قرض

صبح کا وقت ہے سورج اپنی کرنیں لاہور کے آنگن پر اس طرح بکھیر رہا ہے جیسےبھوکے بچے کے آنسو اس کے چہرے پر بکھر کر اس کے لبوں کی کپکپاہٹ کو چھپا لیتے ہیں اداس چہروں اور دلگرفتہ لباس میں زیب تن ہو کر لاہور کے باسی حصول رزق کیلیے رواں ہیں ہوٹلوں پر ناشتہ کیلیے لوگوں کا میلہ لگا ہوا ہے بے ہنگم ٹریفک کے شور سے لوگ اشاروں سے ایک دوسرے کو سمجھا رہے ہیں ہوٹل میں پڑی اکثر کرسیاں خالی ھیں کیوں کہ لوگ ناشتہ لے کرکام کی طرف بھی دوڑ رھے ہیں اور ناشتہ بھی کر رہے ہیں کیونکہ اگر وہ لیبر پوائنٹ پر دیر سے پہنچے تو شاید سارا دن بیکار بیٹھے رہیں.ہوٹل کے سامنے بہت سے بچے مرد اور غورتیں اس انتظار میں بھی بیٹھے ہیں کہ شاید کوئی شفیق ان کو بھی ناشتہ کرا دے اتنے میں ایک سفید پوش قردوس ہوٹل کا بورڈ پڑھتے ہوئے گاڑی روکتا ہے وہ کھانے کا بہت شوقین ہےاور اس کےپاس ہوٹلوں کی ایک لمبی لسٹ ہے.وہ ویٹر کو ناشتے کا آرڈر دیتا ہے اور بیج بازار بیٹھے بچوں اور عورتوں کو دیکھتاہے جو سڑک پر ایسے بیٹھے ہوئے ہیں جیسے انسانی اعضاء ادھر ادھر بکھرے پڑے ہوں وہ سب کو اپنی طرف بلاتا ھے سب اس طرح بھاگتے ہیں جیسے صدیوں سے بھوکے ہوں ایک آدمی جو اپنی جگہ سے نہیں اٹھتا کھانستے ہوئے کبھی لیٹ جاتا ھے کبھی بیٹھ جاتا ہے سفید پوش شخص اپنی کرسی سے اٹھتا ہے اور اس کے پاس جا کر پوچھتا ھے آپ کھانے کیلیے کیوں نہیں آئے وہ جواب دیتا ہے وہ کھانا اپنے لیے نہیں بلکہ اپنی فیملی کیلیے لینے آیا ہے تھوڑی دیر بعدجب ناشتے کا وقت ختم ہو جائے گا ھوٹل والے برتنوں کی صفائی کریں گے اور باقی ماندہ ڈسٹ بن میں ڈال دیں گے کہ وہ ڈسٹ بن سے روٹی کےٹکڑے چن کر ان کو صاف کرے گا اور اپنی بیوی اور بچی کیلیے لے جائے گا-

سفید پوش آدمی یہ سن کر چونک جاتا ہے اس شخص کے سر پر ہاتھ رکھتا ہے وہ جھٹکے سے ہاتھ کو نیچے کرتا اور کہتا ہےمجھے ہمدرد اور ہمددی سے ڈر لگتا ہے سفید پوش شخص پوچھتا ہے کیوں وہ روتے ہوئے کہتا ہے جہاں غریب پہ یہ نوبت آجائے کہ وہ بچوں کا کھانا کوڑے کرکٹ سے اٹھائے تو سمجھ لیں وہاں کوئی سچا ہمدرد نہیں ہے بلکہ لوگ ہمدردی کے روپ میں انسانیت سے کھیلتے ہیں سفید پوش شخص اٹھتا ہے اور کاؤنٹر کی طرف جاتا ہے جب کھانا لے کر واپس آتا ہے تو وہ آدمی اپنی جگہ موجود نہیں ہوتا وہ ادھر ادھر دیکھتا ہے لیکن کہیں نظر نہیں آتا وہ ڈسٹ بن کے پاس جاتا ہے تو ڈسٹ بن خالی ہوتا ہے.فقیر بخش ہانپتے ہوئے اپنی دس سالہ بیٹی کو کوڑے کا ڈھیر پکڑاتا ہے اور کہتا ہے بیٹی اس سے روٹی چن لو آج مجھے ایک ہمدرد سے بچنے کیلیے جلدی لوٹنا پڑا رضیہ جو دل کے عارضے میں مبتلا ہے چارپائی سے کوشش کرکے اٹھتی ہے اور اپنے خاوند سےمخاطب ہو کر کہتی ہے جب حالات برے ہوں تو اپنا وجود سب سے پہلے بغاوت کرتا ہے شاید ہم اپنے وجود پر ہی بوجھ ہیں تمہارے کینسر اور میری بیماری نے پہلے تو صرف سانسیں تنگ کی ہوئی تھیں اب زمین بھی تنگ ہونے لگی ہے فقیر بخش پوچھتا ہے ہوا کیا ہے رضیہ بتاتی ہے پہلے تو میں ان کے برتن کپڑے اور