بابری مسجد - غیروں کی جفائیں اور اپنی خطائیں

ہندوستان کو دنیا بھر میں ایک سیکولر ملک کی حیثیت سے بڑی عزت کی نگاہ سے بابری مسجد کی شہادت تک دیکھا جاتا تھا۔ نرسمہا راؤ سے قبل ملک کا ہر وزیر اعظم سیکولرازم پر صد فیصد عمل کرے نہ کرے لیکن سیکولرازم کے بھرم کو برقرار رکھنے کے سے ہنر سے واقف تھا گوکہ راجیو گاندھی نے ملک کے سیکولرازم کے حسن کو (بابری مسجد میں پوجا کی عام اجازت دیکر، مثلاًنیاس کرواکے اور اپنی آخری انتخابی مہم ایودھیا سے رام راج قائم کرنے کے نعرہ سے شروع کرکے) داغ لگادیا تھا لیکن نہرو کے نواسہ اور اندرا کے بیٹے ہونے کا اعزاز ان کو سیکولر قائد کہلوانے کے لیے بہت کام آیا لیکن ناگپور میں آر ایس ایس کے تربیت یافتہ (خفیہ طور پر ہی سہی) ہونے کے پس منظر کے حامل نرسمہا راؤ نے بابری مسجد کو شہید کرواکے خود کو ’’ہندوتو کا علم بردار ثابت کیا اور کئی ملکوں میں خاص طور پر اسلامی ملکوں میں ’’ہندوستان اب پہلے جیسا نہیں رہا (India is Not the Same)‘‘ کے خیال کو مقبول بنایا کیونکہ ہندوستان کے سیکولر ہونے کا تصور (بابری مسجد کی شہادت میں نرسمہا راؤ کے مجرمانہ او رمذموم کردار کی وجہ) بری طرح متاثر ہوا تھا ۔

بابری مسجد کی المناک کہانی 22و23دسمبر 1949کی دمیانی شب سے شروع ہوئی تھی اب یہ انجام کے قریب نظر آتی ہے 63 سالوں میں (شہادت سے پہلے اور بعد) غیروں کی زیادتیوں بلکہ مظالم کے ساتھ ہماری اپنی کوتاہیوں نے اس کہانی کو المناک سے المناک بنادیا۔

غیروں کے مظالم اور زیادتیوں کے ساتھ اپنی کمزوریاں بھی ناقابل فراموش ہیں جن میں مخلصانہ، مدبرانہ وبے باک قیادت سے محرومی کے ساتھ بروقت اقدام اور قانونی جنگ لڑنے میں ہمارا تساہل اور مجبوری اہم ہے۔ آزادی کے بعد ہندوستان کے مسلمانوں کی قیادت قوم پرست کہلانے والے کانگریسیوں کے ہاتھ میں تھی جن میں پہلا اور اہم ترین نام مولانا ابوالکلام آزاد کا ہے جنہوں نے عملاً خود کو مسلمانوں کے معاملات سے لاتعلق اور الگ تھلک رکھا تھا یوں ان کی مداح زبانی جمع خرچ کرلیں لیکن بابری کے سلسلے میں ان کی خاموشی کی مناسب وجہ بتانہ سکیں گے جب امام الہند ہی کے یہ طور طریقے تھے ہر بڑا چھوٹا مسلمان رہنما تب سے آج تک یہی کررہا ہے مولانا مفاد پرست نہیں تھے آج ہر سیاسی لیڈر مفاد پرست ہے اس لیے اور بھی بے فیض ہے ۔

بیس(20) برس گزر جانے کے باوجود بابری مسجد کی شہادت کا زخم تازہ ہے آج بھی بابری مسجد کی بازیابی کے امکانات روشن نہیں ہیں ۔ عدالت عظمیٰ کا فیصلہ کب آئے گا؟ یہ کہنا مشکل ہے فیصلہ کس کے حق میں ہوگا؟ اگر بابری مسجد کی زمین مسلمانوں کے حوالے کرکے بابری مسجد دوبارہ تعمیر کرنے کی اجازت سپریم کورٹ مسلمانوں کو دے بھی دے تو کیا حکومت عدالت عظمیٰ کا فیصلہ روبہ عمل لاسکے گی؟ یہ سوال سب سے اہم ہے اور اگر اﷲ نہ کرکے سپریم کورٹ کا فیصلہ مسلمانوں کے خلاف آئے تو ظاہر ہے کہ مسلمانان ہند کچھ نہ کرسکیں گے۔

