احتیاط کا مطلب ہے کہ کسی بھی
قول وفعل کے ارتکاب سے قبل انسان اس کے مثبت ومنفی پہلووں پر اچھی طرح غور
وفکر کرے بعد تفکر اگر اس کا عرفاً وشرعاً درست ہونا معلوم ہو تو کر گزرے
ورنہ جا نب ترک میں عافیت سمجھے۔ جیسا کہ حضرت انس رضی اللہ عنہ ارشاد
فرماتے ہیں کہ ایک شخص نے بارگاہ رسالت ﷺ میں عرض کی یا رسول اللہ ﷺ مجھے
کچھ نصیحت فرمائیے۔ آپ نے ارشاد فر ما یا: کام تدبیر سے اختیار کرو، اگر اس
کے انجام میں بھلائی دیکھو تو کر گزر و اور اگر گمراہی کا خوف ہو تو باز
رہو۔(مشکوٰة)
سیدنا ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ کی احتیاط
حضرت عائشہ صدیقہ رضی ا للہ عنہ نے فرمایا کہ حضرت ابو بکر صدیق رضی اللہ
عنہ کا ایک غلام تھا،جو انہیں خراج دیا کرتا تھا، آپ اس کے خراج میں سے
کھالیا کرتے تھے۔ ایک روز وہ کوئی چیز لایا، حسب عادتاً آپ نے اسے بھی
کھالیا۔غلام نے عرض کی آپ کو معلو م ہے یہ کیا چیز تھی؟ آپ نے پوچھا کیا
تھی؟ اس نے کہا کہ میں نے دورِ جاہلیت میں ایک آدمی کو سمت بتائی تھی اور
میں کہانت میں ماہرنہیں تھا بلکہ اسے دھوکا دیا تھا۔ وہ مجھے ملا تو اس نے
مجھے یہ چیز دی جس میں سے آپ نے کھایا ہے ۔حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا فرماتی
ہیں کہ حضرت ابوبکرصدیق رضی ا للہ عنہ نے اپنا ہاتھ اندر داخل کیا اور جو
کچھ پیٹ میں تھا سب کی قے کردی۔(بخاری)
سیدنا عمر رضی اللہ عنہ کی احتیاط
ایک روز حضرت سیدنا عمر رضی اللہ عنہ باہر تشریف لائے آپ کو کوئی تکلیف لا
حق تھی۔ بعض لوگوں نے کہا کہ اس مرض کے علاج کے لئے شہد اچھی چیز ہے اس وقت
بیت المال میں شہد کا ایک بر تن موجود تھا۔ آپ نے لوگوں سے کہا کہ کیا تم
مجھے اجازت دیتے ہو کہ میں اس میں سے کچھ شہد لے لوں ، اگر تم اجازت دو گے
تو میں لے لوں گا ورنہ تمہاری اجازت کے بغیر وہ مجھ پر حرام ہے۔ چنانچہ
لوگوں نے آپ کی ضرورت کا احساس کرتے ہوئے اجازت دے دی۔(تاریخ الخلفاء)
اسلاف کرام کی دیانت داری واحتیاط
حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ سرکار مدینہ ﷺ نے ارشاد
فرمایا، ایک آدمی نے دوسرے سے زمین خریدی۔ خریدار نے زمین کھودی تو اس میں
سے ایک گھڑا نمودار ہوا جس میں سونا تھا۔ وہ اس سونے کو بیچنے والے کے پاس
لے گیا اور سارا معاملہ بیان کر کے بولا کہ بھائی اب یہ اپنا سونا اپنے پاس
رکھو کیونکہ میں نے تم سے فقط زمین خریدی تھی سونا نہیں۔بیچنے والے نے جواب
دیا۔ نہیں بھائی یہ سونا تمہارا ہے کیونکہ میں نے زمین کے ساتھ ساتھ جو کچھ
اس پر تھا وہ سب کا سب تجھے بیچا تھا لہٰذا اب تم ہی اس کے مالک ہو۔جب یہ
تکرار بڑھی تو دونوں ایک شخص کے پاس فیصلہ کروانے کے لئے گئے۔ اس شخص نے
دریافت کیا کہ کیا تم دونوں کی کوئی اولاد ہے؟ ایک نے کہا میرا لڑکا ہے
دوسرے نے لڑکی کا اقرار کیا ۔فیصلہ کرنے والے نے کہا پس میرا فیصلہ یہ ہے
کہ لڑکے کا لڑکی کے ساتھ نکاح کردو اور اس سونے کو دونوںپر خرچ کردو۔
چنانچہ ان دونوں نے حسب فیصلہ ایسا ہی کیا۔حضرت عمر بن عبدالعزیز رضی اللہ
عنہ کی خدمت میں ایک مرتبہ مالِ غنیمت کا مشک لایا گیا تو آپ نے ناک بند
کرتے ہوئے فرمایاکہ اس کا نفع تو اس کی خوشبوسونگھناہے اور یہ سب مسلمانوں
کا حق ہے،میں اکیلا اس سے نفع اٹھانے کااہل نہیں۔(احیاءالعلوم)ایک بزرگ کسی
بیمار کے سرہانے بیٹھے تھے،جونہی اس بیمار نے حکم الٰہی سے انتقال کیا،آپ
نے چراغ گل کر دیاکہ اب اس میں وارث کا حق بھی شامل ہوگیاہے۔(کیمیائے
سعادت)حضرت انس رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اکرم ﷺ کوراستے میںپڑی
ہوئی ایک کھجور ملی تو آپ نے فرمایاکہ اگرمجھے اس کے صدقہ سے ہونے کا
اندیشہ نہ ہوتاتومیںاسے کھالیتا۔(بخاری ومسلم)
ان تمام واقعات کی روشنی میں ہمیں بھی ہر معاملے میں احتیاط کی جانب توجہ
دینی چاہئے۔یونہی اگرکوئی چیز مشتبہ ہوجائے کہ اس کا جائز وناجائز ہونا
معلوم نہ ہوتو اس سے بچنے ہی میں احتیاط ہے کیونکہ بے احتیاطی کی عادت بسا
اوقات نہ صرف حرام بلکہ کفر تک بھی پہنچا دیتی ہے۔رسول اکرم ﷺ ،اصحاب رسول
اور اکابرین اسلام کی مکمل زندگی اسی احتیاط پسندی کا نمونہ نظر آتی ہے۔جن
کی گلستانِ حیات سے اوپر چند معطر روایات سپرد قرطاس ہیں۔اللہ پاک ہمیں
اسلام کے جملہ نظام پر ادائیگی کی توفیق عطا فرمائے۔آمین(بحوالہ:نورانی
واقعات،علامہ محمد اکمل عطا) |