اطاعت ِ رسول ﷺ

شروع اﷲ کے نام سے جوبڑا مہربان اور نہایت رحم والا ہے

دین اسلام میں اور چودہ سو برس سے پوری امت مسلمہ کے نزدیک اﷲ تعالیٰ کے رسول مقبول حضرت محمدﷺ کامقام و مرتبہ سب سے اہم اور اعلیٰ و ارفع ہے۔ آپﷺ کا مقام محمود ا ﷲ تعالیٰ کا عطا کردہ اور لوگوں پر آپﷺ کے اتباع و اطاعت کو بھی اﷲ تعالیٰ نے لازم ٹھہرایا ہے۔آپﷺمحسن انسانیت ہیں، آپﷺ کی ذاتِ اقدس کے ذریعے ہی بھٹکی ہوئی انسانیت کو پھر سے توحید کا تصور اور ذاتِ الہیہ کی معرفت حاصل ہوئی۔آپﷺ کے واسطے سے ہی نوع انسانی کو اﷲ تعالیٰ کی کتاب(قرآن مجید) ملی۔آپﷺ نے کتاب الہی کے مجمل کو مفصل کی صورت دی اوردین اسلام کی تعلیمات کا عملی نمونہ پیش فرمایا۔اس لئے آپﷺ کی اطاعت ہی اﷲ کی اطاعت ہے اور آپﷺ کی اطاعت ہی دین ہے۔آپﷺ کی اطاعت و اتباع ہی تہذیب و ثقافت ہے اور آپﷺ کی نافرمانی بد تہذیبی اور گنوارپن ہے۔قرآن حکیم اور حدیث شریف میں آپﷺ کی اطاعت کا حکم دیاگیا ہے اور اس کے لئے کہیں اطاعت کا لفظ استعمال ہوا ہے۔ اور بعض مقامات پر اتباع کا ۔دونوں لفظ تقریباً ہم معنی ہیں۔اتباع کا معنی ہے (۱) نقش یانشان کی پیروی کرنا، اس کے پیچھے چلنا(۲) حکم بجا لانا جس طرح بجا لانے کو کہا جائے۔ اتباع رسولﷺ سے یہ دونوں معنی مراد ہیں، یعنی آپﷺ کی سیرتِ طیبہ کی پیروی کرنا اور آپﷺ کے احکام کی تعمیل۔پھر حکم کبھی کسی کام کے کرنے کا ہوتا ہے اور کبھی کسی کام کے نہ کرنے(یعنی ممانعت) کا۔ اطاعت کا معنی ہے حکم کی تعمیل کرنا، اپنی مرضی سے، یہ لفظ طوع سے نکلا ہے جس کا متضاد کرہ ہے، اس طرح اتباع کا معنی اطاعت سے وسیع ترہے، اس میں اطاعت بھی شامل ہے۔سنت رسول قرآن حکیم کی توضیح و تبیین ہے۔ قرآن مجید میں کئی ایسے احکام ہیں جن کا تعین تشریح نبوی کے بغیر ناممکن ہے۔ مثلاً قرآن مجید میں نماز کا حکم ہے۔ آپﷺ نے اس کے اوقات، طریق ادا اور آداب وغیرہ سکھائے۔قرآن میں زکوٰة اورا سکے مصارف کے احکام ہیں، اس کے دیگر قواعد آپﷺ نے بیان فرمائے ہیں۔اﷲ تعالیٰ نے حلال و حرام اشیاءکے بارے میں ایک اصول بتا دیا کہ طیب یعنی پاکیزہ چیزیں حلال ہیں۔ اور غیر طیب حرام۔ چند مثالیں بھی بتا دیں اور مزید وضاحت یہ کہ کہ نبیﷺ پر چھوڑ دی۔ترجمہ: ”اور نبیﷺ ان کے لئے پاکیزہ چیزیں حلال اور ناپاک اشیاءحرام ٹھہراتا ہے۔