بابری مسجد کی شہادت کے ذمہ دار مجرم آج بھی آزاد ہیں اور نہ جانے کب وہ اپنے بھیانک جرم کی سزأ پائیں گے بلکہ انہیں سزأ ملے گی بھی یا نہیں؟ یہ کہنا مشکل ہی ہے۔ ہماری مایوسی و ناامیدی بلاوجہ نہیں ہے کیونکہ بابری مسجد کے معاملے میں انتظامیہ و عدلیہ کا رویہ 1949ء سے جبکہ 22و23دسمبر کی درمیانی شب میں مسجد میں چوروں کی طرح دیوار کود کر داخل ہونے والے اشرار نے مسجد میں مورتیاں نصب کردی تھیں اس سلسلے میں اہم بات یہ ہے کہ مسجد میں مورتیاں بٹھانے کا واقعہ اچانک نہیں ہوا تھا۔ مورتیوں کی تنصیب سے قبل ہی نہ صرف ماحول کشیدہ تھا بلکہ 13 نومبر کو بابری مسجد سے متصل قبرستان میں قبریں کھودکر وسط میں چبوترہ بناکر پوجا پاٹ ہوئی تھی اس وقت یو پی کے ایک بزرگ کانگریسی قائد شری اکشے برہمچاری نے اس وقت کے وزیر داخلہ یو پی لال بہادر شاستری (سابق وزیر اعظم) کو بارہا توجہ دلائی تھی لیکن کسی نے توجہ نہ دی۔ بت بٹھائے جانے کے فوری بعد ان کو وہاں سے اٹھانا انتظامیہ کے لیے چنداں مشکل نہ تھا لیکن یہ بات اطمینان سے کہی جاسکتی ہے کہ وزیر اعلیٰ پنڈت گووندولبھ پنت کو خود بابری مسجد سے بت ہٹانے سے کوئی دلچسپی نہ تھی۔ 23کی صبح سے مسجد میں مسلمانوں کو نماز پڑھنے سے روکا گیا اور 29دسمبر کو مسجد کو قرق کرکے تالاڈٓل دیا گیا۔ ان ساری زیادتیوں کی ذمہ داری ڈپٹی کمشنر فیض آباد کے کے نیر پر ہے نیر کو وظیفہ پر علاحدگی کے بعد جن سنگھ (بی جے پی کی پیشرو نے اپنے ٹکٹ پر رکن پارلیمان بنایا۔ کس قدر حیرت کی بات ہے کہ ڈپٹی کمشنر کی اس رپورٹ پر کہ اگر مورتیاں ہٹائی گئیں تو بڑا خون خرابا ہوگا ریاستی و مرکزی حکومتوں نے آنکھ بند کرکے یقین کرلیا۔ اس سلسلے میں سردار پٹیل اور پنڈت نہرو کی بھی پنت صاحب سے خط و کتاب رہی ہے۔ ممتاز قانون داں اے جی نورانی صاحب نے انگریزی رسالہ ’’مین اسٹریم‘‘ میں یہ خط و کتابت شائع کی ہے اور بتایا ہے کہ ان زعماء نے سچائی کو تسلیم کرنے کے باوجود اس کو طاقت کے ذریعہ بحال کرنے اور یکطرفہ کارروائی سے احتراز کرکے افہام و تفہیم پر زور دیا ہے۔ سردار پٹیل نے لکھا تھا ۔ ’’یہ ایسا تنازعہ ہے جس کا حل باہمی طور پر دونوں فرقوں کی باہمی خیر سگالی، اور رواداری کے جذبے سے نکالا جانا چاہئے۔ (بابری مسجد۔ شہادت کے بعد۔ محمد عارف اقبال ص۔455تاص۔458) گویا ’’باہمی گفتگو سے حل کرنے کی بات ‘‘ سردار پٹیل کی ایجاد ہے۔ عدالتی احکام کے ذریعہ نماز پر پابندی برقرار رہی۔ مسجد سے مورتیاں بھی نہیں ہٹائی گئیں۔ عام پوجا کی جگہ صرف پجاریوں کو پوجا کی اجازت دی گئی۔ 1955ء میں ہائی کورٹ نے بھی مسجد سے مورتیاں نہیں ہٹانے اور جوں کی توں صورتِ حال برقرار رکھتے ہوئے مقدمہ کا فیصلہ جلد کرنے کی ہدایت کی۔ ’’افکار ملی ‘‘ رسالے کے بابری مسجد نمبر میں سید شہاب الدین نے لکھا ہے کہ ’’فروری 1986ء ایک عام مسلم ہندوستانی بابری مسجد کے بارے میں زیادہ جانتا نہیں تھا۔ 1949ء کا واقعہ یا مقدمات کا اسے علم تھا یہی حال غیر مسلموں کا بھی تھا‘‘۔ (ص 142)

