حضرت سیِّدُنا حسن بصری رضی اللہ
تعالیٰ عنہ سے مُرسلاًمروی ہے کہ :حُبُّ الدُّنیَا رَاسُ کُلِّخَطِیئَةٍ
یعنی دنیا کی مَحَبَّت ہر برائی کی جڑ ہے۔
(الجامعُ الصّغیر للسّیوطی ص223حدیث3662دارالکتب العلمیةبیروت)
یزید ِ پلید کا دل چُونکہ دنیائے ناپائیدار کی مَحَبَّتسے سرشار تھا اس لئے
وہ شہرت و اقتِدار کی ہَوَس میں گرِفتار ہو گیا۔ اپنے انجام سے غافِل ہو کر
اُس نے امامِ عالی مقام اور آپ کے رُفقاءعلیہم الرضوان کے خونِ ناحق سے
اپنے ہاتھوں کو رنگ لیا۔ جس اقتِدار کی خاطر اُس نے کربلا میں ظلم و ستم کی
آندھیاں چلائیں وہ اِقتِدار اُس کے لیے کچھ زیادہ ہی ناپائیدار ثابت ہوا۔بد
نصیب یزید صِرف تین برس چھ ماہ تختِ حُکومت پر شَیطَنَت (یعنی شرارت
وخباثت)کر کے ربیعُ النور شریف 64 ھ کو مُلکِ شام کے شَہر” حَمص“ کے علاقے
حُوّارین میں 39 سال کی عمر میں مر گیا۔ (الکامل فی التاریخ ج۳ ص464
دارالکتب العلمیة بیروت)
یزیدِ پلید کی موت کا ایک سبب یہ بھی بتایا جاتا ہے کہ وہ ایک رُومیُّ
النَّسل لڑکی کے عشق میں گرِفتار ہو گیاتھا ، مگر وہ لڑکی اندرونی طور پر
اُس سے نفرت کرتی تھی ۔ ایک دن رنگ رلیاں منانے کے بہانے اس نے یزید کو
دُور ویرانے میں تنہا بلایا۔وہاں کی ٹھنڈی ہواو ¿ں نے یزید کو بدمست کردیا۔
اُس دوشیزہ نے یہ کہتے ہوئے کہ جو بے غیرت و نابکار اپنے نبی کے نواسے کا
غدّار ہو وہ میرا کب وفادار ہو سکتا ہے، خنجرِ آبدار کے پے در پے وار کر کے
چیر پھاڑکر اس کو وہیں پھینک دیا۔ چند روز تک اُس کی لاش چیل کوّوں کی دعوت
میں رہی ۔ بالآخِر ڈھونڈتے ہوئے اُس کے اَہالی مَوالی وہاں پہنچے اور گڑھا
کھود کر اُس کی سڑی ہوئی لاش کو وہیں داب آئے۔ (اوراقِ غم ص550)
وہ تخت ہے کس قبر میں وہ تاج کہاں ہے؟
اے خاک بتا زورِ یزید آج کہاں ہے؟
ابنِ زیاد کا درد ناک انجام
یزیدِ پلید کی وہ چَنڈال چوکڑی جس نے میدانِ کربلا میں گلشنِ رسالت کے
مَدَنی پھولوں کو خاک و خون میں تڑپا یا تھا۔اُن کا بھی عبرتناک انجام ہوا۔
یزیدِ پلید کے بعد سب سے بڑا مجرِم کوفہ کا گورنرعُبیداللہ ابنِ زیاد تھا۔
اِسی بدنِہاد کے حکم پر امامِ عالی مقام رضی اللہ تعالیٰ عنہ اور آپ کے
اہلبیتِ کرام علیہم الرضوان کو ظلم وستم کا نشانہ بنایا گیا تھا۔ نیرنگی
دنیا کا تماشہ دیکھئے کہ مختار ثقفی کی ترکیب سے ابراھیم بن مالِک اشتر کی
فوج کے ہاتھوں دریائے فُرات کے کَنارے صِرف6 برس کے بعد یعنی0 1مُحرَّمُ
الحرام 67 ھ کوابنِ زیادِ بد نِہاد انتِہائی ذلّت کے ساتھ مارا گیا!
لشکریوں نے اس کا سر کاٹ کر ابراھیم کو پیش کر دیااور ابراھیم نے مختار کے
پاس کوفہ بِھجوادیا۔ ( سوانِح کربلا ص 123 مُلَخَّصاً)
جب سرِ مَحشر وہ پوچھیں گے بُلا کے سامنے
کیا جوابِ جُرم دو گے تم خدا کے سامنے
ابنِ زِیاد کی ناک میں سانپ
دارُالاَمارات کُوفہ کو آراستہ کیا گیا اور اُسی جگہ ابنِ زِیادِبدنِہاد
کاسرِ ناپاک رکھا گیا جہا ں6 برس قَبل امامِ عالی مقام رضی اللہ تعالیٰ عنہ
کا سرِ پاک رکھا گیا تھا۔ اِس بد نصیب پر رونے والا کوئی نہیں تھا بلکہ اس
کی موت پر جشن منایا جارہا تھا۔ ( سوانِح کربلا ص 123 )صحیح حدیث میں
عِمَارہ بن عُمَیرسے مروی ہے کہ جب عُبَیدُاللہ ابن زِیاد کا سَرمع اس کے
ساتھیوں کے سروں کے لا کررکھا گیا۔تو میں ان کے پاس گیا۔ اچانک غُل پڑ گیا
”آیا آیا ۔“میں نے دیکھا کہ ایک سانپ آرہا ہے، سب سروں کے بیچ میں ہوتاہوا
ابنِ زِیاد کے( ناپاک) نَتھنوں میں داخل ہوگیااور تھوڑی دیر ٹھہر کر چلا
گیا حتی کہ غائب ہوگیا۔پھر غُل پڑا ،”آیا آیا“،دو یاتین بار ایسا ہی ہوا ۔
(سُنَن تِرمذی ج۵ ص431حدیث3805دارالفکر بیروت)
ابنِ زیاد ، ابنِ سَعد ،شمر ،قَیس ابن اَشعَث کندی، خولی ابنِ یزید ، سنان
ابنِ انَس نَخعی ، عبدُاللہ ابن قَیس ، یزید بن مالِک اور باقی تمام
اَشقِیاء۱ جوحضرتِ سیِّدُنا امامِ عالی مقام رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے قتل
میں شریک تھے اور ساعی(یعنی کوشِش کرنے والے) تھے طرح طرح کی
عُقُوبتوں(یعنی اَذِیّتوں) سے قَتل کئے گئے اور ان کی لاشیں گھوڑوں کی
ٹاپوں سے پا مال کرائی گئیں۔ ( سوانِح کربلا ص158)
کب تلک تم حُکومت پہ اتراﺅ گے
ظالمو ! بعد مرنے کے پچھتاﺅ گے
کب تک آخِر غریبوں کو تڑپاﺅ گے
تم جہنَّم کے حق دار ہو جاﺅ گے
فیضان سنت کا فیضان ۔۔۔۔جاری ہے۔۔۔
وہ آج تک نوازتا ہی چلا جارہا ہے اپنے لطف وکرم سے مجھے
بس ایک بار کہا تھا میں نے یا اللہ مجھ پر رحم کر مصطفی کے واسطے |