گھر کے سارے کام کر دیتی تھی اپنی بیماری چھپا کر لیکن کل جھاڑو دیتے ہوئے کھانسی روکنے کے باوجود بھی میں نہ روک سکی اور مالکن نے کہا ہے تمہاری بیماری گھر میں سب کو بیمار کر دے گی اس لیے ایک دو دنوں میں یہاں سے چلی جاؤ میں نے بہت التجا کی لیکن وہ نا مانی پھر میں مالکن سے کہا میری بیٹی آپ کا سارا کام کرے گی لیکن مالکن نے جواب دیا وہ آپ دونوں مریضوں کے ساتھ رہ کر خود مریض بن چکی ہے پھر میں نے پورے محلے میں کوشش کی کوئی کام پر رکھ لے لیکن ہماری بیماری کا پتہ اہل محلہ کے سب معززین کو ھے سب نے انکار کر دیا اب ہمارے پاس اس سر زمین پر نہ رہنے کیلے جگہ ہے نہ قبر کیلیے مالکن ٹھیک کہتی ہے شاید ہماری بیماری ہماری بچی کو بھی دیمک کی طرح نہ چاٹ لے جب والدین کی زندگی بچوں کیلے وبال بن جائے تو ایسی زندگی کو ختم کر دینا ہی بہترہے فقیر بخش آہ بھرتا ہے اور کہتا ہے بیگم آپ ٹھیک کہتی ہو لیکن انسانوں کے اس نگر میں ہم جو وحشتیں نہیں برداشت کر پا رھے تو ہماری طراب جو پھول سے بھی نازک ھےاس انسانی آتش کدے میں جھلس جائے گی اس کے بچپن کا کنول درندگی کی دلدل میں آلودہ ہو جائے گا یہ معاشرہ جس میں انسانی اعضاء کی بولیاں لگتی ہیں ہماری بچی کے نازک بدن کو نوچ لے گا آپ ٹھیک کہتے ہیں لیکن ہم زندہ رہ کر بھی تو سوائے ذلت کے اسے کچھ نہیں دے رہے جاؤ کوئی جگہ ڈھونڈو جہاں ہم اپنی بچی کو چھوڑ سکیں اتنے میں بچی روٹیوں کے ٹکڑے صاف کر کے لے آتی ہے آپ کہاں جا رہے ہو پاپا روٹی تو کھا لو نہیں بیٹی وہ سر پر ہاتھ رکھ کر کہتا ہےخدا کی زمین پر کوئی ایسی جگہ تلاش کرنے جا رہا ہو جو غریبوں کی بچیوں کیلیے محفوظ ہو وہ باہر جاتا ہے تو سوچتا ہے شاید ایسی محفوظ جگہ ڈھونڈنے میں اسےکچھ دن لگ جائیں تو وہ اپنی فیملی کیلیے کچھ کھانے کا انتظام کرتا جائےوہ ایک ایسی جگہ تلاش کرتا ہے جہاں پر کافی ھوٹل ہیں عقب میں کافی ڈسٹ بن پڑے ہیں وہ یہ جگہ مناسب سمجھتا ہے کہ وہ انسانوں کی نظر سے بھی بچا رہے گا اور کھانا بھی کافی اکٹھا کر لے گاجب وہ ایک ڈسٹ بن کی اوٹ یں بیٹھنے لگتا ہےتو دو کتے پہلے ہی وہاں پر کھانے کے انتظار میں بیٹھے ہوتے ہیں وہ کتوں کو اٹھاتا ہے اور کہتا ہے تم تو سامنے بھی بیٹھ سکتے ہو میں انسان ہوں چھپ کر بیٹھنا میری مجبوری ہے.وہ تینوں کھانے کا انتظار کرنے لگتے ہیں تھوڑی دیر بعد ہوٹل کی چھت سے نیچے کی طرف ویٹر ڈسٹ بن میں ھوٹل کا گند پھینکتا ہے وہ تینوں ڈسٹ بن کی طرف دوڑتے ہیں فقیر بخش کا ہاتھ گند والے شاپر پر پہلے پڑتا ہے اتنے میں دونوں کتے شاپر چھیننے کیلیے فقیر بخش پر جھپٹ پڑتے ہیں فقر بخش کتوں سے لڑتے لڑتے کہتا ہے تمہیں تو کھانا اپنے بچوں کیلیے نہیں لے کر جانا پھر کیوں لڑتے ہو تھوڑی دیر انتظار کرو نیا آ جائے گا تم تو غریب سے کھانا انسانوں کی چھین رہ ہو کچھ تو رحم کرو لڑتے لڑتے فقیر بخش زندگی کا ناطہ ٹوٹ جاتا ہے اس کے آخری لفظ تھے مجھے افسوس ہے بیٹا میں تمہارے لیے محفوظ کھانا اور محفوظ جگہ نہیں ڈھونڈ پایا کتے اس کا گوشت کھانے لگتےہیں اتنی دیر میں اوپر سے گند کے چھ اور شاپر گرتے ہیں اور اس کی بچی ہوئی لاش گند کےنیچے دب جاتی ہے-