سید شہاب الدین صاحب نے عام مسلمانوں کا ذکر کیا ہے لیکن 1949ء میں بابری مسجد کے سلسلے میں قومی سطح کے مسلمان قائدین اور اکابرین نے کچھ کہنے اور کرنے کی زحمت نہیں کی ایک ممتاز مسلم قائد نے (جو ابھی زندہ ہیں) نام نہ ظاہر کرنے کی شرط پر اس کالم نویس کو بتایا تھا کہ ’’اگر مولانا آزاد پنڈت نہرو یا پنت سے راست کہتے تو آج بابری مسجد کا کوئی مسئلہ ہی نہ ہوتا!۔ کیونکہ مولانا کا دبدبہ اور احترام ہی ایسا تھا ان کی بات ٹالی نہیں جاسکتی تھی لیکن مولانا…………!

1986ء میں جب اس وقت کے وزیر اعظم راجیو گاندھی نے اپنے مشیر اور رشتہ دار ارون نہرو کے مشورے پر ہندو ووٹ بینک کی خاطر قانون کی دھجیاں اڑاتے ہوئے آناً فاناً صادر کئے گئے فیصلے کو فوراً بعد ہی اس پر عمل درآمد کروایا گیا دوردرشن اور آل انڈیا ریڈیو والے اس قدر جلد بغیر قبل از قبل اطلاع ہونے کے وہاں پہنچ ہی نہیں سکتے تھے ظاہر ہے کہ عدالت کا فیصلہ طئے تھا اور اس کے لیے جو بے قاعدگیاں ہوئیں، قانون کی دھجیاں اڑائی گئیں اور دھاندلیوں کی انتہا کردی گئی اس کے بعد ہی ملک کے مسلمانوں کا بھروسہ انتظامیہ کے بعد عدلیہ سے بھی اٹھ گیا مسجد کو عملاً مندر بنانے کا ’’سیاہ کارنامہ‘‘ راجیو گاندھی نے انجام دے کر نہ صرف سیکولر اقدار اور قانون کی حکمرانی کی بنیادوں پر کاری ضرب لگائی بلکہ پنڈت نہرو، اندرا گاندھی اور اپنے والد فیروز گاندھی کے نام کو بدنام کیا۔ ستم ظریفی کی انتہا تو یہ ہے کہ راجیو گاندھی کے بیٹے راہول گاندھی کہتے ہیں کہ راجیو گاندھی زندہ ہوتے تو بابری مسجد شہید نہ ہوتی! بجافرمایا! بابری مسجد کوانہوں مندرتو بنادیا تھا اور زندہ رہتے تو مسجد کی عمارت ترمیم کے ساتھ رام مندر بنادی جاتی! یعنی مسجد شہید نہ ہوتی رام مندر بنادی جاتی!

