سرمُبارَک کی چمک دَمَک(کرامات امام حسین)۔

گزشتہ سے پیوستہ۔۔۔
سرِ انور کی عجیب بَرَکت
منقول ہے،مِصر کے سلطان” مَلِک ناصِر“ کو ایک شخص کے مُتَعَلِّق اِطِّلاع دی گئی کہ یہ شخص جانتا ہے کہ اس مَحَل میں خزانہ کہاں دَفن ہے مگر بتاتا نہیں ۔ سلطان نے اُگلوانے کیلئے اس کی تَعذِیب یعنی اَذیّت دینے کا حکم دیا۔ مُتَوَلّیِ تَعذِیب (یعنی اذیَّت دینے پر مامور شخص) نے اس کو پکڑا اور اس کے سر پر خَنَافِس (گُبریلے) لگائے اور اس پرقِرمِز( یعنی ایک طرح کے ریشم کے کیڑے ) ڈال کر کپڑا باندھ دیا۔یہ وہ خوفناک اَذِیَّت وعُقُوبت ہے کہ اس کو ایک مِنَٹ بھی انسان برداشت نہیں کر سکتا ۔اس کا دِماغ پھٹنے لگتا ہے اور وہ فوراً راز اُگل دیتا ہے۔ اگر نہ بتائے تو کچھ ہی دیر کے بعد تڑپ تڑپ کر مر جاتا ہے ۔ یہ سزا اُس شخص کو کئی مرتبہ دی گئی مگر اس کو کچھ بھی اثر نہ ہوا بلکہ ہر مرتبہ خَنافِس مر جاتے تھے۔ لوگوں نے اِس کا سبب پوچھا تو اس شخص نے بتایا کہ جب حضرتِ امامِ عالی مقام،سیِّدُناامامِ حُسین رضی اللہ تعالیٰ عنہ کا سرِ مبارَک یہاں مِصر میں تشریف لایا تھا۔اَلحَمدُ لِلّٰہ عَزَّوَجَلَّ میں نے اس کوعقیدت سے اپنے سرپر اُٹھا یا تھا یہ اُسی کی بَرَکت اور کرامت ہے۔ (شامِ کربلا ص 248)
پھول زخموں کے کِھلائے ہیں ہوائے دوست نے
خون سے سینچا گیا ہے گُل سِتانِ اہلبیت
صَلُّو ا عَلَی الحَبِیب !

صلَّی اللّٰہُ تعالٰی علٰی محمَّد

اذیَّت ناک کیڑوں کا تعارُف
معلوم ہوا مُتَبرِّک چیز کو عقیدت سے سر پر رکھنا دونوں۲ جہانوں میں باعثِ سعادت ہے۔ اس حکایت میں رازاُ گلوانے کیلئے استِعمال کئے جانے والے جن کیڑوں کا تذکرہ ہے ان کے بارے میں عرض ہے:خَنَافِس خُنفَسَا کی جمع ہے جو کہ نَجاست اور گوبر میں پیدا ہونے والا سیاہ رنگ کا دو۲ سینگ والا ایک کیڑا ہے۔ اُردو میں اس کو گُبریلا کہتے ہیں ۔ قِرمِز چھوٹے چنے کے برابرسُرخ رنگ کے ریشم جیسے کیڑے کو کہتے ہیں جو کہ عموماً برسات کے دنوں میں بعض جنگلوں میں پیدا ہوتا ہے۔ اس کوسُکھا کر اس سے ریشم رنگنے کا سُرخ رنگ بنایا جاتا ہے۔ اس کی دوا بھی بنتی ہے اور اس سے تیل بھی نکالتے ہیں ۔ اُردو میں اس کو بِیر بَہُوٹی کہتے ہیں۔ اُس زمانے میں مُلزَموں سے اِعترِافِ جُرم کروانے کے لیے اس طریقے پر اِیذا دیتے تھے، سر پر نیچے وہخَنَافِس (گبریلے) اور اوپر قِرمِز ڈال کر باندھ دیتے تھے،کیڑے کاٹ کاٹ کر سر کی کھال میں سُورا خ کر دیتے تھے، ان سوراخوں میں قِرمِزکے ٹکڑے اور ان کی رطوبت وغیرہ داخِل ہو جاتی جس سے دماغ کی رگیں پھٹ جاتی تھیں ۔ یہ ایسی ناقابلِ برداشت سزا ہوتی کہ ملزَم فوراً اِعترافِ جُرم کر لیتا تھا۔اِس رونگٹے کھڑے کر دینے والی دُنیوی اذیَّت کے تذکِرہ میں عذابِ آخِرت کی یاد ہے۔ آہ ! ان کیڑوں کی تکلیف جب کہ ہم میں سے ایک سیکنڈ کیلئے کوئی برداشت نہیں کر سکتا تو قَبرو جہنَّم میں سانپ کا ڈَسنا اور بچھوﺅں کے ڈنک بھلا کون سہ سکتا ہے! خدانخواستہ کسی ایک چھوٹے سے گناہ پر ہی اگر پکڑ ہو گئی اور بالفرض صِرف ایک ہی بچھو سر پر بِٹھا دیا گیا تو ہمارا کیا بنے گا!
ڈنک مچھر کا بھی مجھ سے تو سہا جاتا نہیں
عَفو کر اور سدا کیلئے راضی ہوجا

