میں مروت اور تواضع کا آدمی
ہوں۔جلدی جلدی کسی سے الجھنا مجھے اچھا نہیں لگتا۔ہاں بے اصولی کی بات
دوسری ہے۔اس شخص نے مجھے ایسا کچھ کہا بھی نہیں تھا لیکن نجانے کیوں میں اس
سے الجھ پڑا۔بات بڑھی تو اس نے ایک ہی فقرہ کہہ ک مجھے ناک آﺅٹ کر دیا۔کہنے
لگا بوڑھے ہو،احترام کرتا ہوں تمہارے بڑھاپے کا،ورنہ ایسا سبق دیتا کہ ساری
زندگی یاد رکھتے۔بڑھاپے کا طعنہ سن کے میں نے بھی کان لپیٹے اور وہاں سے چل
دیا۔جب کچھ لمحے بعد قرار آیا تو میں نے اپنے روئیے پہ غور کیا تو محسس ہوا
کہ غلطی میری ہی تھی۔بات ایسی نہ تھی جو پیار سے سمجھائی نہ جا سکتی۔مزید
غور کیا تو عقدہ کھلا کہ مجھے اس شخص کی بات نے نہیں اس شخص سے ملاقات سے
پہلے کے حالات نے چڑچڑا بنا دیا تھا۔مٹی گرد اور راکٹ کی رفتار سے آپ کو
چھو کے گذرتی گاڑیاں،دھکم پیل یہ سب عناصر مل کے میرے لہجے کی تلخی کا باعث
بنے تھے۔پھر بستر پہ لیٹے ہی بند آنکھوں کے سامنے ایک فلم سی چلنے
لگی۔ہمارے ملک میں شادی شدہ بے روزگاروں کا ایک ہجوم ہے جو حالات کے ہاتھوں
مجبور ہو کے صبح سویرے گھر سے نکلتا ہے اور ان کا مطمحہ نظر یہی ہوتا ہے کہ
کسی بھی طرح رات کو بچوں کے لئے کچھ دانے دنکے کا بندوبست ہو جائے۔جنہیں
جائز طریقے سے ملتا ہے وہ جائز طریقے سے لانے کی کوشش کرتے ہیں اور جنہیں
جائز طریقے سے نہیں ملتا وہ پھر ہر کس و ناکس سے انتقام لیتے ہیں۔
پچھلے دنوں مصروفیت کچھ ایسی رہی کہ سر کھجانے کی فرصت نہیں ملی۔شاید اسی
لئے دماغی کھجلی سے بھی امان ملی رہی۔اب کہ کارِ جہاں سے کچھ آزادی مہیا
ہوئی ہے تو پرانی بیماری عود کر آئی ہے۔اسی مصروفیت کے سلسلے میں پشاور
جانا ہوا تو جاتے اور آتے ہوئے کچھ ایسے مناظر دیکھنے کو ملے کہ دل خون ہو
گیا۔پہلا منظر تو یہ تھا کہ ایبٹ آباد سے حسن ابدال تک سب سی این جی سٹیشنز
بند تھے اور گاڑیوں کی لمبی قطاریں ان پمپس کے باہر لگی تھیں اور لوگ باگ
ان گاڑیوں کے گردا گرد پریشان چہرے لئے چکر لگا رہے تھے۔ہاں ہزارہ اور
پنجاب کی حدود سے نکل کے منظر بالکل مختلف تھا۔وہاں سی این جی سٹیشنز کھلے
تھے اور لوگ انتہائی اطمینان سے اپنی اپنی گاڑیوں میں گیس بھروا رہے
تھے۔مجھے لگا کہ ایک ہی صوبے میں ایک ہی حکومت کے زیر انتظام دو علیحدہ
علیحدہ نظام چل رہے ہیں۔اے این پی کی حکومت کا ہزارہ والوں کے ساتھ شروع ہی
سے سوتیلی ماں جیسا سلوک رہا ہے۔یہ اس کی ایک اور مثال تھی۔اس کے باوجود
بھی ہمارے اٹک پار کے بھائی ہم سے گلہ کرتے ہیں کہ ہم اپنے لئے علیحدہ صوبے
کا مظالبہ کرتے ہیں۔
میں لسانیت اور صوبائیت کے سخت خلاف ہوں۔میں فرقہ واریت کو بھی اسلام کی
روح کے منافی سمجھتا ہوں۔میں نفرتوں نہیں محبتوں کے پھیلاﺅ کا حامی ہوں۔میں