بابری مسجد میں پوجا شروع ہونے کے بعد بھارت کے مسلمانوں کو احساس ہوا کہ ان کی کس طرح بے عزتی کی گئی ہے؟ بابری مسجد کیا تھی؟ 34تا35سال قبل جو ہوا تھا اس کی ان کو خبر تک نہ تھی اور مسلمان قائدین و اکابرین نیند سے بیدار ہوتے لیکن مرعوبیت ڈر، خوف اور مصلحت کا شکار رہنے والوں میں عقابی روح کا بیدار ہونا تو دور کی بات ہے وہ خود پوری طرح بیدار نہ ہوسکے۔ ’’رام مندر تحریک یا مندر وہیں بنائیں گے تحریک‘‘ عروج پر پہنچ گئی اور ہماری قیادت منقسم اور انتشار کا شکار رہی۔ مسجد کی بازیابی کے لیے مسلمانوں کی دو کمیٹیاں’’بابری مسجد رابطہ کمیٹی‘‘ اور ’’بابری مسجد ایکشن کمیٹی ‘‘ کا ایک ساتھ لیکن الگ الگ کام کرنا ان کی نااتفاقی، عدم ہم آہنگی اور انتشار کا ثبوت تھا۔ ڈسٹرکٹ مجسٹریٹ اینڈ سیشن جج فیض آباد کی عدالت سے مسلمانوں کو جو نقصان پہنچا تھا وہ کیا کم تھا کہ اس فیصلے کے خلاف ہائی کورٹ نے محمد ہاشم انصاری کی درخواست رٹ پر فیصلہ دیتے ہوئے حکم دیا کہ ’’حکم ثانی تک متنازعہ ڈھانچہ کی موجودہ پوزیشن میں کوئی تبدیلی نہ ہو‘‘ گویا پوجا کی اجازت کے خلاف رٹ پر فیصلہ ہوا کہ ’’مسجد میں ہندوؤں کو بلاروک ٹوک پوجا کی آزادی برقرار رہے گی مسجد کو دوبارہ تالانہیں لگایا جاسکتا ہے تویا الٰہ آباد کی عدالت العالیہ شروع ہی سے بابری مسجد کو رام مندر بنانا چاہتی تھی۔ مسلمانوں کی مجبوریوں میں ان کی کمزوریاں بھی شامل کرنا ضروری ہے۔ بابری مسجد میں پوجا کی اجازت کے بعد پرامن احتجاج کے منصوبے ضرور بتائے گئے لیکن عمل پر کسی پر نہ ہوسکا۔ 1987ء کے یوم جمہوریہ کی تقاریب کا اگر تمام مسلمان مقاطعہ کرتے تو اس میں غداری یا ملک دشمنی والی بات نہ تھی بلکہ اظہار غم و غصہ تھا لیکن سید شہاب الدین 24جنوری کو یہ فیصلہ واپس لے کر صدر جمہوریہ آروینکٹ رامن کو خوش تو کیا لیکن مسلمانوں کو کچھ نہیں ملا اس دوران فسادات بھی ہوئے۔ سینکڑوں مسلمان شہید ہوئے۔ 9 نومبر کو وزیر اعظم راجیو گاندھی نے متانزعہ جگہ پر شیلا نیاس کروایا۔ 25 ستمبر 1990ء کو لال کرشن اڈوانی کی بدنام زمانہ ’’رتھ یاترا‘‘ سومناتھ سے شروع ہوئی لیکن لالو پرساد یادو نے سمستی پور میں رتھ یاترا کو روک کر اڈوانی کو گرفتار کرلیا جواب میں بی جے پی نے تائید واپس لیکر وی پی سنگھ کی حکومت ختم کروادی۔ 30اکتوبر کو ملائم سنگھ یادو نے بہ حیثیت وزیر اعلیٰ مسجد کو شہید کرنے کی کوشش کرنے والوں کو گولیاں چلواکر روکا اور مسجد کو بچالیا اور 30؍اکتوبر 1990ء کو ملائم سنگھ نے وہ کام کیا، جو کلیان سنگھ اور نرسمہا راؤ 6؍دسمبر1992ء کو نہ کرسکے۔ 9جولائی کو وزیر اعظم نرسمہا راؤ اور وزیر اعلیٰ کلیان سنگھ وزیر اعلیٰ کے دور میں کارسیوا ہوئی جس کو سپریم کورٹ نے بہ مشکل رکوایا۔ 6دسمبر 1992ء کلیان سنگھ اور نرسمہا راؤ کی سازش سے بابری مسجد شہید کردی گئی۔ ریاستی و مرکزی سیکوریٹی پولیس کو تماشائی بناکر رکھ دیا تھا اور دنیا کی نظروں میں ہندوستان کا سیکولرازم مشکوک ہوگیا۔

نرسمہا راؤ کی اسرائیل نوازی کی وجہ سے بعض حلقوں کا خیال ہے کہ (جووزن رکھتا ہے)کہ مسجد کو شہید کرنے میں اسرائیل کی عملی مددیوں شامل تھی کہ کارسیوکوں کو باضابطہ تربیت دی گئی تھی ورنہ وقتی جوش سے مغلوب عام سے کارسیوک چند گھنٹوں میں تاریخی عمارت منہدم نہیں کرسکتے تھے۔

اسرائیل کا ایک مقصد یہ بھی تھا کہ دیکھا جائے کہ بابری مسجد کی شہادت پر عالمی اور عالم اسلام کا ردِعمل کیا ہوتا ہے؟ دنیا بھر کا شدید ردِعمل دیکھ کر اسرائیل مسجد اقصیٰ کے بارے میں وہ محتاط ہوگیا۔