شام کے وقت طراب اپنی ماں سے پوچھتی ہے مماں ابو ابھی تک نہیں آئے ماں جواب دیتی ہے بیٹی شاید وہ نہ آئیں کیونکہ جس چیز کو وہ ڈھونڈھنے نکلے ہیں ایک زندگی کم ہے انتظار کرنے کیلیے رات کو دونوں ماں بیٹی انتظار کی آگ میں جلتی رہتی ہیں.صبح کو بغیر کھانے اور بغیر دوا کے رضیہ کی طبعیت بہت زیادہ خراب ہو جاتی ہے بچی دوڑتی ہوئی مالکن کے پاس جاتی ہے میری ماں کو دیکھو کیا ہوا ہے مالکن بچی کو ڈانٹتے ہوئے کہتی ہے مرنے دو اسے پہلے کون سی وہ زندہ ہے بچی دوڑتی ہوئی گلی میں جاتی ہر گزرنے والے مردو زن کا دامن پکڑتی لیکن کوئی بات نہیں سنتا لوگوں کے دروازے پیٹتی ہے لیکن کوئی دروازہ نہیں کھولتا بچی دوڑتے ہوئے واپس ماں کی طرف جاتی تو ماں کی کراہیں نہ سن کر زور زور سے چلانا شروع کر دیتی ہے مالکن دوڑتے ہوئے آتی ہے اور دیکھتی ہے کہ رضیہ زندگی کی بازی ہار چکی ہے اس کی چار پائی اٹھوا کر باہر گلی میں رکھوا دیتی ہے لوگ اکٹھے ہوتے ہیں اور دفن کرنے کافیصلہ کرتے ہیں لیکن کفن دینے کیلے کوئی تیار نہیں ہوتا بچی مالکن کو کہتی ہے کفن کے پیسے قرض سمجھ کرہی دے دو مالکن جواب دیتی ہے آپ پیسے کہاں سے دو گی اتنے میں سفید پوش کا گزر ہوتا ہے وہ سارا مسئلہ سن کر مالکن کو کفن کے پیسے دے دیتا یہ سمجھ کر کہ یہی وارث ہے بچی سمجھتی ہے کہ مالکن نے پیسے دیے ہیں جب رضیہ کو قبر میں ڈال دیا جاتا بچی قبر پر سر رکھ کر رونے لگتی ہے لیکن کوئی معزز شہری بچی کے سر پر ہاتھ نہیں رکھتا سب چلے جاتے ہیں گورکن اپنے جھونپڑے سے باھر نکلتا ہے تو بچی کے پاس آتا ہے بچی سے پوچھتا ہے تمھارا اور کون ہے بچی جواب دیتی ہے اس قبر کے سوا اور کوئی نہیں گورکن کہتا ہے میرے پاس بھی ان قبروں کے علاوہ اور کچھ نہیں آؤ بیٹی میرے پاس انہی قبروں کے سہارے زندگی گزارتے ہیں وہ بچی کا سکول میں داخلہ کروا دیتا ہے بچی صبح جاتے ہوئے قبروں سے پھول اٹھا کراپنے بیگ میں ڈالتی اور سکول میں بچوں کو فروخت کر دیتی ایک دن میڈم نے پوچھا تم پھول کیوں فروخت کرتی ہو بچی نے کہا ماں کا قرض ا دا کرنا ہے جب کافی پیسے اکٹھے ہو گئے تو بچی کپڑے کی دکان پر جا کر پوچھتی انکل کفن کتنے کا آتا ہے دکان دار دھاڑیں مار کر روتا ہے ہائے میرے رب جس عمر میں بچوں کو کھلونوں کے ریٹ پوچھنے چاہیے بچے کفن کے ریٹ پوچھ رہے ہیں بچی مالکن کے گھ جاتی ہے قرض ادا کرنے تو پتہ چلتا ہے اس کی ماں کی موت کے اگلے دن خوفناک بارش ہوئی بہت سے گھر گر گئے بہت سے لوگ مارے گئے جو بچ گئے بہت سی بیماریوں کا شکار ھو گئے, بچی اپنی مالکن کی قبر پر گئی پیسے مالکن کی قبر پررکھ کر ماں کا قرض ادا کر دیا لیکن اہل محلہ اور معزز شہری نہ جانے کتنی نسلیں بچی کا قرض اتارتے رہیں گے.
rabnawaz
About the Author: rabnawaz Read More Articles by rabnawaz: 12 Articles with 12098 views Currently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.