چاہتا ہوں کہ پاکستان میں سب پاکستانی ہوں اور امن اور بھائی چارہ فروغ
پائے۔لیکن کیا کروں جو میں نے دیکھا وہ آپ دیکھتے تو شاید تھوڑی دیر کے لئے
آپ بھی ان سارے سنہری اصولوں کوبھول کے وہی بات کرتے جو میں کرنے جا رہا
ہوں۔پشاور سے واپسی پہ ہمیں رات ہو گئی تھی۔نومبر کی راتیں ویسے بھی لمبی
اور سرد ہوتی ہیں۔ہم جونہی جھاری کس گذر کے ہزارہ کی حدود میں داخل ہوئے تو
ہر سی این جی پمپس پہ گاڑیوں کی وہی لمبی قطاریں تھیں۔منحنی پریشان اور
سوئی آنکھوں اور گھومے ہوئے دماغ کے ساتھ ان گاڑیوں کے ڈرائیور سخت ٹھٹھرتی
رات میں بھی سی این جی کے بادشاہوں کے در پہ سیس نوائے کھڑے تھے اور ایک
ٹینکی سی این جی کی بھیک مانگ رہے تھے۔وہ بھیک جو انہوں نے پیسے دے کے
خریدنی تھی۔ہر پمپ پہ یہی حال تھا۔مجھ سے رہا نہ گیا۔میں ایک پمپ پہ رک گیا
اور لوگوں سے سوالات کرنا شروع کئے۔پتہ چلا کہ سی این جی کی یہ خیرات رات
کو دو بجے کے بعد بٹنا شروع ہوتی ہے۔جس کا جی چاہے لائن میں لگ جائے اور جو
بھرے پیٹ والا ہے یا جسے نیند پیٹ سے زیادہ عزیز ہے گھر جائے اور آرام کرے۔
جوتے مارنے والے کم ہیں اور کھانے والے زیادہ۔اسی وجہ سے پل پہ ہجوم بڑھتا
جا رہا ہے۔ہر پمپ پہ ہزاروں کی تعداد میں لوگ تھے کو جود و سخا کا در کھلنے
کے منتظر تھے اور کوئی یہ پوچھنے کی ہمت نہیں کر پا رہا تھا کہ اگر تم نے
یہ سی این جی رات کو بھی دینی ہے تو ابھی کیوں نہیں۔اس لئے کہ انہی کا ایک
بھائی بند پانچ ہزار کے عوض بندوق ہاتھ میں پکڑے سیٹھ کے مفاات کا نگہبان
تھا۔جسے حکم تھا کہ زیادہ تنگ کرنے والے کو بے دھڑک شوٹ کر دو۔اس کے بعد
کیا ہو گا دیکھا جائے گا۔مجھے اس وقت اس شخص سے اپنا جھگڑا یاد آیا۔میں
سوچنے لگا کہ سردی کے مارے یہ ڈرائیور صبح جب اپنی اپنی گاڑیاں لئے شہر کی
سٹکوں پہ چڑھیں گے تو یہ چلتا پھرتا بم ہونگے۔یہ ہر کسی سے لڑایہ کریں
گے۔ان کی وجہ سے حادثات ہوں گے اور معاشرہ فساد کا شکار ہو گا۔پھر میں نے
سوچا کہ یہی ان لوگوں کا علاج ہے۔کیونکہ کسی شاعر نے کہا تھا کہ اس شخص سے
بڑھ کے منافق نہیں کوئی ،جو ظلم تو سہتا ہے بغاوت نہیں کرتا۔
منافق نہ ہوں تو انہی سانپوں سے دوبارہ ڈسوائیں جو انہیں پچھلے چونسٹھ سال
سے ڈس رہے ہیں۔ذات برادی فرقہ چھوڑ کے یہ قابل اہل اور ایماندار آدمی کو
اپنا نمائندہ نہ بنائیں۔لیکن یہ قوم شاید نہیں سدھر سکتی ۔ یقین نہیں آتا
تو پنجاب اور سندھ میں ہونے والے ضمنی انتخابات کا نتیجہ دیکھ لیں کہیں
سنپولیا چلا گیا اور سانپ واپس آ گیا اور کہیں سانپ نے اپنی جگہ سنپولئے کو
سونپ دی ۔یہ تبدیلی ہے۔اس سوچ کے غلاموں کے ساتھ ابھی تو اس سے بھی برا ہو
گا کہ اللہ کریم کا فرمان ہے کہ میں اس وقت تک کسی قوم کی حالت نہیں بدلتا
جب تک وہ خود اس کے لئے کوشش نہ کرے۔ |