مسلمانوں کی کانگریس سے وابستگی حیرت انگیز ہے جبکہ بابری مسجد میں مورتیوں کی تنصیب، ان کی بے قراری او رمسجد کا تالاکھول کر اس کو مندر بنانے کا کام اور مسجد کی شہادت کے وقت مرکز اور یو پی میں کانگریسی حکومتیں تھیں جب مسجد شہید ہوئی تو یو پی میں بی جے پی کی حکومت ضرور تھی لیکن نرسمہا راؤ (وزیر اعظم) کلیان سنگھ سے بڑے خطرناک سوئم سیوک تھے لیکن ملک بھر میں مسلمانوں نے کانگریس کو مناسب سبق نہیں دیا۔

بابری مسجد کی شہادت کے بعد بھی تاحال مسلمانوں کو کوئی راحت کسی گوشے سے نہیں ملی۔ الٰہ آباد کی عدالت العالیہ’’آستھا‘‘ (عقیدہ) کی بنیاد پر عجیب و غریب (بقول سپریم کورٹ) فیصلہ دے کر شدید مایوس کیا اب عدالت اعظمیٰ سے آخری امید ہے۔ اگر عدالتی فیصلہ ہمارے خلاف آیا تو ’’نظرثانی‘‘ کی اپیل کرنے میں تاخیر نہ ہونی چاہئے اور کامیابی کی صورت میں حکومت پر دباؤ ڈالنے میں ماضی کی غلطیوں سے احتراز لازم ہے۔

ماضی کی غلطیوں میں پہلی غلطی مسلم قائدین کی غیر ضروری، بے جا خاموشی اور مرعوبیت تھی۔ مسجد میں تالاڈالنے کے عدالتی فیصلے کے خلاف عدالت عالیہ نے جب مرافعہ (اپیل) مسترد کردی تو ہائی کورٹ کے فیصلہ کے خلاف پریوی کونسل (تب کے سپریم کورٹ) میں اپیل نہ کرنا فاش غلطی تھی اور یہ کام اسلم بھورے یا محمد ہاشم انصاری کا نہ تھا بلکہ حافظ محمد ابراہیم اور آصف علی و رفیع احمد قدوائی کا تھا۔ ملکیت کا مقدمہ بھی دم آخر داخل کرنہ بھی غلط تھی۔ سابق مرکزی وزیر محمد یونس سلیم مرحوم نے بتایا تھا کہ 1988-89ء سے قبل پارلیمان کے کسی ایوان میں بابری مسجد پر شائد ہی کبھی بحث ہوئی ہو یو پی اسمبلی میں پہلی بار یہ مسئلہ کب اٹھا یا گیااس کاہم کو پتہ نہیں ہے۔

1949ء سے 1986ء تک اسلامیانِ ہند بابری مسجد کے مسئلہ سے بے خبر رہے جبکہ ہندوانتہا پسند ’’رام جنم بھومی‘‘ تحریک مضبوط و منظم کرتے رہے جب راجیو گاندھی نے بابری مسجد کے تالے کھول کر پوجا کی عام اجازت دی تو اس دور کے مرکزی ویو پی کے ریاستی وزرأ ، ارکان پارلیمان، کونسل و اسمبلی بہ کمال بے غیرتی و بے حسی مستعفی ہونے کی دھمکی تک نہ دی۔ یہی حال راجیو دور میں شیلا نیاس کے وقت ہوا سب خاموش رہے۔ عدالت عالیہ میں اپیل کی سماعت کرنے والے جج جسٹس کے ایل مشرا کی فرقہ پرست ذہنیت کا قانونی حلقوں میں چرچا تھا ’’انتقال مقدمہ‘‘ کے ساتھ دو یا تین ججوں کی بنچ بنائے جانے کی درخواست بھی کی جاسکتی تھی جسٹس مشرا کی بعد میں بی جے پی نے زبردست پذیرائی کی ایم پی بنادیا۔ تاہم جن دستاویزات کو داخل کرنے کی ہدایت کی گئی تھی وہ ہماری معلومات کے مطابق مسجد کی شہادت کے بعد ہی داخل نہ ہوسکے۔

مقدمات کی عاجلانہ سماعت اور فیصلے پر بھی صرف رسما ً زور دیا جاتا رہا ہے۔ بابری مسجد کی شہادت کے بعد تمام مسلمان کابینہ، پارلیمان کونسل و اسمبلیوں میں بے شری و بے غیرتی سے اپنے عہدوں پر جمے رہے۔ اقتدار سے وابستہ مسلمانوں نے کبھی کوئی قربانی نہیں دی مسلم قیاد ت نے بے باکی نہیں دکھائی تو غیروں کا کیا شکوہ؟
Rasheed Ansari
About the Author: Rasheed Ansari Read More Articles by Rasheed Ansari: 211 Articles with 185012 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.