“فتح خیبر کے موقع پر آپﷺ نے پالتو گدھے اور درندوں کے گوشت کو حرام ہونے کا اعلان فرمایا۔ ان اشیاءکی تحریم کا ذکر چونکہ قرآن حکیم میں نہیں اس لئے آپﷺ نے ایک خطبہ دیا جس میں فرمایا۔ جان لو کہ مجھے قرآن اور اس کے مانند اور بھی احکام دیئے گئے ہیں۔ عین ممکن ہے کہ کوئی پر شکم شخص تکیہ سے ٹیک لگائے بیٹھا ہو اور اس سے میری کوئی حدیث بیان کی جائے تو کہے کہ اﷲ کی کتاب کو تھام لو، اور اس میں جو چیز حلال دیکھو اسے حلال جانو اور جو حرام دیکھو اسے حرام سمجھو۔ سن لو کہ پالتو گدھے اورشکاری درندوں کا گوشت تم پر حرام ہے۔تشریح نبوی کے بغیر قرآنی احکام سمجھنے میں کیا کیا غلطیاں ہو سکتی ہیں اس کے بعض مثالیں صحابہ کرامؓ کے ہاں بھی ملتی ہیں۔قرآن حکیم میں ارشاد ہے کہ وضو کے لئے پانی نہ مل سکے تو پاک مٹی سے تیمم کر لو۔ ایک صحابیؓ کو تیمم کی کیفیت معلوم نہ تھی۔ ایک دفعہ انہیں پانی نہ ملا تومٹی میں جا کر خوب لوٹیں لگائیں۔آکر آپﷺ کی خدمت میں یہ واقعہ عرض کیا تو آپﷺ نے انہیں تیمم کا طریقہ بتایا۔ہر نبی اور رسول اﷲتعالیٰ ہی کے احکام بیان کرتا ہے اور خود ان پر عمل کر کے دکھاتا ہے۔ اس لئے رسولﷺکی اطاعت ہی اﷲ ہی کی اطاعت ہے۔ ارشاد ہے:ترجمہ” جس نے رسولﷺ کی اطاعت کی تو اس نے اﷲ کی اطاعت کی۔رسول کریمﷺ کی اطاعت کے بغیر اﷲ تعالیٰ کی اطاعت ممکن نہیں ہے“اﷲ تعالیٰ نے فرمایا ہے کہ اگر تم ا ﷲ تعالیٰ سے محبت کرتے ہو تو رسول کی اتباع کرو، اس کے نتیجے میں اﷲ تم سے محبت کرے گا اورتمہارے گناہ معاف کر دے گا۔یعنی رسولﷺ کی اتباع کرنے والا محبوب الہی ہے۔ کتنا اعلیٰ مقام ہے۔ رسول کریمﷺ کی پیروی کرنے والے کا!رسول کریمﷺکی اطاعت کرنے ولا جنت میں داخل ہوگا اور رسولﷺکی نافرمانی کرنے والے کو جہنم میں پھینکا جائے گا۔اﷲ اور اس کے رسولﷺکی نافرمانی کرنے کا انجام بہت بھیانک ہے۔رسول اﷲﷺ کی اتباع دنیا اورآخرت دونوں کی کامیابی کی ضامن ہے کیونکہ آپﷺ کی حیاتِ طیبہ بہترین قابل تقلید نمونہ ہے۔نبی کی زندگی اﷲ تعالیٰ کی خصوصی نگہداشت اور حفاظت میں گزرتی ہے، اﷲ تعالیٰ نبی کا روحانی اور عملی لحاظ سے نگہبان ہوتا ہے کیونکہ ا ﷲ تعالیٰ کی مشیت یہ ہوتی ہے کہ نبی لوگوں کے لئے اعلیٰ قابل تقلید نمونہ بنے، لوگ اس کی پیروی کر کے اپنی دنیوی اور اُخروی زندگی کو سنوار سکیں۔آپﷺنے بھی قرآن حکیم کے ساتھ ساتھ سنت نبوی کی پیروی کی ہدایت فرمائی ہے آپﷺ کا ارشاد ہے:”میری سب امت جنت میں داخل ہوگی سوائے اس کے جو انکار کرے۔