کچھ فرائض و نوافل کے بیان میں (شریعت کیا کہتی ہے؟)

سوال:بعض مولویو ںسے سناہے کہ فجرکی سنت اور فرض نماز کے درمیان کلام کرنا بالکل جائز نہیں یہاں تک کہ جو لوگ سنت پڑھ کر فرض کے انتظار میں بیٹھے ہوئے ہوں آنے والے کو ان سے سلام کرنا بھی نہ چاہئے؟

جواب:اتنی بات درست ہے کہ فرض و سنت کے درمیان بیہودکلام اوراِدھر اُدھر کے جھگڑے چھیڑنابہت برااورممنوع ہے،خصوصاًصبح کے وقت جو ایک نہایت متبرک اور ذکر اللہ کے قابل وقت ہے لیکن ضروری گفتگو اور کلام خیر اور دین کی باتیں فجر کی سنتیں پڑھنے کے بعد بھی جائز ہیں اور ایسے وقت میں السلام علیکم کومنع کرناتوبالکل جہالت ہے، سلام بھی تو خدا کا ذکر ہے اس کو ہرگز نہ چھوڑنا چاہئے۔

حدیث :حضرت عائشہ(رض) فرماتی ہیں کہ رسول اللہ صلی اﷲ علیہ وآلہ وسلم فجر کی سنتیں پڑھ لیتے تو اگر میں جاگتی ہوتی مجھ سے باتیں کرنے لگتے ورنہ﴿خاموش﴾ لیٹ جاتے یہاں تک کہ آپ صلی اﷲ علیہ وآلہ وسلم کو فرض نماز کے لئے اطلاع کی جاتی﴿حضرت بلال(رض) کی عادت تھی کہ جب جماعت وتکبیرکاوقت ہوجاتاتوآکر آپ صلی اﷲ علیہ وآلہ وسلم کو اطلاع کر دیتے تھے۔ ﴿بخاری ومسلم و ترمذی وابو دائود﴾

حدیث:حضرت سہل بن حنظلہ(رض)فرماتے ہیں کہ جب صبح ہوئی تو رسول خدا صلی اﷲ علیہ وآلہ وسلم نماز کی جگہ تشریف لائے اور دورکعت ﴿سنت فجر﴾ پڑھ کر دریافت فرمایا کہ کیا تم نے اپنے سوار کا کچھ پتہ نشان پایا﴿ یعنی مسلمانوں کا محافظ سوار جو گھاٹی پر حفاظت کرنے رات بھر کے لئے گیا تھا واپس آیا کہ نہیں﴾ سب نے عرض کیا کہ کچھ پتہ نشان نہیں دیکھا اس کے بعد نماز﴿فرض﴾ کے لئے تکبیر کہی گئی﴿یہ ایک بہت طویل حدیث کا ٹکڑا ہے جس میں حالت سفر کے ایک واقعہ کو بیان کیا ہے﴿ ابو دائود﴾

سوال:نمازظہرسے پہلے چارسنتیں اگر جماعت کی عجلت میں چھوٹ جائیں تو فرض کے بعداول ان کو قضاکرے یا ظہر کے بعد کی دو رکعتوں کو مقدم کرے؟

جواب:جائز تودونوں صورتیں ہیں خواہ ان کو اول پڑھے یا اُن کو ،لیکن اس امر میں علمائ میں اختلاف ہے کہ بہتر کون سی بات ہے زیادہ راحج اور قوی قول یہ ہے کہ دورکعت کو مقدم کر لے اور چار کو اس کے بعد قضا کرے۔

حدیث:حضرت عائشہ(رض) فرماتی ہیں کہ اگر کبھی رسول اللہ صلی اﷲ علیہ وآلہ وسلمکی چاررکعتیںظہرسے پہلے چھو ٹ جاتی تھیں تو آپ صلی اﷲ علیہ وآلہ وسلمان کو ظہر کے بعد کی دو سنتوں سے پیچھے ادا فرمالیتے تھے﴿ ابن ماجہ﴾

سوال: فرض پڑھنے کے بعد اکثر لوگ اپنی جگہ سے ہٹ کر سنت و نفل پڑھتے ہیں یہ کوئی شرعی حکم ہے یا کہ لوگوں کی ایجاد ہے؟

جواب:یہ حکم سرور کائنات صلی اﷲ علیہ وآلہ وسلمکا ہے کہ جس جگہ فرض پڑھا ہے وہاں سے کسی قدر ادھر ادھر ہو کر سنت ونفل پڑھے اسی جگہ نہ پڑھے،البتہ اگر فرض کے بعد کچھ کلام کر لیا ہے تب جگہ بدلنے کی ضرورت نہیں کیونکہ سنت و فرض میں فصل کلام و گفتگو سے بھی حاصل ہو گیا۔

حدیث:حضرت ابو ہریرہ(رض) کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اﷲ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا کہ کیا تم سے یہ نہیں ہو سکتا کہ جب﴿فرض کے بعد سنت و نفل﴾ نماز پڑھنے لگوتو ذراآگے پیچھے یا دائیں بائیں کو ہٹ جائو۔﴿ ابو دائود ابن ماجہ﴾

