اللہ تعالیٰ نے انسان کو شعوری
طور پر جسم ڈھانپنے کا طریقہ و سلیقہ بتایا ہے ۔جس کپڑے سے جسم ڈھانپا جائے
اسے لباس کہتے ہیں۔
لباس پہننا سنت رسول ﷺ ہے کیونکہ اسلام میں ستر دھانپنا فرض ہے ۔نبی اکرم ﷺ
کی عادت مبارک تھی کہ جو سیدھا سادھا کپڑا میسر آتا زیب تن فرما لیتے اور
کسی خاص قسم کے کپڑے کی جستجو میں نہ رہتے اور کسی حال میں عمدہ اور نفیس
کی خواہش نہ فرماتے ۔یعنی جو لباس ضرورت کو پورا کر دیتا اسی پر اکتفا
فرماتے ۔کبھی کبھی آپ نے قیمتی اور اعلیٰ لباس بھی پہنا مگر جلد ہی اسے
اتار کر کسی کو عنایت کر دیا تاکہ اُمت کے لئے عمدہ لباس پہننے کا جواز رہے
۔
آپ ﷺ عموماً چادر اور قمیص اور تہبند پہنتے تھے جوکہ سخت اور موٹے کپڑے کے
ہوتے ۔منقول ہے کہ آپ کی چادر میں بہت سے پیوند لگے ہوتے تھے جسے آپ اُوڑھا
کرتے تھے اور فرماتے میں بندہ ہی ہوں اور بندوں جیسا ہی لباس پہنتا ہوں۔
آپ ﷺ اکثر سفید کپڑے کو پسند فرماتے مگر ہمیشہ صاف ستھرے کپڑوں کو ترجیح
دیتے تھے۔ حضور اکرم ﷺ میلے اور گندے کپڑوں کو مکروہ اور نا پسند جانتے تھے
۔ ایک مرتبہ حضور اکرم ﷺ نے ایک شخص کو میلے اور گندے کپڑے پہنے ہوئے دیکھا
فرمایا کہ کیا یہ شخص ایسی چیز نہیں رکھتا کہ جس سے کپڑوں کو دھولے ۔ایک
حدیث میں ہے کہ بلا شبہ اللہ تعالیٰ اور پاک و صاف ہے لہٰذا پاکی اور صفائی
کو پسند فرماتا ہے ۔
ایک صحابی فرماتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے مجھے اس حال میں دیکھا کہ میرے جسم
پر کم قیمت کے کپڑے تھے فرمایا کہ کیا تیرے پاس کسی قسم کا مال ہے تو صحابی
نے عرض کیا ہاں ۔اللہ تعالیٰ نے مجھے ہر نعمت سے نوازا ہے ۔اونٹ بھی ہیں او
ربکریاں بھی ہیں ۔تو پھر رسول اللہ ﷺ نے فرمایا کہ پھر تو اللہ تعالیٰ کی
نعمت اور بخشش کو تمہارے جسم سے ظاہر ہونا چاہےے مطلب یہ کہ مال و دولت
ہونے کی صورت میں مناسب لباس پہننا چاہیے اور اللہ کی نعمت کا شکر ادا کرنا
چاہےے۔
رسول اکرم ﷺ کی عادت لباس کے سلسلہ میں بے نیاز تھی ۔جو مل گیا پہن لیا
۔یعنی قیمتی اورسستا دونوں طرح کا لباس استعمال کیا اس لئے آپ کے بعد لباس
پہننے کے سلسلے میں لوگ دو طرح کے ہو گئے ۔بعض لوگوں نے تزئین اور نفیس
لباس کو اختیار کر لیا اور وہ اس کے دلدادہ ہو کر رہ گئے اور بعض نے سخت و
درشت لباس اختیار کر لیا ۔وہ خستہ حالت میں رہ گئے یہ دونوں طریقے سنت کے
خلاف ہیں اس لئے لباس کے سلسلہ میں میانہ روی اور عدم تکلیف کو اختیار کرنا
عین سنت ہے ۔
رسول اکر م ﷺ نے جس قسم کا لباس استعمال کیا اس کے متعلق احادیث مندرجہ ذیل
ہیں۔
کرتہ :رسول اللہ ﷺ نے کرتہ پہننا پسند فرمایا ہے ۔حضرت ام سلمیٰ رضی اللہ
عنہا فرماتی ہیں کہ رسول اللہ ﷺ کا پسندیدہ ترین لباس کرتہ تھا۔(ترمذی)
حضرت اسماءبنت یزید رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں کہ رسول اللہ ﷺ کی قمیض کی
آستین تھی۔(ابو داﺅد)
حضرت ابی ہریرہ رضی اللہ عنہ راوی ہیں کہ حضور اکرم ﷺ جس وقت قمیض پہنتے تو
دائیں طرف سے پہننا شروع فرماتے۔(ترمذی)