حاضرین نے عرض کیا، یا رسولﷺ کون انکار کرے؟فرمایا جس نے میری اطاعت کی وہ جنت میں داخل ہوگا۔ جس نے نافرمانی کی اس نے انکار کیا“۔ صحابہ کرامؓ کے ایک اشارے پر اپنا سب کچھ قربان کرنے کو ہر دم تیا رہتے تھے۔ انہیں آپﷺ سے بے پناہ محبت تھی۔ صحابہ کرامؓ کے اتباع رسولﷺ کا ایک واقعہ مثال کے طور پر ذیل میں بیان کیا جاتا ہے۔اُحد کی جنگ کے بعد کفار کا لشکر مدینہ سے آگے نکل آیا تو آپﷺ نے اس خیال سے کہ وہ پلٹ کر پھر حملہ آور نہ ہوں ان کے تعاقب کا فیصلہ کیا۔آپﷺ نے ستر مسلمانوں کو حکم دیا کہ ان کا پیچھا کریں، ان مسلمانوں میں ایک زخمی گروہ بھی تھا۔ جس نے اپنے زخموں کی پروانہ کی اور فورآ ارشادِ نبوی کی تعمیل میں اپنی جان پر کھیلنے کو تیار ہوگیا ۔ان کے بارے میں قرآن مجید میں اﷲ تعالیٰ نے ارشاد فرمایا ہے:ترجمہ”جنہوں نے اﷲ اور رسولﷺ کے حکم کی تعمیل کی اس کے بعد کہ انہیں زخم پہنچا تھا ان میں سے ان کے لئے جنہوں نے سہانے عمل کئے اور تقویٰ رکھا بڑا اجر ہے۔دشمن کے تعاقب کاحکم آپﷺ نے دیا تھا لیکن آیت میں ا ﷲ تعالیٰ کے حکم کا بھی ذکر ہے۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ آپﷺ کی اطاعت اﷲ کی اطاعت ہے۔آپﷺ کا حکم درحقیت ا ﷲ کا حکم ہے“زخمی مجاہدین جب مدینہ سے نکلے تو بعض منافقوں نے انہیں یہ کہ کر ڈرانے کو کوشش کی کہ ابوسفیان کا لشکر یک جا ہو کر تم سے لڑنے کو تیا ربیٹھا ہے تو ستر آدمی تین ہزار فوج کا مقابلہ کیسے کروگے؟لہذا اپنے آپ کو ہلاکت میں نہ ڈالو۔ اور واپس چلے جاﺅ۔ ان باتوں سے مجاہدین بالکل خوفزدہ نہ ہوئے بلکہ ان کا ایمان اور پختہ ہوا کہ اﷲ تعالیٰ نے ہمارے لئے آزمائش کا ایک عمدہ موقع بہم پہنچا دیا ہے، شاید شہادت کی فضیلت سے نوازنا منظور ہے، انہوں نے جواب میں کہا کہ اﷲ کی مدد ہمیں کافی ہے ہم دشمن کی فضیلت سے نوازنا منظور ہے انہوں نے جواب میں کہا کہ اﷲ کی مدد ہمیں کافی ہے ہم دشمن کی کثرت سے نہیں ڈرتے۔ چنانچہ انہوں نے رسولﷺ کے حکم کی تعمیل کرتے ہوئے دشمن کا پیچھا کیا اور صحیح و سلامت اور سرخرو واپس آگئے۔
Habib Ullah
About the Author: Habib Ullah Read More Articles by Habib Ullah: 56 Articles with 97558 views Currently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.