظَّم ہے:” دو بھوکے بھیڑیئے بکریوں میں چھوڑ دیئے جائیں وہ اتنا نقصان نہیں پہنچاتے جتناکہ مال و مرتبہ کا لالچ انسان کے دین کو نقصان پہنچاتا ہے۔ “
(سنن ترمذی ج۴ص166حدیث2383)

یزیدِ پلید مال و جاہ کی مَحَبَّت ہی کی وجہ سے سانحہ ہائلہ ءکرب وبلا کے وُقوع کا باعث بنا۔اِس ظالمِ بد انجام کو امامِ عالی مقام سیِّدُنا امامِ حُسین رضی اللہ تعالیٰ عنہ وَاَرضاہ ُ کی ذاتِ گِرامی سے اپنے اِقتِدار کو خطرہ محسوس ہو تا تھا۔ حالانکہ سیِّدُنا امامِ عالی مقام رضی اللہ تعالیٰ عنہ کو دنیائے ناپائیدار کے اِقتِدار سے کیا سرو کار! آپ رضی اللہ تعالیٰ عنہ تو کل بھی اُمّتِ مُسلِمہ کے دلوں کے تاجدار تھے ، آج بھی ہیں اور رہتی دنیا تک رہیں گے
نہ ہی شِمر کا وہ ستم رہا، نہ یزید کی وہ جفا رہی
جو رہا تو نام حُسین کا،جسے زندہ رکھتی ہے کربلا
فیضان سنت کا فیضان ۔۔۔۔جاری ہے۔۔۔
وہ آج تک نوازتا ہی چلا جارہا ہے اپنے لطف وکرم سے مجھے
بس ایک بار کہا تھا میں نے یا اللہ مجھ پر رحم کر مصطفی کے واسطے
Abu Hanzalah M.Arshad Madani
About the Author: Abu Hanzalah M.Arshad Madani Read More Articles by Abu Hanzalah M.Arshad Madani: 178 Articles with 371093 views Currently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.