حضرت انس رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ کا قمیض سوتی اور آستین
والا تھا او ر قمیض پرتکمے لگے ہوئے تھے۔
حضرت عبد اللہ بن عباس رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ ایسی قمیض
پہنتے تھے جو لمبائی میں ٹخنوں سے اوپر ہوتی اور آستین ہاتھ کے گٹے تک
ہوتی۔
حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا سے روایت ہے کہ محبوب خدا ﷺ کے دو کپڑے تھے
جو موٹے اور کھردے تھے ۔ میں نے عرض کیا کہ یا رسول اللہ ﷺ آپ کے دونوں
کپڑے موٹے اور کھردرے ہیں پسینہ آتا ہے تو دونوں آپ پر بھاری اور گراں ہو
جاتے ہیں۔
ان احادیث سے معلوم ہوا کہ رسول اللہ ﷺ کی اتباع کی نیت سے قمیض پہننا سنت
ہے ۔مگر لمبائی چوڑائی مناسب ہونی چاہےے۔کیونکہ حضور اکرم ﷺ کی قمیض اعتدال
اور مناسبت پر مبنی ہوتی تھی ۔
سنت تہبند: رسول اکرم ﷺ اپنے جسم کے نچلے حصہ پر ایک چادر باندھا کرتے تھے
جسے تہبند یا لنگی کہا جاتا ہے ۔آپ کا تہبند اوپر سے ناف کے نیچے ہوتا اور
نیچے کی جانب سے پنڈلیوں پر ٹخنوں سے اوپر ہوتا اور آپ کے ٹخنوں سے نیچے
تہبند یا کسی اور کپڑے کو لٹکانے سے منع فرمایا ہے ۔
حضرت ابی ہریرہ رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ ام المومنین حضرت عائشہ صدیقہ
رضی اللہ عنہا نے پیوند لگی ہوئی قمیض اور موٹا سا تہبند نکالا اور کہا
حضور اکرم ﷺ کی وفات انہیں کپڑوں میں ہوئی ۔(مسلم شریف)
حضرت ابی ہریرہ رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ رسول کریمﷺ نے فرمایا:”ٹخنوں کے
نیچے تہبند کا جو حصہ ہے وہ آگ میں ہے ۔“(بخاری شریف)
حضرت ابو سعید خدری رضی اللہ عنہ راوی ہیں کہ حضور تاجدار انبیاءمحبوب
کبریا ﷺ نے فرمایا:”مومن کا تہبند آدھی پنڈلیوں تک ہے ۔ان کے اور ٹخنوں کے
درمیان میں بھی حرج نہیں اور اس سے جو نیچے ہو آگ ہے ۔اللہ تعالیٰ اُس شخص
کی طرف نظر نہیں فرمائے گا جو از راہِ تکبر تہبند کو زمین پر گھسیٹے۔“(سنن
ابن ماجہ)
طبرانی سیدنا ابن عمر رضی اللہ عنہ سے روایت کرتے ہیںوہ فرماتے ہیں کہ حضور
اکرم ﷺ نے مجھے دیکھا کہ میرا تہبند گٹوں سے نیچے ہے ۔حضور اکرم ﷺ نے
فرمایا اے ابن عمررضی اللہ عنہ ! جو کپڑا زمین سے چھو جائے وہ آتش دوزخ میں
ہے اور بخاری میں ہے کہ تہبند کا جو حصہ ٹخنوں کے نیچے ہے وہ آگ میں ہے یہ
حکم مردوں کے لئے ہے اور عورتوں کو لٹکانا اور لمبا رکھنا جائز ہے اور جب
سیدہ ام سلمہ رضی اللہ عنہا نے عرض کیا کہ یا رسول اللہ ﷺ عورتیں کیا
کریں؟فرمایا ایک بالشت تک بڑھالیں ۔عرض کیا اب بھی پاﺅں بر ہنہ رہتے ہیں
۔ایک ہاتھ تک بڑھالیں ۔اس سے زیادہ نہ کریں ۔یہ حکم تہبند اور قمیض کے دامن
کا ہے ۔ظاہر ہے کہ زمین سے دامن چھونا عورتوں کے لئے جائز ہے ۔
حضور اکرم ﷺ کی چادر شریف کی لمبائی چار گز شرعی اور اس کا عرض دو گز شرعی
اور ایک بالشت تھا ۔حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہما سے مروی ہے وہ بیان کرتے
ہیں کہ میں نے حضور ﷺکو زیر ناف تہبند باندھے دیکھا ہے اور آپ کی ناف ظاہر
