ٹپوری اسٹائل

یار سن آج کاشان کے گھر چل کر نیٹ چلائیں ۔۔۔ کیسا ۔۔۔ !
عدنان نے عاصم کے کندھے پر ہاتھ مارتے ہوئے اُسے متوجہ کیا۔
عاصم: رہنے دے یار تجھے یاد نہیں پچھلی دفعہ کیا ہوا تھا ہم ایک امریکن آنٹی سے چیٹنگ کر رہے تھے اور پیچھے سے کاشان کی باجی نے دیکھ لیا۔ جاکر خالہ سے وہ ایک کی دو لگائی تھی کے بابے خدا معافی! میں تو خود سوچنے پہ مجبور ہوگیا کہ ایسا میں کیا کر رہا تھا کہ خالہ نے وہ عزت کی ریڑھ لگائی کے بھیّے نہ پوچھو۔
عدنان: ویسے یہ تو تُو ٹھیک کہہ رہا ہے یہ کاشان کی باجی ہے بہت فسادن عورت۔
عاصم: لڑکی بول لڑکی عورت بول دیا نہ تو قسم خدا کی گلی کے نکڑ سے وہ جوتی سر پہ آئے گی کہ بن داس۔
عدنان اور عاصم نے اپنے دونوں ہاتھ اوپر اُٹھا کے چار ہاتھوں سے تالی بجائی اور زور سے ہنستے ہوئے ایک ساتھ بولے پر ہٹا یار ۔۔بم پھاڑ“

عدنان اور عاصم ایسا عموماً اُس وقت کرتے تھے جب وہ اپنی بے فکری کے لمحات دوستی کے سکون سے پُر کرنے کی کوشش کر رہے ہوں یا یوں کہیے کہ ”ہٹا یار۔بم پھاڑ“اِ ن دونوں کی دوستی کا سلوگن تھا۔

عاصم نے فوراً ہی جیب سے ایک مین پوری کا پیکٹ نکالا اور عدنان کی طرف اُچھال دیا عدنان نے پیکٹ کیچ تو کر لیا لیکن پھر غور سے پیکٹ کے آگے پیچھے دیکھنے لگا۔ عدنان کے چہرے کے تاثرات بدلتے دیکھ کر عاصم سے رہا نہ گیا وہ جھنجھلا کے بول اُٹھا۔
”ابے کھا نہ ، دیکھ کیا رہا ہے۔“

عدنان: تو جانتا ہے یہ زہر ہے ۔ نشہ ہے اس میں۔تو نے نوٹ نہیں کیا ہم اتنے دنوں سے اسے کھا رہے ہیں اس کی طلب بڑھتی جا رہی ہے۔ میٹرک کے بورڈ کے امتحان قریب ہیں اور ہم نجانے کن تفریحوں میں پڑے ہیں۔

عاصم: ابے چھوڑ امتحان کو۔ امتحان میں اچھے نمبر لے بھی لےے تو کیا ہوگا تو کون سا منسٹر لگ جائے گا اور سن ہمارے گھر والوں کو کون سی فکر ہوتی ہے اپنی۔ پاس ہو گئے تو ہو گئے نہیں ہوئے تب بھی نہیں پوچھیں گے۔ وہ تو ہم ہی اتنے قابل ہیں کہ ایک رات پڑھ کر ہی امتحان پاس کر جاتے ہیں۔
عاصم نے اپنی ایک آئی برو اُٹھا کر عدنا ن کو دیکھتے ہوئے اپنی قابلیت جتائی۔
کیسا ۔۔۔!

عدنان: ہاں یار ویسے یہ تو ہے اگر ہم پڑھ لیں تو ٹاپ کر جائیں گے ایمان سے ۔

عدنان گلی کے کونے والے گھر کے چبوترے پہ ٹیک لگاتے ہوئے بولا وہ قدرے سنجیدہ تھا۔

”چل عاصم مان لیا ہمارے گھر والوں نے ہم سے کبھی پاس ہونے نہ ہونے پر سوال نہیں کیا۔ لیکن ہماری اپنے ملک کی کی طرف سے بھی تو یہ ذمہ داری ہے۔ ذرا سوچ آج ہم اچھا پڑھ لیں گے ۔ ملک کا نام روشن کریں گے ۔ آگے جائیں گے اور پڑھنے کا جی چاہنے لگے گا۔ ایک دفعہ کی عزت کے بعد ہمارے اندر کتنا جذبہ ہو گا آگے بڑھنے کا ۔ ذرا سوچ بے دوسرے ملکوں میں ہماری وجہ سے ہمارے ملک کا نام روشن ہوگا۔

عاصم: ابے ہٹا کون سا ملک۔ سیاست میں ٹی وی پر آکر اپنے رنچھوڑ لائن والے سبزی والے اور خالہ جان کے بیچ ہونے والی لڑائی کی طرح تُو تُو میں میں کررہے ہوتے ہیں۔ اب تو میری امّاں نے انڈیا کے ڈرامے چھوڑ دئے چینل بدلو تو ہمارے رہنما ایسی دھاسو لڑائی کر رہے ہوتے ہیں کہ امّاں کو ڈرامہ اور معلومات دونوں مل جاتیں ہیں۔ تو ملک کی بات کرتا ہے۔