حدیث:حضرت علی(رض) نے فرمایا ہے کہ مسنون یہ ہے کہ امام نفل و سنت نہ پڑھے جب تک کہ اپنی جگہ سے ہٹ نہ جائے۔﴿ ابن ابی شیبہ و ابو دائوداز مغیرہ منقطعاً﴾

سوال:نماز پڑھنے والے کے سامنے اگر کوئی شخص چار پائی یا زمین پر لیٹا رہے تو لیٹنے والے کو کچھ گناہ ہوگا یا نہیں اور نمازی کی نماز میں خلل آئے گایا نہیں؟

جواب:نہ تو لیٹنے والے کو کچھ معصیت ہوتی ہے اور نہ نماز میں کچھ نقصان آتا ہے اس طرح لیٹنا بلا مضائقہ جائز ہے۔

حدیث:حضرت عائشہ (رض) سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اﷲ علیہ وآلہ وسلمرات کو تہجد کی نماز پڑھتے تھے اور میں آپ صلی اﷲ علیہ وآلہ وسلم کے اور دیوار قبلہ کے درمیان میں ایسی طرح سامنے لیٹی رہتی تھی جیسے جنازہ سامنے رکھا جاتا ہے پس جب آپ صلی اﷲ علیہ وآلہ وسلم وتر پڑھنے کا ارادہ فرماتے تو مجھ کو بھی جگا دیتے اور میں بھی وتر پڑھ لیتی۔﴿بخاری ومسلم وابو دائود و مؤطا و نسائی﴾

حدیث:حضرت عائشہ(رض) فرماتی ہیں کہ میں نے دیکھا ہے کہ رسول اللہ صلی اﷲ علیہ وآلہ وسلم ﴿رات کو تہجد کی ﴾ نماز پڑھتے رہتے تھے اور میں آپ صلی اﷲ علیہ وآلہ وسلم کے اور قبلہ کے درمیان میں چارپائی پر لیٹی رہتی تھی۔ ﴿بخاری و مسلم﴾

سوال:نمازی کے سامنے سے اگر کوئی شخص نکل جائے تو نمازی کی نماز ٹوٹ جائے گی یا نہیں اور اگر نماز پڑھنے والا گزرنے والے کو اشارہ وغیرہ سے خود ہی روک دے تو نماز میں اس اشارہ سے کچھ نقصان آئے گایا نہیں؟

جواب:کسی کے سامنے سے گزرجانے سے نماز نہیں فاسد ہوتی صرف گزرنے والے کوبہت سخت گناہ ہوتاہے اگر عمداً گزراہو، نماز پڑھنے والے کیلئے اجازت ہے کہ وہ صرف اشارے سے یا صرف تسبیح سے﴿یعنی سبحان اللہ کہہ کر ﴾ گزرنے والے کو روک دے لیکن یہ روکنا کوئی ضروری اور لازمی نہیں بلکہ اگر روکنا چاہے تو اجازت و رخصت ہے۔

حدیث:حضرت ابو سعید(رض)خدری سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اﷲ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا ہے کہ ﴿سامنے سے گزرجانے سے﴾ کوئی چیزنمازکو نہیں کھوتی البتہ حسب مقدور گزرنے والے کو روک دیناچا ہئے﴿یعنی سبحان اللہ کہہ کریااشارہ سے﴾ کیونکہ گذرنے والا شیطان ہے﴿یعنی شیطان کی طرح نمازی کے خیال کو منتشر کرنااور توجہ الی اللہ کو ہٹانا چاہتا ہے﴾﴿ بخاری و مسلم و ابوداؤد﴾

سوال:مصلّٰی اورجانمازپرنمازپڑھنابلاکرا ہت جائز ہے یا کسی قسم کی برائی ہے؟

جواب:اگرچہ بہت زیادہ تواضع زمین پر نماز پڑھنے میں ہے لیکن جانماز وغیرہ پر بھی بلاکراہت و مذمت صحیح و درست ہے خواہ وہ جانماز کپڑے کی قسم سے ہو یا کسی گھاس وغیرہ سے بنی ہو۔

حدیث:حضرت انس(رض) فرماتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اﷲ علیہ وآلہ وسلم خمرہ ﴿یعنی چھوٹے مصلے﴾ پر نماز پڑھا کرتے تھے﴿طبرانی فی الکبیر و الا وسط﴾

حدیث:حضرت میمونہ(رض) فرماتی ہیں کہ رسول اللہ صلی اﷲ علیہ وآلہ وسلم نماز پڑھتے رہتے تھے اور میں آپ صلی اﷲ علیہ وآلہ وسلم کے برابر لیٹی رہتی تھی حالانکہ میں حائضہ ہوتی تھی اور اکثر آپ صلی اﷲ علیہ وآلہ وسلم کا کپڑا﴿یعنی دامن یا پلہ اسی نماز کی حالت میں﴾مجھ پرگرجاتاتھااور آپ صلی اﷲ علیہ وآلہ وسلم خمرہ﴿ یعنی چھوٹے مصلے﴾ پر نماز پڑھا کرتے تھے۔﴿ بخاری و ابو دائود و طبرانی بروایت انس(رض)﴾
Zubair Tayyab
About the Author: Zubair Tayyab Read More Articles by Zubair Tayyab: 115 Articles with 166747 views I am Zubair...i am Student of Islamic Study.... View More