تھی ۔ابو بردہ بن ابی موسیٰ اشعری رضی اللہ عنہ سے مروی ہے وہ بیان کرتے
ہیں کہ شب مرقع میں سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا نے ہمارے لیے تہبند اور چادر
نکال کر دکھایا اور فرمایا کہ رسول اللہ ﷺ نے اسی حالت کے ساتھ ان کپڑوں
میں رحلت فرمائی۔
سنت چادر:رسول اکرم ﷺ ایک چادر لباس کے اوپر سے اوڑھا کرتے تھے اور نماز
بھی اسی میں پڑھ لیا کرتے تھے ۔چادر عموماً آپ گرمیوں میں گرمی سے بچنے کے
لئے استعمال کیا کرتے تھے ۔چادر آپ کو بہت پسند تھی اس کے متعلق احادیث
مندرجہ ذیل ہیں۔
حضرت انس رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ حضرت محمد رسول اللہ ﷺ کا محبوب ترین
لباس حر (دھاری دار یمنی چادر ) تھی۔(بخاری)
حضرت ابو رمشہ رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ میں نے رسول اللہ ﷺ کو دو چادریں
پہنے ہوئے دیکھا جن کا رنگ سبز تھا۔(ترمذی)
حضرت جابر بن سمرہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے وہ فرماتے ہیں کہ میں نے حضور
اکرم ﷺ کو چاندنی رات میں دیکھا اور آپ کے جسم اطہر پر سرخ جوڑا تھا تو میں
کبھی آپ کو دیکھتا تھا ۔ اور کبھی چاند کو ۔ میرے نزدیک حضور اکرم ﷺ چاند
سے زیادہ حسین تھے۔براءبن عازب رضی اللہ عنہ سے مروی ہے وہ بیان کرتے ہیں
کہ میں نے کسی کو نہ دیکھا ایک روایت میں ہے کہ کسی چیز کو نہ دیکھا کہ وہ
حضور اکرم ﷺ کے سرخ جوڑے میں سب سے زیادہ حسین ہو۔
حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا سے روایت ہے کہ رسول اکرم ﷺ نے ایک مرتبہ
سیاہ چادر زیب تن فرمائی تو میں نے عرض کیا یہ آپ ﷺ کے جسم پر کتنی خوب لگ
رہی ہے ۔آپ ﷺ کی رنگت مبارک کی سفید ی میں اس کی سیاہی سے اور اس کی سیاہی
آپ ﷺ کی سفیدی سے مل کر یوں نظر آتی ہے ۔جیسے سیاہ بادل کے درمیان سورج چمک
رہا ہو۔(الوفا)
بعض لوگوں کو اس حدیث سے اشتباہ ہوتا ہے کہ سرخ لباس جائز ہو گا یہ غلط ہے
۔سرخ سے مراد وہی ہے کہ سرخ دھاریاں تھیں ۔ اسی طرح سبز رنگ کے بارے میں
حدیث واقع ہے صحابہ کہتے ہیں کہ ہم نے رسول اللہ ﷺ کو دیکھا ہے آ پ کے جسم
اطہر پر دو سبز چادریں تھیں اور عطا بن ابی یعلی اپنے والدسے روایت کرتے
ہیں کہ انہوں نے کہا میں نے رسول اللہ ﷺ کو دیکھا ہے کہ آپ طواف میں سبز
چاد ر شریف سے اضطباغ کےئے ہوئے تھے ۔اس سے مراد ایسی چادر ہے جس میں سبز
دھاریاں تھیں ۔اگر چہ یہ جگہ خالص سبز ہونے کا بھی احتمال رکھتی ہے ۔لیکن
دیار عرب میں یہی معنی مشہور و معروف ہیں اور زرد رنگ بھی اسی معنی میں ہے
کہ زرد رنگ کی دھاریاں تھیں ۔ کیونکہ رسول اکرم ﷺ نے سرخ لباس سے منع
فرمایا ہے ۔صحیح مسلم میں حضرت ابن عمر رضی اللہ عنہ سے مروی ہے وہ بیان
کرتے ہیں کہ حضور اکرم ﷺ نے میرے جسم پر سرخ رنگ کا لباس دیکھ کر فرمایا یہ
کفار کا لباس ہے اسے نہ پہنو ۔ عبد اللہ بن عمر و بن العاص رضی اللہ عنہ سے
مروی ہے وہ فرماتے ہیں کہ میں رسول اللہ ﷺ کی بارگاہ میں حاضر ہوا اس وقت