عدنان بڑے انہماک سے عاصم کی آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر اُس کی باتیں سننے میں محو تھا۔
عدنان: یار تیرا دماغ بھی کیا اُدھم اَیٹم ہے۔

عاصم: لے اور سن اپنی تو ہسٹری میں ہی مسئلہ ہے۔ میزائل بنائے ہم نے نام کیا رکھے۔ غوری میزائل، غزنوی میزائل، سب افغانی نام۔ میں اگر اس ملک کو چلا رہا ہوتا نہ تو بیٹا ایسا چلاتا اور نام رکھتا۔ گجر میزائل ، بنگش میزائل، سندھی میزائل، بلوچی میزائل، پنجاب میزائل۔ پختون میزائل اور اور بہت سے زبانوں پہ نام تاکہ یہ فسادتو نہ ہوتے جو ابھی ہو رہے ہیں۔ اور سب چھوڑ کیا آیا دماغ میں اردو میزائل ۔ سارے مسائل کا حل ۔ اتحاد کا اتحاد سب مل کہ رہتے ایک دم چکاس۔ زبانوں کے نسلوں کے فساد ہی ختم۔

عدنان: بات تو تیری دل کو لگتی ہے لیکن عاصم ہم کس زبان کی بات کر تے ہیں۔ تو اور میں جو زبان بول رہے ہیں کیا یہ اردو زبان ہے۔

عاصم: ابے ڈھکن اردو نہیں تو فارسی میں بات کر رہے ہیں ہم۔

عدنان: یہ چکاس ، بن داس ، اَبے ، اُدھم ، لَش ، بابے، ابے لے، مطلب کے بغیر اور دماغ کی دہی۔ کیا یہ اُردو زبان کے لفظ ہیں۔

اِس بار عاصم خاموش تھا اور عدنان بول رہا تھا۔

عدنان: کیا ہم نے کبھی اپنے ٹیچر ز کے سامنے اِس زبان میں بات کی ہے؟ نہیں نا۔ کیا ہم اپنے گھر والوں کے سامنے اِس زبان میں بات کرتے ہیں، نہیں۔ تو ہم اتنے قریبی دوست ہیں ایک دوسرے سے کیوں اس خود ساختہ زبان میں بات کر رہے ہیں۔ میری امّی ہمیشہ کہتی ہیں کہ بیٹا انسان اپنی اِس ڈیڑھ انچ کی زبان سے جانا جاتا ہے۔

عاصم: یار بھاشن تو تیرا دھاسو ہے۔

عدنان: عاصم پھر تو نے۔۔۔

عاصم: اچھا اچھا اب نہیں۔

عدنان: ہم ہر وقت اپنے بڑوں کو کوستے رہتے ہیں۔ لیکن اپنا آپ تو ہم خود ہی بگاڑ رہے ہیں۔ ہر بچہ جانتا ہے کہ ملک کے حالات سیاست دانوں کے ہاتھوں خراب ہو رہے ہیں لیکن ملک تو تیرا بھی ہے ملک تو میرا بھی ہے۔ ہمارے اوپر اوپر اپنے طور سے بھی کچھ ذمہ داریاں ہیں ۔ ہم ابھی سولہ سال کے ہیں۔ اٹھارہ سال کی عمر میں تو محمد بن قاسم نے سندھ فتح کر لیا تھا۔ ہم سب صرف اگر اپنی زبا ن کلام، اُٹھنے بیٹھنے بری عادتو ں پہ تھوڑا سا قابو پالیں گے تو ہمیں ہی فائدہ ہو گا۔سب کو فائدہ ہوگا۔ اپنا کل سدھرے گا۔

یہ کہہ کر عدنان خاموش ہو گیا آدھے گھنٹے دونوں یوں ہی خاموش ہو ا میں تکتے رہے کہ اچانک اللہ اکبر کی سدا نے دونوں کو چونکا دیا۔ مغرب کی اذان ہو رہی تھی۔ وہ کھڑے ہوئے اپنے کپڑے جھاڑے ، گرم جوشی سے مصافحے کے لئے ہاتھ آگے بڑھایا جیسے کسی نئی زندگی کے آغاز کی تیاری میں ہوں۔ اور یہ کلامات زبان پہ تھے۔

”اچھا میرے بھائی میں اب چلتا ہوں مجھے والد صاحب کے ساتھ نماز ادا کرنی ہے آپ کہاں جائےے گا؟“

”جی جی ضرور آپ جائیے۔ مجھے گھر پہ توجہ دینی ہے والدہ صاحبہ نے کچھ کام کہا تھا میں گھر میں ہی نماز مغرب پڑھو گا۔“

”جی ٹھیک ہے خدا حافظ“

”فی امان اللہ“

اور دونوں مختلف سمتوں میں اپنی منزل کی جانب چل پڑے۔
Sana Ghori
About the Author: Sana Ghori Read More Articles by Sana Ghori: 317 Articles with 283091 views Currently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.