قَبر میں بچّھو کے ڈنک کیسے سہوں گا یا ربّ
یہ کرم ہو گا تو جنَّت میں رہوں گا یا ربّ

سرمُبارَک کی چمک دَمَک
ایک روایت یہ بھی ہے کہ سرِ انور یزیدِ پلید کے خزانہ ہی میں رہا۔ جب بنواُمَیّہ کے بادشاہ سلیمان بن عبدُ الملک کا دَورِ حکومت(96ھ تا99ھ) آیا اور ان کو معلوم ہوا تو اُنہوں نے سرِ انور کی زیارت کی سعادت حاصِل کی، اس وَقت سرِ انور کی مبارَک ہڈّیاں سفید چاندی کی طرح چمک رہی تھیں، انہوں نے خوشبو لگائی اور کفن دے کر مسلمانوں کے قبرِستان میں دَفن کروادیا۔ (تَہذِیبُ التَّہذِیب ج ۲ ص 326دارالفکر بیروت)
چِہرے میں آفتابِ نُبُوّت کا نور تھا
آنکھوں میں شانِ صَولتِ سرکارِ بُو تُراب

رِضائے مصطَفٰے کا راز
حضرتِ علّامہ ابنِ حَجَر ہیتمی مَکّی علیہ رحمة اللہ القوی روایت فرماتے ہیں کہ سُلیمان بن عبدُ الملِک جنابِ رسالتِ مآب صلَّی اللہ تعالیٰ علیہ واٰلہ وسلَّم کی زیارت سے خواب میں مشرَّف ہوئے دیکھا کہ شَہَنشاہِ رِسالت صلَّی اللہ تعالیٰ علیہ واٰلہ وسلَّم ان کے ساتھ مُلاطَفَت (یعنی لُطف و کرم) فرما رہے ہیں ۔ صبح اُنہوں نے حضرتِ سیِّدُنا حسن بصری رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے اِس خواب کی تعبیر پوچھی ، اُنہوں نے فرمایا: شاید تُو نے آلِ رسول کے ساتھ کوئی بھلائی کی ہے۔ عرض کی ،جی ہاں! میں نے حضرتِ سیِّدُنا امامِ عالی مقام امامِ حسین رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے مبارَک سر کو خزانہ یزید میں پایا تو اس کو پانچ کپڑوں کا کفن دے کر اپنے رُفَقاءکے ساتھ اس پر نَماز پڑھ کر اس کو دَفن کیا ہے۔ حضرتِ سیِّدُنا حسن بصری رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے فرمایا: آپ کا یہی عمل رضائے محبوبِ ربِّ لَم یَزَلعَزَّوَجَلَّ و صلَّی اللہ تعالیٰ علیہ واٰلہ وسلَّم کا سبب ہوا ہے۔
(الصَواعِقِ المُحَرَّقہ ص 199)

مصطَفٰے عزّت بڑھانے کیلئے تعظیم دیں
ہے بلند اقبال تیرا دُود مانِ اہلبیت

مختلَف مَشاھَد کی وضاحت
خطیبِ پاکستان واعظِ شیریں بیان حضرت مولیٰنا الحاج الحافظ محمد شفیع اوکاڑوی علیہ رحمة اللہ القوی اپنی تالیف” شامِ کربلا“ میں تحریر فرماتے ہیں:سرِ انور کےمُتَعَلِّق مختلَف رِوایات ہیں اور مختلَف مقامات پر ۱ مَشاھَد بنے ہوئے ہیں تو یہ بھی ہو سکتا ہے کہ اِن رِوایات اور مَشاہَد کا تعلُّق چندسَروں سے ہو کیوں کہ یزید کے پاس تمام شُہَدائے اہلِ بیت علیہم الرضوان کے سر بھیجے گئے تھے۔ تو کوئی سر کہیں اور کوئی کہیں دَفن ہوا ہو ۔اور نسبت حُسنِ عقیدت کی بِناءپر یا کسی اور وجہ سے صِرف حضرتِ امامِ حسین رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی طرف کر دی گئی ہو۔ واللّٰہُ اَعلمُ بحقیقةِ الحال۔ (شامِ کربلا ص

فیضان سنت کا فیضان ۔۔۔۔جاری ہے۔۔۔
وہ آج تک نوازتا ہی چلا جارہا ہے اپنے لطف وکرم سے مجھے
بس ایک بار کہا تھا میں نے یا اللہ مجھ پر رحم کر مصطفی کے واسطے
Abu Hanzalah M.Arshad Madani
About the Author: Abu Hanzalah M.Arshad Madani Read More Articles by Abu Hanzalah M.Arshad Madani: 178 Articles with 371068 views Currently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.