میرے جسم پر سرخ رنگ کا لباس تھا ۔حضور اکرم ﷺ نے فرمایا تم نے اسے کہاں سے
لیا ہے ۔میں نے عرض کیا میری بیوی نے میر ے لئے بنایا ہے ۔فرمایا اسے جلا
دو۔
سنت کمبل:کمبل اوڑھنا بھی سنت ہے کیونکہ رسول اللہ ﷺ کبھی کبھی موسم کے
لحاظ سے یعنی سردی میں کمبل اوڑھا کرتے تھے یہ کمبل عموماً اُون کا بنا
ہوتا تھا۔
حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا سے روایت ہے کہ محبوب خدا ﷺ ایک دن مسجد
میں تشریف لے گئے اور آپ نے اُون سے بنا ہوا کمبل زیب تن فرمارکھا تھا ۔
سنت جبہ:حضرت مغیرہ بن شعبہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ نبی کریم ﷺ نے
رومی جبہ زیب تن فرمایا جس کی آستین تنگ تھی ۔(ترمذی ،بخاری ،مسلم)
حضور اکرم ﷺ نے رومی جبہ تنگ آستین کا پہنا ہے اور وضو کے وقت دستہائے
مبارک کو آستین سے نکال کر جبکہ کو کندھوں یا پشت پر ڈال لیتے اس کے بعد
ہاتھوں کو دھوتے ۔یہ حالت سفر کی تھی کیونکہ سفر میں آپ تنگ لباس پہنا کرتے
تھے۔
حضرت اسماءبنت ابی بکر رضی اللہ عنہا سے مروی ہے کہ انہوں نے ایک کسروانی
جبہ نکالا جس کے گریبان اور چاکوں پر ریشم کی گوٹ لگی ہوئی تھی ۔ حضرت
اسماءرضی اللہ عنہا نے فرمایا یہ رسول اللہ ﷺ کا جبہ مبارک ہے جو کہ حضرت
عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا کے پاس تھا جب ان کا انتقال ہوا تو میں نے لے
لیا اور ہم اسے دھوکر بیماروں کو شفا کے لئے پلاتی ہیں۔(مسلم شریف)
شلوار :رسول اللہ ﷺ نے خود شلوار پہنی ہے اس بارے میں محدثین کا اختلاف ہے
۔بعض کا کہنا ہے کہ یقینا پہنی ہے ۔شرح شفاءمیں لکھا ہے کہ شلوار پہنی ہے ۔
ابو یعلیٰ موصلی اپنی مسند میں بسندِ ضعیف حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے
روایت کرتے ہیں وہ بیان کرتے ہیں کہ میں حضور اکرم ﷺ کے ہمراہ ایک دن بازار
گیا تو حضور اکرم ﷺ ایک دکان میں تشریف فرما ہوئے پھر ایک سرا ویل
(پائجامہ) چار درہم میں خرید ا اور اہل بازار کا ایک وزان یعنی تولنے والا
تھا اس سے حضور اکرم ﷺ نے ارشاد فرمایا وزن کر اور خوب اچھی طرح ٹھیک وزن
کر اس پر اس وزان نے کہا میں نے یہ بات کسی سے نہیں سُنی ۔ابو ہریرہ رضی
اللہ عنہ نے وزان سے فرمایا :افسوس ہے تجھ پر تو نہیں جانتا آپ ﷺ ہمارے نبی
ہیں ۔پھر تو وہ تراز وچھوڑ کر حضور اکرم ﷺ کے دست مبارک کی طرف جھکا اور
چاہا کہ حضور اکرم ﷺ کے دستِ مبارک کو بوسہ دے ۔ مگر حضور اکرم ﷺ نے اپنا
دستِ مبارک کھینچ لیااور فرمایا اے فلاں !ایسا عجمی لوگ اپنے بادشاہوں کے
ساتھ کرتے ہیں ۔میں بادشاہ نہیں ہوں ۔میں تمہی میں سے ایک شخص ہوں اور حضور
اکرم ﷺ نے سراویل لے لی۔ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ میں نے چاہا
کہ میں اٹھالوں ۔ فرمایا مال کا مالک زیادہ حق دار ہے کہ وہ خود اپنے مال
کو اُٹھائے مگر یہ کہ وہ کمزور یا مجبور ہو اور اٹھانے کی طاقت نہ رکھتا ہو
۔تو ایسے مسلمان بھائی کی مال کے لے جانے میں مدد دینی چاہےے۔ ابو ہریرہ
رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ میں نے عرض کیا یا رسول اللہ ﷺ ! کیا پہننے کے
لئے سراویل خرید فرمائی ہے ۔فرمایا ہاں! میں اسے سفر و حضر اور دِن اور رات
میں پہنوں گا۔ اس لئے کہ مجھے خوب ستر پوشی کا حکم دیا گیا ہے اور اس سے
بہتر ستر پوش دوسرا لباس نہیں دیکھا ۔اس حدیث کو بکثرت محدثین نے بسند ضعیف
روایت کیا ہے ۔لیکن حضور اکرم ﷺ کااس کو خریدنا صحت کے ساتھ ثابت ہے اور
ہدایہ میں ہے کہ اس کا خریدنا پہننے کے لئے تھا ۔ روایت کیا گیا ہے کہ حضور
اکرم ﷺ نے اسے پہنا اور آپ کی اجازت سے صحابہ نے بھی پہنا ۔(واللہ اعلم)
سفید لباس:مردوں کے لئے سفید لباس زیادہ بہتر ہے حضرت سمرہ بن جندب رضی
اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺنے فرمایا سفید کپڑے پہنا کرو، کیونکہ
وہ زیادہ صاف ستھرے ہیں اور انہیں (سفید کپڑوں) میں اپنے مُردوں کو کفن دیا
کرو۔ “(شمائل ترمذی)
مرد کے لئے سفید کے علاوہ دوسرے رنگ بھی جائز ہیں ۔لیکن سرخ اور زعفرانی
رنگ منع ہے ۔البتہ عورتوں کو اجازت ہے ۔حضرت عبد اللہ بن عمر رضی اللہ
عنہما فرماتے ہیں کہ ایک شخص سرخ کپڑے پہنے بارگاہ نبوی میں حاضر ہوا اور
سلام عرض کیا حضور اکرم ﷺ نے اس کے سلام کا جواب نہیں دیا ۔(ابو داﺅد
،ترمذی)
حضرت عبد اللہ بن عمر و بن عاص رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے
مجھ پر زعفرانی رنگ کے دو کپڑے دیکھے تو فرمایا :” یہ کفار کا لباس ہے ،ان
کپڑوں کو مت پہنا کرو۔“ میں نے عرض کیا کہ ”ان کو دھو لیتا
ہوں۔“فرمایا(نہیں)”بلکہ ان کو جلا دو“(مسلم)
ریشم پہننے کی ممانعت :مردوں کے لئے ریشم پہننا بھی حرام ہے ۔سوائے اس کے
کہ کسی کپڑے کو ریشم کی کناری لگی ہو ۔البتہ عورت کے لئے ریشم جائز ہے
۔حضرت ابو موسیٰ اشعری رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ حضور اکرم ﷺ نے
فرمایا:”ریشم اور سونا میری امت کی عورتوں کو (پہننا) حلال ہے اور مردوں کے
لئے (پہننا) حرام ہے ۔“(ترمذی)
حضرت سیدنا علی المرتضیٰ رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ کی خدمت
اقدس میں سرخ دھاری دار ریشمی جوڑا پیش کیا گیا ۔آپ ﷺ نے وہ مجھے عنایت
فرمادیا ۔میں نے اسے پہن لیا ۔تو میں نے رُخِ انور پر غصے کے آثار دیکھے
۔آپ ﷺ مجھے فرمانے لگے :”میں نے یہ تمہارے پہننے کے لئے نہیں بھیجا ،بلکہ
اس لئے بھیجا تھا کہ پھاڑ کر عورتوں کے درمیان اوڑھنیا تقسیم کر دو۔“(مسلم
شریف)
حضرت عمر ،حضرت انس ،حضرت زبیر اور حضرت ابو امامہ رضی اللہ عنہم روایت
کرتے ہیں کہ رسول کریم ﷺ نے فرمایا:”جو شخص دنیا میں ریشم پہنتا ہے ،آخرت
میں نہیں پہنے گا۔“(بخاری شریف)
لباس کی خصوصیات:لباس کیسا ہونا چاہیے؟ اس میں کوئی خاص پابندی نہیں ،لیکن
ایسا نہ ہو کہ جسے پہن کر ریا کاری یا تکبر پیدا ہو اور نہ ہی عورتوں کا
لباس مردوں جیسا ہو اور نہ ہی مردوں کا لباس عورتوں جیسا ہو۔
حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہما راوی ہےں کہ حضور اکرم ﷺ نے فرمایا:”جو چاہے
کھا اور جو چاہے پہن ۔جب تک دو باتیں نہ ہوں ۔فضول خرچی اور تکبر۔“(بخاری
شریف)
عمر و بن شعیب روایت کرتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:”کھاﺅ ،پیو، صدقہ
کرو اور پہنو۔جب تک اسراف اور تکبر کی آمیزش نہ ہو۔“(نسائی شرئف)
حضرت عبد اللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے
فرمایا:”جس کے دل میں ذرہ برابر بھی تکبر ہو گا وہ جنت میں داخل نہیں ہو
گا۔“ایک شخص نے عرض کیا کہ فرمائےے کسی کو یہ پسند ہوتا ہے کہ کپڑے اچھے
ہوں ،جوتے اچھے ہوں۔“فرمایا :”اللہ تعالیٰ جمیل ہے ۔جمال کو دوست رکھتا ہے
۔“(یہ تکبر نہیں بلکہ)تکبر نام ہے حق سے سر کشی اور لوگوں کو حقیر جاننے
کا۔“(صحیح مسلم شریف)
حضرت ابی ہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے اس مرد پر لعنت
فرمائی ہے جو عورتوں جیسا لباس پہنتا ہے اور اس عورت پر لعنت فرمائی جو
مردوں جیسا لباس پہنتی ہے۔(ابی داﺅد شریف)
لباس کے علاوہ اپنی وضع قطع بھی ایسی نہ بنائے کہ عورت مرد اور مرد عورت
نظر آنے لگے ۔ حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہما فرماتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے
اُن عورتوں پر لعنت فرمائی جو مردوں سے تشبہہ کریں اور اُن مردوں پر لعنت
فرمائی جو عورتوں سے تشبہ کریں ۔(سنن ابی داﺅد)
سنت عمامہ: سر پر عمامہ پہننا رسول اکرم ﷺ کی سنتوں میں سے ہے ۔عمامہ (پگڑی
) کو کہا جاتا ہے ۔عمامہ باندھ کر نماز پڑھنا بڑا افضل ہے ۔سید عالم شفیع
اعظم ﷺ نے سفید ،سیاہ اور زرد رنگ کا عمامہ استعمال فرمایا ۔مگر سفید عمامہ
بکثرت پہناکرتے تھے ۔(تنویر الازہار،ترجمہ نور الابصار)
حضور سید عالم ﷺ کا عمامہ مبارک نہ تو بہت بڑا ہوتا تھا اور نہ ہی بہت
چھوٹا بلکہ متوسط ہوتا تھا ۔عمامہ شریف کا شملہ دونوں کندھوں کے درمیان
چھوڑتے تھے ۔حضرت ابن عمر رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ جب آقائے نامدار
تاجدار عرب و عجم ﷺ عمامہ شریف باندھتے تو اپنے دونوں کندھوں کے درمیان
شملہ چھوڑتے ۔ (ترمذی شریف)
حضرت عمر و بن حریث رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ گو یا وہ منظر مرے سامنے ہے
کہ جب حضور اکرم ﷺ منبر شریف پر خطبہ فرما رہے تھے ۔اس وقت سیاہ عمامہ سرِ
انور پر تھا اور اس کا شملہ دونوں شانوں کے درمیان تھا۔(صحیح مسلم ،سنن
نسائی)
حضرت عبد الرحمن بن عوف رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے مجھ کو
پگڑی بندھوائی اور اس کا شملہ میرے آگے اور پیچھے لٹکا دیا ۔(سنن ابو داﺅد)
حضرت رکانہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:”ہمارے اور
مشرکوں کے درمیان فرق ٹوپیوں پر عمامے باندھنا ہے ۔“(ترمذی شریف)
حضرت عبادہ بن صامت رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ روحِ دو عالم رسول اکرم ﷺ
نے فرمایا:”عمامہ باندھاکرو، کیونکہ یہ فرشتوں کا نشان ہے ۔اور اس (کے
شملے) کو پیٹھ کے پیچھے لٹکا لو۔“(مشکوٰة ،بیہقی)
اللہ تعالیٰ ہمیں سنت کے مطابق لباس پہننے کی توفیق دے ۔آمین! |